2

مکتوب 125: اس بیان میں کہ کیا عالم صغیر کیا عالم کبیر واسما وصفات والہبی کے مظہر ہیں


مکتوب 125

اس بیان میں کہ کیا عالم صغیر کیا عالم کبیر واسما و صفات والٰہی کے مظہر ہیں اور عالم کو اپنے صانع کے ساتھ مخلوقیت اور مظہریت کے سوا اور کوئی نسبت نہیں ہے اور اس کے مناسب بیان میں میر صالح نیشا پوری کی طرف لکھا ہے:


اللَّهُمَّ اَرِنَا حَقَائِقَ الاشْيَاءِ كَمَا هِی یا اللہ ہم کو اشیاء کی حقیقت دکھا جیسی کہ وہ ہیں ۔ جہان کیا چھوٹا کیا بڑا حق تعالیٰ کے اسماہ و صفات کے مظہر اور اس کے شیون اور ذاتی کمالات کے آئینے ہیں۔ حق تعالی ایک خزان مخفی اور پوشیدہ تھا۔ اس نے چاہا کہ اپنے آپ کو خلوت سے جلوت میں لائے اور جمال سے تفصیل میں لائے ۔ تو جہان کو اس طرح پیدا کیا کہ اپنی ذات و صفات حق تعالیٰ کی ذات و صفات پر دلالت کرے۔ ہیں جہان کو اپنے صانع کے ساتھ کوئی نسبت نہیں ہے۔ مگر یہ کہ اس کی مخلوق ہے اور اس کے اسماء و شیون اور کمالات پر دلالت کرنے والا ہے۔ وہاں اتحاد اور عینیت اور احاطہ و سرمان اور معیت ذاتیہ کا حکم لگانا غلبہ حال اور سکر وقت سے ہے ۔ تقیم الاحوال بزرگوار کہ جن کو محو کا پیالہ پلایا ہوا ہے۔ جہاں کے لئے صانع کے ساتھ کوئی نسبت سوائے مخلوق اور مظہر ہونے کے ثابت نہیں کرتے اور علمائے اہل حق کے مطابق ) کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوشش کو مشکور فرمائے ) احاطہ وسریان ومعیت کو علمی جانتے ہیں ۔


تعجب ہے کہ صوفیہ کی ایک جماعت بعض ذاتی نسبت کو مثل احاطہ اور معیت کے ثابت کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کے معترف ہیں کہ ذات سے تمام نسبتیں مسلوب ہیں ۔ حتی کہ صفات ذاتیہ کا بھی سبب ظاہر کرتے ہیں حالانکہ یہ تناقض ہے اور اس تناقض کے دفع کرنے کیلئے ذات میں مراتب کا ثابت کرنا فلسفی تحقیقات کی طرح بیجا تکلف ہے ۔ صحیح کشف والے لوگ ذات حق کے بسیط حقیقی کے سوا کچھ نہیں جانتے اور اس کے سوائے جو کچھ ہوا سما میں داخل گنتے ہیں ۔

فراق دوست اگر اندک است اندک نیست
درون دید و اگر نیم مواست بسیارات

ترجمه: فراق رایہ کم بھی ہو تو کم اس کو نہیں گنتے
اگر چہ نیم مو بھی ہو بہت ہے چشم عاشق میں


اس مضمون کی تحقیق کے لئے ایک مثال بیان کرتا ہوں ۔ مثلا اگر کوئی فاضل عالم بڑے فَن جاننے والا چاہے کہ اپنے پوشیدہ کمالات کو ظاہر کرے اور حرفوں اور آوازوں کو ایجاد کرے تاکہ ان کے پردے میں ان کمالات کو ظاہر کرے تو اس صورت میں دلالت کرنے والے حرفوں اور آوازوں کو ان پوشیدہ معنوں کے ساتھ کوئی نسبت نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ یہ حروف اور آواز ان پر پوشیدہ معنوں کے مظہر اور در پردہ کمالات کے آئینے ہیں ۔ حرفوں اور آوازوں کو ان مخفی معانی کا عین کہنا کچھ معنی نہیں رکھتا۔ اسی طرح اس صورت میں احاطہ اور معیت کا حکم لگانا نا مناسب ہے۔ معانی اسی طرح اپنی پہلی مخزونہ حالت پر ہیں ۔ ان معانی کی ذات و صفات میں کسی قسم کا تغیر و تبدل واقع نہیں ہوا ۔ چونکہ معانی اور حروف واصوات والہ کے درمیان ایک قسم کی دالیت اور مدلولیت کی نسبت ثابت ہے تو اس سے کچھ زائدہ معنی خیال میں آتے ہیں اور جو کچھ اس مسئلہ میں ہمارا اعتقاد ہے وہ یہ ہے کہ مظہر اور آئینہ ہونے کے سوا اور کسی امر زائدہ مثل اتحاد و عینیت و معیت واحاطہ کا ثابت کرنا سکر کے باعث ہے۔ حق تعالیٰ کی ذات نسبت دو مناسب سے معر او مبرا ہے ۔

ما لِلتُّرَابِ وَ رَبِّ لَارُبَابَ

چه نسبت خاک را با عالم پاک


ظاہریت اور مظہریت کی اس قدر مناسبت کے باوجود وحدت وجود کہیں یا نہ کہیں۔ حقیقت میں متعدد وجود ہیں لیکن اصالت وظلیت اور ظاہر یت اور مظہریت کے طور پر نہ یہ کہ ایک موجود ہے اور اس کے سوا باقی سب وہم و خیالات۔ یہ مذہب بعینہ مذہب سوفسطائی ہے۔ حقیقت کا اس میں ثابت کرنا اوہام و خیالات سے جو فسطائی کا مقصود ہے ۔ خارج نہیں ہوتا۔

چون بدانستی تو اور از نجحت
سوئے آنحضرت نسب کردی درست

وانگه دانستی که ظل کیتی
فارغی گر مردی وگر زیستی


:ترجمه
جبکہ تو نے اس کو جانا از نجنت
اور کی اس کی طرف نسبت درست

سایہ کس کا ہے تو جب پہچان لے
بے خطر ہے خواہ مرے تو خواہ جئے

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا