2

مکتوب 131: طریقہ حضرت خواجگان قدس سرہم کی بلندی شان اور ان لوگوں کی شکایت میں جنہوں نے اس طریقہ میں نئی نئی باتیں نکالی ہیں


مکتوب 131

طریقہ حضرت خواجگان قدس سرہم کی بلندی شان اور ان لوگوں کی شکایت میں جنہوں نے اس طریقہ میں نئی نئی باتیں نکالی ہیں اور ان کو اس طریق تکمیل سمجھی ہے۔ خواجہ محمد اشرف کابلی کی طرف لکھا ہے:


الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَلَمينَ وَالصَّلوةُ وَالسَّلامُ عَلَى سَيّدِ الْمُرْسَلِين و اله الطَاهِرِينَ : سب تعریف اللہ کی ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور صلوٰۃ وسلام سید المرسلین اور ان کی آل پاک پر ہو۔

میرے سعادت مند بھائی خواجہ محمد اشرف خدا آپ کو اولیائے کرام کی تشریفات سے مشرف فرماۓ۔


جان لیں کہ حضرت خواجگان قدس سرہم کا طریقہ خدا کی طرف پہنچانے والے سب راستوں سے زیادہ قریب راستہ ہے اور دوسروں کی انتہاء ان بزرگواروں کی ابتداء میں درج ہے اور انکی نسبتوں سے بڑھ کر ہے اس کا باعث یہ ہے کہ اس طریقہ میں سُنت کو لازم پکڑتے ہیں اور بدعت سے بچتے ہیں اور حتی المقدور رخصت پر عمل جائز نہیں کرتے ۔ اگر چہ بظاہر باطن میں فائدہ دینے والا ہو اور عزیمت پر عمل کرنا نہیں چھوڑتے ۔ اگر بظاہر باطن میں مضر جانیں انہوں نے احوال و مواجید کو احکام شرعی کے تابع کیا ہے اور ذوق و معارف کو علوم شرعیہ کے خادم سمجھتے ہیں ۔ احکام شرعیہ کے نفس موتیوں کو بچوں کی طرح وجد و حال کے جوز و مویز کے عوض نہیں دیتے اور صوفیہ کی بے ہودہ باتوں پر مغرور اور فریفتہ نہیں ہوتے نص کو چھوڑ کر فص کی طرف نہیں جاتے اور فتوحات مدنیہ یعنی احادیث سے قطع نظر کر کے فتوحات مکیہ کی طرف التفات نہیں کرتے ۔ ان کا حال دائمی ہے اور ان کا وقت استمراری تجلی ذاتی جو اوروں کے لئے بجلی کی طرح ہے ان بزرگواروں کے لئے دائمی ہے۔ وہ حضور جس کے پیچھے غیبت ہو ان بزرگواروں کے نزدیک بے اعتبار ہے ۔ رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارِةَ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكرِ الله یہ وہ بہادر ہیں جن کو تجارت اور خرید وفروخت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔

لیکن ہر ایک کا فہم ان بزرگواروں کے مذاق تک نہیں پہنچتا بلکہ نزدیک ہے کہ اس طائفہ علیہ کے قاصر اور کم ہمت لوگ بھی ان بزرگواروں کے بعض کمالات سے انکار کر دیں۔

قاصرے گر کند ایں طائفہ را طعن وقصور
حاش لله که برآرم بزبان این گله را

ترجمہ: کرے گر طعن کوئی پست ہمت اس طریقے پر
پناہ دے رب اگر لاؤں زباں پر کچھ گلہ اس کا


ہاں اس طریقہ علیہ کے بعض متاخرین خلفا نے اس طریق میں بھی نئی نئی باتیں نکالی ہیں اور ان بزرگواروں کے اصل راستہ کو ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے۔ ان کے بعض مریدوں کا یہ اعتقاد ہے کہ ان نئی نئی باتوں نے اس طریقہ کو کامل کر دیا ہے۔ ہرگز ہرگز ایسا نہیں ہے ۔ كَبِرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ منہ چھوٹا اور بڑی بات۔ بلکہ انہوں نے اس کے خراب اور ضائع کرنے میں کوشش کی ہے۔


افسوس ہزار افسوس کہ جن بدعتوں کا دوسرے سلسلوں میں نام ونشان تک پایا نہیں جاتا وہ اس طریقہ علیہ میں پیدا کر دی ہے۔ نماز تہجد کو جماعت سے ادا کرتے ہیں اور گردونواح سے اس وقت لوگ تہجد کے واسطے جمع ہو جاتے ہیں اور بڑی جمعیت سے ادا کرتے ہیں اور یہ عمل مکروہ ہے بکراہت تحریمہ۔

بعض فقہا نے جن کے نزدیک تداعی (یعنی ایک دوسرے کو بلا نا ) کراہت کی شرط ہے اور نفل کی جماعت کو مسجد کے ایک کونے میں جائز قرار دیا ہے۔ تین آدمیوں سے زیادہ کی جماعت کو بالا تفاق مکر وہ کہا ہے۔

اور نیز نماز تہجد کو اس وجہ سے تیرہ رکعت جانتے ہیں جن میں سے بارہ رکعت کو کھڑے ہو کر ادا کرتے ہیں اور دورکعت کو بیٹھ کرتا کہ ایک رکعت کا حکم پیدا کرے اور ان سے مل کر تیرہ ہو جائیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

ہمارے حضرت پیغمبر صلى الله عليه وسلم نے جو کبھی تیرہ رکعت ادا کئے ہیں اور کبھی گیارہ رکعت اور کبھی نو اور کبھی سات۔ تو اس میں نماز تہجد کے ساتھ وتر نے مل کر فردیت کا حکم پیدا کیا ہے۔ نہ یہ کہ بیٹھ کر دور کعت ادا کرنے کو کھڑا ہو کر ایک رکعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس قسم کے علم و عمل کا باعثسنت سنیہ مصطفوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی عدم اتباع ہے۔

تعجب ہی کی بات ہے کہ علماء ہی کے شہروں میں مجتہدین علیہم الرضوان کا وطن ہے اس قسم کے محدثات اور بدعات رواج پا گئے ہیں ۔ حالانکہ ہم فقیر اسلامی علوم انہی کی برکت سے حاصل کرتے ہیں۔


وَاللهُ سُبْحَانَهُ الْمُلْهمُ لِلصَّوَاب اللہ تعالیٰ بہتری کی طرف الہام کرنے والا ہے۔

اند که پیش تو گفتم غم دل تر سیدم
که دل آزرده شوی ودر به یخن بسیار است


ترجمه:
غم دل اس لئے تھوڑا کیا ظاہر ہے ڈرتا ہوں
کہ آزردہ نہ ہو جائے بہت سن سن کے دل تیرا

والسلام

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا