2

مکتوب 221: طریقہ علیہ نقشبندیہ کی خصوصیتوں اور کمالوں کے بیان میں


مکتوب 221

طریقہ علیہ نقشبندیہ کی خصوصیتوں اور کمالوں کے بیان میں یعنی اس طریق کے افضل ہونے اور دوسروں کی انتہاء اس کی ابتداء میں مندرج ہونے اور اس طریق کے انتہاء کے بیان میں اور سفر در وطن اور خلوت در انجمن اور سلوک پر جذ بہ کے مقدم ہونے کے بیان میں اور اس بیان کہ اس طریق میں سیر کی ابتداء عالم امر سے ہے اور یہ طریقہ موصل الی اللہ طریقوں میں سے سب سے اقرب ہے اور یہ طریقہ ایسا ہے کہ اس کے ابتداء میں حلاوت اور وجدان ہے اور انتہاء میں بے مزگی اور فقدان جو نا امیدی کے لوازم سے ہے اور ایسا ہی اس طریق کے ابتداء میں قرب و شہود ہے اور انتہاء میں بعد و ترمان اور اس طریقہ کے بزرگواروں نے احوال و مواجید کو احکام شرعی کے تابع کیا ہے اور ذوق و معرفتوں کو علوم دینی کا خادم بنایا ہے اور اس طریق میں پیری و مریدی طریقت کے سیکھنے اور سکھانے پر ہے اور نہ کلاہ و شجرہ پر اور اس طریق میں نفس امارہ کے ساتھ ریاضتیں اور مجاہدے احکام شرعی کے بجالانے اور سنت سادیہ علی صاحبہا والصلوۃ والسلام کے لازم پکڑنے سے ہیں اور اس طریق میں سالک کا سلوک شیخ مقتدا کے تصرف پر منحصر ہے اور جس طرح یہ بزرگوار نسبت عطا کرنے میں کامل طاقت رکھتے ہیں۔ اسی طرح اس نسبت کے سلب کرنے میں بھی پوری طاقت رکھتے ہیں اور اس طریق میں زیادہ تر افادہ اور استفادہ خاموشی میں ہے اور خاموشی اس طریق کے لوازم سے ہے اور اس کے مناسب میں سید حسین مانک پوری کی طرف
لکھا ہے:-


الْحَمْدُ للهِ رَبِّ العَلَمينَ وَالصَّلوةُ وَالسَّلامُ عَلى سَيّدِ الْمُرْسَلِينَ وَالِهِ الطَّاهِرِينَ وَعَلَيْهِمُ اَجْمَعِيْنَ.

میرے عزیز بھائی سیادت پناہ میرسید حسین نے دور پڑے ہوؤں کو فراموش نہ کیا ہوگا اور اس طریقہ علیہ کے آداب کی رعایت کو جو مشائخ کرام کے عظام کے تمام طریقوں سے کئی وجہ سے ممتاز ہے۔ ہاتھ سے نہ دیا ہو گا۔ چونکہ آپ کو ملاقات کی فرصت کم ملی ۔ اس لئے مطلب کو مد نظر رکھ کر اس طریقہ علیہ کی بعض خصوصیتوں اور کمالات کو علوم بلند و معارف ارجمند کے ضمن میں لکھتا ہے۔

اگرچہ معلوم ہے کہ اس قسم کے علوم و معارف کا سمجھنا بالفعل سننے والوں کے فہموں سے بعید ہے لیکن ایسے مصارف اختیار کرنا دو باتوں سے ہے ایک یہ کہ سننے والے کو ان علوم کی استعداد ہے اگرچہ اس کو بالفعل دور اذکار دکھائی دیتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اگر چہ ظاہر میں مخاطب معین ہے لیکن حقیقت میں مخاطب وہ شخص ہے جو اس معاملہ سے واقف ہے۔ السَّيْفُ لِلطَّارِب ( تلوار مارنے والے کیلئے ہے ) مثل مشہور ہے۔


اے بردار! اس بلند طریق کے سر حلقہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں جو انبیاء علیہم والصلوۃ والسلام کے بعد تحقیقی طور پر تمام نبی آدم سے افضل ہیں اور اسی اعتبار سے اس طریق کے بزرگواروں کی عبارتوں میں آیا ہے کہ ہماری نسبت تمام نسبتوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ ان کی نسبت جس سے مراد حضور اور آگا ہی ہے۔ بیعنہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت اور حضور ہے جو تمامآگاہیوں سے بڑھ کر ہے اور اس طریق میں نہایت اس کے ابتدا میں درج ہے۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ ہم نہایت کو ابتدا میں درج کرتے ہیں۔

قیاس کن زگلستان من بہار مرا
ترجمہ : قیاس کرلے گلستان تو بہار مری


اور اگر کوئی پوچھے کہ جب دوسروں کی انتہا ان کے ابتدا میں مندرج ہوئی تو پھر ان کی انتہا کیا ہوگی۔ نیز جب دوسروں کی نہایت وصول حق ہے تو پھر ان کو حق سے آگے کہاں تک سیر میسر ہوگی۔


حالانکه لَيْسَ وَرَاءُ الْعُبَّادَانِ قَرْيَةٌ ( جزيرة عباد ان کے آگے اور کوئی گاؤں نہیں ہے ) مثل مشہور ہے تو میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ :

اس طریقہ علیہ کی نہایت اگر میسر ہو جائے وصل عریانی ہے جس کے حاصل ہونے کی علامت مطلوب کے حاصل ہونے سے نا امیدی کا حاصل ہوتا ہے۔ پس اس سے سمجھ لے کیونکہ ہمارے کلام وہ اشارہ ہیں جن کو خواص بلکہ اخص میں سے بہت تھوڑے سمجھتے ہیں اس اعلیٰ دولت کے حاصل ہونے کی علامت اس واسطے بیان کی ہے کہ اس گروہ میں سے بعض نے وصل عریانی کا دم مارا ہے اور بعض مطلوب کے حاصل ہونے سے ناامیدی کے قائل ہوئے ہیں لیکن اگر دونوں دولتوں کا جمع ہونا ان کے پیش کیا جائے تو نزدیک ہے ان کو جمع ہونے کے ضدین خیال کریں اور محالات کی قسم سے جانیں۔ وہ جماعت جو وصل کا دعوی کرتی ہے یاس کو حرمان جانتی ہے اور وہ گر وہ جو یاس کے مدعی ہیں وصل کو مین فصل خیال کرتے ہیں یہ سب کچھ اس بلند مرتبہ تک نہ پہنچنے کی علامت ہے۔


حاصل کلام یہ ہے کہ اس عالی مقام کا ایک پر تو ان کے باطن پر چمکا ہے جس کو بعض نے وصل خیال کیا ہے اور بعض نے پاس۔ اور یہ تفاوت ہر ایک گروہ کی استعداد سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک گروہ کی استعداد کے مناسب وصل ہے اور دوسرے گروہ کی استعداد کے مناسب یاس۔ اس حقیر کے نزدیک وصل کی استعداد سے پاس کی استعداد بہت اچھی ہے اگر چہ وصل و یاس ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ اس جواب سے دوسرے اعتراض کا جواب بھی روشن ہو گیا، کیونکہ وصل مطلق اور ہے اور وصل عریاں اور ۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے اور وصل عریانی سے ہماری مراد یہ ہے کہ حجاب سب کے سب اٹھ جائیں اور تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں اور چونکہ ہر قسم کی تجلیات اور مختلف قسم کے ظہورات بہت بڑے اور قومی حجاب ہیں اس لئے ان سب تجلیات وظہورات سے گزر جانا اور آگے بڑھنا ضروری ہے۔ خواہ یہ تجلی ظہور امکانی آئینوں میں ہو خواہ وجوبی مظہروں میں کیونکہ اصل حجابوں کے حاصل ہونے میں دونوں برابر ہیں اور اگر کچھ فرق ہے تو شرف اور رتبہ میں ہے اور وہ طالب کی نظر سے خارج ہیں ۔

اگر پوچھیں کہ اس بیان سے لازم آتا ہے کہ تجلیات کی نہایت ہے۔ حالانکہ مشائخ طریقت نے تصریح کی ہے کہ تجلیات کی نہایت نہیں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ تجلیات کا بے نہایت ہونا اس لحاظ سے ہے کہ اسماء وصفات میں سیر مفصل طور پر واقع ہو ۔ اس تقدیر پر حضرت ذات تک پہنچنا میسر نہیں ہے اور وصل عریانی حاصل نہیں بلکہ حضرت ذات تک پہنچنا اسماء وصفات کو مجمل طور طے کرنے سے وابستہ ہے۔ پس اس وجہ سے تجلیات کی نہایت ہوگی اور اگر کہا جائے کہ تجلیات ذاتیہ کو بھی بے نہایت کہا ہے چنانچہ مولوی جامی قدس سرہ نے شرع معمات میں اس کی تصریح کی ہے۔ پس تجلیات کی نہایت کہنا کس وجہ سے درست ہے تو اسکا جواب یہ ہے کہ وہ تجلیات ذاتیہ بھی شیون و اعتبارات کے ملاحظہ کے بغیر نہیں ہیں کیونکہ اس ملاحظہ کے بغیر تجلی کا ہونا ممکن نہیں اور جس کا ہم ذکر کر کے ماوراء ہے۔ خواہ وہ تجلیات صفاتی ہوں ہے ہیں وہ ایک ایسا امر ہے جو تجلیا خواہ ذاتی کیونکہ اس مقام میں تجلی کا اطلاق جائز نہیں ۔ اس لئے بجلی پر تجلی کا ہونا مراد ہے شے کے ظہور سے جو دوسرے یا تیسرے یا چوتھے مرتبہ میں ہو ۔ جہاں تک کہ اللہ تعالیٰ چاہے اور یہاں سب مراتب ساقط ہو گئے ہیں اور تمام مسافت طے ہو چکی ہے۔ اور اگر یہ پوچھیں کہ ان تجلیات کو ذاتی کسی اعتبار سے کہا جاتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ تجلیات اگر معانی زائدہ کے ملاحظہ سے ہیں تو تجلیات صفات ہیں اور اگر غیر زائدہ معانی کے ملاحظہ سے ہیں تو تجلیات ذات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وحدت کے ظہور کو جو تعین اول ہے اور ذات پر زائد نہیں ہے ۔ بزرگوں نے تجلی ذات کہا ہے اور ہمارا مطلب حضرت ذات تعالی و تقدس سے جہاں معانی کے ملاحظہ کو ہر گز گنجائش نہیں ہے۔ خواہ وہ معانی زائد ہوں یا غیر زائد کیونکہ معانی سب کے سب مجمل کے طور پر طے ہو کر حضرت ذات تعالیٰ تک وصول میسر ہوا ہے۔


اور جاننا چاہئے کہ وصل اس مقام میں مطلب کی طرح بیچون و بچگون ہے اور وہ اتصال جس کو عقل سمجھ سکے وہ بحث سے خارج ہے اور اس جناب پاک کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ چون کو بچون کی طرف کوئی راہ نہیں ہے۔ لا يَحْمِلُ عَطَايَا الْمَلِكِ الْامَطَايَاهُ بادشاہوں کے عطیوں کو اسی کے اونٹ اٹھا سکتے ہیں ۔


اتصالے بے تکیف بے قیاس
بست رب الناس را با جان ناس


ترجمہ : جان انساں سے خدا کا اس طرح ہے اتصال
جس کی کیفیت کا پانا اور سمجھنا ہے محال


اس طریقہ علیہ کے مشائخ میں سے کسی نے اپنے نہایت کی خبر نہیں دی ہے۔ سب نے اپنے طریق کے ابتدا کی نسبت کہا ہے کہ نہایت اس میں مندرج ہے۔ جب ان کی ابتداء میں دوسروں کی انتہا ملی ہوئی ہو تو ان کی نہایت بھی اسی بدایت کے مناسب ہونی چاہئے اور وہ وہی ہے جس کے ظاہر کرنے سے اس فقیر نے امتیاز حاصل کی ہے۔


اگر بادشاه بر در پیرزن
بیاید تو اے خواجہ سبلت مکن


ترجمہ: اگر بڑھیا کے در پر آئے سلطاں
تو اے خواجہ نہ ہو ہرگز پریشاں


لِلهِ سُبْحَانَهُ الْحَمْدُ وَالْمِنَّهُ عَلى ذلِک اس بات پر اللہ کی حمد اور احسان ہے۔.

اے برادر! اس طریق سے اور دوسرے طریقوں سے اس نہایت کے واصل بہت ہی تھوڑے ہیں۔ اگر ان کے افراد کی تعداد ظاہر کریں تو نزدیکی ہے کہ نزد یک لوگ دوری اختیار کریں اور بعیدوں کے انکار سے تو کچھ تعجب ہی نہیں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حبیب صلى الله عليه وسلم کے صدقہ سے نہایت النہات تک کمال وصول کے سبب سے ہے۔

اور اس طریقہ علیہ کی خصوصیتوں میں سے ایک سفر در وطن ہے جو سیر انفسی سے مراد ہے اگر چہ سیر انفسی مشائخ کے تمام طریقوں سے ثابت ہے لیکن وہ سیر سیر آفاقی کے قطع کرنے کے بعد نہایت میں میسر ہوتا ہے اور اس طریقہ میں ابتدا اس سیر سے ہے اور سیر آفاقی اس کے ضمن میں قطع ہو جاتا ہے۔ پس اس سیر کا منشا جو ابتدا میں حاصل ہوتا ہے ابتدا میں انتہا کا مندرج ہونا ہے اور دوسرا خاصہ خلوت در انجمن ہے جو سفر در وطن پر متفرع ومترتب ہے جس سفہ در بطن میسر ہو جائے ۔ خلوت در انجمن اس کے ضمن میں میسر ہو جائے گا پس انجمن کا تفرقہ سفر در وطن کے خلوت خانہ میں تفرقہ نہیں ڈالتا اور آفاق کا تفرقہ انفس کے حجرہ میں راہ نہیں پاتا یہ خلوت در انجمن اگر چہ دوسرے طریقوں کے منتہیوں کو حاصل ہے لیکن اس طریق میں چونکہ ابتدا ہی میں میسر ہو جاتی ہے اس لئے اس طریق کے خاصوں میں سے ہے۔

اور جاننا چاہئے کہ خلوت در انجمن اس تقدیر پر ہے کہ وطن کے خلوت خانہ کے دروازوں کو بند کیا ہو اور تمام سوراخوں کو مسدود کر دیا ہو ۔ یعنی انجمن تفرقہ میں کسی کی طرف متوجہ نہ ہو اور ومخاطب نہ ہو نہ یہ کہ آنکھ کو ڈھانپے اور حواس کو تکلف کے ساتھ بیکار کرے کیونکہ یہ بات اس طریق کے منافی ہے۔

اے برادر ! یہ سب حیلہ و تکلف ابتدا اور وسط ہی میں ہے اور انتہاء میں اس قسم کا حیلہ وتکلف درکار نہیں ہے۔ عین تفرقہ میں جمعیت سے ہے اور نفس غفلت میں حاضر ہے اس سے کوئی یہ گمان نہ کرے کہ منتہی میں تفرقہ و عدم تفرقہ مطلق طور پر مساوی ہیں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ تفرقہ وعدم تفرقہ اس کے باطن کے نفس جمعیت کے برابر ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ظاہر کو باطن کے ساتھ جمع کر لے اور ظاہر سے بھی تفرقہ کو دفع کر دے تو پھر بہت ہی بہتر اور مناسب ہوگا۔

