مکتوب 178
ایک شخص کی سفارش اور سید عالمیان خلاصہ آدمیان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت کی ترغیب میں مرزا مظفر کی طرف لکھا ہے
عَظَمَ اللهُ تَعَالَى أَجْرَكُمْ وَرَفَعَ قَدْرَكُمْ وَيَسَّرَ آمَن كُمُ وشَرَح صَدْرَكُمْ حُرُمَةِ سَيّدِ الْمُرْسَلِينَ عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ الصَّلَوَاتُ وَالسَّلام : اللہ تعالی آپ کو بڑا اجر دے اور آپ کا قد بلند کرے اور آپ کا کام آسان کرے اور آپ کے سینے کو کھولے بحرمت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
جولوگ اخلاق نبوی صلى الله عليه وسلم سے متخلق ہیں۔ ان کو اس امر کی طرف رہنمائی کرنے کی کیا حاجت ہے کہ وہ کسی کے ساتھ احسان اور حسن معاشرت سے پیش آئیں۔ بلکہ نزدیک ہے کہ وہ دلالت بے ادبی میں داخل ہو ۔ لیکن چونکہ انسان احتیاج کے وقت ہر ادنٰی و حقیر سے پنجہ مارتا ہے اور ہر ضعیف وکمزور سے اپنی تسلی حاصل کرتا ہے اس لئے آپ کو تکلیف دے کر سائلین و حاجت مندوں کی تسلی کی گئی ہے
میرے مخدوم ! احسان سب جگہ اچھا ہے خاص کر ان لوگوں کے ساتھ جو ہمسائیگی کا قرب رکھتے ہوں بہت ہی بہتر ہے ۔ حضرت رسالت خاتمیت علیہ الصلوۃ واسلام پڑوسی کا حق ادا کرنے میں اس قدر مبالغہ فرمایا کرتے تھے کہ اصحاب کرام کو اس مبالغہ سے گمان ہوتا تھا کہ شاید ہمسایہ کو میراث سے بھی حصہ دلائیں گے۔
چون چنین با یک دگر ہمسایہ ایم
تو چور خورشیدی و ما چون سایه ایم
چہ بدے اے مایہ بے مانگاں
گر نگہداری حق ہمسائگاں
ترجمہ: جب کہ ہم آپس میں سب ہمسایہ ہیں
تو ہے خورشید اور ہم سب سایہ ہیں
کیا ہو پھر اے مایہ بیمانگاں
گر نگاہ رکھے حق ہمسائگاں
والسلام۔