مکتوب 251
خلفائے راشدین کے فضائل اور حضرت شیخین کی فضیلت اور حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے بعض خاصوں اور اصحاب کرام علیہم الرضوان کی تعظیم و توقیر اور ان کے درمیان جھگڑوں اور لڑائیوں کو محمل صحیح پر حمل کرنے اور اس کے متعلق بیان میں مُولانا محمد اشرف کی طرف صادر فرمایا ہے۔
حمد وصلوٰۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد میرے سعادت مند بھائی محمد اشرف کو معلوم ہو کہ بعض علوم غریبہ اور اسرار عجیبہ اور مواہب لطیفہ اور معارف شریفہ جن میں سے اکثر حضرات شیخین و ذی النورین و حیدر کرار رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے فضائل و کمالات سے تعلق رکھتے ہیں اپنی ناقص سمجھ کے موافق لکھتا ہے ، گوش ہوش سے سنیں ۔
حضرت صدیق اور حضرت فاروق رضی اللہ عنہما کمالات محمدی کے حاصل ہونے اور ولایت مصطفوی علیہ و علی آلہ الصلوات والسلام کے درجوں کے پہنچنے کے باوجود گزشتہ انبیاء کے درمیان ولایت کی طرف میں حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اور دعوت کی طرف میں جو مقام نبوت کے مناسب ہے۔ حضرت موسیٰ علی نبینا علیہ الصلوۃ والسلام سے مناسبت رکھتے ہیں اور حضرت ذی النورین رضی اللہ عنہ دونوں طرف میں حضرت نوح علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اور حضرت امیر رضی اللہ عنہ دونوں طرف میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اور چونکہ حضرت عیسی روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہیں اس لئے نبوت کی جانب سے ولایت کی طرف ان میں غالب ہے اور حضرت امیر میں بھی اس مناسبت کے باعث ولایت کی طرف غالب ہے اور خلفائے اربعہ کے تعینات کے مبادی جہالت کے اختلاف کے بموجب اجمالی اور تفصیلی طور پر صفت العلم ہے اور وہ صفت باعتبار اجمال حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کا رب ہے اور باعتبار تفصیل کے حضرت خلیل علیہ السلام کا رب اور اجمال تفصیل کی برزخیت کے اعتبار سے حضرت نوح علیہ السلام کا رب ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کا رب صفت الکلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کا رب صفت القدرت اور حضرت آدم علیہ السلام کا رب صفت التلوین ہے۔ اب ہم اصل بات کو بیان کرتے ہیں کہ حضرت صدیق اور حضرت فاروق رضی اللہ عنہا مراتب کے اختلاف کے موافق نبوت محمدی صلى الله عليه وسلم کے بوجھ کو اٹھانے والے ہیں اور حضرت امیر حضرت عیسی علیہ السلام کی مناسبت اور جانب ولایت کے غلبہ کے باعث ولایت محمدی صلى الله عليه وسلم کے بوجھ کو اٹھانے والے ہیں اور حضرت ذی النورین کو برزخیت کے اعتبار سے ہر دو طرف کے بوجھ اُٹھانے والا فرمایا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس اعتبار سے بھی ان کو ذی النورین کہیں اور چونکہ شیخین بار نبوت اٹھانے والے ہیں اس لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں ۔چونکہ مقام دعوت جو مرتبہ نبوت سے پیدا ہوا ہے ہمارے پیغمبر صلى الله عليه وسلم کے بعد باقی تمام انبیاء کے درمیان ان میں اتم و اکمل ہے اور ان کی کتاب قرآن مجید تمام نازل شدہ کتابوں سے بہتر ہے۔ اسی واسطے ان کی اُمت گزشتہ امتوں کی نسبت زیادہ بہشت میں جائے گی۔ اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی ملت تمام شریعتوں اور ملتوں سے افضل واکمل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام پیغمبروں میں سے افضل پیغمر کو اس کی ملت کی متابعت کا امر کیا گیا ہے ۔ آیت کریمہ: ثم اوحینا الیک ان اتبع ملة ابراهيم حنيفا (پھر ہم نے تیری طرف وحی بھیجی کہ ملت ابراہیم کی تابعداری کر کے وہ راہ راست پر چلنے والا ہے ) اس مضمون کی شاہد ہے اور حضرت مہدی موعود کہ ان کا رب بھی صفت العلم ہے۔ حضرت امیر کی طرح حضرت عیسی علیہ السلام سے مناسبت رکھتے ہیں گویا ایک قدم حضرت عیسی علیہ السلام کا حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے سر پر ہے اور دوسرا قدم حضرت مہدی رضی اللہ تعالی عنہ کے سر پر ہے۔
اور جاننا چاہیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولایت ، ولایت محمدی ﷺ کے دائیں طرف واقع ہوئی ہے اور ولایت عیسوی علیہ السلام اس ولایت کے بائیں طرف اور چونکہ حضرت امیر ولایت محمدی صلى الله عليه وسلم کے حامل ہیں اس لیئے مشائخ و اولیاء کے اکثر سلسلے ان سے منتسب ہوئے ہیں اور حضرت امیر کے کمالات حضرات شیخین کے کمالات کی نسبت اکثر اولیائے عظام پر جو کمالات ولایت سے مخصوص ہیں، زیادہ تر ظاہر ہوئے ہیں۔ اگر شیخین رضی اللہ عنہم کی فضیلت پر اہل سنت کا اجماع نہ ہوتا تو اکثر اولیائے عظام کا کشف حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی افضلیت کا حکم کر دیتا کیونکہ حضرات شیخین کے کمالات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے کمالات کے مشابہ ہیں اور صاحبان ولایت کا ہاتھ ان کے کمالات کے دامن سے کوتاہ ہے اور اہل کشف کا کشف ان کے کمالات کے درجوں کی بلندی کے باعث نصف راہ میں ہے۔ ولایت کے کمالات ان کے کمالات کے مقابلہ میں مطروح فی الطریق راہ میں پھینکے ہوئے ) کی طرح ہیں ۔ کمالات ولایت کمالات نبوت پر چڑھنے کے لئے بمنزلہ زینہ کے ہیں ۔ پس مقدمات کو مقاصد کی خبر ہے اور مطالب کو مبادی سے کیا شعور ۔ آج یہ بات عہد نبوت کے بعد باعث اکثر لوگوں کو ناگوار اور قبول سے دور معلوم ہوتی ہے لیکن کیا کیا جائے ۔ ۔
در پس آئینه طولی صفتم داشته اند
ہر چه استاد ازل گفت ہماں میگویم
ترجمه: مثل طوطی آئینے کے پیچھے مجھ کو ہے رکھا
کہتا ہوں میں جو کہ استاد ازل نے ہے کہا
لیکن اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ اس گفتگو میں علمائے اہلسنت شکر اللہ تعالیٰ سعیہم کے ساتھ موافق ہوں اور ان کے اجماع سے متفق ہوں۔ ان کے استدلالی علم کو مجھ پر کشفی اور اجمالی کو تفصیلی کیا ہے۔
اس فقیر کو جب تک کہ مقام نبوت کے کمالات تک نہ پہنچایا اور ان کے کمالات سے کامل حصہ نہ دیا۔ تب تک شیخین کے فضائل پر کشف کے طور پر اطلاع نہ بخشی تھی اور تقلید کے سوائے کوئی راہ نہ دکھایا تھا۔
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى هَدْنَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِى لَوْ لَا أَنْ هَدَنَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبَّنَا بِالْحَقِّ : اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم کو اس کی ہدایت دی اگر اللہ تعالیٰ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے بیشک ہمارے رب کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں ۔
ایک دن کسی شخص نے بیان کیا کہ لکھا ہے کہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ کا نام بہشت کے دروازہ پر لکھا ہوا ہے۔ دل میں گزرا کہ حضرات شیخین رضی اللہ عنہم کے لئے اس مقام کی کیا خصوصیتیں ہوں گی ۔ توجہ تام کے بعد ظاہر ہوا کہ بہشت میں اس امت کا داخل ہونا ان دو بزرگواروں کی رائے اور تجویز سے ہوگا۔ گویا حضرت صدیق رضی اللہ عنہ بہشت کے دروازے پر کھڑے ہیں اور لوگوں کے داخل ہونے کی تجویز فرماتے ہیں اور حضرت فاروق رضی اللہ عنہ ہاتھ پکڑ کر اندر لے جاتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا تمام بہشت حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے نور سے بھرا ہوا ہے۔
اس حقیر کی نظر میں حضرات شیخین کے لئے تمام صحابہ کے درمیان علیحد ہ شان اور الگ درجہ ہے۔ گویا یہ دونوں کسی کے ساتھ مشارکت نہیں رکھتے ۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ حضرت پیغمبر کے ساتھ گویا ہم خانہ ہیں۔ اگر فرق ہے تو صرف علو و سفل یعنی بلندی اور پستی کا ہے اور حضرت فاروق رضی اللہ عنہ بھی حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے طفیل اس دولت سے مشرف ہیں اور تمام صحابہ کرام آنحضرت کے ساتھ ہمسرائی یا ہم شہر ہونے کی نسبت رکھتے ہیں ۔ پھر اولیائے امت کا وہاں کیا دخل ہے۔
این بس که رسد زدور بانگ جرسم
ترجمہ: ہے یہی کافی کہ آئے دور سے بانگ جرس
یہ لوگ کمالات شیخین رضی اللہ عنہم سے کیا حاصل کریں۔ یہ دونوں بزرگوار اپنی بزرگی و کلانی کی وجہ سے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام میں معدود اور ان کے فضائل کے ساتھ موصوف ہیں ۔
حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : لَوْ كَانَ بَعْدِى نَبِيِّ، لَكَانَ عُمَرٌ: (ال میرے پیچھے کوئی نبی ہوتا تو البتہ عمر ہوتا۔)
امام غزالی نے لکھا ہے کہ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کی ماتم پرسی کے دنوں میں حضرت عبداللہ بن عمر نے صحابہ کی مجلس میں کہا کہ : مَاتَ تِسْعَةُ أَعْثَارِ الْعِلْمِ: آج نو حصے علم فوت ہو گیا ۔ جب بعض میں اس معنی کے سمجھنے میں توقف دیکھا تو کہا کہ میری مراد علم سے علم باللہ نہیں ہے علم حیض و نفاس ہے۔
حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت کیا بیان کیا جائے جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تمام نیکیاں ان کی ایک نیکی کے برابر ہیں جیسا کہ مخبر صادق صلى الله عليه وسلم نے اس کی نسبت خبر دی ہے اور وہ انحطاط یعنی کمی جو حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے ہے۔ اس انحطاط و کمی سے زیادہ ہے جو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کو حضرت پیغمبر علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام سے ہے۔ پھر قیاس کرنا چاہئے کہ دوسروں کا حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے انحطاط کس قدر ہوگا اور
حضرات شیخین موت کے بعد بھی پیغمبر خدا ﷺ سے جدا نہ ہوئے اور ان کا حشر بھی یکجا ہوگا ۔ جیسا کہ فرمایا ہے۔ پس ان کی فضیلت قربیت کے باعث ہوگی ۔
يہ قليل البضاعت یعنی بے سروسامان ان کے کمالات کو کیا بیان کرے اور ان کے فضائل کیا ظاہر کرے۔ ذرہ کی کیا طاقت کہ آسمان کی نسبت گفتگو کرے اور قطرہ کیا مجال کہ بحر عمان کی بات زبان پر لائے ۔
ان اولیاء نے جو دعوت خلق کی طرف راجع ہیں اور ولایت و دعوت کی دونوں طرفوں سے حصہ رکھتے ہیں اور تابعین اور تبع تابعین میں سے علمائے مجتہدین نے کشف صحیح کے نور اور اخبار صادقی اور آثار متابعہ سے یخین کے کمالات کو دریافت کیا ہے اور ان کے فضائل کو پہچان کر ان کے افضل ہونے کا حکم دیا ہے اور اس پر اجماع کیا ہے اور اس کشف کو جو اس اجماع کے برخلاف ظاہر ہو غلط خیال کر کے اس کا کچھ اعتیار نہیں کیا ہے اور کس طرح ایسے کشف کا اعتبار کیا جائے جبکہ صدر اوّل میں ان کی فضلیت صحیح ہو چکی ہے چنانچہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے ابن عمر سے روایت کی ہے۔ قَالَ كُنَّا فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وآلِهِ وَسَلَمَ لا تَعْدِلُ بأبي بكر أحَداً ثُم عُمْر ثُمَّ عُثمان ثُمَّ نترك أَصْحَاب النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ لا نُفَاضِلُ بَيْنَهُمُ : ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نبیﷺ کے زمانہ میں کسی کو ابو بکر پھر عمر پھر عثمان کے برابر نہیں سمجھتے تھے ۔ پھر ہم نبی صلى الله عليه وسلم کے اصحاب کو چھوڑ دیتے تھے یعنی ان کے درمیان ایک دوسرے کو فضیلت نہ دیتے تھے ۔
اور ابوداؤد رحمتہ اللہ علیہ کی ایک روایت میں ہے۔ قان كُنَّا نقول و رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَى أَفْضَلُ أُمَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عليه وآله وسلّم بَعْدُهُ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ عُثْمَانُ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ: ( ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی زندگی میں کہا کرتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب امت میں سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم ۔
اور جنہوں نے کہا ہے کہ ولایت نبوت سے افضل ہے وہ ارباب سکر اور اولیائے غیر مرجوع میں سے ہیں جن کو کمالات نبوت سے زیادہ حصہ حاصل نہیں ہے اور آپ کی نظر میں آیا ہوگا کہ فقیر نے اپنے بعض رسالوں میں تحقیق کی ہے کہ نبوت ولایت سے افضل ہے۔ اگر چہ اسی نبی کی ولایت ہو اور یہی حق ہے اور جس نے اس کے برخلاف کہا وہ مقام نبوت کے کمالات سے جاہل ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔
اور آپ کو معلوم ہے کہ اولیاء کے تمام سلسلوں کے درمیان سلسلہ علیہ نقشبندیہ حضرت صدیق کی طرف منسوب ہے۔ پس صحو کی نسبت ان میں غالب ہوگی اور ان کی دعوت اتم ہوگی اور حضرت صدیق کے کمالات ان پر ظاہر ہوں گے۔ ناچار ان کی نسبت تمام سلسلوں کی نسبتوں سے بڑھ کر ہوگی۔ دوسروں کو ان کے کمالات کا کیا پتہ اور ان کے معاملہ کی حقیقت کی کیا خبر میں نہیں کہتا کہ تمام مشائخ نقشبند یہ اس معاملہ میں برابر ہیں۔ ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ اگر ہزاروں میں سے ایک بھی اس صفت کا ملجا ہے تو غنیمت ہے میرا خیال ہے کہ حضرت مہدی موعود جو ولایت کی اکملیت کے لئے مقرر ہیں ان کو یہ نسبت حاصل ہوگی اور اس سلسلہ علیہ کی تتمیم و تکمیل فرمائیں گے کیونکہ تمام ولایتوں کی نسبت اس نسبت علیہ سے نیچے ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب ولایتوں کو مرتبہ نبوت کے کمالات سے بہت کم حصہ حاصل ہے اور یہ ولایت حضرت صدیق کی طرف منسوب ہونے کے باعث ان کمالات سے وافر حصہ رکھتی ہے۔ جیسا کہ ابھی بیان ہو چکا ہے
بہ میں تفاوت ره از کجاست تا یکجا
ترجمہ: دیکھ دونوں میں کس قدر ہے فرق
اے بھائی ! چونکہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ ولایت محمدی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا بوجھ اٹھانے والے ہیں اس لئے اقطاب و ابدال و اوتاد ( جو اولیائے عزلت میں سے ہیں اور کمالات ولایت کی جانب ان میں غالب ہے) کے مقام کی تربیت آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی امداد و اعانت کےسپرد ہے۔
قطب الاقطاب یعنی قطب مدار کا سر آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے قدم کے نیچے ہے ۔ قطب مدار انہی کی حمایت ورعایت سے اپنے ضروری امور کو سرانجام کرتا اور مداریت سے عہدہ برا ہوتا ہے۔ حضرت فاطمہ اور امامین بھی اس مقام میں حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ شریک ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سب کے سب بزرگ ہیں اور سب کو بزرگی سے یاد کرنا چاہئے۔
خطیب رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے ۔ اِنَّ اللهَ اخْتَارَنِي وَإِخْتَارَلِى أَصْحَاباً وَاخْتَارَلِيُّ مِنْهُمْ أَصْهَاراً وَأَنْصَارًا فَمَن حَفِظَنِى فِيهِمْ حَفِظَهُ اللهُ وَمَنْ أَذَانِى فِيْهِمْ آذَاهُ اللَّهُ تَعَالیٰ اللہ تعالیٰ نے مجھے پسند فرمایا اور میرے لئے اصحاب کو پسند کیا اور ان میں سے بعض کو میرے لئے رشتہ دار اور مددگار پسند کیا۔ پس جس شخص نے ان کے حق میں مجھے محفوظ رکھا۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا اور جس نے ان کے حق میں مجھے ایذا دی ، اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی۔
طبرانی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ فر ما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ مَنْ سَبَ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَئِكَةِ والنَّاسِ الجَمعِين: جس نے میرے اصحاب کو گالی دی اس پر اللہ تعالیٰ اور فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے۔
اور ابن عدی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: إِنَّ شَرَارَ أُمَّتِي أَجْرَءُ هُمُ عَلى أَصْحَابی: میری امت میں سے برے وہ لوگ ہیں جو میرے اصحاب پر دلیر ہیں۔
اور ان لڑائی جھگڑوں کو جو ان کے درمیان واقع ہوئے ہیں، نیک عمل پر محمول کرنا چاہئے اور ہوا و تعصب سے دور سمجھنا چاہئے کیونکہ وہ مخالفتین تاویل و اجتہاد پر مبنی تھیں ، نہ ہوا و ہوس پر، یہی اہلسنت کا مذہب ہے۔
لیکن جاننا چاہئے کہ حضرت امیر کرم اللہ وجہہ کے ساتھ لڑائی کرنے والے خطا پر تھے اور حق حضرت امیر کی طرف تھی لیکن چونکہ یہ خطا، خطائے اجتہادی کی طرح تھا۔ اس لئے ملامت سے دور ہے اور اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے جیسا کہ شارح مواقف ، امدی سے نقل کرتا ہے کہ جمل و صفین کے واقعات اجتہاد سے ہوئے ہیں۔
اور شیخ ابوشکور سلمی نے تمہید میں تصریح کی ہے کہ اہلسنت و جماعت اس بات پر ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ بمعہ ان کے تمام اصحاب کے جو ان کے ہمراہ تھے ، سب خطا پر تھے لیکن ان کی خطا اجتہادی تھی
۔ اور شیخ ابن حجر نے صواعق میں کہا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے درمیان جھگڑے از روئے اجتہاد کے ہوئے ہیں اور اس قول کو اہلسنت کے متعقدات سے فرمایا ہے۔
اور شارح مواقف نے جو یہ کہا ہے کہ ہمارے بہت سے اصحاب اس بات پر ہیں کہ وہ منازعات از روئے اجتہاد کے نہیں ہوئے۔
معلوم نہیں اصحاب سے اس کی مراد کونسا گروہ ہے جبکہ اہلسنت اس کے برخلاف حکم دیتے ہیں جیسا کہ گزر چکا اور قوم کی کتابیں خطائے اجتہادی سے بھری پڑی ہیں جیسا کہ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ اور قاضی ابوبکر وغیرہ نے تصریح کی ہے۔ پس حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ لڑائی کرنے والوں کے حق میں فسق وضلال کا گمان جائز نہیں ہے۔
قاضی نے شفاء میں بیان کیا ہے ۔ قَالَ مَالِک رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مَنْ شَتَمَ أَحَداً مِّنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وسَلَّمَ اَبَا بَكْرٍ وَعُمُرَ وَعُتُمَانَ وَعَمْرَ وَابْنِ الْعَاصِ فَإِنْ قَالَ كَانُوا عَلَى ضَلالٍ وَكَفْرٍ أَوْ إِنْ شَتَمَ بِغَيْرِ هَذَا مِنْ مُشَاتَمَةِ النَّاسِ نُجِّلَ نَكَالاَ شَدِيدًا فَلا يَكُونُ مُحَارِبُو عَلى كَفْرَةً كَمَا زَعَمَتِ الغُلاةُ مِنَ الرّفْضَةِ وَلا فَسَقَةً كَمَا زَعَمَ الْبَعْضُ وَنَسْبُهُ شَارِفحُ الْمَوَاقِفُ إِلَى كَثِيرٍ مِّنْ أَصْحَابِهِ كَيْفَ وقَدْ كَانُتِ الصَّدِيقَةُ وَطَلْحَةُ والزُّبَيْرُ وَ كَثِيرٌ مِنْ أَصْحَابِ الْكِرَامِ مِنْهُمْ وَقَدْ قُتِلَ الطَّلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ فِي قِتَالِ الْجَمَلِ قَبْلَ خُرُوجِ مُعَاوِيَةَ مَعَ ثَلثَةَ عَشَرَ الْفَا مِّنَ الْقَتْلَى فَتَضْلِيلُهُمْ وَتَفْسِيْقُهُمْ مِمَّا لَا يَجُرَءُ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ فِي قَلْبِهِ مَرْضَ وَفِى باطنه حبث: حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ جس نے نبی صلى الله عليه وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو یعنی ابو بکر و عمر عثمان و عمرو بن العاص کو گالی دی اور کہا کہ وہ کفر اور گمراہی پر تھے یا اس کے سوا اور کوئی گالی نکالی جس طرح لوگ ایک دوسرے کو گالی نکالتے ہیں تو وہ سخت عذاب کا مستحق ہوا کیونکہ حضرت امیر کے ساتھ لڑائی کرنے والے کفر پر نہ تھے ۔ جیسا کہ بعض غالی رافضیوں کا خیال ہے اور نہ ہی فسق پر تھے جیسا کہ بعض نے خیال کیا ہے اور بہت سے اصحاب کی طرف ان کو منسوب کیا ہے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے جبکہ حضرت صدیقہ اور طلحہ اور زبیر اور بہت سے اصحاب کرام انہین میں سے تھے اور طلحہ اور زبیر جمل کی لڑائی میں معاویہ کے خروج سے پہلے تیرہ ہزار مقتولوں کے ساتھ قتل ہوے۔ پس ان کو ضلالت اور فسق کی طرف منسوب کرنے پر سوائے اس شخص کے کہ جس کے دل میں مرض اور اس کے باطن میں خبث ہو، کوئی مسلمان دلیری نہیں کرتا رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ۔
اور یہ جو بعض فقہاء کی عبارتوں میں جور کا لفظ معاویہ کے حق میں واقعہ ہوا ہے اور کہا ہے کہ معاویہ جور کرنے والے امام تھے تو اس جور سے مراد یہ ہے کہ حضرت امیر کی خلافت کے زمانہ میں وہ خلافت کے حق دار نہ تھے۔ نہ کہ وہ جور جس کا انجام فسق وضلالت ہے تا کہ اہلسنت کے اقوال کے موافق ہو اور نیز استقامت والے لوگ ایسے الفاظ بولنے سے جن سے مقصود کے برخلاف وہم پیدا ہو، پر ہیز کرتے ہیں اور خطا سے زیادہ کہنا پسند نہیں کرتے اور کس طرح جائز ہو سکے جبکہ صحیح و تحقیق ہو چکا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق اور مسلمانوں کے حقوق میں امام عادل تھے جیسا کہ صواعق میں ہے اور حضرت مولانا جامی نے جو خطائے منکر کہا ہے انہوں نے بھی زیادتی کی ہے خطاء جو کچھ زیادہ کریں خطا ہے اور جو کچھ اس کے بعد کہا ہے کہ اگر وہ لعنت کا مستحق ہے الخ ۔ یہ بھی نا مناسب کہا ہے۔ اس کی تردید کی کیا حاجت ہے اور اس میں کو نسا محل اشتباہ ہے۔ اگر یہ بات یزید کے حق میں کہتا تو بیشک ا جائز تھا لیکن حضرت معاویہ کے حق میں کہنا برا ہے اور احادیث نبوی میں معتبر اور ثقات کی اسناد سے مروی ہے کہ حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دعا کی ہے۔
اللَّهُمَّ عَلَمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِسَابَ وَقه العذاب : يا اللہ تو اس کو کتاب و حساب سکھا اور عذاب سے بچا اور دوسری جگہ دعا میں فرمایا۔ اللهم اجعلهُ هَادِياً وَمَهْدِیاً : یا اللہ تو اس کو ہادی اور مہدی بنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا مقبول ہے۔
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات مولانا سے سہو و نسیان کے طور پر سرزد ہوئی ہو اور نیز مولانا نے انہی ابیات میں نام کی تصریح نہ کر کے کہا ہے کہ وہ صحابی اور ہے اور یہ عبارت بھی نا خوشی سے خبر دیتی ہے۔ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ اخطانا: یا اللہ ہم کو بھول چوک پر مواخذہ نہ کر۔ اور وہ جو بعض نے امام شعبی سے معاویہ کی مذمت میں نقل کیا ہے اور اس کی برائی کو فسق سے برتر بیان کی ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور اگر بالفرض اس بات کو صحیح بھی مان لیا جائے تو امام اعظم رحمتہ اللہ علیہ جو ان کے شاگردوں میں سے ہیں ۔ اس نقل کے زیادہ مستحق تھے اور امام مالک جو تابعین میں سے ہیں اور ان کے ہمعصر اور علمائے مدینہ میں سے زیادہ عالم ہیں ۔ معاویہ اور عمرو بن العاص کے گالی دینے والے کو قتل کا حکم دیا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا۔ اگر وہ گالی کے مستحق ہوتے تو ان کے گالی دینے والے کو قتل کا حکم کیوں دیتے ۔ پس معلوم ہوا کہ ان کو گالی نکالنا کبیرہ گناہ جان کر ان کے گالی نکالنے والے کو قتل کا حکم دیا ہے اور نیز ان کو گالی دینا ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کو گالی دینے کی طرح خیال کیا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ۔ پس معاویہ برائی کے مستحق نہیں ہیں۔ اے بھائی ! معاویہ تنہا اس معاملہ میں نہیں ہیں۔ کم و بیش آدھے اصحاب کرام نکے ساتھ اس معاملہ میں شریک ہیں۔ پس اگر حضرت امیر کے ساتھ لڑائی کرنے والے کافریا فاسق ہوں تو نصف دین سے اعتماد دور ہو جاتا ہے جو ان کی تبلیغ کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے اس بات کو سوائے اس زندیق کے جس کا مقصود دین کی بربادی ہے، کوئی پسند نہیں کرتا ۔
اے برادر! اس فتنہ کے برپا ہونے کا منشاء حضرت عثمان کا قتل اور ان کے قاتلوں سے ان کا قصاص طلب کرنا ہے۔ طلحہ و زبیر جو اول مدینہ سے باہر نکلے تاخیر قصاص کے باعث نکلے اور حضرت صدیقہ نے بھی اس امر میں ان کے ساتھ موافقت کی اور جنگ جمل جس میں تیرہ ہزار آدمی قتل ہوئے اور طلحہ و زبیر بھی جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں قتل ہوئے ۔ حضرت عثمان کے قصاص کے باعث ہوا ہے۔ اس کے بعد معاویہ نے شام سے آکر ان کے ساتھ شریک ہو کر جنگ صفین کیا۔ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے تصریح کی ہے کہ وہ جھگڑا امر خلافت پر نہیں ہوا بلکہ قصاص کے پورا کرنے کے لئے حضرت امیر کی خلافت کے ابتداء میں ہوا ہے اور شیخ ابن حجر نے بھی اس بات کو اہلسنت کے معتقدات سے کہا ہے اور شیخ ابوشکور سلمی رحمتہ اللہ علیہ نے جو بزرگ علمائے حنفیہ میں سے ہیں۔ کہا کہ حضرت معاویہ اور حضرت امیر کے درمیانی جھگڑے خلافت کے بارے میں ہوئے ہیں۔
حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت معاویہ کو فرمایا تھا کہ: إِذَا مَلَكُتَ النَّاسَ فَارُفِقُ بِهِمُ : جب تو لوگوں کا مالک بنے تو ان کے ساتھ نرمی کر ۔ شائد اس بات سے معاویہ کو خلافت کا طمع پیدا ہو گیا ہو لیکن وہ اس اجتہاد میں خطا پر تھے اور حضرت امیر حق پر کیونکہ ان کی خلافت کا وقت حضرت امیر کی خلافت کے بعد تھا اور ان دونوں قولوں کے درمیان موافقت اس طرح پر ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس منازعت کا منشاء قصاص کی تاخیر ہو اور پھر خلافت کا طمع بھی پیدا ہو گیا ہو بہر تقدیر اجتہاد اپنے محل میں واقع ہوا ہے۔ اگر خطا پر ہے تو ایک درجہ اور حق والے کے لئے دو درجے بلکہ دس در جے۔
اے برادر! اس امر میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب کی لڑائی جھگڑوں سے خاموش رہیں اور ان کے ذکر اذکار سے منہ موڑیں ۔ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے۔ اِيَّاكُمُ وَمَا شَجَرَ بَيْنَ أَصْحَابِی: میرے اصحاب ( رضی اللہ عنہم) کے درمیان جو جھگڑے ہوئے ہیں ، ان سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ نیز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے۔ اللہ اللهَ فِي أَصْحَابي لا تَتَّخِذُوهُمُ عرضا: یعنی میرے اصحاب کے حق میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ان کو اپنے تیر کا نشانہ نہ بناؤ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے اور نیز عمر بن عبد العزیز سے بھی منقول ہے کہ تلک تِلكَ دِمَاهُ طَهَرَ اللَّهُ عَنْهَا أَيْدِينَا فَلَنْطَهَرُ عَنْهَا الْسِنَتَنَا: يہ وه خون ہیں جن سے ہمارے ہاتھوں کو اللہ تعالیٰ نے پاک رکھا۔ پس ہم اپنی زبانوں کو ان سے پاک رکھتے ہیں۔ اس عبارت سے مفہوم ہوتا ہے کہ ان کی خطا کو بھی زبان پر نہ لانا چاہئے اور ان کے ذکر خیر کے سوا اور کچھ نہ بیان کرنا چاہئے۔ یزید بد بخت فاسقوں کے زمرہ میں سے ہے۔ اس کی لعنت میں توقف اہلسنت کے مقررہ اصل کے باعث ہے کیونکہ انہوں نے معین شخص کے لئے اگر چہ کافر ہوانت جائز نہیں کی مگر جب یقیناً معلوم کریں کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے جیسا کہ ابولہب جہنمی اور اس کی عورت نہ یہ کہ وہ لعنت – کے لائق نہیں ۔ اِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَتَهُمُ اللهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ: جولوگ الله اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں اللہ کی لعنت ہے۔
جاننا چاہئے کہ چونکہ اس زمانہ میں اکثر لوگوں نے امامت کی بحث چھیٹر رکھی ہے اور اصحاب کرام علیہم الرضوان کی خلافت کی نسبت گفتگو مدنظر کی ہوئی ہے اور جہاں اہل تاریخ اور سرکش بدعتیوں کی تقلید پر اکثر اصحاب کرام کو نیکی سے یاد نہیں کرتے اور کئی نامناسب امور ان جناب کی طرف منسوب کرتے ہیں اس لئے جو کچھ معلوم تھا تحریر میں لا کر دوستوں کی طرف بھیجا گیا ہے۔ قَالَ عَلَيْهِ وَالِهِ الصَّلوةُ وَالسَّلامُ إِذا ظهرَتِ الْفِتْنُ أو قال البدع وسُبَتْ أَصْحَابِي فَلْيُظْهِرُ الْعَالِمُ عِلْمَهُ فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذلِكَ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ الله والمليكة وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللهُ نَفْلاً وَلَا فَرْضاً: رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے کہ جب فتنے ظاہر ہو جائیں یا بدعتیں فرمایا اور میرے اصحاب کو گالیاں دی جائیں تو عالم کو چاہئے کہ اپنے علم کو ظاہر کرے۔ پس جس نے ایسا نہ کیا اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اللہ تعالیٰ اس کا کوئی فرض و نفل قبول نہ کرے گا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ سلطان وقت اپنے آپ کو حنفی مذہب قرار دیتا ہے اور اہل سنت و جماعت میں سے جانتا ہے ورنہ مسلمانوں پر کام بہت تنگ ہوتا اس پر بڑی نعمت کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ پس چاہئے کہ اہل سنت و جماعت کے معتقدات پر اپنے اعتقاد کا مدار رکھیں اور زید و عمر کی باتوں کو نہ سنیں ۔ جھوٹے قصوں پر کام کا مدار رکھنا اپنے آپ کو ضائع کرنا ہے۔ فرقہ ناجیہ کی تقلید ضروری ہے تا کہ نجات کی امید پیدا ہو ۔ وَدُونَهُ خَرْطُ الْقَتَادِ ورنہ بے فائدہ تکلیف ہے۔ وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَعَلَى سَائِرٍ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدى وَالْتَزمَ مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفَى عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ الصَّلوةُ وَالسَّلام: اور سلام ہو آپ پر اور ان سب پر جنہوں نے ہدایت اختیار کی اور حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت کو لازم پکڑا۔