3

مکتوب 220: صوفیوں کی بعض غلطیوں اور ان غلطیوں کے منشاء کے بیان میں


مکتوب 220

صوفیوں کی بعض غلطیوں اور ان غلطیوں کے منشاء کے بیان میں شیخ حمید بنگالی کی طرف لکھا ہے ۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَلَمِينَ وَالصَّلوةُ وَالسَّلامُ عَلَى سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ وَعَلَى وَالِهِ وَأَصْحَابِهِ وَعَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ اللہ رب العالمین کی حمد ہے اور حضرت سید المرسلین اور ان کی سب آل و اصحاب پر صلوۃ و سلام ہو ۔

اس طرف کے فقراء کے احوال و اوضاع دن بدن شکر کی زیادتی کا موجب ہیں دور افتادہ دوستوں کے بارے میں بھی یہیں امید رکھتا ہے۔

اے عزیز! اس غیب الغیب اینی اندھا دھند رستہ میں سالکوں کے قدم بہت پھسلتے ہیں ۔ آپ اعتقادات اور عملیات میں شریعت کو مد نظر رکھ کر زندگانی بسر کریں ۔ حضور و غیبت میں فقیر کی یہی نصیحت ہے۔ اس میں غفلت نہ ہونے پائے ۔

فقیر اس راستہ کی بعض غلطیوں کو لکھتا ہے اور اس غلط کا منشاء مقر ر کرتا ہے ۔ امید ہے کہ اعتبار کی نظر سے ملاحظہ فرمائیں گے اور ان مذکورہ جزئیات کے ماسوا ان کے اندازہ کے موافق کام کریں گے۔

جان لیں کہ صوفیہ کی بعض غلطی یہ ہے کہ کبھی سالک مقامات عروج میں اپنے آپ کو دوسروں سے بلند پاتا ہے جن کی افضلیت علماء کے اجماع سے ثابت ہوئی حالانکہ یقیناً اس سالک کا مقام ان بزرگواروں کے مقامات سے نیچے ہے بلکہ یہ اشتباہ بھی کبھی انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی نسبت بھی قطعی طور پر بہترین خلائق ہیں، واقع ہو جاتا ہے۔ عیاذ باللہ من ذلک اللہ تعالی اس سے محفوظ رکھے۔ اس بات میں بعض کی غلطی کا منشا یہ ہے کہ انبیاء واولیاء میں سے ہر ایک کا عروج پہلے ان اسماء تک ہے جو ان کے وجودی تعینات کے مبدء ہیں اور اس عروج سے دلایت کا اہم ہوتا ہے۔ دوسرے عروج ان اسماء میں اور ان اسماء سے الا ماشاء اللہ لیکن باوجود اس عروج کے ان میں سے ہر ایک کا مقام و منزل وہی اسم ہے جو اس کے وجودی تعین کا مبدور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقامات عروج میں جو کوئی ان کو ڈھونڈتا ہے اکثر انہی اسماء میں پاتا ہے کیونکہ ان بزرگواروں کے طبیعی مکان مراتب عروج میں وہی اسماء ہیں اور ان اسماء سے عروج و ہبوط کرنا عوارض کے سبب سے ہے۔ پس جب بلند فطرت سالک کی سیران اسماء سے بلند تر واقع ہوتو ضرور ان اسماء سے بھی بالا تر جائے گا اور اس کو یہ وہم پیدا ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس بات سے بچائے کہ یہ وہم اس پہلے یقین کو دور کر دے اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے افضل ہونے اور اولیاء کے اولی ہونے میں جو اجماع کے ساتھ افضل ہیں، اشتباہ پیدا کرے۔ یہ مقام سالکوں کے قدم پھسلنے کا مقام ہے۔ اس وقت سالک نہیں جانتا کہ ان بزرگواروں نے ان اسماء سے بے نہایت عروج فرمائے ہیں اور فوق الفوق میں پہنچے ہوئے ہیں اور نیز جاننا چاہئے کہ وہ اسماء ان کے عروج کے طبعی مکان ہیں اور اس کا بھی اس جگہ طبعی مکان ہے جو ان اسماء سے بہت نیچے اور پست ہے کیونکہ ہر شخص کا افضل ہونا اس کے اسم کے اقدم ہونے کے اعتبار سے ہے جو اس کے تعین کا مبدء ہوا ہے۔

اسی قسم سے ہے یہ بات جو بعض مشائخ نے کہی ہے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عارف کے مقامات عروج میں برزخیت کبری حائل نہیں ہوتی اور اس کے وسیلہ کے بغیر ترقی کرتا ہے۔

ہمارے حضرت خواجہ قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ رابعہ رضی اللہ عنہا بھی اسی جماعت سے ہے۔ یہ لوگ چونکہ عروج کے وقت اس اسم سے جو برزخیت کبری کے تعین کا مبدا ہے، اوپر گزرے ہیں۔ اس لئے ان کو وہم ہوا ہے کہ برزخیت کبری درمیان حائل نہیں رہی اور برزخیت کبری سے ان کی مراد حضرت رسالت خاتمیت صلى الله عليه وسلم کی حقیقت ہے اور اصل معاملہ وہی ہے جو اوپر گزرا ہے۔ اور بعض دوسرے کی اس غلطی کا منشا یہ ہے کہ جب سالک کا سیر اس اسم میں واقع ہوتا ہے جو اس کے یقین کا مبدء ہے اور وہ اسم مجمل طور پر تمام اسماء کا جامع ہے کیونکہ انسان کی جامعیت اسی قسم کی جامعیت کے باعث ہے۔ پس ناچار اس ضمن میں وہ اسماء بھی جو دوسرے مشائخ کے تعینات کے مبدء ہیں۔ مجمل طور پر اس سیر میں قطع کرے گا اور ہر ایک سے گزر کر اس اسم کے منتہاء تک پہنچ جائے گا اور اپنی فوقیت کا وہم پیدا کرے گا اور نہیں جانتا کہ مقامات مشائخ سے جو کچھ اس نے دیکھا ہے اور ان سے گزرکیا ہے۔ ان کے مقامات کا نمونہ ہے نہ کہ ان مقامات کی حقیقت اور جب اس مقام میں اپنے آپ کو جامع معلوم کرتا ہے اور دوسروں کو اپنے اجزاء خیال کرتا ہے تو اپنے اولی ہونے کا وہم پیدا کرتا ہے۔ اسی مقام میں شیخ بسطام قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ لِوَائِی اَرْفَعُ مِنْ لِوَاءِ مُحَمَّدٍ میرا جھنڈا امحمد صلى الله عليه وسلم کے جھنڈے سے زیادہ بلند ہیں۔ غلبہ سکر کے باعث نہیں جانتے کہ ان کے جھنڈے کی بلندی محمد صلى الله عليه وسلم کے جھنڈے سے بلند نہیں ہے بلکہ ان کے جھنڈے کے نمونہ سے ہے جو ان کے اسم کی حقیقت کے ضمن میں مشہور ہوا ہے اور اسی قسم سے ہے وہ بات جو انہوں نے اپنے قلب کی وسعت کے بارے میں کہی ہے کہ اگر عرش اور مافیہ کو عارف کے قلب کے گوشہ میں رکھ دیں تو کچھ محسوس نہ ہو۔ یہاں بھی نمونہ کا حقیقت سے اشتباہ ہے ورنہ عرش کے مقابلہ میں جس کو حق تعالیٰ عظیم فرماتا ہے۔ عارف کے قلب کا کیا اعتبار اور مقدار ہے ۔ وہ ظہور جو عرش میں ہے اس کا سواں حصہ بھی قلب میں نہیں ہے۔ اگر چہ عارف کا قلب ہی کیوں نہ ہو کیونکہ رویت اخروی عرش کے ظہور پر متفق ہوگی ۔ یہ بات اگر چہ آج بعض صوفیاء کو نا گوار گزرے گی لیکن آخر کار ایک دن ان کی سمجھ میں آجائے گی ۔


