2

مکتوب 181: حضرت مخدوم زادہ یعنی میاں محمد صادق کی طرف ( کہ خدائے تعالیٰ اس کو دوستوں کے سروں پر سلامت و باقی رکھے ) لکھا ہے


مکتوب 181

حضرت مخدوم زادہ یعنی میاں محمد صادق کی طرف ( کہ خدائے تعالیٰ اس کو دوستوں کے سروں پر سلامت و باقی رکھے ) لکھا ہے ۔ ان کے استفسار کے جواب میں کہ کیا سبب ہے کہ مشائخ کی جماعت کو میں دیکھتا ہوں کہ قرب الہی کے مرتبوں میں ادنیٰ درجہ رکھتے ہیں لیکن باوجود اس کے مقامات زہد وتوکل وغیرہ میں ان کے بڑے درجے ہیں اور بعض مشائخ کو دیکھتا ہوں کہ قرب کے مرتبوں میں فوقیت رکھتے ہیں اور مقامات مذکورہ میں تنزل اور اس کے مناسب بیان میں:


میرے سعادت مند فرزند نے پوچھا ہے کہ کیا سبب ہے کہ بعض مشائخ کو دیکھتا ہوں کہ قرب الہی کے مرتبوں میں ادنی درجہ رکھتے ہیں لیکن مقامات زہد و تو کل و ترک وصبر ورضا میں ان کے بڑے بڑے درجے مفہوم ہوتے ہیں اور بعض مشائخ کو دیکھتا ہوں کہ مراتب قرب میں بڑا درج رکھتے ہیں لیکن مقامات زہد و تو کل وغیرہ میں ان کے قدم بہت نیچے ہیں اور یہ بات ثابت و مقرر ہے کہ جس قدر یقین اتم ہو گا اس قدر یہ مقامات اکمل ہونگے اور یقین کا اتم ہو نا حق تعالیٰ کے زیادہ قرب کا سبب ہے پس یہ بات چند امروں سے خالی نہیں ہے یا تو ہماری کشف نظر خطا کرتی ہے کہ قریب کو بعید اور بعید کو قریب جانتی ہے یا اس مقام کے اکمل ہونے کا باعث یقین کے سوا کچھ اور امر ہے ۔ یا قرب پر یقین مترتب نہیں ہے تو اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ یقین قرب پر مرتب ہے یعنی جس قدر قرب زیادہ ہوگا اس قدر یقین زیادہ ہوگا اور ان مقامات کے اکمل ہونے کا سبب بھی یقین کا اتم ہونا ہے نہ کچھ اور امر اور نظر کشفی بھی صحیح ہے۔

حاصل کلام یہ کہ قرب الطف لطائف کو حاصل ہوتا ہے۔ پس یقین بھی انہی کا نصیب ہے اور ان مقامات کا اکمل ہونا بھی چونکہ یقین کے اتم ہونے پر مترتب ہے۔ اس لئے وہ بھی انہی کو حاصل ہوتا ہے۔ .

پس ہو سکتا ہے کہ کسی بزرگ نے باوجود قرب کے کم ہونے کے لطائف میں سے زیادہ لطیف کے مقامات میں سے کسی مقام میں اقامت اختیار کی ہو اور لطائف میں سے زیادہ کثیف کی طرف رجوع نہ کی ہو اور مقامات مذکورہ میں اس دوسرے بزرگ سے اکمل ہو جو قرب زیادہ رکھتا ہو اور لطائف میں زیادہ کثیف کی طرف جو لطیفہ قالب ہے رجوع کی ہو کیونکہ لطیفہ قالب جب اس ، قرب سے محروم ہے۔ پس یقین بھی اس کے نصیب نہیں ہوگا تو پھر ان مقامات کی اکملیت کیسے حاصل کر سکے اور وہ بزرگ جس کا رجوع اس لطیفہ کی طرف ہوا ہے اس نے اس لطیفے کا حکم پیدا کر لیا ہے اور باقی لطائف کے یقینات جو اس کو پہلے حاصل ہوئے تھے ۔ سب پوشیدہ ہو گئے ہیں ۔ برخلاف اس بزرگ کے جس کا رجوع قالب کی طرف نہیں ہوا ۔ اس کا حکم الطف لطائف کا حکم ہے اور قرب ویقین اس کے حق میں استقامت رکھتے ہیں اور اس سے پوشیدہ نہیں ہوئے پس ناچار مقامات مذکورہ میں اتم و اکمل ہوگا ۔

لیکن جاننا چاہئے کہ صاحب رجوع جس طرح قرب و یقین میں اکمل ہے ۔ اس طرح مقامات میں اکمل ہے لیکن اس کے ان کمالات کو پوشیدہ کر دیا ہے اور خلق کی دعوت اور خلق کے ساتھ مناسبت حاصل کرنے کیلئے جو افادہ اور استفادہ کا سبب ہے اس کے ظاہر کو عوام الناس کے ظاہر کی طرح کر دیا ہے۔ یہ مقام در اصل انبیائے مرسل علیہم الصلوۃ والسلام کا مقام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل الرحمن على نبينا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے دل کا اطمینان طلب فرمایا اور یقین کے حاصل ہونے میں عوام الناس کی طرح رویت بصری کے محتاج ہوئے اور حضرت عزیر علٰی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے کہا : انى يُخي هذه الله بعد موتها : الله تعالیٰ ان کو مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا۔ اور جس نے رجوع نہیں کیا۔ اس نے یقین سے کہا ہے : لو كشف العطاء لَمَا اَزْوَدْتُ يَقِيْنَا : اگر پردہ دور کیا جائے تو پھر بھی میرا یقین زیادہ نہ ہوگا۔

یہ کلام اگر ثابت ہو جائے کہ حضرت امیر کرم اللہ وجہہ سے ہے تو اس کو اس بات پر محمول کرنا چاہئے کہ رجوع حاصل ہونے سے پہلے فرمایا ہو کیونکہ رجوع کے بعد صاحب رجوع عوام الناس کی طرح یقین کے حاصل ہونے میں دلائل و براہین کا محتاج ہے۔ اس درویش کے تمام متعقدات کلامیہ رجوع سے پہلے بد یہی ہو گئے تھے اور ان مستقدات کے یقین کو محسوسات کے یقین سے زیادہ پاتا تھا لیکن رجوع کے بعد وہ یقین مستور ہو گیا اور عوام الناس کی طرح دلائل و برامین کا محتاج ہو گیا۔


چنانچہ پرورشم نے دبند نے رویم

ترجمہ : پلتا ہوں ویسے ہی میں جیسے کہ پالتے ہیں

والسلام

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا