مکتوب 265
اس بیان میں کہ عزلت اور گوشہ نشینی کے اختیار کرنے میں چاہئے کہ مسلمانوں کے حقوق ضائع نہ ہوں اور حقوق اور اس کے مناسب بیان میں شیخ عبدالھادی بیاکونی کی طرف لکھا ہے:۔
حمد وصلوٰۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد واضح ہو کہ میرے سعادت مند بھائی کا مکتوب مرغوب پہنچا۔ بہت خوشی حاصل ہوئی۔
اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ مفارقت اور جدائی کے زمانہ دراز نے محبت و اخلاص اور مودت واختصاص میں کچھ تاثیر نہیں کی۔ باوجود اس کے اگر آپ تشریف لے آتے تو بہت ہی مناسب ہوتا ۔ وَالْخَيْرُ فِيْمَا صَنَعَ اللهُ تَعَالیٰ اور بہتر وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کرے
آپ نے گوشہ نشینی کی خواہش ظاہر کی تھی ۔ ہاں بے شک گوشہ نشینی صدیقین کی آرزو ہے۔ آپ کو مبارک ہو۔ آپ عزلت و گوشہ نشینی اختیار کریں لیکن مسلمانوں کے حقوق کی رعایت ہاتھ سے نہ دیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ خَمْسَ وَ السَّلام وَعِيَادَةُ الْمَرِيضِ وَاتَّبَاعُ الْجَنَائِزِ وَ إِجَابَتُ الدَّعْوَةِ وَ تَشْمِيَتُ الْعَاطِس مسلمان کے حق مسلمان پر پانچ ہیں سلام کا جواب دینا، بیمار پرسی کرنا جنازہ کے پیچھے چلنا، دعوت کا قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا، لیکن ، دعوت کے قبول کرنے میں چند شرائط ہیں۔
احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ اگر طعام مشتبہ ہو یا دعوت کا مکان اور وہاں کا فرش حلال نہ ہویا وہاں ریشمی فرش اور چاندی کے برتن ہوں ۔ یا چھت یاد یوار پر حیوانوں کی تصویریں ہوں ۔ یا باجے یا سماع کی کوئی چیز موجود ہو۔ یا کسی قسم کی لہو ولعب اور کھیل کود کا شغل ہو ۔ یا غیبت اور بہتان اور جھوٹ کی مجلس ہو ۔ تو ان سب صورتوں میں دعوت کا قبول کرنا منع ہے۔ بلکہ یہ سب امور اس کی حرمت اور کراہت کا موجب ہیں اور ایسے ہی اگر دعوت کرنے والا ظالم یا فاسق یا مبتدع یا شریر یا تخلف کرنے والا یا فخر و مباہات کا طالب ہے تو اس صورت میں بھی یہی حکم ہے۔
اور شرعتہ الاسلام میں ہے کہ ایسے طعام کی دعوت قبول نہ کریں جو ر یا و سمع کے لئے تیار کیا گیا ہو۔ اور محیط میں ہے کہ جس بساط پر لہو ولعب یا سرود کا سامان ہو۔ یا لوگ غیبت کرتے اور شراب پیتے ہوں تو وہاں بیٹھنا نہیں چاہئے جیسا کہ مطالب المومنین میں ہے۔
اگر یہ سب موانع موجود نہ ہوں تو دعوت کے قبول کرنے سے چارہ نہیں ہے لیکن اس زمانہ میں ان موانع کا مفقود ہونا دشوار ہے اور یہ جان لیں کہ بے
عزت از اغیار باید نه زیار
ترجمہ: غیر سے عزلت ہی بہتر یار سے اچھی نہیں
کیونکہ ہمرازوں کے ساتھ صحبت رکھنا اس طریقہ علیہ کی سنت مؤکدہ ہے۔ حضرت خواجہ نقشبندیہ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ہمارا طریق صحبت ہے۔ کیونکہ خلوت میں شہرت ہے اور شہرت میں آفت اور صحبت سے مراد موافقان طریقت کی صحبت ہے نہ کہ مخالفان طریقت کی صحبت کیونکہ ایک کا دوسرے میں فانی ہونا صحبت کی شرط ہے جو بغیر موافقت کے میسر نہیں ہوتا اور مریض کی عیادت سنت ہے۔ اگر اس مریض کا کوئی شخص خبر گیر ہے اور اس کی بیماری پرسی کرتا ہے۔ ورنہ اس بیمار کی بیمار پرسی واجب ہے۔ جیسا کہ حاشیہ مشکوۃ میں کہا اور نماز جنازہ میں حاضر ہونے کیلئے کم از کم چند قدم جنازہ کے پیچھے چلنا چاہئے تا کہ میت کا حق ادا ہو جائے اور جمعہ و جماعت و نماز پنجگانہ اور نماز عیدین میں حاضر ہونا ضروریات اسلام سے ہیں ان سے چارہ نہیں اور باقی اوقات کو تبتل و انقطاع میں بسر کریں۔ لیکن چاہئے کہ اول نیت کو درست کریں اور گوشہ نشینی کو دنیا کی کسی غرض سے آلودہ نہ کریں اور حق تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ باطنی جمعیت کے حاصل ہونے اور لا طائل اور بے فائدہ اشغال سے منہ موڑنے کے سواعزلت سے اور کچھ مقصود نہ ہو اور نیت کے درست کرنے میں بڑی احتیاط کریں ایسا نہ ہو کہ اس کے ضمن میں کوئی نفسانی غرض پوشیدہ ہو نیت کے درست کرنے میں التجا و تضرع اور عجز و انکساری بہت کریں تا کہ نیت کی حقیقت میسر ہو جائے اور سات استخارے ادا کر کے درست نیت کے ساتھ عزلت اختیار کریں۔ امید ہے کہ بڑے بڑے فائدے اس پر مترتب ہوں گے ۔ باقی احوال کو ملاقات پر موقوف رکھا ہے۔
والسلام