مکتوب 231
چند سوالوں کے جواب میں جو آپ سے کئے گئے تھے اور جن میں پوچھا گیا تھا کہ وصول اور حصول کے درمیان کیا فرق ہے اور وہ اسماء جو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے تعینات کے مبادی ہیں۔ اولیاء کے تعینات کے مبادی بھی وہی اسم ہیں یا نہیں اور اگر ہیں تو کیا فرق ہے اور آپ سے پوچھا گیا تھا کہ مشائخ نقشبندیہ ذکر جہر سے منع کرتے ہیں کہ یہ بدعت ہے حالانکہ ذوق و شوق بخشتا ہے اور چیزوں سے جو آنحضرت کے زمانہ میں نہ تھیں۔ مثلاً لباس، فرجی اور شال اور سراویل سے کیوں نہیں منع کرتے ۔ میر محمد نعمان کی طرف صادر فرمایا ہے:-
نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلى نَبِيِّهِ وَنُسَلِمُ عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ الْكِرَامِ ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اور نبی اور اس کی آل بزرگوار پر صلوٰۃ وسلام بھیجتے ہیں۔
آپ کے دو مکتوب شریف پے در پے پہنچے ۔ پہلا مکتوب تو سوزش اور اضطراب کی خبر دیتا تھا لیکن دوسرا مکتوب اس سے ملائم اور شوق و سر گرمی سے بھرا ہوا تھا۔
میرے دوست آپ نے اس وقت جب کہ میر سعد الدین روانہ ہوئے خط کا جواب طلب کیا۔ بندہ اس وقت یہاں تک بے دماغ اور مقبوض تھا کہ اپنے ہاتھ سے خط نہ لکھ سکتا تھا۔ مولا نا یار محمد جدید کو لکھنے کے لئے کہا۔ بے دماغی کے وقت اگر کوئی نا مناسب کلمہ لکھا گیا ہو تو معاف فرمائیں۔ آپ کو چاہئے کہ تھوڑی سی بات سے نہ بگڑ جائیں اور معاملہ کو درہم برہم نہ کریں ۔ خدا نہ کرے کہ کسی قسم کا آزار درمیان ہو یار بخش و روگردانی کے باعث کچھ لکھا جائے ۔ ہاں اگر نصیحت کے طور پر کچھ لکھا جائے تو خوشحال ہونا چاہئے ۔
آپ نے لکھا تھا کہ حصول اور وصول کے درمیان جو فرق ہے وہ سمجھ میں نہیں آتا۔
اے بھائی! حصول باوجود بعد کے متصور ہے اور وصول متعذ رو دشوار ہے عنقا کو جب ہم صورت مخصوص سے تصور کرتے ہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ عنقا ہماری قوت مدرکہ میں حاصل ہے۔ لیکن عنقا تک وصول ثابت نہیں ہے۔کیونکہ ظلیت جو مرتبہ ثانی میں اس شے کے ظہور سے مراد ہے اس شے کے حصول کے منافی نہیں ہے۔ لیکن شے کا وصول ظلیت کی تاب نہیں لاسکتا پس دونوں کے درمیان فرق معلوم ہو گیا ۔
اور نیز آپ نے پوچھا تھا کہ وہ اسماء جو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے تعینات کا مبدء ہیں وہی اسماء اولیاء کے تعینات کا مبدء ہیں یا نہیں اور اگر ہیں تو کیا فرق ہے۔
اے عزیز! انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے تعینات کے مبادی ان اسما کے کلیات ہیں اور اولیاء کے تعینات کے مبادی ان اسما کی جزئیات ہیں جو ان کلیات کے تحت میں مندرج ہیں اور ان اسماء کی جزئیات سے مراد وہی اسماء ہیں جو قیود کے ساتھ ماخوذ ہیں ۔ جیسا کہ کسی شے کے ساتھ ارادہ مطلقہ اور ارادہ مقید ہوتا ہے اور چونکہ اولیاء کو انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام کی متابعت کے باعث ترقی واقع ہوتی ہے۔ اس لئے اس قید کو دور کر کے مطلق کے ساتھ مل جائے گا۔ فقیر نے اس فرق کو اپنے بعض مکتوبات میں مفصل ذکر کیا ہے۔ وہاں سے ملاحظہ کر لیں ۔
نیز آپ نے پوچھا تھا کہ ذکر جہر سے منع کرتے ہیں کہ بدعت ہے حالانکہ ذوق وشوق بخشتا ہے اور چیزوں سے جو آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں نہ تھیں مثل لباس فرجی اور شال اور سراویل سے کیوں منع نہیں کرتے ۔
میرے مخدوم ! آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا عمل دو طرح پر ہے۔ ایک عبادت کے طریق پر دوسرا عرف اور عادت کے طور پر ۔ وہ عمل جو عبادت کے طریق پر ہے اس کے خلاف کرنا بدعت منکرہ جانتا ہوں اور اس کے منع کرنے میں بہت مبالغہ کرتا ہوں کہ یہ دین میں نئی بات ہے اور وہ مردود ہے اور وہ عمل جو عرف وعادت کے طور پر ہے اس کے خلاف کو بدعت منکرہ نہیں جانتا اور نہ ہی اس کے منع کرنے میں مبالغہ کرتا ہوں کیونکہ وہ دین سے تعلق نہیں رکھتا اس کا ہونا یا نہ ہونا عرف و عادت پر مبنی ہے نہ کہ دین ومذہب پر ۔ کیونکہ بعض شہروں کا عرف بعض دوسرے شہروں کے عرف کے برخلاف ہے اور ایسے ہی ایک شہر میں زمانوں کے تفاوت کے اعتبار سے عرف میں تفاوت ظاہر ہے۔ البتہ عادی سنت کو مد نظر رکھنا بھی بہت سے فائدوں اور سعادتوں کا موجب ہے۔
ثَبَّتَنَا اللهُ وَ إِيَّاكُمُ عَلَى مُتَابَعَةِ سَيّدِ الْمُرْسَلِينَ عَلَيْهِ وَ عَلَيْهِمْ وَعَلَى تَابِعِي كُل مِنَ الصَّلَوَاتِ أَفْضَلُهَا وَ مِنَ التَسْلِيمَاتِ اَكْمَلُهَا الله تعالیٰ ہم کو اور آپ کو حضرت سید المرسلین صلی اللہ علیہ علیہم الصلوۃ والسلام کی متابعت پر ثابت قدم رکھے۔