مکتوب 186
سُنت کی تابعداری اور بدعت سے بچنے کی ترغیب میں اور اس بیان میں کہ ہر بدعت ضلالت ہے۔ کابل کے مفتی خواجہ عبد الرحمن کی طرف لکھا ہے:-
عاجزی اور زاری اور التجا اور محتاجی اور ذلت و خواری کے ساتھ ظاہر اور پوشیدہ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں سوال کرتا ہے کہ جو کچھ اس دین میں محدث اور مبتدع پیدا ہوا ہے۔ جو خیر البشر اور خلفائے راشدین علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں نہ تھا۔ اگر وہ روشنی میں صبح کی سفیدی کی مانند ہو ۔ اس ضعیف کو ان لوگوں کے ساتھ جو اس بدعت سے منسوب ہیں اس محدث کے عمل میں گرفتار نہ کرے اور مبتدع کے حسن پر فریفتہ نہ کرے ۔ بحرمت سید المختار و آلہ الابرار علیہ الصلوة والسلام
علماء نے کہا ہے کہ بدعت دو قسم پر ہے ۔ حسنہ اور سیہ ۔حسنہ اس نیک عمل کہتے ہیں، جو آنحضرت اور خلفائے راشدین علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے بعد ہوا ہو اور وہ سنت کو رفع نہ کے اور بدعت سیہ وہ ہے جو سنت کی رافع ہو۔
یه فقیر ان بدعتوں میں سے کسی بدعت میں حسن اور نورانیت مشاہدہ نہیں کرتا اور ظلمت و کدورت کے سوا کچھ محسوس نہیں کرتا۔ اگرچہ آج مبتدع کے عمل کو ضعف بصارت کے باعث طراوت و تازگی میں دیکھتے ہیں لیکن کل جب کہ بصیرت تیز ہوگی تو دیکھ لیں گے کہ اس کا نتیجہ خسارت و ندامت کے سوا کچھ نہ تھا ۔
بوقت صبح شود بیچو روز معلومت
کہا کہ باخته عشق درشب دیجور
ترجمه: بوقت صبح ہو جائے گا روشن روز کی مانند
کہ تو نے عشق میں کس کے گزاری رات ہے ساری
حضرت خیر البشر فرماتے ہیں کہ من احدث فی امرنا هذا ما ليس منه فهورد جس نے ہمارے امر میں ایسی نئی چیز پیدا کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے ۔ بھلا جو چیز مردود ہو وہ حسن کہاں پیدا کر سکتی ہے۔
اور آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے ۔ اَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللهِ وَ خَيْرَ الْهَدْي هَدَى مُحَمَّدٍ وَ شَر الأمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلالَهُ: اس کے بعد واضح ہو کہ اچھی کلام کتاب اللہ ہے اور بہتر رستہ محمد صلى الله عليه وسلم کا رستہ ہے اور تمام امور سے بدتر محدثات ہیں اور ہر ایک بدعت ضلالت ہے۔
اور نیز آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے کہ: اُو صِيْكُمْ بِتَقْوِى اللهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ كَانَ عَبداً حَبُشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشُ مِنْكُمْ بَعْدِى فَسَيَرَى اِخْتِلَافًا كَثِيراً فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّتِ خُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُوا عَلَيْهَا بِالتَّوَاجِدِ وَإِيَّاكُمْ وَ مُحْدَثَاتِ الأمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَهِ بِدْعَةِ وَ كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلالة : میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرو اور اس کے حکموں کو مانو اور اطاعت کرو اگرچہ حبشی غلام ہو ۔ کیونکہ تم میں سے جو کوئی میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا۔ پس تمہیں لازم ہے کہ میری سُنت اور خلفائے راشدین مهدیین کی سُنت کو لازم پکڑو اور اس کے ساتھ پنجہ مارو اور اس کو دانتوں سے مضبوط پکڑو اور کولا نٹے پیدا ہوئے کاموں سے بچو۔ کیونکہ ہر نیا امر بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ۔ پس جب ہر محدث بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت تو پھر بدعت میں حسن کے کیا معنی ہوئے۔ نیز جو کچھ احادیث سے مفہوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ ہر بدعت سنت کی رافع ہے بعض کی کوئی خصوصیت نہیں ۔ پس ہر بدعت سئیہ ہے۔
آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے مَا أَحْدَتَ قَوْمٌ بِدْعَةِ إِلَّا رُفِعَ مِثْلُهَا مِنَ السُّنَّةِ فَتَمَسُّكَ بِسُنَّةٍ خَيْرٌ مِنَ الْحِدَاثِ بِدْعَةٍ: جب کوئی قوم بدعت کو پیدا کرتی ہے تو اس جیسی ایک سُنت اٹھائی جاتی ہے۔ پس سُنت سے پنجہ مارنا بدعت کے پیدا کرنے سے
بہتر ہے۔
اور حسان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: مَا ابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدْعَةً فِي دِينِهِمُ إِلَّا تَرْفَعُ اللَّهُ مِنْ سُنَّتِهِمْ مِثْلَهَا ثُمَّ لَا يُعِيدُهَا إِلَى يَومَ الْقِيمَةِ: کسی قوم نے دین میں بدعت کو جاری نہیں کیا ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس جیسی ایک سُنت کو ان میں سے اٹھا لیا پھر اللہ تعالیٰ قیامت تک اس سُنت کو ان کی طرف نہیں پھیرتا ۔
جاننا چاہئے کہ بعض بدعتیں جن کو علماء ومشائخ نے سنت سمجھا ہے جب ان میں اچھی طرح ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سنت کو رفع کرنے والی ہیں :-
مثلا میت کے کفن دینے میں عمامہ کو بدعت حسنہ کہتے ہیں ۔ حالانکہ یہی بدعت رافع سنت ہے کیونکہ عدد مسنون یعنی تین کپڑوں پر زیادتی نسخ ہے اور نسخ عین رفع ہے اور ایسے ہی مشائخ نے شملۂ دستار کو بائیں طرف چھوڑ نا پسند کیا ہے ۔ حالانکہ سنت شملہ کا دونوں کندھوں کے درمیان چھوڑنا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بدعت رافع سنت ہے اور ایسے ہی وہ امر ہے جو علماء نے نماز کی نیت میں مستحسن جانا ہے کہ باوجود ارادہ دلی کے زبان سے بھی نیت کہنی چاہئے ۔ حالانکہ آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام سے کسی صحیح یا ضعیف روایت سے ثابت نہیں ہوا اور نہ ہی اصحاب کرام اور تابعین عظام سے کہ انہوں نے زبان سے نیت کی ہو ۔ بلکہ جب اقامت کہتے تھے فقط تکبیر تحریمہ ہی فرماتے تھے۔ پس زبان سے نیت کرنا بدعت ہے ہے اور اس بدعت کو بدعت حسنہ کہا ہے اور یہ فقیر جانتا ہے کہ یہ بدعت رفع سنت کے بجائے فرض کو بھی رفع کرتی ہے کیونکہ اس کی تجویز میں اکثر لوگ زبان ہی پر کفایت کرتے ہیں اور دل کی غفلت کا کچھ ڈر نہیں کرتے ۔ پس اس ضمن میں نماز کے فرضوں میں سے ایک فرض جو نیت قلبی ہے متروک ہو جاتا ہے اور نماز کے فاسد ہونے تک پہنچا دیتا ہے تمام مبتدعات و محدثات کا یہی حال ہے ۔ کیونکہ وہ سنت پر زیادتی ہیں ۔ خواہ کسی طرح کی ہوں اور زیادتی نسخ ہے اور نسخ رفع ہے۔
پس آپ پر لازم ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی متابعت پر کمر بستہ رہیں اور اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کی اقتدار پر کفایت کریں۔ کیونکہ وہ ستاروں کی مانند ہیں جن کے پیچھے چلو گے ہدایت پاؤ کے لیکن قیاس اور اجتہاد کوئی بدعت نہیں کیونکہ وہ نصوص کے معنی کو ظاہر کرتے ہیں ۔ کسی زائد امر کو ثابت نہیں کرتے ۔ پس داناؤں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے ۔ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالْتَزَمَ مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفَى عَلَيْهِ وَ عَلَى الِهِ الصَّلوةُ وَالتَّسْلِيْمَاتُ اور سلام ہو اس شخص پر جو ہدایت کے راہ پر چلا اور حضرت مصطفیٰ علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام کی متابعت کو لازم پکڑا۔