2

مکتوب 140 : اس بیان میں کہ رنج ومحنت محبت کے لوازم سے ہے


مکتوب 140

اس بیان میں کہ رنج و محنت محبت کے لوازم سے ہے۔ مُلا محمد معصوم کابلی کی طرف لکھا ہے۔

اے محبت کے نشان والے! رنج و محنت ، محبت کے لوازم سے ہے۔ فقر کے اختیار کرنے میں دردو غم ضروری ہے ۔

غرض از عشق توام چاشتے درد و غم است
ورنہ در زیر فلک اسباب تنعم چه کم است

ترجمہ: عشق سے تیرے غرض ہے چاہتے دردو غم
ورنہ نیچے آسماں کے کونسی نعمت ہے کم

دوست رنج اور آوارگی چاہتا ہے تا کہ اس کے غیر سے پورے طور پر انقطاع حاصل ہو جائے ۔ یہاں آرام بے آرامی میں ہے اور ساز سوز میں اور قرار بے قراری میں اور راحت جراحت میں اس مقام میں آرام طلب کرنا اپنے آپ کو رنج میں ڈالنا ہے۔


اپنے آپ کو ہمہ تن محبوب کے حوالہ کر دینا چاہئے اور جو کچھ اس کی طرف آئے خوشی سے قبول کرنا چاہئے اور ہرگز سر نہ پھیرنا چاہئے زندگانی کا طریق اسی صورت میں ہے یہاں تک ہوسکے۔ استقامت اختیار کریں ورنہ فتور پیچھے ہے۔ آپ کی مشغولی خوب ہو گئی تھی لیکن قوی ہونے سے اول ہی کمزور ہو گئی ۔ مگر کچھ غم نہیں اگر تھوڑا سا بھی اس ترددات سے اپنے آپ کو جمع کریں تو پہلے سے بھی بہتر ہو جائے گی۔ تفرقہ کے ان اسباب کو عین جمعیت کے اسباب جانیں تا کہ اپنا کام پورا کرسکیں ۔

والسلام ۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا