4

مکتوب 193: فرقہ اہل سنت و جماعت کی راؤں کے موافق عقائد کو درست کرنے کے بارے میں


مکتوب 193

فرقہ اہل سنت و جماعت کی راؤں کے موافق عقائد کو درست کرنے اور احکام فقیہہ یعنی حلال و حرام و فرض واجب و سنت و مندوب و مکروہ (جن کا علم فقہ ذمہ دار ہے ) کے سیکھنے کی ترغیب میں اور اسلام کی غربت اور اس کی تائید و ترقی کے لئے برانگیختہ کرنے کیلئے بیان میں سیادت پناہ شیخ فرید کی طرف لکھا ہے۔


بسم الله الرحمن الرحيم

الله تَعَالَى نَاصِرُكُمْ وَ مُعِيْنُكُمْ عَلَى كُلَّ مَا يَعِيبُكُمْ وَيَشِينُكُم حق تعالیٰ اس چیز پر جو آپ کو عیب دار اور داغ دار کرے آپ کا مددگار اور معاون رہے۔

ارباب تکلیف پر پہلے نہایت ضروری ہے کہ علمائے اہل سنت و جماعت شکر اللہ تعالی سعیہم کی راؤں کے موافق اپنے عقائد کو درست کریں کیونکہ عاقبت کی نجات انہی بزرگواروں کی بے خطاراؤں کی تابعداری پر موقوف ہے اور فرقہ ناجیہ بھی یہی لوگ اور ان کے تابعدار ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو آنحضرت صلى الله عليه وسلم اور ان کے اصحاب کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کے طریق پر ہیں اور ان علوم سے جو کتاب وسنت سے حاصل ہوئے ہیں وہی معتبر ہیں جو ان بزرگواروں نے کتاب وسنت سے اخذ کئے ہیں اور سمجھے ہیں کیونکہ ہر بدعتی اور گمراہ بھی اپنے فاسد عقائد کو اپنے خیال فاسد میں کتاب وسنت ہی سے اخذ کرتا ہے۔ پس انکے مفہومہ معانی میں سے ہر معنی پر اعتبار نہ کرنا چاہئے اور ان عقائد حقہ کی درستی کیلئے امام اجل نور پشتی کا رسالہ بہت مناسب اور آسان فہم ہے۔ اپنی مجلس شریف میں اس کا ذکر کرتے رہا کریں لیکن رسالہ مذکورہ چونکہ استدلال پر مشتمل ہے اور اس میں طول وسط بہت ہے اس لئے کوئی ایسا رسالہ جو صرف مسائل ہی کو شامل ہو بہتر اور مناسب ہے۔ اسی اثناء میں فقیر کے دل میں گزرا کہ اس باے میں ایک رسالہ لکھے جو اہل سنت و جماعت کے عقائد پر مشتمل ہو ۔ اگر ہو سکا تو جلدی ہی لکھ کر خدمت میں بھیج دیا جائے گا۔

ان عقائد کو درست کرنے کے بعد حلال و حرام و فرض و واجب وسنت و مندوب و مکروه (جن علم فقہ متکفل ہے ) کا سیکھنا اور اس علم کے مطابق عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ بعض طالبوں کو فرما ئیں کہ فقہ کی کتاب جو فارسی عبارت میں ہو۔ میشل مجموعہ خوانی اور عمدۃ الاسلام کو مجلس میں پڑھتے رہا کریں اور اگر نعوذ باللہ ضروری اعتقادی مسئلوں میں سے کسی مسئلہ میں خلل پڑ گیا تو نجات آخرت کی دولت سے محروم ہو گیا اور اگر عملیات میں سستی واقع ہو جائے تو ہو سکتا ہے کہ تو بہ ہی سے معاف کر دیں اور اگر مواخذہ بھی کریں گے تو پھر بھی نجات تو ہو ہی جائے گی ۔ پس عمدہ کام عقائد کا درست کرنا ہے۔

حضرت خواجہ احرار قدس سرہ سے منقول ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر تمام احوال و مواجید ہمیں دے دیں اور ہماری حقیقت کو اہل سنت و جماعت کے عقائد کے ساتھ آراستہ نہ کریں تو سوائے خرابی کے ہم کچھ نہیں جانتے اور تمام خرابیوں کہ ہم پر جمع کر دیں لیکن ہماری حقیقت کو اہل سنت و جماعت کے عقائد سے نوازش فرما ئیں تو پھر کچھ خوف نہیں رکھتے۔

ثَبَّتَنَا اللهُ سُبْحَانَهُ وَ إِيَّاكُمُ عَلَى طَريقَتِهِمُ الْمَرْضِيَّةِ بِحُرُمَةِ سَيّدِ الْبَشَرِ عَلَيْهِ وَ ا عَلَى الِهِ الصَّلَوَاتِ أَفْضَلُهَا وَ مِنَ التَّسْلِيمَاتِ اَكْمَلُهَا الله تعالیٰ ہم کو اور آپ کو سید المرسلین علیہ التحیات والتسلیم کے طفیل طریقہ پسند یدہ پر ثابت قدم رکھے۔

ایک درویش لاہور کی طرف سے آیا ہوا تھا اس نے بیان کیا کہ شیخ جیو پرانی منڈی کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کیلئے حاضر ہوئے تھے ۔ اور میاں رفیع الدین نے آپ کی التفات کے اظہار کے بعد کہا کہ نواب شیخ جیو نے اپنی حویلی میں جامع مسجد بنائی ہے۔ الحمد للہ علی ذلک۔ حق تعالی آپ کو زیادہ تو فیق عنایت فرمائے ۔ مخلصوں اور یاروں کی اس قسم کی باتیں سن کر بہت ہی خوشی حاصل ہوتی ہے۔

میرے سیادت پناہ مکرم ! آج اسلام بہت غریب ہورہا ہے۔ آج اس کی تقویت میں ایک جیتل کا صرف کرنا کروڑ ہا روپیوں کے بدلے قبول کرتے ہیں ۔ دیکھیں کون سے بہادر کو اس دولت عظمیٰ سے مشرف فرماتے ہیں۔ دین کی ترقی اور مذہب کی تقویت ہر وقت خواہ کسی سے وقوع میں آئے بہتر اور زیبا ہے لیکن اس وقت میں کہ اسلام غریب ہوتا جاتا ہے اہل بیت کے آپ جیسے جوانمردوں سے نہایت ہی زیبا اور خوب ہے۔ کیونکہ یہ دولت آپ جیسے بزرگوں کے خاندان کی خانہ زاد ہے۔ اس کا تعلق آپ سے ذاتی ہے اور دوسروں سے عارضی حقیقت میں نبی علیہ وآلہ والصلوۃ والسلام کی وراثت اسی عظیم القدر امر کے حاصل کرنے میں ہے۔ حضرت پیغمبر صلى الله عليه وسلم نے اصحاب کو مخاطب کرتے کر کے فرمایا کہ تم ایسے زمانہ میں موجود ہوئے ہو کہ اگر او امر ونواہی میں سے دسویں حصہ کو ترک کرو تو ہلاک ہو جاؤ اور تمہارے بعد ایسے لوگ آئیں گے کہ اوامر و نواہی میں سے دسویں حصہ کو بجالائیں گے تو خلاصی پائیں گے اب یہ وقت وہی وقت ہے اور یہ لوگ وہی لوگ ہیں ۔

گوئے توفیق و سعادت در میان انگنده اند
کس بیمدان در نمی آید سواران را چه شد

ترجمہ : پڑا میدان میں ہے گیند توفیق و سعادت کا
ہوا کیا ہے سواروں کو کوئی آگے نہیں بڑھتا


کافر لعین گوبند اور اس کی اولاد کا مارا جانا بہت خوب ہوا اور ہنود و مردود کی بڑی شکست کا باعث ہوا۔ خواہ کسی نیت سے اس کو قتل کیا ہو اور خواہ کسی غرض سے اس کو ہلاک کیا ہو ۔ بہر حال کفار کی خواری اور اہل اسلام کی ترقی ہے۔

اس فقیر نے اس کا فر کے قتل ہونے سے پہلے خواب میں دیکھا تھا کہ بادشاہ وقت نے شرک کے سر کی کھوپڑی کو توڑا ہے۔ واقعی وہ بہت بت پرست اہل شرک کا رائیسں اور اہل کفر کا امام تھا۔ حَدَّلَهُمُ اللهُ تَعَالیٰ اللہ تعالیٰ ان کو خوار کرے۔


اور دین و دنیا کے سردار علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی بعض دعاؤں میں اہل شرک کو اس عبارت میں لعنت و نفرین فرمائی ہے۔

اَللَّهُمَّ شَيّتْ شَمْلَهُمْ وَ فَرِقْ جَمْعَهُمْ وَخَرِّبُ بُنْيَانَهُمْ وَخُذْهُمْ أخُذَ عَزِيزِ مُقْتَدِر یا اللہ تو ان کی جمعیت کو پراگندہ کر اور ان کی جماعت میں تفرقہ ڈال اور ان کے گھروں کو ویران کر اور ان کو ایسا پکڑ جیسا غالب طاقتور پکڑتا ہے۔


اسلام اور اہل اسلام کی عزت کفر اور اہل کفر کی خواری میں ہے۔ جزیہ سے مقصود کفار کی خواری اور ان کی اہانت ہے جس قدر اہل کفر کی عزت ہو اسی قدر اسلام کی ذلت ہے۔ اس سرشتہ کو اچھی طرح نگاہ میں رکھنا چاہئے۔ اکثر لوگوں نے اس سر رشتہ کو گم کر دیا ہے اور بدبختی سے دین کو برباد کر دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَايُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمُ: اے نبی کفار اور منافقین سے جہاد کر اور ان کے ساتھ سختی سے معاملہ کر ۔


کفار کے ساتھ جہاد کرنا اور ان پر سختی کرنا دین کی ضروریات میں سے ہے۔ کفر کی باقی رسمیں جو پہلے زمانہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ اس وقت کے بادشاہ اسلام کو اہل کفر کے ساتھ وہ توجہ نہیں رہی۔ مسلمانوں کے دلوں پر بہت گراں اور بھاری معلوم ہوتی ہیں ۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ بادشاہ اسلام کو ان بدمذہبوں کی رسموں کی برائی سے اطلاع بخشیں اور ان کے دور کرنے میں کوشش کریں شاید بادشاہ کو ان بقایا رسوم کی برائی کا علم نہ ہو اور اگر وقت کے لحاظ سے مناسب سمجھیں تو بعض علمائے اہل اسلام کو اطلاع دیں تا کہ وہ آکر اہل کفر کی برائی ظاہر کریں۔ کیونکہ احکام شرعی کی تبلیغ کے لئے خوارق و کرامات کا اظہار کرنا کچھ درکار نہیں۔ قیامت کے دن کوئی عذر نہ سنیں گے کہ تصرف کے بغیر احکام شرعی کی تبلیغ نہیں کی۔

انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام جو بہترین موجودات ہیں جب احکام شرعی کی تبلیغ کرتے تھے اور امت کے لوگ معجزہ طلب کرتے تھے تو فرماتے تھے کہ معجزات خدا کی طرف سے ہیں ہم احکام کا پہنچانا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس وقت شاید حق تعالیٰ ایسا امر ظاہر کر دے جو ان لوگوں کے حق ہونے کے اعتقاد کا باعث ہو جائے بہر حال مسائل شرعیہ کی حقیقت سے اطلاع دینا ضروری ہے۔ جب تک یہ واقع نہ ہو اس امر کی ذمہ داری علماء اور بادشاہ کی بارگاہ کے مقربوں پر ہے۔ یہ کس قدر بڑی سعادت ہے کہ اس گفتگو میں کسی جماعت کو تکلیف پہنچے۔


انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام نے احکام کی تبلیغ میں کون سی تکلیفیں ہیں جو برداشت نہیں کیں اور کیسی کیسی مصیبتیں ہیں جو ان کے پیش نہیں آئیں۔

انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام میں سے بہتر و مہتر علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ : ما اوذی نبی مثل ما او ذنت: کسی نبی کو ایسی ایذا نہیں پہنچی جیسی کہ مجھ کو ایذا پہنچی ہے۔

عمر بگذشت وحدیث عشق ما آخر نه شد
شب بآ خر شد کنوں کوتاہ کنم افسانه را


ترجمہ: عمر گزری پر نہ قصہ عشق کا پورا ہوا
رات آخر ہو گئی اب چھوڑتا ہوں ماجرا

والسلام

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا