مکتوب 154
اس بیان میں کہ اپنے آپ سے گزرنا چاہئے اور اپنے آپ میں جانا چاہئے میاں مزمل کی طرف لکھا ہے:
حق تعالیٰ اپنے ساتھ رکھے اور ایک لحظہ بھی اپنے غیر کے حوالہ نہ کرے ۔ اللَّهُمَّ لَا تُكِلْنَا إلى أَنْفُسِنَا طَرْفَةَ عَيْنٍ فَنَهْلِكَ وَلَا أَقَلَّ مِنْهَا فَنَضِيعَ: یا اللہ تو ہم کو ایک لحظہ بھی نفسوں کے حوالہ نہ کرے۔ ہم ہلاک ہو جائیں گے۔ ورنہ اس سے کم ہم ضائع ہو جائیں گے جو بَلا و مصیبت ہے۔ اپنے ساتھ گرفتار ہونے سے ہے جب اپنے آپ سے خلاص ہو گیا تو گویا سوائے حق کی گرفتاری سے آزاد ہو گیا۔ اگر بُت پوجتے ہیں تو حقیقت میں اپنے آپ کو پوجتے ہیں کہ اَفَرَنَيْتَ مَن اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ – کیا تو نے نہیں دیکھا اس شخص کو جس نے اپنی خواہش کو خدا بنالیا ہے ۔
از خود چو گزشتی همه عیش است و خوشی
ترجمہ: تو گزرا آپ سے جب پس یہی عیش و خوشی ہے
دَعْ نَفْسَكَ وَتَعَالِ یعنی اپنے نفس کو چھوڑا اور آجا۔ جس طرح که از خود گذشتن فرض ہے ۔ درخور دفتن بھی لازم ہے کیونکہ یافت اسی جگہ ہے۔ اپنے باہر میں یافت کچھ نہیں ہوتی ۔
با تو در زیر گلیم است آنچه هست
ہمچو نا بینا مبر ہر سوئے دست
ترجمہ : ساتھ تیرے گودڑی میں ہے چھپا ہے جو کچھ کہ ہے
مارتا ہے ہر طرف تو مِثلِ نابینا کے ہاتھ
سیر آفاقی بعد در بعد ہے اور سیر انفسی قرب در قرب ۔ اگر شہود تو اپنے آپ میں ہے، اگر معرفت ہے تو وہ بھی اپنے آپ ہی میں اور اگر حیرت ہے تو وہ بھی اپنے آپ ہی میں ہے۔ اپنے باہر کوئی قدم گاہ نہیں او ہو بات کدھر چلی گئی ایسا نہ ہوئی کوئی سادہ دل اس مقام میں حلول یا اتحاد سمجھ لے اور گمراہی کے بھنور میں غرق ہو جائے ۔
این جا حلول کفر بود اتحاد ہم
ترجمہ : یہاں کفر ہے اتحاد وحلول
اس مقام کے ساتھ متحقق ہونے سے پیشتر اس میں تفکر کرنا منع ہے ۔ رَزَقَنَا اللهُ سُبْحَانَهُ وَإِيَّاكُمُ الْاِسْتَقَامَةِ عَلَى الطَّرِيقَةِ الْمَرْضِيَّةِ عَلَى صَاحِبِهَا الصَّلوةُ وَالسَّلامُ وَالتَّحِيَّةُ اللہ تعالیٰ ہم اور آپ کو طریقہ پسندیدہ علی صاحبہا الصلوٰۃ و والسلام پر استقامت عطا فرمائے ۔
اپنے احوال کی نسبت لکھتے رہا کریں کہ اس کو بڑا دخل ہے اور باوجودی اور ظاہری تعلقات کے آزادر ہیں اور ان کے وجود کو عدم برابر سمجھیں ۔
والسلام و الاکرام ۔