2

مکتوب 126: اس بیان میں کہ طالب کو چاہئے کہ باطل خداؤں کی نفی کرنے میں


مکتوب 126

اس بیان میں کہ طالب کو چاہئے کہ باطل خداؤں کی نفی کرنے میں خواہ آفاقی ہو خواہ انفسی کوشش کرے اور معبود برحق کے اثبات کی طرف میں جو کچھ حوصلہ فہم اور احاطہ ادراک میں آئے۔ اس کو بھی نفی کے نیچے لا کر صرف موجودیت پر کفایت کرے اگر چہ وجود کی بھی اس مقام میں گنجائش نہیں اور اس کے مناسب بیان میں میر صالح نیشا پوری کی طرف لکھا ہے:

اے سرداری و شرافت کی مسند والے ! طالب علم کو چاہئے کہ انفسی اور آفاقی جھوٹے خداؤں کی نفی کرنے میں کوشش کرے اور معبود و برحق کے اثبات کی جانب میں جو کچھ فہم کے حوصلہ اور و ہم کے احاطہ میں آئے اس کو بھی نفی کے نیچے لا کر صرف مطلوب کی موجودیت پر کفایت کرے ۔

بیش ازیںپے نبرده اند که هست

ترجمہ: زیادہ ہست سے بڑھ کر کسی نے کچھ نہ پہچانا

اگر چہ وجود کی بھی اس مقام میں کوئی گنجائش نہیں اس کو وجود کے ماسوا طلب کرنا چاہئے ۔ علمائے اہل سنت و جماعت نے اچھا کہا ہے کہ واجب تعالیٰ کا وجود اس کی ذات پر زائد ہے

وجود کہ عین ذات کہنا اور وجود کے سوا دوسرا امر ثابت نہ کرنا قصور نظر سے ہے ۔

شیخ علاؤالد ولہ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ فوق عالم الْوُجُودِ عَالَمُ الْمَلِكِ الْوُدُود عالم وجود کے اوپر ملک الودود کا عالم ہے۔

اور اس درویش کا جب مرتبہ وجود سے اوپر گزرا تو کچھ مدت تک کہ مغلوب الحال تھا اپنے آپ کو ذوق و وجدان کی وجہ سے ارباب تعطیل سے پا تا تھا اور حق تعالیٰ کے وجود کا حکم نہیں کرتا تھا کیونکہ وجود راہ میں چھوڑ گیا تھا۔ مرتبہ ذات میں وجود کی گنجائش نہ پاتا تھا۔ فقیر کا اسلام اس وقت تقلیدی تھا نہ حقیقی ۔ غرض جو کچھ حوصلہ ممکن میں آئے بطریق اولی ممکن ہوگا ۔ پس پاک ہے وہ ذات جس نے خلق کے لئے اپنی طرف کوئی راستہ سوائے اس کے نہیں بنایا کہ اس کی معرفت سے عجز کا اقرار کیا جائے ۔

فنافی اللہ اور بقا باللہ کے حاصل ہونے سے کوئی یہ گمان نہ کرے کہ ممکن، واجب ہو جاتا ہے کیونکہ یہ محال ہے اور اس سے حقائق کا تغیر و تبدل لازم آتا ہے۔ پس جب ممکن واجب نہ ہوا تو ممکن کا نصیب سوائے عجز کے کچھ نہ ہوگا۔

عنقا شکار کس نشو ودام باز چیں
کا نیجا ہمیشه باد بدست است دام را


ترجمہ: اٹھالے جال عنقا کب کسی کے ہاتھ آتا ہے
لگاتا ہے یہاں جو جال خالی ہاتھ جاتا ہے


بلند ہمتی اسی طرح کا مطلب چاہتی ہے کہ کچھ بھی اس سے ہاتھ نہ آئے اور اس سے کچھ نام ونشان پیدا نہ ہو ۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو یہ مطلب چاہتے ہیں کہ اس کو اپنا عین پائیں اور اس کے ساتھ قرب ومعیت پیدا کریں۔


آں ایسا نندو من چیلنم یارب

ترجمہ: وہ ایسے ہیں میں ایسا ہوں خدایا


وَالسَّلامُ أوَّلاً و اخراً.

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا