2

مکتوب 261: نماز کے فضائل اور معارف بلند اور حقائق ارجمند کے ضمن میں نماز کے مخصوصہ کمالات کے بیان


مکتوب 261

نماز کے فضائل اور معارف بلند اور حقائق ارجمند کے ضمن میں نماز کے مخصوصہ کمالات کے بیان میں سیادت مآب میر نعمان کی طرف صادر فرمایا ہے :-


حمد وصلوٰۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد میرے عزیز بھائی کو کہ خدا اس کو ہدایت دے معلوم ہو کہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے نماز دوسرا رکن ہے۔ نماز تمام عبادات کی جامع ہے اور جزو ہے جس نے جامعیت کے سبب سے کل کا حکم پیدا کیا ہے اور تمام مقربہ اعمال سے برتر ہو گئی ہے اور وہ دولت رویت جو سرور عالمیان صلى الله عليه وسلم کو معراج کی رات بہشت میں میسر ہوئی تھی۔ دنیا میں نازل ہونے کے بعد اس جہان کے مناسب آپ کو وہ دولت نماز میں حاصل ہوئی۔ اس واسطے حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے۔ اَلصَّلوةُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِينَ نماز مومنوں کی معراج ہے۔


نیز فرمایا أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنَ الرَّبِّ فِى الصَّلواۃ سب سے زیادہ اعلیٰ قرب جو بندے کو رب سے ہوتا ہے وہ نماز میں ہے۔

اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے کامل تابعداروں کو اس جہان میں اس دولت کا بہت سا حصہ نماز میں حاصل ہے۔ اگر چہ روایت میسر نہیں کیونکہ یہ جہان اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ اگر نماز کا حکم نہ ہوتا چہرہ مقصود سے نقاب کون کھولتا اور طالب کو مطلوب کی طرف کون رہنمائی کرتا۔ نماز ہی غمزدوں کی غمگسار ہے اور نماز ہی بیماروں کیلئے راحت بخش ہے۔ ارِ حُنِی یا بلالُ ( راحت دے مجھے اے بلال ) اسی ماجرا کی رمز ہے اور قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلوۃ (نماز میں میری آنکھ کی ٹھنڈک ہے ) میں اسی مطلب کی طرف اشارہ ہے۔ وہ ذوق و مواجید اور علوم و معارف اور مقامات وانوار اور تلو نیات و تمکینات اور تجلیات متکیفہ اور غیر متکیفہ اور ظہورات متلونہ اور غیر متلونہ وغیرہ جو کچھ ان میں سے نماز کے سوا میسر ہوں اور نماز کی حقیقت سے بے خبر ہونے کے باعث ظاہر ہوں۔ ان کا منشا ظلال و امثال بلکہ وہم و خیال ہیں۔

نمازی جو نماز کی حقیقت سے آگاہ ہے، نماز کے ادا کرنے کے وقت گویا عالم دنیا سے باہر نکل جاتا ہے اور عالم آخرت میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس وقت اس دولت سے جو آخرت سے مخصوص ہے حصہ حاصل کر لیتا ہے اور ظلیت کی آمیزش کے بغیر اصل کا فائدہ پالیتا ہے۔ کیونکہ عالم دنیا کے کمالات ظلی پر منحصر ہے اور وہ معاملہ جو ظلال سے باہر ہے وہ آخرت سے مخصوص ہے۔ پس معراج سے چارہ نہ ہوگا اور وہ مومنوں کے حق میں نماز ہے۔ یہ دولت اس امت کے ساتھ مخصوص ہے۔ جو اپنے پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کی تابعداری کے سبب کہ شب معراج میں دنیا سے آخرت میں چلے گئے اور بہشت میں پہنچ کر حق تعالیٰ کی روئیت کی دولت سے مشرف ہوئے ۔ اس کمال کے ساتھ مشرف ہوئے اور اس سعادت سے فیض یاب ہوئے ۔


اللَّهُمَّ اَجِرُهُ عَنا مَا هُوَ اَهْلُهُ وَاجِزَهُ عَنَّا اَفْضَلَ مَا جَزَيْتَ نَبِيَّا عَنْ أُمَّتِهِ وَ أَجِزِ الأنْبِيَاءَ كُلَّهُمُ جَزَاءً خَيْراً فَإِنَّهُمُ دُعَاةُ الْخَلْقِ إلى الله سُبْحَانَهُ وَهُدَاتُهُمُ إلى الله سُبْحَانَهُ – (یا اللہ تو ہماری طرف سے ان کو ایسی جزا دے جس کے وہ لائق اور ان کو ہماری طرف سے اس سے افضل جزا دے۔ جو تو نے امت کی طرف سے کسی نبی کو دی اور ہماری طرف سے تمام انبیاء کو جزاء خیر عطا کر کیونکہ وہ سب کے سب خلق کو اللہ کی طرف بلانے والے اور اس کے لقاء کی طرف ان کو ہدایت دینے والے ہیں۔)

اس گروہ میں سے بعض نے جن کو نماز کی حقیقت سے آگاہ نہ کیا اور اس کے مخصوصہ کمالات پر اطلاع نہ بخشی ۔ انہوں نے اپنی امراض کا علاج اور امور سے کیا اور اپنی مرادوں کا حاصل ہونا اور اشیاء پر وابستہ جانا۔ بلکہ ان میں سے ایک گروہ نے نماز کو بے فائدہ اور دور ازکار سمجھ کر اس کی بنیاد غیر اور غیریت پر رکھی اور روزہ کو نماز سے افضل جانا۔


صاحبِ فتوحات مکیہ کہتے ہیں کہ روزہ میں جو کھانے پینے کی ترک ہے وہ صفات صمدیت سے متحقق ہونا ہے اور نماز میں غیر و غیریت کی طرف آنا اور عابد و معبود کا جاننا ہے۔

اس قسم کی باتیں اہل سکر کے احوال میں سے مسئلہ تو حید وجودی پر مبنی ہیں ۔ یہ نماز کی حقیقت سے ناواقف ہونے کا ہی باعث ہے کہ اس طائفہ میں سے جم غفیر یعنی بہت سے لوگوں نے اپنے اضطراب و بے قراری کی تسکین سماع ونعمہ و وجد و تو احد سے حاصل کی اور اپنے مطلوب کو نغمہ کے پردہ میں مطالعہ کیا۔ اسی واسطے رقص و رقاصی کو اپنی عادت بنا لیا حالانکہ انہوں نے سنا ہو گا کہ ما جَعَلَ اللهُ فِي الْحَرَامِ شِفَاء اللہ تعالیٰ نے حرام میں شفا نہیں رکھی ۔ ہاں اَلْغَرِيقُ يَتَعَلَّقُ بِكُلِّ حَشِيشِ وَ حُبُّ الشَّي ءِ يُعْمِی وَ يُعِمُ (ڈوبتے کو تنکے کا سہارا اور کسی شے کی محبت اندھا اور بہرہ کر دیتی ہے۔)


اگر نماز کے کمالات کی حقیقت کچھ بھی ان پر منکشف ہو جاتی تو ہرگز سماع و نغمہ کا دم نہ مارتے ونغمہ اور وجد وتواجد کو یاد نہ کرتے ۔


چوں ندیدند حقیقت ره افسانه زوند
ترجمہ : جب حقیقت کو نہ پایا راه افسانہ لیا


اے برادر ! جس قدر فرق نماز و نغمہ میں ہے اسی قدر فرق نماز کے مخصوصہ کمالات اور نغمہ سے پیدا ہوئے کمالات میں ہے۔ اَلْعَاقِلُ تَكْفِيهِ الْإِشَارَةُ عاقل کو ایک ہی اشارہ کافی ہے۔

یہ وہ کمالات ہیں جو ہزار سال کے بعد وجود میں آئے ہیں اور آخریت سے جو اولیت کے رنگ میں ظاہر ہوئی ہے۔ شاید حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی سبب سے فرمایا ہے کہ اَوَّلُهُمُ خَيْرٌ أَمُ اخِرُهُمُ (ان میں سے اوّل بہتر ہیں یا ان میں سے آخر ) اور یہ نہ فرمایا أَوَّلُهُمْ خَيْرٌ اَمُ اَوْسَطُهُمُ ( ان کے اوّل بہتر ہیں یا ان کے اوسط ) کیونکہ آخر کی اوّل کے ساتھ زیادہ مناسبت دیکھی جو تردد کا محل ہے۔

اجوتر اور دوسری حدیث میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اس امت میں سے بہترین اول ہیں یا آخر اور درمیان میں کدورت و تیرگی ہے۔


ہاں اس امت کے متاخرین میں اگر چہ نسبت بلند ہیں لیکن قلیل بلکہ اقل ہیں اور متوسطون میں نسبت اگر چہ بلند نہیں ہے لیکن کثیر بلکہ اکثر ہے ۔ وَلِكُلِّ وَجُهَةٌ كَمِيَّةً وَ كَفِيَّةٌ (ہر ایک کے لئے کمیت کیفیت کے لحاظ سے ایک جہت ہے ) لیکن اس نسبت کے اقل ہونے نے متاخرین کو درجہ بلند میں پہنچایا اور سابقین کے سات مناسبت دے کر خوشخبری دی۔ جیسا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: –


الإسلامُ بَدَءَ غَرِيباً وَ سَيَعُودُ كَمَا بَدَءَ فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ اسلام غریب شروع ہوا اور پھر ویسا ہی غریب ہو جائے گا پس غرباء کو خوشخبری ہے اور امت کے آخریت کا شروع آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے رحلت فرما جانے کے بعد الف ثانی یعنی دوسرے ہزار سال کی ابتدا ہے کیا الف یعنی ہزار سال کے گزرنے کو امور کے تغیر میں بڑی خاصیت ہے اور اشیاء کی تبدیلی میں قوی تاثیر ہے اور چونکہ اس امت میں نسخ و تبدیلی نہیں ہے۔ اس لئے سابقین کی نسبت اسی تر و تازگی کے ساتھ متاخرین میں جلوہ گر ہوئی ہے اور الف ثانی میں از سر نو شریعت کی تجدید اور ملت کی ترقی فرمائی ہے۔ اس معنی پر حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت مہدی علیہ الرضوان دونوں عادل گواہ ہیں ۔


فیض روح القدس ارباز مدد فرماید
دیگراں ہم بکند آنچه مسیحا میکرد


:ترجمه: گرید دروح القدس فرمائے تو پھر اور بھی
کر دکھا ئیں کام جو کچھ کہ مسیحانے کیا


اے برادر ! یہ بات آج اکثر لوگوں کو نا گوار اور ان کے فہم سے دور معلوم ہوتی ہے لیکن اگر انصاف کریں اور ایک دوسرے کے علوم و معارف کا موازنہ کریں اور احوال کی صحت وسقم کا علوم شریعہ کی مطابقت اور عدم مطابقت سے ملاحظہ کریں اور شریعت و نبوت کی تعظیم و توقیر دیکھیں کہ ان میں سے کس میں زیادہ تر ہے۔ تو امید ہے کہ یہ تعجب ان کا جاتا رہے اور یہ بات ان کو فہم سے دور معلوم نہ ہو۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ فقیر نے اپنی کتابوں اور رسالوں میں لکھا ہے کہ طریقت و حقیقت دونوں شریعت کے خادم ہیں اور نبوت ولایت سے افضل ہے۔ اگر چہ اس نبی کی ولایت ہو اور یہ بھی لکھا ہے کہ کمالات ولایت کو کمالات نبوت کے ساتھ کچھ نسبت نہیں ہے ۔ کاش کہ ان کے درمیان قطرہ اور دریا کی سی نسبت ہوتی ۔ اس قسم کی بہت سی باتیں اس مکتوب میں جو طریقہ کےبیان میں اپنے فرزند کی طرف لکھا ہے۔ خاص طور پر لکھی گئی ہیں وہاں سے ملاحظہ فرمالیں ۔

اس گفتگو سے مقصود یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی نعمت کا اظہار ہو اور اس طریقہ کے طالبوں کو ترغیب ہو۔ نہ یہ کہ دوسروں پر اپنی فضیلت و بزرگی ثابت ہو ۔ خدائے تعالیٰ کی معرفت اس شخص پر حرام

ہے جو اپنے آپ کو کا فرفرنگ سے بہتر جانے ۔ تو پھر اس شخص کا کیا حال ہو جو بزرگان دین سے اپنے آپ کو افضل جانے ۔


ولی چون شد مرا برداشت از خاک
سزد گربگذر انم سرز افلاک

من آں خاکم کہ ابر نوبہاری
کند از لطف برمن قطره باری

اگر برد دید از تن صدر بانم
چو سوسن شکر لطفش کے تو انم

ترجمہ : مجھے جب خاک سے شہ نے اٹھایا
فلک سے ہو نہ کیوں پھر اونچا پایا

وہ مٹی ہوں کہ ابر نو بہاری
کرے رحمت سے مجھے پر قطرہ باری

ہر بال میں میرے زباں ہو
تو پھر بھی شکر نعمت کب عیاں ہو

اس کے مطالعہ کے بعد اگر تم میں نماز کے سیکھنے اور اس کے مخصوص کمالات میں سے بعض کے حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا اور وہ شوق تم کو بے آرام کر دے۔ تو استخاروں کے بعد ان حدود کی طرف آجائیں اور عمر کا کچھ حصہ نماز کے سیکھنے میں صرف کریں ۔ وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ الْهَادِى إِلَىٰ سَبِيْلَ الرَّشَادِ: اللہ تعالیٰ سیدھے رستے کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔


وَالسَّلامُ عَلى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالْتَزَمَ مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفَى عَلَيْهِ وَ عَلَى الِهِ الصَّلوةُ وَالسَّلامُ اتَهُمَا وَأَكْمَلُها: اور سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی اور حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت کو لازم پکڑا ۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا