مکتوب 209
رسالہ مبدء و معاد کی بعض مشکل عبارتوں کے حل کرنے میں اور بعض عبارتوں کے بیان میں جو اس کی تائید میں لکھی گئی ہیں اور ایک مکتوب کے جواب میں جو اس طریق کی ضروری باتوں پر مشتمل ہے میر محمد نعمان بدخشی کی طرف لکھا ہے۔
بسم اللهِ الرَّحمن الرَّحِيم
الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ العَلَمِينَ وَالصَّلوةُ وَالسَّلامُ عَلَى سَيّدِ الْمُرْسَلِينَ وَالِهِ الطَّاهِرِينَ أَجْمَعِينَ الله رب العٰلمین کی حمد ہے اور سید المرسلین اور ان کی آل پاک پر صلٰوۃ وسلام ہو ۔
میرے سیادت پناہ عزیز بھائی میر حمد نعمان جمعیت سے رہیں ۔ اس طرف کے احوال حمد کے لائق ہیں۔ سرائے فرخ میں رخصت ہونے کے وقت آپ نے اور برادرم محمد اشرف نے اس عبارت کے معنی جو رسالہ مبدء ومعاد میں واقع ہے، پوچھی تھی چونکہ وقت نے یاوری نہ کی اس لئے توقف میں رہی۔ اب دل میں آیا کہ اس عبارت کے حل میں کچھ لکھا جائے تا کہ دوستوں کی تسلی اور تشفی کا موجب ہو ۔ رسالہ کی عبارت یہ ہے کہ:
آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے رحلت فرمانے سے ہزار اور چند سال کے بعد ایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ حقیقت محمدی اپنے مقام سے عروج فرماتی ہے اور حقیقت کعبہ کے مقام سے متحد ہو جاتی ہے اور اس وقت حقیقت محمدی کا نام حقیقت احمدی ہو جاتا ہے اور ذات احد جل سلطانہ کا مظہر بن جاتی ہے اور دونوں اسم مبارک اپنے مسمٰی کے ساتھ متحقق ہو جاتے ہیں اور پہلا مقام حقیقت محمد ی سے خالی رہے گا۔ یہاں تک کہ حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نزول فرمائیں اور شریعت محمدی علیہ الصلوۃ والسلام کے موافق عمل کریں۔ اس وقت حقیقت عیسوی اپنے مقام نے عروج فرما کر حقیقت محمدی کے مقام میں جو خالی رہا تھا، قرار پکڑے گی۔
جانا چاہئے کہ شخص کی حقیقت اس کے تعین وجوبی سے مراد ہے کہ اس شخص کا تعین امکانی اس تعین کا حل ہے اور وہ تعین و جوبی اسمائے الہی مثل علیم وقد بر ومرید و متکلم وغیرہ میں سے ایک اہم ہے اور وہ اسم الہی اس شخص کا رب اور اس کے وجودی فیوض کا مبدء ہے اور اس اسم کی نسبت ا حضرت ذات کے ساتھ مختلف مراتب میں ہے۔ مرتبہ صفت میں اور توابع وجودی کہ اس کا وجود ذات کے وجود پر زائد ہے۔ یہی اسم اطلاق پاتا ہے اور مرتبہ شان میں بھی کہ اس کی زیادتی ذات پر مجرد اعتبار سے ہے۔ یہی اسم صادق آتا ہے اور صفت و شان کے درمیان فرق اس مکتوب میں جو سلوک اور جذبہ کے بیان میں لکھا گیا تھا۔ مفصل ذکر پاچکا ہے۔ اگر معلوم نہ ہو تو اس مکتوب کی طرف رجوع کریں اور شک نہیں ہے کہ شان کا حاصل ہونا بھی اگر چہ مجرد اعتبار ہے اس بات کی اقتضا کرتا ہے کہ اس سے اوپر اس کی شان کے مناسب اور زائد معنی ہوں جواس کے وجود اعتباری کا مبدء ہوں ۔ پس اس اسم کو اس مرتبہ سے بھی نصیب حاصل ہے اور اس معنی زائدہ کے فوق میں بھی یہ احتمال جاری ہے لیکن قوت بشری اس کے ضبط کرنے سے عاجز ہے۔ اس فقیر بےبضاعت
نے ایک اور مرتبہ کو بھی عبور کیا ہے لیکن اس مرتبہ کے فوق میں سوائے استغراق اور نیستی کے کچھ حاصل نہیں ہے۔ وفوق كل ذی علم علیم ہر صاحب علم کے اوپر علم والا ہے
هَنِيئًا لِاَرُبَابِ النَّعِيمِ نَعِيْمَهَا
وَ لِلْعَاشِقِ الْمِسْكِينِ مَا يَتَجَرَّعْ
ترجمہ: مبارک منعموں کو ناز و نعمت
مبارک عاشقوں کو درد و کلفت
