مکتوب 245
ملا محمد صالح کی طرف بعض استفساروں کے جواب میں لکھا ہے۔
حمد و صلوة وتبلیغ دعوات کے بعد واضح ہو کہ مکتوب شریف جو قاصد کے ہمراہ ارسال کیا تھا، پہنچا اور بڑی خوشی کا باعث ہوا۔
آپ نے لکھا تھا کہ ذکر نفی اثبات (۲۱) عدد تک پہنچایا ہے لیکن بیشگی نہیں ہو سکتی اور غیبت بھی کبھی کبھی ظاہر ہوتی ہے۔ میرے محبت آثار ذکر کرنے میں ظاہراً کوئی نہ کوئی شرط مفقود ہے جس کے باعث اس عدد پر کوئی نتیجہ مترتب نہیں ہوا۔ رویہ و انشاء اللہ دریافت کرلیں گے۔
دوسرا آپ نے اس قول کے معنی دریافت کئے تھے اور لکھا تھا کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے کام کو تمام کر کے فرمایا کہ ذِكْرُ اللسَانِ لَقَلْقَلَةً وَذِكْرُ الْقَلْبِ وَسُوَسَة ا وَذِكْرُ الرُّوحِ شِرُكَ وَذِكْرُ السِّرِّ كُفَرُ زبان کا ذکر بکواس اور قلب کا ذکر وسوسہ اور روح کا ذکر شرک اور سر کا ذکر کفر ہے کیونکہ جب ذکر ، ذاکر و مذکور کی خبر دینے والا ہے۔ خواہ کوئی ذکر ہو اور
اصل مقصود مذکور میں ذکر و ذاکر کا فنا ہونا ہے اس لئے ذکر کو قلقلہ دوسوسہ وشرک وکفر فرمایا۔
بهر چه از دوست دامانی چه کفر آن حرف و چه ایماں
بهر چه از راه ولافتی چه زشت آن حرف و چه زیبا
ترجمہ: جدا جو یار سے کر دے وہ یکساں کفر و ایماں ہے
تجھے گمراہ جو کر دے برابر زشت وزیبا ہے
لیکن ذکر کے لئے ان ناموں کا عارض ہونا فنا و بقا کے حاصل ہونے سے پہلے جانا چاہئے کیونکہ بقا کے حاصل ہونے کے بعد ذاکر کا وجود اور ذکر کا ثبوت اس سے مذموم نہیں ہے اگر اس میں کچھ پوشیدگی رہی ہو تو حضور میں دریافت فرمالیں گے کیونکہ تحریر کا حوصلہ تنگ ہے پس اس قول کو حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب کرنا خاص کر کام کے تمام ہونے کے بعد اچھا نہیں ہے۔
دوسرا استفسار یہ تھا کہ آپ نے لکھا تھا کہ شیخ ابوسعید ابوالخیری نے ابوعلی سینا سے مقصود پر دلیل طلب کی تھی اور اس نے جواب میں لکھا تھا کہ کفر حقیقی میں آجا اور اسلام حجازی سے نکل جا اور شیخ ابوسعید نے عین القضاۃ کی طرف لکھا کہ اگر میں لاکھ برس تک عبادت کرتا تو مجھے وہ فائدہ حاصل نہ ہوتا جو مجھے اور ابوعلی سینا کے اس کلمہ سے حاصل ہوا۔ عین القضاۃ نے لکھا کہ اگر آپ سمجھتے تو اس بیچارہ کی طرح مطعون ملام کیوں ہوتے ۔
جاننا چاہئے کہ کفر حقیقی دوئی کے بالکل دور ہو جانے اور کثرت کے کلی طور پر چھپ جانے سے مراد ہے جو کہ فنا کا مقام ہے اور اس کفر حقیقی کے اوپر اسلام حقیقی کا مقام ہے جو بقاء کا محل ہے۔ کفر حقیقی کو اسلام حقیقی سے نسبت دینی سراسر نقص و عیب ہے۔ یہ ابن سینا کی کوتاہ نظری ہے کہ اس نے اسلام حقیقی کی طرف دلالت نہیں کی ہے اور حقیقت میں اس کو کفر حقیقی سے بھی کچھ نصیب نہیں ہوا۔ اس نے صرف از روئے علم و تقلید کے کہہ دیا اور لکھ دیا ہے بلکہ اس کو تو اسلام مجازی سے بھی حظ وافر حاصل نہ ہوا اور فلسفی بکھیڑوں میں عمر بسر کر دی۔ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ اس کی تکفیر کرتے ہیں اور واقعی اس کے فلسفی اصول، اصول اسلام کے منافی ومخالف ہیں ۔ نیز شیخ ابوسعید عین التضاة سے بہت مقدم ہے وہ اس کی طرف کیا لکھے اگر کچھ شبہ باقی رہا ہو تو حضور میں آکر دریافت فرمالیں گے۔
والسلام۔