2

مکتوب 256: چند سوالوں کے حجاب میں یعنی اس سوال کے جواب میں قطب وقطب الاقطاب


مکتوب 256

چند سوالوں کے جواب میں یعنی اس سوال کے جواب میں قطب و قطب الاقطاب و غوث و خلیفہ کے کیا معنی ہیں اور اس سوال کے جواب میں کہ حدیث لو اتُزِنُ إِيْمَانُ أَبِي بَكْرِ الخ کی کیا تحقیق ہے اور اس کے متعلق مناسب بیان میں میاں شیخ بدیع الدین کی طرف صادر فرمایا ہے۔

الحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامُ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔

آپ کا مکتوب شریف جو ایک درویش کے ہمراہ ارسال کیا تھا، پہنچا۔ بہت خوشی حاصل ہوئی۔ آپ نے پوچھا تھا کہ قطب و قطب الاقطاب و غوث و خلیفہ کے کیا معنی ہیں اور ہر ایک ان میں سے کس کس خدمت پر مامور ہے اور اپنی خدمت کی نسبت اطلاع رکھتے ہیں یا نہیں اور قطب الاقطاب کی بشارت جو عالم غیب سے پہنچتی ہے۔ کچھ اصل رکھتی ہے یا کہ وہم و خیال کا اختراع ہے؟ جاننا چاہئے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے کامل تابعدار کامل تابعداری کے باعث جب مقام نبوت کے کمالات کو تمام کر لیتے ہیں تو ان میں سے بعض کو منصب امامت سے سرفراز کرتے ہیں اور بعض کو صرف اس کمال کے حاصل ہونے پر کفایت فرماتے ہیں یہ دونوں بزرگ اس کمال کے نفس حصول میں برابر ہیں۔ فرق صرف منصب اور عدم منصب اور ان امور میں ہے جو اس سب سے تعلق رکھتے ہیں اور جب کامل تابعد ار ولایت نبوت کے کمالات کو تمام کر لیتے ہیں تو ان میں سے بعض کو منصب خلافت سے مشرف فرماتے ہیں اور بعض کو صرف ان کمالات کے حاصل ہونے پر کفایت کرتے ہیں جس طرح کہ اوپر گزرا۔

یہ دونوں منصب کمالات اصلیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور کمالات ظلیہ میں منصب امامت کے مناسب قطب ارشاد کا منصب ہے اور منصب خلافت کے مناسب قطب مدار کا منصب گویا یہ دونوں مقام جو تحت میں ہیں ان دونوں مقاموں کے جو او پر میں ہیں ظل ہیں ۔

اور شیخ محی الدین عربی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک غوث یہی قطب ہے ان کے نزدیک منصب غوثیت منصب قطبیت سے کوئی علیحدہ منصب نہیں ہے اور جو کچھ فقیر کا عقیدہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ غوث قطب مدار سے الگ ہے بلکہ اس کے روزگار کا ممد و معاون ہے۔ قطب مدار بعض امور میں اس مدد لیتا ہے اور ابدال کے منصب مقرر کرنے میں بھی اس کا دخل ہے اور قطب کو اس کے اعوان و انصار کے اعتبار سے قطب الاقطاب بھی کہتے ہیں کیونکہ قطب الاقطاب کے اعوان و انصار حکمی ہیں۔ اسی واسطے صاحب فتوحات مکیہ لکھتے ہیں کہ مَا مِن قَرْيَةٍ مُؤْمِنَةٍ كَانَتْ اَوْ كَافِرَةً إِلَّا وَفِيهَا قُطْبٌ مومنوں یا کافروں کا کوئی ایسا گاؤں نہیں ہے جس میں قطب نہ ہو۔

جاننا چاہئے کہ صاحب منصب کو البتہ اپنے منصب کا علم ہوتا ہے اور وہ جو اس منصب کا کمال رکھتا ہے اور منصب نہیں رکھتا اس کے لئے لازم نہیں کہ صاحب علم ہو اور اپنی خدمت سے مطلع ہو اور وہ بشارت جو عالم غیب سے پہنچتی ہے اس مقام کے کمالات حاصل ہونے کی بشارت ہے نہ اس مقام کے منصب کی بشارت جو علم سے وابستہ ہے۔


نیز آپ نے پوچھا تھا کہ اس ایمان سے جو حدیث لَوِتُزنَ إِيْمَانَ أَبِي بَكْرٍ مَعَ ايمان أُمَّتِي لَرَجَعَ اگر ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایمان میری امت کے ایمان کے ساتھ وزن کیا جائے تو البتہ غالب آ جائے ) میں واقع ہے، کیا مراد ہے اور اس کی ترجیح کا کیا سبب ہے۔


جاننا چاہئے کہ ایمان کا رجحان مُؤمَنُ بِهِ کے رجحان کے باعث ہے چونکہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان کے متعلق تمام امت کے ایمان کے متعلقات سے برتر ہے اس لئے راجح و غالب ہوگا۔

میرے مخدوم ! عروجات میں معاملہ یہاں تک پہنچتا ہے کہ اگر ایک نقطہ زیادہ بلند جائیں تو وہ کمال جو اس ایک نقطہ کے عروجات کے باعث حاصل ہوتے ہیں۔ تمام گزشتہ کمالات سے بہت زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ نقطہ اپنے تمام ماتحتوں سے افزوں تر ہے ۔ یہی حال اس نقطہ کا ہے جو اس نقطہ کے ما تقدم کے اوپر ہے کیونکہ نقطہ ما تقدم بمع اپنے ماتحت کے نقطہ فوق کے مقابلہ میں حقیر و فقیر ہے۔ پس اس قیاس پر جس کے ایمان کا متعلق کمال فوق ہو ۔ وہ بیشک اپنے تمام ماتحت سے راجح و غالب ہوگا ۔ اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ عارف کا معاملہ یہاں تک پہنچتا ہے کہ ایک لحظہ میں تمام ما تقدم کمالات کو حاصل کر لیتا ہے۔ ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ العظیم اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

اور نیز پوچھا تھا کہ شیخ ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے تابعداروں نے لکھا ہے کہ جس قدر لڑ کے حضرت موسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کے سبب قتل کئے گئے۔ ان سب مقتولوں کی استعدادیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منتقل ہو گئیں۔ اس بات کی حقیقت مفصل طور پر لکھیں۔

جاننا چاہئے کہ یہ درست ہے کیونکہ تحقیق سے لکھا ہے کہ جس طرح ایک شخص کو جماعت کے کمالات حاصل ہونے کا سبب بناتے ہیں اسی طرح جماعت کو بھی ایک شخص کے کمالات حاصل ہونے کا سبب بناتے ہیں۔ پیر ا گرچہ مریدوں کے کمالات حاصل ہونے کا سبب ہے لیکن مرید بھی پیر کے کمالات کا سبب ہیں۔ اس مطلب کو فقیر ماکولات ومشروبات میں بھی جن کو اپنے بدن کا اجزاء بناتا تھا۔ محسوس کرتا تھا کہ جو طعام و شراب کھاتا پیتا تھا، استعداد کی جامعیت کا سبب ہوتا تھا

اور ایک الگ قابلیت پیدا کرتا تھا اور جب کبھی ماکولات لذیذہ کے چھوڑنے کا قصد کرتا تھا تو روک دیا جاتا تھا اور اس جامعیت اور قابلیت کے حاصل ہونے کی وجہ سے اس لذیذ طعام کو چھوڑنے کی اجازت نہ ملتی تھی اور بسا اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک کی استعداد دوسرے میں کلی اور جزئی طور پر انتقال کر جاتی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ ایک خالی ہے اور دوسرا جمعیت سے پر ہے۔

نیز آپ نے پوچھا تھا کہ شیخ نجم الدین کبری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے مرید کو ایک بزرگ کے پاس بھیجا تھا تا کہ اس کے ذریعے معلوم کریں کہ آپ کس پیغمبر کے قدم کے نیچے ہیں۔ اس بزرگ نے فرمایا کہ تیرا جہود کس کام میں ہے شیخ نے اس عبارت سے سمجھ لیا کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے قدم کے نیچے ہیں۔ اس عبارت سے یہ مطلب کس طرح سمجھ لیا ہے، جاننا چاہئے کہ جہود یہود کو کہتے ہیں جو حضرت موسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی امت تھے۔

نیز آپ نے پوچھا تھا کہ نفحات میں لکھا ہے کہ چار آدمیوں کے سوا تمام اولیاء کی ولایت مرنے کے بعد سلب ہو جاتی ہے۔

جاننا چاہئے کہ ولایت سے مراد تصرفات اور کرامات کا ظہور ہوگا نہ کہ اصل ولایت جو قرب الہی سے مراد ہے اور نیز سلب سے مراد کرامات کے بکثرت ظاہر ہونے کا سلب ہوگا نہ کہ اس ظہور کے اصل کا سلب ۔


چونکہ یہ بات کشفی ہے اور کشف میں خطا کی بہت مجال ہے معلوم نہیں کہ آپ نے کیا دیکھا اور کیا سمجھا ہے۔

آپ نے اولیاء کی بعض کرامات کا ظہور طلب فرمایا تھا ۔ آپ منتظر رہیں ۔ سَيَجْعَلُ اللهُ بَعْدَ عُسْرِ يُسْراً اللہ تعالیٰ جلدی تنگی کے بعد فراخی لائے گا۔

آپ نے پوچھا تھا کہ نیشاپوری میں لکھا ہے ۔ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ یعنی شَانِئَكَ يا کے ساتھ یا ہمزہ (ء) کے ساتھ۔ اس کی تحقیق کیا ہے۔ جاننا چاہئے کہ شائنک ہمزہ کے ساتھ ہے اور جس نے یا سے لکھا ہے وہ غیر مشہور قرات ہوگی۔


آپ نے لکھا تھا کہ بعض عورتیں مشغولی یعنی ذکر کی طلب ظاہر کرتی ہیں ۔ اگر محرمات ہیں تو کوئی منع نہیں ورنہ پردہ میں بیٹھ کر طریقہ اخذ کریں۔ نیز آپ نے پوچھا تھا کہ اہل حدیث نے ہر مہینہ میں ایام منتہی مقرر کئے ہیں اور اس بارے میں حدیث نقل کرتے ہیں۔ فرما ئیں کہ کس طرح کرنا چاہئے۔

جاننا چاہئے کہ فقیر کے والد قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ شیخ عبداللہ و شیخ رحمت اللہ جو اکابر محدثین سے تھے اور حرمین میں شیخین کے لقب سے مشہور تھے۔ کسی تقریب پر ہندوستان میں تشریف لائے تھے ، وہ فرماتے تھے کہ اس حدیث کو کرمانی شارح صحیح بخاری نے نقل کیا ہے لیکن ضعیف ہے۔ صحیح حدیث اس بارے میں الأَيَّامُ أَيَّامُ اللهِ وَالْعِبَادُ عِبَادُ الله ( دن اللہ کے دن ہیں اور بندے بھی اللہ کے بندہ ہیں) ہے۔

نیز فرماتے تھے کہ دنوں کی نحوست رحمت عالمیان علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش سے دور ہو گئی ۔ ایامِ نُحَسَاتٍ یعنی منحوس دن گزشتہ امتوں کی نسبت تھے اور فقیر کا عمل بھی اسی پر ہے اور کسی دن کو دوسرے دن پر ترجیح نہیں دیتا جب تک کہ اس کی ترجیح شارع سے معلوم نہیں کرتا جیسا کہ جمعہ اور رمضان وغیرہ۔

نیز آپ نے لکھا تھا کہ وہ معارف جو بار نبوت کو برداشت کرنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ خواجہ محمد اشرف کے مکتوب میں نہیں ملے ۔ آپ ان کو کہاں پا سکیں کیونکہ وہ مکتوب انہی دنوں میں لکھا گیا ہے اور اس کی نقل ابھی آپ کو نہیں پہنچی۔ مکتوب بہت لمبا ہے شاید ایک جزو سے زیادہ ہوگا۔ فقیر نے اس کی نقل آپ کی طرف بھیجنے کے لئے کہہ دیا ہے۔

والسلام ۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا