مکتوب 190
دوام ذکر الہی جل شانہ پر حرص دلانے اور طریقہ علیہ نقشبند یہ قدس سرہم کو اختیار کرنے کی ترغیب میں اور نیز ذکر کی طرز اور اس کے مناسب بیان میں میر محمد نعمان کے فرزندوں میں سے ایک فرزند کی طرف لکھا ہے۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ وَالسَّلامُ عَلَى سَيّدِ الْمُرْسَلِينَ وَالِهِ الطَّاهِرِينَ أَجْمَعِينَ : اللہ رب العالمین کی حمد ہے اور سید المرسلین اور ان کی آل پاک پر صلٰوۃ و سلام ہو ۔
جان من آگاہ ہو کہ تیری کیا بلکہ سب بنی آدم کی سعادت اور خلاصی اور نجات اپنے مولا کی یاد میں ہے جہاں تک ہو سکے سب اوقات کو ذکر الہی میں بسر کرنا چاہئے اور ایک لحظہ بھی غفلت جائز نہ سمجھنی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ دوام ذکر حضرت خواجگان قدس سرہم کے طریق میں ابتداء ہی میں میسر ہو جاتا ہے اور ابتداء میں نہایت کے درج ہونے کے طریق پر حاصل ہو جاتا ہے۔ پس طالب کو اس بلند طریقہ کا اختیار کرنا بہت ہی بہتر اور مناسب بلکہ واجب اور لازم ہے ۔ پس تجھے چاہئے کہ توجہ کے قبلہ کو سب طرف سے پھیر کر ہمہ تن اس طریقہ علیہ کے بزرگواروں کی بلند بارگاہ کی طرف توجہ کرے اور ان کے باطن پاک سے دعا طلب کرے۔ ابتداء میں ذکر کہنے سے چارہ نہیں۔ چاہئے تو قلب صوری کی طرف متوجہ ہو کہ وہ مضغہ گوشت قلب حقیقی کے لئے حجرہ کی طرح ہے اور ہم اسم اللہ کو اس قلب پر گزارے اور اس وقت قصدا کسی عضو کو برکت نہ دے اور ہمہ تن قلب کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے اور قوت متخیلہ میں قلب کی صورت کو جگہ نہ دے اور اس کی طرف التفات نہ کرے کیونکہ مقصود قلب کی طرف توجہ کرنا ہے نہ کہ اس کی صورت کا تصور اور لفظ مبارک اللہ کے معنی کو بیچونی اور بیچگونی کے ساتھ ملاحظہ کرنے اور کسی صفت کو اس کے ساتھ شامل نہ کرے اور حاضر و ناظر بھی ملحوظ نہ ہوتا کہ تو ذات تعالیٰ کی بلندی سے صفات کی پستی میں نہ آ جائے اور وہاں سے کثرت میں وحدت کا مشاہدہ کرنے میں نہ پڑ جائے اور بیچون کی گرفتاری سے چون کی شہود سے آرام نہ پکڑے کیونکہ جو کچھ چون کے آئینہ میں ظاہر ہو وہ بیچون نہیں ہے اور جو کثرت میں نمودار ہو۔ وہ واحد حقیقی نہیں بیچوں کو دائرہ چون کے باہر ڈھونڈ نا چاہنے اور بسیط حقیقی کو کثرت کے احاطہ کے باہر تلاش کرنا چاہئے ۔ اگر ذکر کہنے کے وقت پیر کی صورت بے تکلف ظاہر ہو تو اس کو بھی قلب کی طرف لے جانا چاہئے اور قلب میں نگاہ رکھ کر ذکر کہنا چاہئے تو جانتا ہے کہ پیر کون ہے۔ پیر وہ شخص ہے جس سے تو خدائے تعالیٰ کی جناب پاک کی طرف پہنچنے کا راستہ سیکھے اور اس راستہ میں تو اس سے مدد و اعانت حاصل کرے۔ صرف کلاہ اور دامنی اور شجرہ جو معروف ہو گیا ہے ۔ پیری و مریدی کی حقیقت سے خارج ہے اور رسم و عادت میں داخل ہے ۔ ہاں اگر شیخ کامل مکمل سے کوئی کپڑا تبرک کے طور پر تجھے ہاتھ لگے اور اعتقاد و اخلاص کے ساتھ تو اسے پہن کر زندگی بسر کرنی چاہئے تو اس صورت میں بیشمار فائدوں اور شمروں کے حاصل ہونے کا قوی احتمال ہے اور تجھے جاننا چاہئے کہ خوابیں اور واقعات اعتماد اور اعتبار کے لائق نہیں ہیں ۔ اگر کسی نے اپنے آپ کو خواب میں بادشاہ دیکھا یا قطب وقت معلوم کیا تو حقیقت میں ایسا نہیں ہے ہاں اگر خواب اور واقع کے بغیر بادشاہ ہو جائے یا قطب بن جائے تو مسلم ہے پس جو احوال و مواجید کہ بیداری اور ہوش کی حالت میں ظاہر ہوں وہ اعتماد کے لائق ہیں ورنہ نہیں اور جاننا چاہئے کہ ذکر کا نفع اور اس پر آثار کا مترتب ہونا شریعت کے احکام بجالانے پر وابستہ ہے۔ پس فرضوں اور سنتوں کے ادا کرنے اور محرم و مشتبہ سے بچنے میں اچھی طرح احتیاط کرنی چاہئے اور قلیل و کثیر میں علماء کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور ان کے فتویٰ کے موافق زندگی بسر کرنی چاہئے ۔
والسلام۔