2

مکتوب 243: طریقہ علیہ نقشبندیہ کی ترغیب میں


مکتوب 243

طریقہ علیہ نقشبندیہ کی ترغیب میں مُلا ایوب محتسب کی طرف صادر فرمایا ہے:۔

حمد وصلوٰۃ اور تبلیغ کے بعد میرے معزز بھائی کو معلوم ہو کہ کئی دفعہ آپ نے اپنے متعدد خطوں میں نصائح طلب فرمائی تھی۔ لیکن یہ حقیر اپنی خرابیوں پر نظر کر کے اس سوال کے قبول کرنے میں جرات نہیں کرتا تھا۔ لیکن جب بار بار یہی طلب آپ کی طرف سے ظہور میں آئی اس لئے چند ٹوٹے پھوٹے فقرے لکھے جاتے ہیں ان کو غور سے سنیں اور جان لیں کہ جو کچھ طالب کے لئے ضروری ہے اور اس کے ساتھ مکلف ہے وہ اوامر کا بجا لانا اور نواہی سے ہٹ جانا ہے۔ آیت كريم مَا أَنكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَاتَهكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ( جو کچھ رسول تمہارے پاس لایا اس کو پکڑ لو اور جس سے اس نے تمہیں منع کیا ہے اس سے ہٹ جاؤ ) اس مطلب پر شاہد ہے اور جب طالب اخلاص سے مامور ہے الا لله الدين الخَالِصُ ) خبر دار دین خالص اللہ ہی کیلئے لِلَّهِ ہے ) اور وہ بغیر فنا کے حاصل نہیں ہوتا اور محبت ذاتیہ کے سوا متصور نہیں ۔ اس لئے طریق صوفیہ کا سلوک بھی جس سے فنا اور حجت ذاتیہ حاصل ہوتی ہے ضروری ہے۔ تا کہ اخلاص کی حقیقت ہاتھ آئے اور چونکہ صوفیہ کے طریقے کمال و تکمیل کے مرتبوں میں اصالۃ متفاوت ہیں۔ اس لئے ایسے طریق کا اختیار کرنا جس میں سُنت سنیہ کی متابعت زیادہ لازم اور احکام شرعیہ کے بجالانے کے زیادہ موافق ہو ۔ بہت ہی بہتر اور مناسب ہے اور وہ طریقہ مشائخ نقشبند یہ قدس سرہم کا طریقہ ہے۔ کیونکہ ان بزرگواروں نے اس طریق میں سُنت کو لازم پکڑا ہے اور بدعت سے اجتناب فرمایا ہے۔ جہاں تک ہو سکے رخصت پر عمل کرنا پسند نہیں کرتے ۔ اگر چہ بظاہر اس کا نفع باطن میں معلوم کریں اور عزیمت پر عمل کرنا نہیں چھوڑتے اگر چہ بظاہر اس کو باطن میں مضر جائیں۔ انہوں نے احوال و مواجید کو احکام شرعیہ کے تابع کیا ہے اور ذوق و معارف کو علوم دینیہ کے خادم جانتے ہیں ۔ احکام شرعیہ کے قیمتی موتیوں کو بچوں کی طرح جد و حال کے جوز ومویز کے بدلے ہاتھ سے نہیں دیتے اور صوفیہ کی بے فائدہ باتوں پر مغرور مفتوں نہیں ہوتے ۔ نص کو چھوڑ کر فص کی طرف خواہش نہیں کرتے اور فتوحات مدینہ کو چھوڑ کر فتوحات مکیہ کی طرف التفات نہیں کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا حال دائگی اور ان کا وقت استمراری ہے۔ ماسوی اللہ کے نقش ان کے باطن سے اس طرح محو ہو جاتے ہیں کہ اگر ماسوی کے حاضر کرنے میں ہزار سال تک توقف کریں تو بھی میسر نہ ہو اور وہ تجلی ذاتی جو دوسروں کے لئے برق کی طرح ہے ان بزرگواروں کے لئے دائمی ہے اور وہ حضور جس کے پیچھے غیبت ہو ان عزیزوں کے نزدیک اعتبار سے ساقط ہے۔ رِجَالُ لا تُلْهِيهِمُ تِجَارَةٌ وَلاَ بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللهِ ( وہ ایسے بہادر ہیں کہ تجارت اور خرید و فروخت ان کو ذکر سے غافل نہیں کرتی ) ان کے حال کا بیان ہے۔


اس کے علاوہ ان کا طریق سب طریقوں سے اقرب اور البتہ موصل ہے اور دوسروں کی نہایت ان کی ہدایت میں درج ہے اور ان کی نسبت جو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔ تمام مشائخ کی نسبتوں سے بڑھ کر ہے۔ لیکن ہر کسی کا فہم ان بزرگواروں کے مذاق تک نہیں پہنچتا۔ بلکہ ممکن ہے کہ اس طریقہ علیہ کے کم ہمت لوگ بھی ان کے بعض کمالات سے انکار کریں۔

قاصرے گر کند ایں طائفہ راطعن قصور
حاش اللہ کے برارم بزباں ایس گله را

ترجمہ: گر کوئی قاصر لگائے طعن ان کے حال پر
تو بہ تو بہ گر زباں پر لاؤں میں اس کا گلہ


شاعر عرب فرماتا ہے شعر


أُولَئِكَ آبَائِي فَجِتُنِي بِمِثْلِهِم
إِذَا جَمَعَتُنَا يَا جَرِيرُ لِلْجَامِعُ


ترجمہ:
ایسے ایسے باپ دادا ہیں ہمارے اے جریر
کر بیاں مجلس میں تو بھی بات دادوں کی صفت


حضرت خواجہ احرار قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ اس سلسلہ علیہ کے مشائخ قدس سرہم ہر زراق اور رقاص ( فریب کرنے والے اور رقص کرنے والے) کے ساتھ نسبت نہیں رکھتے۔ ان کا کارخانہ بے کار ہے۔ ۔


حیف باشد شرح او اندر جہاں
ہمچو راز عشق باید در نہاں


لیک گفتم وصف اوتاره برند
پیش از اں کز فوت آن حسرت خورند

ترجمہ: ہو نہیں ہوسکتا بیاں اس کا عیاں
مثل راز عشق چاہئے یہ نہاں


لیک کر دی وصف میں نے اس لئے
تانہ حسرت کھائیں اس کے فوت سے

اگر ان بزرگواروں کے خصائص و کمالات میں دفتروں کے دفتر لکھے جائیں تو دریائے بے نہایت سے قطرہ کی طرح ہیں۔

دادیم تر از حج مقصود نشاں
ترجمہ
: تجھے گنج مقصود بتلا دیا ہے


وَالسَّلامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالْتَزَمَ مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفَى عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ مِنَ الصَّلَوَاتِ أَفْضَلُهَا وَمِنَ التَّسْلِيمَاتِ اَكْمَلُها اور سلام ہو اس شخص پر جو ہدایت کے راستہ چلا اور حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت کو لازم پکڑا۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا