2

مکتوب 208: اس سوال کے جواب میں کہ اس طریق کا سالک کبھی اپنے آپ کو انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کے مقامات میں پاتا ہے


مکتوب 208

اس سوال کے جواب میں کہ اس طریق کا سالک کبھی اپنے آپ کو انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کے مقامات میں پاتا ہے بلکہ بعض اوقات دیکھتا ہے کہ اس سے بھی اوپر چلا گیا ہے۔ اس میں کیا بھید ہے۔ حضرت مخدوم زادہ یعنی میاں محمد صادق سَلَّمَهُ اللهُ عَلَى مُفَارِقِ الْمُحِبَيْنَ کی طرف لکھا ہے:

میرے فرزند نے پوچھا تھا کہ اس طریق کا سالک مقامات عروج میں کبھی اپنے آپ کو انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کے مقامات میں پاتا ہے بلکہ بعض اوقات معلوم کرتا ہے کہ ان مقامات سے بھی بلند چلا گیا ہے۔ اس معنی کا بھید کیا ہے حالانکہ سب کا اس بات پر اتفاق اور اجتماع ہے کہ فضیلت انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے لئے ہے۔ اولیا جو کچھ حاصل کرتے ہیں یا ولایت کے کمالات تک پہنچتے ہیں۔ انہی کی متابعت سے پہنچتے ہیں ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کے وہ مقامات ان کے مقامات عروج کے نہایت نہیں ہیں بلکہ ان بزرگواروں کا عروج ان مقامات سے کئی مرتبہ بلند ہے کیونکہ وہ مقامات اسمائے الہی جل شانہ سے مراد ہیں جو ان کے تعینات کے مبادی اور حضرت حق تعالیٰ کی طرف سے فیوض کے وسیلے ہیں کیونکہ حضرت ذات کو اسماء کے وسیلہ کے بغیر عالم کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں ہے اور غنا کے سوا کوئی نسبت حاصل نہیں ہے۔ آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ ( اللہ جہان والوں سے غنی ہے ) اس معنی پر گواہ ہے اور جب یہ بزرگ وار مراتب عروج سے نزول فرماتے ہیں اور اوپر کے انوار کو اپنے ساتھ لے کر نیچے آتے ہیں تو ان اسماء میں ان کے مرتبوں کے اختلاف کے بموجب جو ان کے طبعی مقامات کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں اقامت فرماتے ہیں اور وطن بنا لیتے ہیں۔ پس اگر کوئی ان کو استقرار کے بعد ڈھونڈے تو ان کو انہی اسماء میں پائے گا۔ پس وہ بلند استعداد والا جو حضرت ذات کی طرف متوجہ ہے نا چار عروج کے وقت ان اسماء میں پہنچے گا اور اس جگہ اوپر کو گزر جائے گا ۔ الا ما شاء اللہ لیکن جب وہ سالک اوپر سے نیچے آئے گا

اور اس سم میں جو اس کے وجودی تعین کا مبدء ہے نزول کرے گا تو وہ اس میں بے شک ان اسموں سے جو انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کے مقامات ہیں بہت نیچے ہو گا

اور اس جگہ مقامات کا فرق ظاہر ہو جائے گا کیونکہ افضلیت کا مدار اس بات پر ہے کہ جس کا مقام بلند ہے وہی افضل ہے اور جب تک سالک اپنے اسم میں واپس نہ آئے اور اپنے اسم کو ان اسموں سے نیچے معلوم نہ کرے ان بزرگواروں کی افضلیت کو ذوق و حال کے طور پر معلوم نہیں کر سکتا بلکہ تقلید کے طور پر ان کو افضل کہتا ہے اور پہلے یقین پر ان کی اولیت کا حکم کرتا ہے لیکن اس کا وجدان و ذوق اس کے حکم کا مکذب ہے ایسے وقت میں بارگاہ الہی میں التجا اور زاری اور بجز دنیاز کرنا ضروری ہے تا کہ اصلی حقیقت ظاہر ہو جائے یہی وہ مقام ہے جہاں سالکوں کے قدم پھسل جاتے ہیں اس جواب کو ہم ایک مثال سے واضح کرتے ہیں ۔ معقولی یعنی اہل فلسفہ نے کہا ہے کہ دھواں خا کی اور آتشی اجزاء سے مرکب ہے جس وقت دھواں اوپر کو جاتا ہے تو خاکی اجزاء آتشی اجزاء کے ہمراہ اوپر چلے جاتے ہیں اور قاسر (۱) کا قسر حاصل ہونے سے عروج کر جاتے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ اگر دخان قوی ہو تو وہ کرہ نارتک صعود کر جاتا ہے۔ اس وقت اجزائے خاکی اجزائے آبی اور اجزائے ہوائی کے مقامات میں جو بالطبع فوقیت رکھتے ہیں، پہنچ جائیں گے اور وہاں سے عروج کر کے اوپر چڑھ جائیں گے۔ اس صورت میں یہ نہیں کہہ سکتے ۔ اجزائے خاکی کا مرتبہ اجزائے ہوائی کے رتبہ سے بلند تر ہے کیونکہ وہ فوقیت باعتبار قاسر کے ہے نہ باعتبار ذات کے اور کرہ نارتک پہنچنے کے بعد جب وہ اجزائے خاکی نیچے گریں گے اور اپنے اصلی مرکز پر پہنچیں گے تو بیشک ان کا مقام آب و ہوا کے مقام سے نیچے ہو گا۔

پس بحث مذکورہ میں اس سالک کا عروج بھی ان مقامات سے باعتبار قاسر کے ہے اور وہ قاسر گرمئی محبت کی زیادتی اور جذبہ عشق کی قوت ہے اور ذات کے اعتبار سے اس کا مقام ان مقامات سے بہت نیچے ہے۔

یہ جواب جو کہا گیا ہے منتہی کے حال کے مناسب ہے لیکن اگر ابتداء میں یہ وہم پیدا ہو جائے اور اپنے آپ کو بزرگوں کے مقامات میں معلوم کرے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتداء اور توسط میں ہر مقام کا ظل اور مثال ہے اور مبتدی اور متوسط جب ان کے ظلال میں پہنچتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ ان مقامات کی حقیقت تک پہنچ گئے ہیں اور ظلال اور حقائق کے درمیان فرق نہیں کر سکتے اور ایسے ہی بزرگوں کے شبہ اور مثال کو جب اپنے مقامات کے ظلال میں پاتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ ان مقامات میں بزرگوں کے ساتھ مشترک ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہاں شے کے ظل کا نفس شے کے مانند ہونا لازم آتا ہے۔

اَللَّهُمَّ اَرِنَا حَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ كَمَا هِيَ وَ جَنِّبْنَا عَنِ الْاِشْتِغَالِ بِالْمَلاَ هِي بِحُرُمَةِ سَيّدِ الاَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ عَلَيْهِ وَعَلَى الهِ الصَّلَوَاتُ وَالتَسْلِيمَاتُ اَتَمُهَا وَاَكْمَلُهَا: يا اللہ تو ہم کو حضرت سید المرسلین صلى الله عليه وسلم کے طفیل اشیاء کی اصل حقیقت سے پورا پورا آگاہ کر اور لہو و لعب کے ساتھ مشغول ہونے سے بچا۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا