مکتوب 100
ایک سوال کے جواب میں جو اس بارے میں کیا گیا تھا کہ شیخ عبدالکبیر یمنی نے کہا ہے کہ حق تعالیٰ غیب کا جاننے والا نہیں ہے مُلا حسن کشمیری کی طرف لکھا ہے۔
آپ کا بزرگ نوازش نامہ صادر ہوا جو کچھ از روئے کرم لکھا تھا، واضح ہوا۔ آپ نے لکھا تھا کہ شیخ عبدالکبیر یمنی نے کہا ہے کہ حق تعالیٰ عالم الغیب نہیں ہے۔
میرے مخدوم افقیر کو اس قسم کی باتیں سنے کی ہرگز تاب نہیں ۔ بے اختیار میری فاروقی رگ جوش میں آجاتی ہے اور اس میں تو جیہ و تاویل کی فرصت نہیں دیتی۔
ان باتوں کا قائل شیخ کبیر یمنی ہو یا شیخ اکبر شامی ۔ مگر ہم کو تو محمد عربی علیہ الصلوۃ والسلام کی کلام درکار ہے ۔ نہ کہ محی الدین عربی اور صدرالدین تو نیوی اور عبدالرزاق کاشی کی کلام ۔ ہم کونص سے کام ہے نہ فص سے۔ فتوحات مدینہ یعنی احادیث نے ہم کو فتوحات مکیہ سے لا پرواہ کر دیا ہے۔ حق تعالیٰ قرآن مجید میں اپنی تعریف علم غیب سے کرتا ہے اور اپنے آپ کو عالم غیب فرماتا ہے۔ حق تعالیٰ سے علم غیب کی نفی کرنا بہت ہی برا ہے جو حقیقت میں حق تعالیٰ کی تکذیب ہے۔ غیب کے کچھ اور معنی بیان کرنے اس برائی کو دور نہیں کرتے ۔ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمُ چھوٹا منہ بڑی بات ہے۔ کاش ان کو اس قسم کے صریح خلاف شریعت کلمات کے بولنے پر کس چیز نے آمادہ کیا۔
اگر منصور انالحق اور بسطامی سبحانی کہتے ہیں تو وہ معذور ہیں اور غلبہ احوال میں مغلوب ہیں لیکن اس قسم کی کلام احوال پر مبنی نہیں ۔ بلکہ علم سے تعلق رکھتی ہے اور تاویل کی محتاج ہے اور کسی عذر کے لائق نہیں اور کوئی تاویل اس مقام میں مقبول نہیں ۔ کیونکہ مستوں کے کلام کی تاویل کی جاتی ہے اور ظاہر کی طرف سے پھیری جاتی ہے نہ کسی اور کی کلام اور اگر متکلم کا مقصود اس قسم کی کلام کے اظہار سے خلق کی ملازمت اور نفرت ہو تو یہ بھی بہت بری اور مکر وہ بات ہے۔ کیونکہ خلق کی ملامت حاصل کرنے کے لئے اور بہت سے طریقے ہیں۔ ایسی باتوں کی کیا ضرورت ہے جو کفر تک پہنچا دیں اور چونکہ آپ نے اس کلام کی تاویل میں گفتگو کی ہے اور دریافت کیا ہے۔ اس لئے سوال کا جواب دینا ضروری ہے۔ ناچار اس بارے میں کچھ بیان کیا جاتا ہے ۔ وَعِلمُ الْغَيْبِ عِندَ الله سُبْحَانَهُ اور غیب کا علم اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
یہ جو بعض نے کہا ہے کہ غیب معدوم ہے اور معدوم کا علم نہیں ہوتا۔ یعنی جب غیب حق تعالیٰ کی نسبت معدوم مطلق اور لاشے محض ہے تو علم کا اس سے تعلق رکھنا کچھ معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ معلومیت اس کو معدوم مطلق اور لاشے محض ہونے سے خارج کر دیتی ہے نہیں کہہ سکتے کہ حق تعالیٰ کو اپنے شریک کا علم ہے۔ حالانکہ حق تعالیٰ کا شریک ہرگز موجود نہیں اور لاشے محض ہے ہاں غیب اور شریک کا مفہوم تصور کرناممکن ہے لیکن گفتگو ان کی مصد وقہ اور ثابت کی ہوئی کلام میں ہے نہ مفہوم میں ۔
ان تمام محلات کا حال بھی ایسا ہی ہے جن کے مفہوم کا تصور ممکن ہے اور مصدوقہ کا تصور ممتنع ہے کیونکہ معلومیت اس کو محال ہونے سے نکال دیتی ہے اور کم از کم وجود ذہنی بخشتی ہے۔
اور وہ اعتراض جو مولا نا محمد روجی کی توجیہ پر کیا ہے، درست ہے احدیت مجردہ کے مرتبہ میں نسبت علمیہ کی نفی کرنا مطلق علم کی نفی کو مستلزم ہے صرف علم غیب کی نفی کو مخصوص کرنا کوئی وجہ نہیں رکھتا اور دوسری اشکال مولانا کی توجیہ پر یہ ہے کہ اگر چہ احدیت مجردہ کے مرتبہ میں نسبت علمیہ مثقی ہے لیکن حق تعالٰی کی عالمیت اپنے حال پر ہے کیونکہ وہ ذات کی رو سے عالم ہے نہ کہ صفت کی رو سے۔ کیونکہ وہاں صفت کی گنجائش نہیں۔ صفات کی نفی کرنے والے حق تعالیٰ کو عالم کہتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے علم کی صفت کو حق تعالی سے منسوب کرتے ہیں اور وہ انکشاب جو صفت پر مترتب ہوتا ہے اس کو ذات پر مترتب جانتے ہیں پس ایسا ہی یہ ہے۔
اور وہ توجیہ جو آپ نے کی ہے اور غیب سے حق تعالیٰ کی ذات کا غیب مراد لیا ہے اور علم کا تعلق اس سے جائز نہیں رکھا۔ اگر چہ واجب تعالی کا علم ہوتو وہ سب تو جیہات سے زیادہ قریب ہے لیکن فقیر کو حق تعالیٰ کی ذات بحث کے ساتھ علم کے تعلق کے جائز نہ ہونے میں بحث ہے کیونکہ وہ وجہ جو انہوں نے عدم جواز میں بیان کی ہے اس میں علم کی حقیقت معلوم کے احاطہ کی مقتضی ہے اور وہ ذات مطلق عدم احاطہ کی مقتضی ہے۔ پس اس تعلق سے دونوں جمع نہ ہوں گے ۔ یہاں خدشہ کا مقام ہے کیونکہ علم حصولی میں یہ معنی درکار ہیں کیونکہ وہاں قوت علمیہ میں معلوم کی صورت کا حاصل ہونا ہے لیکن علم حضوری کچھ درکار نہیں اور جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں ، وہ علم حضوری ہے نہ حصولیہ۔ پس اس میں کوئی ڈر نہیں کیونکہ علم واجبی کا تعلق حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ حضور کے طریق پر ہے نہ کہ حصول کے طریق پر ۔ وَ اللهُ أَعْلَمُ بِحَقِيقَتِ الْحَالِ اور حقیقت حال کو اللہ ہی جانتا ہے۔
وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَالِهِ الطَّاهِرِينَ وَسَلَّمُ وَبَارِك وَالسَّلاَمُ أَوَّلاً واخراً