اہل اللہ کی ایک دوسرے پر فضیلت اپنی اپنی استعداد اور قابلیت کے موافق مختلف مراتب کے طے کرنے کے اعتبار سے ہے اور اس اسم سے واصل اولیاء بہت تھوڑے ہیں کیونکہ اکثر ان میں سے سلوک اور سیر تفصیلی کے طریق پر تمام مراتب امکانیہ سے عروج کرنے کے بعد اسم کے ظلال میں سے کسی ظل تک واصل ہیں اور صرف جذبہ کے طریق سے بھی اس اسم تک واصل ہونے کا وہم کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بے اعتبار اور بے اعتماد ہے اور وہ لوگ جنہوں نے اس اسم سے عروج کیا ہے اور مراتب متفاوتہ کو کم و بیش طے کیا ہے، وہ بہت ہی تھوڑے ہیں۔
اب ہم اصل بات کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شخص کی حقیقت جیسا کہ تعین وجوبی کو کہتے ہیں۔ یعین امکانی کو بھی کہتے ہیں جب یہ مقدمات معلوم ہو گئے تو میں کہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم تمام مخلوقات کی طرح عالم خلق اور عالم امر سے مرکب ہیں اور وہ اسم الہی جو ان کے عالم خلق کی تربیت کرنے والا ہے۔ شان العلیم ہے اور وہ جو ان کے عالم امر کی تربیت فرماتا ہے وہ معنی ہے جو اس شان کے وجود اعتباری کا مبدء ہے جیسا کہ گزر چکا ہے اور حقیقت محمدی شان العلیم سے مراد ہے اور حقیقت احمد کی اس معنی سے کنایہ ہے جو اس شان کا مبدء ہے اور حقیقت کعبہ سبحانی بھی اس معنی سے مراد ہے اور وہ نبوت جو حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش سے پہلے آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کو حاصل تھی اور اس مرتبہ کی نسبت خبر دی ہے اور فرمایا ہے کہ محنت نَبِيًّا وَادَمُ بَيْنَ الْمَاءِ وَالطَّيْنِ میں نبی تھا جبکہ آدم ابھی پانی اور کیچڑ میں تھے ۔ وہ اعتبار حقیقت احمدی کے تھی جس کا تعلق عالم امر سے ہے اور اس اعتبار سے حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے جو کلمتہ اللہ تھے اور عالم امر سے زیادہ مناسبت رکھتے تھے ۔ آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کی تشریف آوری کی خوشخبری اسم احمد سے دی ہے اور فرمایا ہے مُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَّأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ خوشخبری دینے والا ایک رسول کی جو اس کے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہے اور وہ نبوت جو عصری پیدائش سے تعلق رکھتی ہے وہ صرف حقیقت محمدی کے اعتبار سے نہیں ہے ، بلکہ دونوں حقیقتوں کے اعتبار سے ہے اور اس مرتبہ میں آپ کی تربیت کرنے والی وہ شان اور اس شان کا مبدء ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ کی دعوت پہلی مرتبہ کی دعوت کی نسبت زیادہ اہم ہے کیونکا۔ اس مرتبہ میں آپ کی دعوت عالم امر سے مخصوص تھی اور آپ کی تربیت روحانیوں پر منحصر تھی اور اس مرتبہ میں آپ کی دعوت خلق و امر کو شامل ہے اور آپ کی تربیت اجساد وارواح پر مشتمل ہے۔
حاصل کلام یہ کہ اس جہان میں آپ کی عنصری پیدائش کو آپ کی ملکی پیدائش پر غالب کیا ہوا تھا تا کہ مخلوقات کے ساتھ جن میں بشریت زیادہ غالب ہے۔ وہ مناسبت جو افادہ اور استفادہ کا سبب ہے زیادہ پیدا ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ اپنے حبیب صلى الله عليه وسلم کو اپنی بشریت کے ظاہر کرنے کے لئے بڑی تاکید سے امر فرماتا ہے کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى الى كہ ميں بھی تمہاری طرح بشر ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے ۔ لفظ مِثْلُكُمُ کا لانا تاکید بشریت کے لئے ہے اور وجود عنصری سے رحلت کر جانے کے بعد حضور صلى الله عليه وسلم کی روحانیت کی جانب غالب ہوگئی اور بشریت کی مناسبت گم ہوگئی اور دعوت کی نورانیت میں تفاوت پیدا ہو گیا۔
بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے فرمایا ہے کہ ابھی ہم آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کے دفن سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ ہم نے اپنے دلوں میں تفاوت معلوم کیا ۔ ہاں ایمان شہودی ایمان غیبی سے جل گیا اور معاملہ آغوش سے گوش تک آپہنچا اور دیکھنے سے سننے تک نوبت آ گئی اور حضور کے زمانہ سے جب ہزار سال گزرے جو بڑی لمبی مدت اور بڑا دراز زمانہ ہے تو روحانیت کی طرف اس طرح غالب ہوئی کہ بشریت کی تمام جانب کو اپنے رنگ میں رنگ دیا حتیٰ کہ عالم خلق نے عالم امر کا رنگ اختیار کیا۔ پس نا چار حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے عالم خلق سے جس چیز نے اپنی حقیقت کی طرف رجوع کی تھی۔ یعنی حقیقت محمدی عروج کر کے حقیقت احمدی سے لاحق ہو گئی اور حقیقت محمدی حقیقت احمدی سے متحد ہو گئی۔
اس جگہ حقیقت محمدی اور حقیقت احمدی سے مراد حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے خلق وامر کا تعین امکانی ہے۔ نہ تعین و جو بی کہ تعین امکانی اس کا ظل ہے کیونکہ تعین وجوبی کے عروج کے کچھ معنی نہیں اور اس تعین کے ساتھ متحد ہونا معقول نہیں ہے۔
جب حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نزول فرمائیں گے تو حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوۃ والسلام کی شریعت کی متابعت کریں گے اور اپنے مقام سے عروج فرما کر تبعیت کے طور پر حقیقت محمدی کے مقام میں پہنچیں گے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے دین کی تقویت کریں گے۔ گزشتہ شریعتوں کا بھی یہی حال تھا کہ اولوالعزم پیغمبروں کے رحلت فرما جانے سے ہزار سال کے بعد انبیائے کرام اور رسل عظام مبعوث ہوتے تھے جو ان پیغمبروں کی شریعت کو تقویت دیتے تھے
اور ان کے کلمہ کو بلند کرتے تھے اور جب پیغمبر اولوالعزم کی دعوت و شریعت کا دورہ تمام ہو جاتا تھا تو دوسرا اولوالعزم پیغمبر مبعوث ہو جاتا تھا اور نئے سرے سے اپنی شریعت ظاہر کرتا تھا اور چونکہ حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوۃ والسلام کی شریعت نسخ و تبدیل سے محفوظ ہے اس لئے حضور کی امت کے علماء کو انبیاء کا مرتبہ عطا فرما کر شریعت کی تقویت اور ملت کی تائید کا کام ان کے سپرد فرمایا ہے بلکہ ایک اولو العزم پیغمبر کو حضور کا تابعدار بنا کر حضور کی شریعت کو ترقی بخشی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ہم ہی نے قرآن مجید کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
اور جاننا چاہئے کہ حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوۃ والسلام کے رحلت کر جانے سے ہزار سال بعد حضور کی امت کے اولیاء جو ظاہر ہوں گے اگرچہ وہ قلیل ہوں گے مگر اکمل ہوں گے تا کہ اس شریعت کی تقویت پورے طور پر کر سکیں ۔
حضرت مہدی جن کی تشریف آوری کی نسبت خاتم الرسل علیہ الصلوۃ و السلام نے بشارت فرمائی ہے۔ ہزار سال کے بعد پیدا ہوں گے اور حضرت عیسٰی علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام خود بھی ہزار سال کے بعد نزول فرمائیں گے۔
خلاصہ یہ کہ اس طبقہ کے اولیاء کے کمالات اصحاب کرام کے کمالات کی مانند ہیں اگرچہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد فضیلت و بزرگی اصحاب کرام کے لئے ہے لیکن یہ مناسب نہیں کہ کمال مشابہت سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دے سکیں ۔
اور ہو سکتا ہے کہ اسی وجہ سے آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہو کہ لا یدری اَوَّلُهُمْ خَيْرامُ اخِرُهُمُ نہیں ۔ معلوم ان میں سے اوّل کے بہتر ہیں یا آخر کے اور یہ نہیں فرمایا که اَدْرِى أَوَّلُهُمْ خَيْرُامْ آخِرُهُمُ میں جانتا ہوں کہ ان میں سے اوّل کے بہتر ہیں یا آخر کے کیونکہ فریقین میں سے ہر ایک کا حال آپ کو معلوم تھا۔ اسی واسطے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خَيْرُ الْقُرُونِ قَرْنِی سب زمانوں سے بہتر میر از مانہ ہے لیکن چونکہ کمال مشابہت کے باعث تردد کا مقام تھا اس لئے لا یدری فرمایا ہے۔
اگر کوئی سوال کرے کہ آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے اصحاب کے زمانہ کے بعد تابعین کے زمانہ کو اور تابعین کے زمانہ کے بعد تبع تابعین کے زمانہ کو بہتر فرمایا ہے تو یہ دونوں قرن بھی یقیناً اس گروہ سے بہتر ہوں گے۔ پھر یہ طبقہ کمالات میں اصحاب کرام کے ساتھ کیسے مشابہ ہو گا تو اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ اس قرن کا اس طبقہ سے بہتر ہونا اس اعتبار سے ہو کہ اولیاء اللہ کا ظہور کثرت سے ہوگا اور بدعتیوں اور بدکاروں اور گناہگاروں کا وجود کم ہوگا اور یہ امر ہرگز اس بات کے منافی نہیں کہ اس طبقہ کے اولیاء اللہ میں سے بعض افراد ان دونوں قرنوں کے اولیا ء سے بہتر ہوں جیسا کہ حضرت مہدی
فیض روح القدس ارباز مددفر ماید
دیگراں ہم بکنند آنچه مسیحا میکرد
ترجمه: فیض روح القدس کا گردے مدد تو اور بھی
کر دکھا ئیں کام وہ جو کچھ مسیحا سے ہوا
لیکن اصحاب کا زمانہ تمام طرح سے بہتر ہے۔ اس کی نسبت گفتگو کرنا فضول ہے۔ سابق سابق ہی ہیں اور جست نعیم میں مقرب ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ دوسروں کا پہاڑ جتنا سونا خرچ کرنا ان کے ایک مد جو خرچ کرنے کے برابر نہیں ہے۔ واللهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَته مَنْ يَّشَاءُ الله تعالى جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت سے خاص کرتا ہے۔
جاننا چاہئے کہ پہلے بیان سے اس عبارت کے معنی واضح ہو گئے جو رسالہ مبدء ومعاد میں اس عبارت کے اوپر لکھی گئی ہے کہ کعبہ ربانی کی حقیقت حقیقت محمدی کی مسجود ہوگئی کیونکہ کعبہ ربانی کی حقیقت بعینہ حقیقت احمدی ہے کہ حقیقت محمدی در اصل اس کا حل ہے۔ پس ناچار حقیقت محمدی کی مسجود ہوگی۔ اگر سوال کریں کہ کعبہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اولیائے امت کے طواف کے ۔ لئے آتا ہے اور ان سے برکات حاصل کرتا ہے حالانکہ اس کی حقیقت حقیقت محمدی پر متقدم ہے تو پھر یہ بات کس طرح جائز ہوگی ؟
میں جواب میں کہتا ہوں کہ حقیقت محمدی تنزیہ اور تقدیس کی بلندی سے محمد علیہ الصلوۃ والسلام کے نزول کرنے کے مقامات کی نہایت ہے اور کعبہ کی حقیقت عروج کعبہ کے مقامات کی نہایت ہے اور حقیقت محمدی کے واسطے مرتبہ تنزیہ پر عروج کرنے کے لئے پہلا مرتبہ حقیقت کعبہ ہے اور حقیقت محمدی کے عروج کی نہایت کو سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا اور جب حضور صلى الله عليه وسلم کی امت میں سے کامل اولیاء کو آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کے عروجات سے پورا پورا حصہ حاصل ہے تو پھر اگر کعبہ ان بزرگواروں سے برکات حاصل کرے تو کیا تعجب ہے
زمین زاده بر آسماں تافته
زمین و زماں را پس انداخته
ترجمہ: زمیں زادہ اتنا فلک پر چڑھا
ز میں آسماں اس سے پیچھے رہا
اور دوسری عبارت بھی جو اس رسالہ سے اس مقام میں لکھی گئی تھی، حل ہوگئی اور وہ عبارت یہ ہے کہ کعبہ کی صورت جس طرح کہ اشیاء کی صورتوں کی مسجود ہے۔ اسی طرح کعبہ کی حقیقت بھی ان اشیاء کی حقیقتوں کی مسجود ہے کیونکہ مقدمات سابقہ سے معلوم ہوا ہے کہ حقائق اشیاء ان اسمائے الہی سے مراد ہے جو ان کے وجود اور ان کے وجود کے متعلقات کے فیوض کا مبدء ہیں اور حقیقت کعبہ ان اسماء کے فوق ہے۔ پس بیشک حقیقت کعبہ حقائق اشیاء کی مسجود ہوگی ۔ ہاں اگر اولیاء میں سے اکمل کو حقیقت کعبہ سے بالاتر سیر واقع ہو جائے اور بلندی کے انوار کو حاصل کر کے اپنے حقائق کے مراتب میں جو مراتب عروج میں اشیاء کے طبعی مقامات کی مانند ہیں، نیچے اتر آئیں تو کعبہ ان کی برکات سے توقع رکھے گا جیسا کہ پہلے گزر چکا۔
اور نیز رسالہ مبدء و معاد میں چند فقرے انبیاء اوالوالعزم کے ایک دوسرے سے افضل ہونے میں لکھے گئے تھے۔ ان کے ایک دوسرے کے افضل ہونے کے معنی چونکہ کشف و الہام پر مبنی ہیں جو ظنی ہیں اس لئے اس کے لکھنے اور فضیلت میں تفرقہ کرنے سے ندامت اور توبہ کرتا ہے کیونکہ قطعی دلیل کے سواء اس بارے میں گفتگو کرنا جائز نہیں۔ اَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ مِنْ جَمِيعِ مَا كَرِهُ اللهُ قَوْلاً وَفِعلاً میں ان تمام قول وفعل سے جو اللہ کو نا پسند ہیں توبہ کرتا ہوں اور بخشش مانگتا ہوں
۔ آپ نے اپنے مکتوب میں یہ بھی لکھا تھا کہ:
میں نے سرائے فرخ میں پوچھا تھا کہ طالبوں کو طریقت سکھانا میرے حال کے مناسب ہے یا نہیں اور تم نے جواب میں لکھا تھا کہ نہیں ۔
فقیر کو یاد نہیں رہا کہ عام طور پر نفی کی ہو بلکہ یہ کہا ہوگا کہ شرائط پر مشروط ہے۔ بے شرائط ہرگز مناسب نہیں اور اب بھی اسی طرح جاننا چاہئے کہ شرائط کو مدنظر رکھنے میں بڑی احتیاط کریں اور ہرگز سستی نہ کریں اور جب تک استخاروں کے ساتھ اس بات کا یقین نہ ہو جائے کہ طریقہ سکھانا چاہئے تب تک کسی کو نہ سکھائیں اور برادرم مولانا یار محمد قدیم کی بھی اس بات کی طرف رہنمائی کریں اور بڑی تاکید سے کہیں کہ طریقت چلانے میں جلدی نہ کرے کیونکہ مقصود دکان کھولنا نہیں ہے بلکہ حق تعالیٰ کی مرضی کو مدنظر رکھنا چاہئے ، اطلاع دینا شرط ہے۔
دوسرا یہ کہ آپ نے اپنے مریدوں کی نسبت گلہ کیا تھا۔ گلہ تو آپ کو اپنی وضع کی نسبت کرنا چاہئے تھا کیونکہ آپ اس جماعت سے اس طرح زندگی بسر کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ آرزو و تکلیف ہے۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ پیر کو چاہئے کہ مریدوں کی نظر میں اپنے آپ کو آراستہ اور شان وشوکت سے رکھے نہ یہ کہ ان کے ساتھ اخلاط کا دروازہ کھول دے اور ان سے ہم نشینوں کی طرح سلوک کرے اور حکایت و گفتگو سے مجلس گرم رکھے۔
والسلام