مکتوب 153
ماسوائے اللہ کی غلامی سے پورے طور پر آزاد ہونے کے بیان میں جو فنائے مطلق سے وابستہ ہے میاں شیخ مزمل کی طرف لکھا ہے۔
خط مرسلہ آپ کا پہنچا۔ منعم حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ اپنے طالبوں کو اپنی طلب میں بے قرار و بے آرام رکھتا ہے اور اس بے آرامی میں اپنے غیر کے آرام سے نجات بخشتا ہے لیکن غیروں کی غلامی سے پوری پوری خلاصی و آزادی اس وقت حاصل ہوتی ہے جبکہ فنائے مطلق سے مشرف ہوں اور ماسوائے اللہ کے نقش بالکل دل کے آئینہ سے مٹ جائیں اور اس کے ساتھ کسی چیز کا تھی وعلمی تعلق نہ رہے اور حق تعالیٰ کے سوا اس کا کچھ مقصود و مراد باقی نہ رہے۔ وَدُونَهُ خَرْطُ الْقِتَادِ ۔ ورنہ بے فائدہ رنج و تکلیف ہے اگر چہ بے تعلقی کا گمان رکھتا ہے ليكن: إِنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِى مِنَ الْحَقِّ شَيْئا : ظن حق کا کچھ فائدہ نہیں دیتا۔
این کار دولت است کنوں تاکراد ہند
ترجمہ: بڑی بھاری ہے یہ دولت خدا جانے ملے کس کو
احوال و مقامات میں گرفتار ہوا ہوا غیر سے گرفتار ہے۔ دوسری چیزوں کا کیا ذکر کیا جائے .
بهر چه از دوست دامانی چه کفرآن حرف و چه ایماں
بهر چه از راه دورافتی چه رشت آج نقش و چه زیبا
ترجمہ: جدا جو یار سے کر دے برابر کفر و ایماں ہے
تجھے گمراہ جو کر دے وہ زشت و خوب یکساں ہے
تمہارا سفر لمبا ہو گیا فرصت غنیمت ہے۔ اگر یار موافق ہیں تو رخصت میں کس طرح تو قف کریں گے اور نا موافق ہیں تو رخصت کی کیا حاجت ہے۔ حق تعالیٰ کی رضامندی کو مدنظر رکھنا چاہئے اہل عالم یعنی اہل جہان راضی ہوں یا نہ ہوں ان کی رضامندی کیا نقصان دے گی۔
طفیل دوست باشد هر چه باشد
ترجمہ: طفیل یار ہوتا ہے جو ہوتا ہے
اپنا مقصود حق تعالیٰ کو جانتا چاہئے اس کے ساتھ کو جو کچھ جمع ہو جائے بہتر ہے اور اگر اس کے ساتھ جمع نہ ہوتو پرواہ نہیں
رخسارمن اینجاؤ تو در گل نگری
ترجمہ: میرا اس جا ہے رخسارہ تو گل میں جا کے دیکھے ہے