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلى الله عليه وسلم کو امر کرتا ہوا فرماتا ہے۔ وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلُ إِلَيْهِ تَبْتِلاً ااور اپنے رب کا نام یاد کر اور سب سے تو ڑ کر اس سے جوڑ ۔

جاننا چاہئے کہ بعض اوقات ظاہر کے تفرقہ سے چارہ نہیں ہوتا تا کہ خلق کے حقوق ادا ہوں ۔ پس تفرقہ ظاہر بھی بعض اوقات اچھا ہے لیکن تفرقہ باطن کسی وقت میں جائز نہیں کیونکہ وہ خالص حق تعالیٰ کے لئے ہے۔

پس مسلمان بندوں سے تین حصے خدائے تعالیٰ کے لئے مقرر ہوئے۔ باطن سب کا سب اور ظاہر سے ایک نصف اور ظاہر کا دوسرا نصف خلق کے حقوق ادا کرنے کے لئے باقی رہا۔ لیکن ان حقوق کے ادا کرنے میں چونکہ حق تعالیٰ کے امر کی بجا آوری ہے اس لئے وہ دوسرا نصف بھی حق تعالیٰ کی طرف راجع ہے۔ اِلَيْهِ يُرْجَعُ الْآمُرُ كُلُّهُ فَاعْبُدُهُ وَ تَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلِ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ سب امراسی کی طرف لوٹتا ہے پس اس کی عبادت کر اور اس پر تو کل کر اور تیرا رب اس سے جو تم کرتے ہو غافل نہیں ۔


اور اس طریق میں جذبہ سلوک پر مقدم ہے اور سیر کی ابتدا عالم امر سے ہے۔ برخلاف اکثر دوسرے طریقوں کے کہ ان کے سیر کی ابتدا عالم خلق سے ہے اور اس طریق میں سلوک کی منزلیں جذبہ کے مراتب طے کرنے کے ضمن میں قطع ہو جاتی ہیں اور عالم خلق کا سیر عالم امر کے سیر میں میسر ہو جاتا ہے۔ پس اگر اس اعتبار سے بھی کہیں کہ اس طریق میں انتہا ابتدا میں درج ہے تو گنجائش رکھتا ہے ۔

پس معلوم ہوا کہ ابتدا کی سیر اس طریق میں انتہا کے سیر میں مندرج ہے نہ یہ کہ انتہا ہے ابتداء کی سیر کے لیے اتر آتے ہیں اور نہایت کی سیر تمام کرنے کے بعد بدایت کی سیر کرتے ہیں اس مضمون سے اس شخص کا خیال باطل ہو گیا جو یہ کہتا ہے کہ اس طریق کی انتہاء دوسرے مشائخ کے طریقوں کی ابتدا ہے۔

اور اگر کوئی کہے کہ اس طریقہ کے بعض مشائخ کی عبارتوں میں واقع ہے کہ اسماء وصفات میں ان کا سیر ان کی نسبت کے تمام ہونے کے بعد واقع ہوتا ہے۔ پس درست ہوا کہ ان کی نہایت دوسروں کی ہدایت ہے۔ کیونکہ اسماء وصفات کی سیر تجلیات ذاتیہ کے سیر کی نسبت ابتدا عین ہے تو ہم جواب میں کہتے ہیں کہ ان کی سیر اسماء وصفات میں تجلیات ذاتیہ کے سیر کے بعد نہیں ہے بلکہ اس سیر کے ضمن میں وہ سیر بھی واقع ہو جاتا ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ جب سیر اسمائی وصفاتی کسی عارضہ کے پیش آنے کے باعث ظہور کرتا ہے اور تجلیات ذاتی کامسیر پوشیدہ ہو جاتا ہے تو خیال میں آتا ہے کہ اس سیر کو تمام کر کے عارضہ کے باعث تجلیات اسمائی وصفاتی میں داخل ہو گیا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ہاں ولایت کے مدارج میں سیر پورا کرنے کے بعد خلق کو حق تعالیٰ کی طرف دعوت کرنے کیلئے عالم کی طرف جور جوع واقع ہوتا ہے اگر اس رجوع کو ان کی نہایت سمجھ کر اپنی ہدایت تصور کیا ہو تو بعید نہیں لیکن کس طرح کہے جب کہ اس کے مشائخ نہایت میں ہی رجوع رکھتے ہیں اور نیز نہایت و ہدایت سے مراد ولایت کا نہایت و ہدایت ہے اور یہ رجوع کا سیر ولایت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ مرتبہ دعوت و تبلیغ کا ایک حصہ ہے اور یہ طریق سب طریقوں سے اقرب ہے اور بے شک موصل ہے۔


حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ ہمارا طریقہ سب طریقوں سے اقرب ہے اور فرمایا حق تعالیٰ سے میں نے ایسا طریق طلب کیا ہے جو بے شک موصل ہے اور آپ کی یہ التجا قبول ہو گئی ہوئی ہے۔

چنانچہ رشحات میں حضرت خواجہ احرار قدس سرہ سے منقول ہے کہ کیوں کہ اقرب اور موصل نہ ہو جب کہ انتہا اس کے ابتدا میں مندرج ہے۔ وہ شخص بہت ہی بد قسمت ہے جو اس طریق میں داخل ہو اور استقامت اختیار نہ کرے اور بے نصیب چلا جائے۔


خورشید نه مجرم ار کے بینا نیست
ترجمہ
: اگر کوئی ہو خود اندھا نہیں خورشید پھر مجرم

ہاں اگر کوئی طالب کسی ناقص کے ہاتھ پڑ جائے تو طریق کا کیا گناہ ہے اور طالب کا کیا قصور ۔ کیونکہ حقیقت میں اس طریق کا رہبر موصل ہے نہ نفس طریق ۔ اور اس طریق میں ابتدا میں حلاوت و وجدان ہے اور انتہا میں بے مزگی اور فقدان ۔ جو نا امیدی کے لوازم سے ہے برخلاف دوسرے طریقوں کے کہ ابتدا میں بے مزگی اور فقدان رکھتے ہیں اور انتہاء میں حلاوت و وجدان اور ایسا ہی اس طریق کے ابتداء میں قرب و شہود ہے اور انتہاء میں بعد وحرمان ۔ برخلاف دوسرے مشائخ کرام کے طریقوں کے۔

پس اس مضمون سے طریقوں کے فرق کو قیاس کرنا چاہئے اور اس بلند طریق کی بزرگی کو معلوم ا کرنا چاہئے کیونکہ قرب و شہود اور حلاوت د وجدان دوری اور مہجوری سے خبر دیتے ہیں اور بعد وحرمان اور بے حلاوتی اور فقدان نہایت قرب سے خبر دیتے ہیں عقل مند اس بات کو سمجھتے ہیں۔


اس بھید کی شرح میں اس قدر بیان کیا جاتا ہے کہ کسی شخص کو اپنے نفس سے زیادہ تر اپنے نزدیک کوئی چیز نہیں ہے اور قرب و شہود اور حلاوت و وجد ان اس کیلئے اپنے نفس کے حق میں مفقود ہیں اور اپنے غیر کی نسبت جس سے بیگانگی رکھتا ہے۔ یہ سب نسبتیں موجود ہیں ۔ فَالْعَاقِلُ تَكْفِيهِ ا الإِشَارَةُ پس عقلمند کے لئے ایک ہی اشارہ کافی ہے۔

اور اس طریقہ علیہ کے بزرگواروں نے احوال و مواجید کو احکام شرعی کے تابع کیا ہے اور ذواق و معارف کو علوم دینیہ کا خادم بنایا ہے۔


احکام شرعیہ کے قیمتی موتیوں کو بچوں کی طرح وجد و حال کے جوز ومویز کے عوض ہاتھ سے نہیں دیتے ۔ اور صوفیاء کی بے ہودہ باتوں پر مغرور و مفتون نہیں ہوتے اور ان کے احوال کو جو شرعی ممنوعات اور سنت سنیہ کے خلاف اختیار کرنے سے حاصل ہوں ۔ قبول نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سماع اور قص کو پسند نہیں کرتے اور ذکر جہر کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔ ان کا حال دائی ہے اور اس کا وقت استمراری وہ تجلی ذاتی دوسروں کو برق خاطف کی طرح ہے۔ ان کیلئے دائمی ہے اور وہ حضور جس کے پیچھے غیبت ہو ان بزرگواروں کے نزدیک بے اعتبار ہے بلکہ ان کا معاملہ حضور و تجلی سے بدتر ہے جیسا کہ اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

حضرت خواجہ احرار قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ اس طریقہ علیہ کے خواجگان قدس سرہم ہر ادنیٰ واعلیٰ کے ساتھ نسبت نہیں رکھتے ان کا کام اس سے بلند تر ہے اور اس طریق میں پیری مریدی طریقہ کے تعلم وتعلیم پر موقوف ہے نہ کلاہ و شجرہ پر جو مشائخ کے اکثر طریقوں میں موسوم ہے حتی کہ ان میں سے متأخرین نے پیری و مریدی کو کلاه و شجرہ پر منحصر کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیر کا تعدد تجویز نہیں کرتے ۔ اور طریق سکھانے والے کو مرشد کہتے ہیں پیر نہیں جانتے اور آداب پیری کو اس کے حق میں ، نظر نہیں رکھتے۔ یہ ان کی بڑی جہالت اور نادانی ہے نہیں جانتے کہ ان کے مشائخ نے پیر تعلیم اور پیر صحبت کو بھی پیر کہا ہے اور پیر کا تعدد تجویز فرمایا ہے۔ بلکہ پیر اول کی عین حیات میں اگر طالب اپنی ہدایت کسی اور جگہ دیکھے تو اس کو جائز ہے کہ پہلے پیر کے انکار کے بغیر دوسرے پیر کو اختیار کرے۔

حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے اس بات کی تجویز کیلئے علمائے بخارا سے اس بات کا فتویٰ درست فرمایا تھا۔ ہاں اگر ایک پیر سے خرقہ ارادت لیا ہو تو پھر دوسرے سے خرقہ ارادت نہ لے اور اگر لے تو تبرک کا خرقہ لے ۔ مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دوسرا پیر ہرگز نہ پکڑے بلکہ روا ہے کہ خرقہ ارادت ایک سے لے اور طریقت کی تعلیم دوسرے سے اور صحبت تیسرے کے ساتھ رکھے اور اگر یہ تینوں دولتیں ایک ہی سے میسر ہو جائیں، تو ز ہے قسمت و نعمت اور جائز ہے کہ مشائخ متعددہ سے تعلیم وصحبت کا استفادہ کرے۔


جانا چاہئے کہ پیر وہ ہے جومرید کو حق سبحانہ کی طرف رہنمائی کرے۔ یہ بات تعلیم طریقت میں زیادہ ملحوظ اور واضح ہے کیونکہ پر تعلیم شریعت کا استاد بھی ہے اور طریقت کا رہنما بھی ہے۔ برخلاف پیر خرقہ کے پس پیر تعلیم کے آداب کی زیادہ تر رعایت کرنی چاہئے اور پیر بننے اور کہلانے کا زیادہ مستحق یہی ہے اور اس طریق میں ریاضتیں اور مجاہدے نفس امارہ کے ساتھ احکام شرعی کے بجالانے اور سنت سفیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی متابعت کو لازم پکڑنے سے ہیں۔ کیونکہ پیغمبروں کے بھیجنے اور کتابوں کے نازل کرنے سے نفس امارہ کی خواہشوں کو دور کرنا مقصود ہے جو اپنے مولائے جل شانہ کی دشمنی میں قائم ہے۔ پس نفسانی خواہشوں کا دور ہو تا احکام شرعی کے بجا لانے پر وابستہ ہے۔ جس قدر شریعت میں راسخ اور ثابت قدم ہوگا۔ اسی قدر ہوائے نفس سے دور تر ہوگا کیونکہ نفس پر شریعت کے اوامر و نواہی کے بجالانے سے زیادہ دشوار کوئی چیز نہیں ہے اور صاحب شریعت کی پیروی کے سوا کسی چیز میں اس کی خرابی متصور نہیں ہے وہ ریاضتیں اور مجاہدے جو سنت کی تقلید کے سوا اختیار کریں وہ معتبر نہیں ہیں کیونکہ جوگی اور ہندو برہمن اور یونان سے فلسفی اس امر میں شریک ہیں اور وہ ریاضتیں ان کے حق میں گمراہی کے سوا کچھ زیاہ نہیں کرتیں اور سوائے خسارہ کے کچھ فائدہ نہیں دیتیں اور اس طریقہ میں طالب کا سلوک شیخ مقتدا کی تقلید پر منحصر ہے۔ اس کے تصرف کے بغیر کچھ کام نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ابتدا میں نہایت کا درج ہونا اسی کی شریف توجہ کا اثر ہے اور بیچونی اور بچگونی کا حاصل ہونا اس کے کمال تصرف کا نتیجہ ہے۔ بیخودی کی وہ کیفیت جس کیلئے انہوں نے مختص راستہ اختیار کیا ہے اس کا حاصل ہونا مبتدی کے اختیار میں نہیں ہے اور وہ توجہ جوشش جہت سے معرا ہے اس کا وجود طالب کے حوصلہ باہر ہے ۔۔


نقشبند یه عجب قافله سالا را نند
که برندازره پنہاں بحرم قافله را

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا


ترجمه: عجب ہی قافلہ سالار ہیں یہ نقشبندی

کہ لے جاتے ہیں پوشیدہ حرم تک قافلے کو


یہ بزرگوار جس طرح نسبت کے عطا کرنے پر کامل طاقت رکھتے ہیں اور تھوڑے وقت میں طالب صادق کو حضور و آگاہی بخش دیتے ہیں۔ اس طرح نسبت کے سلب کرنے میں بھی پوری طاقت رکھتے ہیں اور ایک ہی بے التفاتی سے صاحب نسبت کو مفلس کر دیتے ہیں۔ ہاں بیچ ہے جو دیتے ہیں وہ لے بھی لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے غضب اور اپنے اولیائے کرام کے غضب سے بچائے۔


اور اس طریقہ میں زیادہ تر افادہ اور استفاده خاموشی میں ہے۔ ان بزرگواروں نے فرمایا ہے کہ جس کو ہماری خاموشی سے نفع حاصل نہ ہوا ۔ وہ ہمارے کلام سے کیا نفع حاصل کرے گا اور اس خاموشی کو انہوں نے تکلف کے ساتھ اختیار نہیں کیا ہے۔ بلکہ ان کے طریق کے لوازم اور ضروریات سے ہے۔ کیونکہ ان بزرگواروں کی توجہ ابتدا ہی سے احدیت مجردہ کی طرف ہے اور اسم و صفت سے سوائے ذات کے کچھ نہیں چاہتے اور معلوم ہے کہ اس توجہ کے مناسب اور اس مقام کے موافق خاموشی اور گونگا ہے ۔ مَنْ عَرَفَ اللهَ كُلَّ لِسَانُهُ (جس نے اللہ کو پہچانا اس کی زبان گنگ ہوگئی ) اس بات کی مصداق ہے۔

اب ہم اس گفتگو کو اللہ کی حمد اور اس کے حبیب کی صلوٰۃ پر ختم کرتے ہیں ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَلَمِيْنَ وَالصَّلوةُ وَالسَّلامُ عَلَى سَيّدِ الْمُرْسَلِينَ وَالِهِ الطَّاهِرِينَ وَعَلَيْهِمْ اَجْمَعِيْنَ اللہ رب العالمین کی حمد اور حضرت سید المرسلین اور آپ کی آل پاک پر صلوٰۃ وسلام ہو ۔