مکتوب 167
تمام جہانوں کی پرورش کرنے والے خدائے بیچون و بیچگون کی عبادت کرنے اور ہندوؤں کے جھوٹے خداؤں سے بچنے کی ترغیب میں ہر دے رام ہندو کی طرف لکھا ہے
جس نے اس طائفہ علیہ کی محبت و اخلاص کا اظہار کیا تھا۔ آپ کے دونوں خط پہنچے دونوں سے فقراء کی محبت اور اس بزرگ گروہ کی طرف التجا کرنے
کا حال معلوم ہوا یہ کس قدر بڑی نعمت ہے کہ کسی کو اس دولت سے سرفراز فرمائیں دوسرا یہ ہے کہ
من آنچه شرط بلاغ است با تو میگویم
تو خواه از خم پند گیر وخواہ ملال
ترجمہ: جو حق کہنے کا ہے کہتا ہوں تجھ سے اے میرے مشفق
نصیحت آئے ان باتوں سے تجھ کو یا ملال آئے
جان لے اور آگاہ ہو کہ ہمارا اور تمہارا بلکہ جہان والوں یعنی آسمان و زمین اور اعلیٰ و اسفل والوں کا پروردگار صرف ایک ہی ہے اور وہ بیچون و بیچگون ہے۔ شبہ و مانند سے منزہ اور شکل ومثال سے مبرا ہے پدر و فرزند ہونا اللہ تعالیٰ کے حق میں محال ہے اس بارگاہ میں ہمسر اور ہم مثل ہونے کی کیا مجال ہے اتحاد و حلول کی آمیزش اس کی شان میں بری ہے اور کمون و بروز یعنی پوشیدہ ہونے اور ظاہر ہونے کا گمان اس جناب پاک کے حق میں قبیح ہے۔ وہ زمانی نہیں ہے کیونکہ زمانہ اس کا پیدا کیا ہوا ہے نہ وہ مکانی ہے کیونکہ مکان اس کا بنایا ہوا ہے اس کے وجود کی کوئی ابتداء نہیں اور اس کے بقاء کی کوئی انتہاء نہیں۔ سب قسم کا خیر و کمال اس کی ذات میں ثابت ہے اور سب قسم کا نقص وزوال اس سے مسلوب ہے۔ پس عبادت کے مستحق اور پرستش کے لائق وہی حق سبحانہ و تعالی ہے۔
رام و کرشن وغیرہ جو ہندوؤں کے معبود ہیں اس کی کمینہ مخلوقات میں سے ہیں اور ماں باپ سے پیدا ہوئے ہیں۔ رام جسرتھ کا بیٹا اور لچھمن کا بھائی اور سیتا کا خاوند ہے جب رام اپنی بیوی کو نگاہ میں نہ رکھ سکا تو وہ پھر دوسرے کی کیا مدد کر سکتا ہے۔ عقل دور اندیش سے کام لینا چاہئے اور ان کی تقلید پر نہ چلنا چاہئے ۔ بڑی عاری بات ہے کہ کوئی تمام جہانوں کے پروردگار کو رام یا کرشن کے نام سے یاد کرے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی عظیم الشان بادشاہ کو کمینہ خاکروب کے نام سے یاد کرے۔ رام و رحمن کو ایک جاننا بڑی بے وقوفی ہے۔ خالق مخلوق کے ساتھ ایک نہیں ہوتا اور چون و بیچون کے ساتھ متحد نہیں ہوتا۔
رام و کرشن کے پیدا ہونے سے پہلے پروردگار عالم کو رام و کرشن کوئی نہیں کہتا تھا ان کے پیدا ہونے کے بعد کیا ہو گیا کہ رام و کرشن کے نام کو حق تعالیٰ پر اطلاق کرتے ہیں اور رام و کرشن کی یاد کو پروردگار کی یاد جانتے ہیں ہرگز ہرگز ایسا نہیں ہے۔
ہمارے پیغمبر علیہم الصلوۃ والسلام جو ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب گزرے ہیں۔ سب نے خلقت کو خالق کی عبادت کرنے کی ترغیب فرمائی ہے اور غیر کی عبادت سے منع کیا ہے اور اپنے آپ کو بندہ اور عاجز جان کر اس کی ہیبت اور عظمت سے ڈرتے اور کانپتے رہے اور ہندوؤں کے معبودوں نے خلقت کو اپنی عبادت کی ترغیب دی اور اپنے آپ کو معبود سمجھا ہے۔ اگرچہ پروردگار کے قائل ہیں لیکن اپنے آپ میں اس کا حلول و اتحاد ثابت کیا ہے اور اسی باعث سے خلق کو اپنی عبادت کی طرف بلاتے ہیں اور اپنے آپ کو معبود کہلایا ہے اور بے کھٹکے محرمات میں پڑے ہیں ۔ اس خیال سے کہ معبود کسی چیز سے ممنوع نہیں ہے اپنی خلق میں جس طرح چاہے تصرف کر سکتا ہے اس قسم کے بے ہودہ اور فاسد خیالات بہت رکھتے ہیں یہ لوگ خود بھی گمراہ ہو گئے ہیں اور اوروں کو بھی گمراہ کر دیا۔ برخلاف پیغمبروں علیہم الصلوۃ والسلام کے کہ انہوں نے جن باتوں سے مخلوقات کو منع کیا ہے ان سے اپنے آپ کو بھی پورے اور کامل طور پر باز رکھا ہے اور اپنے آپ کو اور انسا نوں کی طرح انسان ہی کہتے رہے ہیں۔
بہ میں تفاوت راه از کجاست تا یکجا
ترجمہ: دیکھ دونوں میں کس قدر ہے فرق