مکتوب 170
اس بیان میں کہ آدمی کو جس طرح حق تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے بجالانے سے چارہ نہیں ہے ویسا ہی خلق کے حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ غمخواری کرنے سے چارہ نہیں اور اس کے مناسب بیان میں شیخ نور کی طرف لکھا ہے۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِين اصطفی : اللہ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔
میرے سعادت مند بھائی ! آدمی کو جس طرح حق تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے بجالانے سے چارہ نہیں ہے۔ ویسے ہی خلق کے حقوق کو ادا کرنے اور ان کے ساتھ غم خواری کرنے سے بھی چارہ نہیں ہے ۔ التَّعْظِيمُ لَا مَرِ اللهِ وَالشَّفْعَةُ عَلى خَلْقِ الله (اللہ تعالیٰ کے امر کی تعظیم اور خلق اللہ پر شفقت کرنا ) انہی دو حقوق کے ادا کرنے کا بیان فرماتا ہے اور دونوں طرف کو مدنظر رکھنے کی ہدایت کرتا ہے۔ پس ان دونوں میں سے صرف ایک ہی پر اختصار کرنا سراسر قصور ہے اور کل کو چھوڑ کر جزو پر کفایت کرنا کمالیت سے دور ہے پس خلق کے حقوق کو ادا کرنا اور ان کے ایذا کو برداشت کرنا ضروری ہے اور ان کے ساتھ حسن معاشرت یعنی اچھی طرح رہنا سہنا واجب ہے۔ بد دماغی اور لا پروائی اچھی نہیں ۔
ہر که عاشق شد اگر چه نازنین عالم است
ناز کی کے است آید بار یباید کشید
ترجمه: گرچه عاشق حسن میں ہو خود جہاں کا نازنین
عاشقوں کا نازنین ہونا سراسر غلط ہے
چونکہ آپ مدتوں صحبت میں رہے ہیں اور پند و نصیحت بہت سنے ہیں اس لئے طول کلامی سے منہ پھیر کر چند فقروں پر اختصار کیا گیا۔
ثَبَّتَنَا اللهُ سُبْحَانَهُ وَإِيَّاكُمُ عَلَى جَادَةِ الشَّرِيعَةِ الْمُصْطَفُويَّةِ عَلَى صَاحِبِهَا الصَّلوةُ وَالسَّلامُ وَ التَّحِيَّةُ: الله تعالیٰ ہم کو اور آپ کو شریعت مصطفوی علی صاحبہا الصلوة والسلام کے سیدھے راستے پر قدم رکھے۔