اس بات کو ہم ایک مثال سے روشن کرتے ہیں کہ انسان چونکہ عناصر وافلاک کا جامع ہے جب اس کی نظر اپنی جامعیت پر پڑتی ہے تو عناصر و افلاک کو اپنے اجزا دیکھتا ہے اور جب یہ دید غالب آ جائے تو کچھ دور نہیں کہ اگر وہ یہ بات کہہ دے کہ میں کرہ زمین سے بڑا ہوں اور آسمانوں سے فراخ تر ہوں۔ اس وقت عاقل لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کی عظمت و بڑائی اس کے اپنے اجزاء سے ہے اور کرہ زمین اور آسمان حقیقت میں اس کے اجزا نہیں ہیں بلکہ اس کے ان اجزاء کا نمونہ بنے ہوئے ہیں اور اس کی بزرگی ان نمونوں سے ہے جو اس کے اجزاء ہیں نہ کہ کرہ ارضی و سماوی کی حقیقت سے اور اسی وجہ سے کہ کسی شے کا نمونہ اس کی حقیقت کے متشابہ ہوتا ہے۔ فتوحات مکیہ والے (حضرت ابن العربی رضی اللہ عنہ ) نے کہا ہے کہ جمع محمدی جمع الہی سے اجمع ہے کیونکہ جمع محمدی کونی اور الہی حقائق پر مشتمل ہے۔ پس اجمع ہوگی اور نہیں جانتا کہ یہ اشتمال مرتبہ الوہیت کے ظلال میں سے ایک ظل ہے اور اس کے نمونوں میں سے ایک نمونہ پر ہے۔ نہ کہ وہ اشتمال اس مرتبہ مقدسہ کی حقیقت پر ۔ بلکہ اس مرتبہ کے پہلو میں کہ عظمت و کبریائی اس کے لوازم سے ہے۔ جمع محمدی کی کچھ مقدار نہیں ہے۔ مَالِلتُّرَابِ وَرَبُّ الْأَرْبَابِ –


چه نسبت خاک را با عالم پاک


اور نیز اس مقام میں جبکہ سالک کا سیر اس اسم میں جو اس کا رب ہے، واقع ہوتا ہے تو بسا اوقات خیال کرتا ہے کہ بعض بزرگوار جو یقینا اس سے افضل ہیں اس کے وسیلہ سے بلند مقامات میں پہنچے ہیں اور اس کے وسیلہ سے ترقی کی ہے۔ یہاں بھی سالکوں کے قدم پھسلنے کا مقام ہے۔ اللہ پناہ دے کہ اس کمال سے کوئی اپنے آپ کو افضل جانے اور ہمیشہ کا خسارہ حاصل کرے۔

اچھا اگر بادشاہ عظیم الشان کسی زمیندار کی مدد سے جو اسی کی سلطنت میں داخل ہے، جائے اور اس زمیندار کے وسیلہ سے بعض مقامات میں پہنچے اور اس کے ذریعے سے بعض جگہوں کو فتح کرے تو اس میں کونسی تعجب کی بات ہے اور اس میں کیا فضیلت ہے۔


حاصل کلام یہ ہے کہ یہاں جز کی فضیلت کا احتمال ہے جو بحث سے خارج ہے کیونکہ ہر ایک حجام اور جولاہا اپنی کسی خاص وجہ سے باعث ہر عالم ذو فنوں اور حکیم بوقلموں پر فضیلت رکھتا ہے لیکن یہ فضیلت اعتبار سے خارج ہے اور وہ جو معتبر ہے وہ فضیلت کلی ہے جو عالم وحکیم کے لئے ثابت ہے۔

اس درویش کو بھی اس قسم کے اشتباہ بہت واقع ہوئے تھے اور اس قسم کی خیالی باتیں بہت پیدا ہوئی تھیں اور مدتوں تک یہ حالت رہی لیکن باوجود اس کے فضل خداوندی شامل حال رہا کہ پہلے دائمی یقین میں تذبذب پیدا نہ ہوا اور متفق علیہ اعتقاد میں فتور واقع نہ ہوا۔ لِلَّهِ سُبْحَانَهُ اَلحَمدُ وَالْمِنَنُ عَلَى ذَلِكَ وَعَلَى جَمِيعِ نِعْمَانِہ اس نعمت پر اور تمام نعمتوں پر اللہ کی حمد اور اس کا احسان ہے اور جو کچھ مجمع علیہ کے خلاف ظاہر ہوتا تھا۔ اس کا کچھ اعتبار نہ کرتا تھا اور اس کو نیک توجیہ کی طرف پھیرتا تھا اور مجمل طور پر اتنا جانتا تھا کہ اس کشف کے صحیح ہونے پر بھی یہ زیادتی جزئی فضیلت پر ہوگی اگر چہ یہ وسوسہ بھی پیش آتا تھا کہ فضیلت کا مدار قرب الہی پر ہے اور یہ زیادتی اسی قرب میں ہے، پھر جزئی کیوں ہوگی لیکن پہلے یقین کے مقابلہ میں یہ وسوسہ گرد کی طرح اڑ جاتا تھا اور کچھ اعتبار نہ رکھتا تھا بلکہ تو بہ واستغفار وسنت و جماعت کے معتقدات کے خلاف سرمو منکشف نہ ہو۔

ایک دن یہ خوف غالب ہوا کہ مبادا ان کشفوں پر مواخذہ کریں اور ان وہمی باتوں کی نسبت پوچھیں ۔ اس خوف کے غلبہ نے بڑا بے قرار اور بے آرام کیا اور بارگاہ الہی میں بڑی التجا اور زاری کا باعث ہوا۔ یہ حالت بہت مدت تک رہی۔ اتفاقاً اسی حالت میں ایک بزرگ کے مزار پر گزرہوا اور اس معاملہ میں اس عزیز کو اپنا مددگار بنایا۔ اسی اثناء میں خداوند تعالیٰ کی عنایت شامل حال ہوئی اور معاملہ کی حقیقت کما حقہ ظاہر کر دی گئی اور حضرت رسالت خاتمیت صلى الله عليه وسلم جو رحمت عالمیاں ہیں ۔ ان کی روح مبارک نے حضور فرمایا اور غمناک دل کی تسلی کی اور معلوم ہوا کہ بیشک قرب الہی ہی فضل کلی کا موجب ہے لیکن یہ قرب جو تجھے حاصل ہوا ہے۔ الوہیت کے ان مراتب کے ظلال میں سے ایک ظل کا قرب ہے جو اس اسم سے مخصوص ہیں جو تیرا رب ہے۔ پس فضل کلی کا موجب نہ ہوگا اور اس مقام کی مثالی صورت کو اس طرح مجھ پر منکشف کیا کہ کوئی شک وشبہ نہ رہا اور اس اشتباه کامل بالکل دور ہو گیا اور بعض وہ علوم جو اشتباہ کامل رکھتے ہیں اور ان میں تاویل و توجیہ کی گنجائش ہے اور اپنی کتابوں اور رسالوں میں لکھی تھی۔ زیادہ منکشف ہوئی۔

اس فقیر نے چاہا کہ ان علوم کے اغلاط کا منشاء جو محض فضل خداوندی جل شانہ سے ظاہر ہوا ہے ، لکھے اور شائع کردے کیونکہ گناہ مشتہر کیلئے توبہ کا اشتہار ضروری ہے تا کہ لوگ ان علوم سے خلاف شریعت نہ سمجھ لیں اور تقلید کر کے گمراہی میں نہ جاپڑیں یا تکلف و تعصب سے گمراہی و جہالت اختیار نہ کریں کیونکہ اس اندھا دھند رستہ میں اس قسم کی عجیب باتیں بہت ظاہر ہوتی ہیں جو بعض کو ہدایت کی طرف لے جاتی ہیں اور بعض کو گمراہی میں ڈال دیتی ہیں۔

اس فقیر نے اپنے والد بزرگوار قدس سرہ سے سنا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بہتر (72 ) گروہوں میں سے اکثر جو گمراہ ہو گئے ہیں اور سیدھے راستہ سے بھٹک گئے ہیں ان کا باعث طریق صوفیاء میں داخل ہونا ہے کہ انہوں نے کام کو انجام تک نہ پہنچا کر غلط راہ اختیار کیا اور گمراہ ہو گئے ۔ والسلام۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا