مکتوب 266
اہل سنت و جماعت ( خدا ان کی کوشش کو مشکور فرمائے) کی رائے کے موافق بعض ان عقائد کلامیہ کے بیان میں جو آپ کو از روئے الہام وفراست کے حاصل ہوئے تھے نہ کہ از روئے تقلید و تخمین کے۔ ابتدائے احوال میں حضرت پیغمبر علیہ وعلی آلہ الصلوات والتسلیمات کو خواب میں دیکھا تھا اور آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تھا کہ تو علم کے مجتہدوں میں سے ہے اور اس واقع کو اپنے خواجہ بزرگوار کی خدمت میں عرض کیا تھا۔ اسی دن سے مسائل کلامیہ میں ہر مسئلہ میں آپ کی رائے علیحدہ اور حکم جدا ہے۔ لیکن مسائل میں مشائخ ما تردیدیہ سے موافقت رکھتے ہیں اور فلسفہ کے رد کرنے اور اہل فلسفہ کی مذمت اور برائی کے بیان کرنے اور ان ملحدوں اور زندیقوں کی تردید میں جو صوفیہ کی مراد کو نہ سمجھ کر گمراہ ہو گئے ہیں اور بعض ان فقیہہ احکام کے بیان میں جو نماز سے تعلق رکھتے ہیں اور طریقہ نقشبندیہ کے کمالات اور اس میں سنت کی متابعت کو لازم پکڑنے کے بیان میں اور سماع وسرود کے سننے اور رقاصوں یعنی ناچنے اور گانے والوں کی مجلس میں حاضر ہونے سے منع کرنے اور اس کے مناسب بیان میں اپنے پیرزادوں یعنی خواجہ عبد اللہ اور خواجہ عبید اللہ کی خدمت میں صادر فرمایا ہے۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
رَبِّ يَسِرُ وَلا تُعَسِرُ وَ تَمَمُ بِالْخَيْرِ
ترجمہ : اے رب آسان کرا اور مشکل نہ کر اور خیریت سے تمام کر
حمد وصلوٰۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد اپنے بزرگ مخدوم زادوں کی جناب میں عرض کرتا ہے کہ یہ فقیر سر سے پاؤں تک آپ کے والد بزرگوار کے احسانوں میں غرق ہے۔ فقیر نے اس طریق میں الف و ب کا سبق انہی سے لیا ہے اور اس راہ کے حروف تہجی انہی سے سیکھے ہیں اور اندراج النهايت فى البدایت کی دولت ان کی صحبت کی برکت سے حاصل کی ہے اور سفر در وطن کی سعادت کو ان کی خدمت کے طفیل پایا ہے۔ ان کی شریف توجہ نے اس نا قابل کو دواڑھائی ماہ کے عرصہ میں نسبت نقشبندیہ تک پہنچا دیا اور ان بزرگواروں کا حضور خاص عطا فر مایا اور وہ تجلیات اور ظہورات اور انوار اور الوان اور بے رنگیاں اور بے کیفیتیاں جو ان کی طفیل اس عرصہ میں ظاہر ہوئیں شرح و تفصیل سے باہر ہیں اور ان کی بزرگ توجہ کی برکت سے معارف تو حید اور اتحاد اور قرب و معنیت احاطہ اور سریان میں شاید ہی کوئی دقیقہ رہ گیا ہوگا جو اس فقیر پر نہ کھلا ہو اور اس کی حقیقت سے اطلاع نہ دی ہو۔ وحدت کا کثرت میں اور کثرت کا وحدت میں مشاہدہ کرنا ان معارف کے مقامات اور مبادی میں سے ہے۔
غرض جہاں نسبت نقشبندیہ اور ان بزرگواروں کا حضور خاص ہے وہاں ان کا زبان پر لانا
اور اس شہود و مشاہدہ کا نشان بتانا نادانی ہے۔ ان بزرگواروں کا کارخانہ بہت بلند ہے اور ہر ذراق اور رقاص (مکار اور ناچنے والے) کے ساتھ کوئی نسبت نہیں رکھتا جب اس قسم کے بلند درجے والی دولت جناب کی حضور سے اس فقیر کو ملی ہو۔ تو پھر اس کے عوض اگر تمام عمر کے لئے اپنے سر کو جناب کی بلند درگاہ کے خادموں کے پامال کرتا رہے تو بھی جناب کا حق ادا نہ ہو سکے۔ یہ فقیر اپنی تقصیروں کو کیا عرض کرے اور اپنی شرمندگیوں کا کیا اظہار کرے۔ اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے معارف آگاہ خواجہ حسام الدین احمد کو جزائے خیر دے جنہوں نے ہم کم ہمتوں کا باد مونت اپنے ذمے لے کر کمر ہمت کو بلند بارگاہ کی خدمت کے لئے باندھا ہے اور ہم دُور پڑے ہوؤں کو اس سے فارغ کر دیا ہوا ہے۔
گر برتن من شود زباں ہر موے
یک شکر تو از هزار نتوانم کرد
ترجمہ : اگر ہر بال میں میرے زباں ہو
تو شکر اس کا نہ پھر بھی کچھ بیاں ہو
یہ فقیر تین مرتبہ حضرت ایشاں یعنی خواجہ بزرگوار کی قدم بوسی کی دولت سے مشرف ہوا اخیر دفعہ حضور نے اس فقیر کو فرمایا کہ بدن کی کمال کمزوری مجھ پر غالب آگئی ہے اور زندگی کی امید کم ہے بچوں کے احوال سے خبر دار رہنا ہوگا اور اسی وقت اپنے حضور میں آپ کو بلایا اور آپ اس وقت دائیوں کی گود میں تھے یعنی دودھ پیتے بچے تھے اور فقیر کو فرمایا کہ ان کی طرف توجہ کرو ۔ فقیر نے حکم کے بموجب حضور کی خدمت میں آپ کی طرف توجہ کی حتی کہ اس توجہ کا اثر بھی اس وقت ظاہر ہو گیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ ان کی والدات کے لئے بھی غائبانہ توجہ کرو۔ حکم کے موافق غائبانہ توجہ کی گئی۔ امید ہے کہ حضور کی برکت سے اس توجہ سے کئی قسم کے فائدے اور نتیجے حاصل ہونگے ۔ آپ ہرگز تصور نہ کریں کہ حضور کے کسی واجب الامتثال امر اور حضور کی وصیت لازمہ میں کسی قسم کی سستی یا غفلت واقع ہوئی ہو۔ ہر گز نہیں بلکہ آپ کے اور اذن کا منتظر ہے۔
اب چند فقرے نصیحت کے طور پر لکھے جاتے ہیں، امید ہے کہ گوش ہوش سے سنیں گے ۔ اَسْعَدَ كُمُ اللهُ سُبْحَانَهُ الله تعالٰی آپ کو سعادت دیوے۔ عقلمندوں پر سب سے اوّل فرض ہے کہ اپنے عقائد کو علمائے اہل سنت و جماعت شکر اللہ تعالیٰ سعیہم ( جو فرقہ ناجیہ ہیں ) کے عقائد کے موافق درست کرے۔ بعض ان عقائد اعتقادیہ کا بیان کیا ہے جن میں کسی قسم کی پوشیدگی ہے۔
جانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ و تقدس خود موجود ہے اور تمام اشیاء اسی کی ایجاد سے موجود ہیں اور حق تعالیٰ اپنی ذات وصفات اور افعال میں یگانہ ہے اور فی الحقیقت کسی امر میں خواہ وجودی ہو یا غیروجودی، کوئی بھی اس کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ مشارکت رسمی اور مناسبت لفظی بحث ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات اور افعال اس کی ذات کی طرح بیچون اور بیچگون ہیں اور ممکنات کے صفات و افعال کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں رکھتے ۔ مثلاً صفت العلم حق تعالیٰ کی ایک صفت قدیم اور بسیط حقیقی ہے جس میں تکثر اور تعدد کو ہرگز دخل نہیں ہے۔ اگر چہ وہ تکثر اور تعدد تعلقات کے تعدد کے اعتبار سے ہو ۔ کیونکہ وہاں صرف ایک ہی بسیط انکشاف ہے کہ جس کے ازل و ابد کے معلومات منکشف ہوتے ہیں اور تمام اشیاء کو ان کے متضاد اور متناسبہ احوال کے ساتھ کلی اور جزئی طور پر ہر ایک مخصوصہ اوقات میں آن واحد بسیط بن جاتا ہے یعنی اسی آن میں زید کو موجود بھی جانا ہے اور معدوم بھی اور جنین بھی جانا ہے اور صبی بھی اور جوان بھی جانا ہے اور بوڑھا بھی اور زندہ بھی جانا ہے اور مردہ بھی اور کھڑا ہوا جانا ہے اور بیٹھا ہوا بھی اور تکیہ لگانے والا جانا ہے اور لیٹا ہوا بھی اور ہنستا ہوا جانا ہے اور روتا ہوا بھی لذت پانے والا جانا ہے اور رنج و دکھ پانے والا بھی اور عزیز جانا ہے اور ذلیل بھی اور برزخ میں جانا ہے اور حشرات میں بھی اور جنت میں جانا ہے اور لذت و نعمت میں بھی پس تعلق تعدد بھی اس موطن میں مفقود ہے کیونکہ تعلقات کا تعدد وقتوں کا تعدد اور زمانوں کا تکثر چاہتا ہے اور وہاں ازل سے ابد تک صرف ایک ہی آن واحد بسیط ہے جس میں کسی قسم کا
تعدد نہیں ہے کیونکہ حق تعالیٰ پر زمانہ اور تقدم و تاخر کے احکام جاری نہیں ہوتے ۔
پس حق تعالیٰ کے علم میں اگر ہم معلومات کے ساتھ تعلق ثابت کریں تو ایک ہی تعلق ہوگا جو تمام مخلوقات کے ساتھ متعلق ہے اور وہ تعلق بھی مجبول الکیفیت ہے اور صفت العلم کی طرح پیچون بیچگونہ ہے۔
ہم اس تصور کے استبداد ( یعنی قیاس اور فہم سے دور اور بعید ہونے ) کو ایک مثال بیان کر کے دور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جائز ہے کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں کلمہ کو اس کی مختلف قسموں اور متغائرہ احوال اور متفائرہ اعتباروں کے ساتھ جان لے یعنی ایک ہی وقت میں کلمہ کو اسم بھی اور فعل بھی اور حرف بھی اور ثلاثی بھی اور ربائی بھی اور معرفہ بھی اور مبنی بھی اور مستقبل بھی اور امر بھی اور نہی بھی جان لے۔ بلکہ اگر وہ شخص یوں کہہ دے کہ میں کلمہ کی تمام اقسام اور اعتبارات کو کلمہ کے آئینہ میں ایک ہی وقت میں مفصل طور پر دیکھتا ہوں ۔ تو بھی جائز ہے جب ممکن کے علم بلکہ ممکن کی دید میں اضداد کا جمع ہونا متصور ہے تو پھر اس واجب الوجود وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَیٰ کے علم میں یہ بات کس طرح بعید معلوم ہوتی ہے۔
جانا چاہئے کہ اس جگہ اگر چہ بظاہر جمع ضدین ہے مگر حقیقت میں ان کے درمیان ضدیت مفقود ہے کیونکہ ہر چند زید کو آن واحد میں موجود اور معدوم جانا ہے کہ اس کے وجود کا وقت مثلا ہزار سال سنہ ہجری کے بعد ہے اور اس کے عدم سابق کا وقت اس سال معین سے پہلے ہے اور اس کے عدم لاحق کا وقت گیارہ سو سال کے بعد ہے۔ پس حقیقت میں ان دونوں کے درمیان زمانہ کے تغیر کے باعث کوئی ضدیت نہیں ہے اور باقی احوال کو بھی اس قیاس پر سمجھنا چاہئے ۔ فافہم ۔
اس تحقیق سے واضح ہو گیا کہ حق تعالیٰ کا علم اگر چہ جزئیات کے ساتھ متعلق ہو لیکن تغیر کی آمیزش اس میں داخل نہیں پاتی اور حدوث کا گمان اس صفت میں پیدا نہیں ہوتا۔ جیسا کہ فلاسفہ نے زعم کیا ہے۔ کیونکہ تغیر اس تقدیر پر متصور ہو سکتا ہے جبکہ ایک کو دوسرے کے بعد جانا ہو اور جب سب کو آن واحد میں جان لے تو پھر تغیر و حدث کی گنجائش نہیں ہے پس کچھ حاجت نہیں ہے کہ ہم اس کے واسطے تعلقات متعددہ ثابت کریں تا کہ تغیر وحدوث ان تعلقات کی طرف راجع ہو نہ کہ صفت علم کی طرف۔ جیسا کہ بعض متکلمین نے فلاسفہ کے شبہ کو دفع کرنے کیلئے کیا ہے۔ ہاں اگرمعلومات کی جانب میں تعلقات کا تعدد ثابت کریں تو ہو سکتا ہے۔
اور اسی طرح کلام بسیط ہے کہ ازل سے ابد تک ایک کلام کے ساتھ گویا ہے۔ اگر امر ہے تو وہیں سے پیدا ہے اور اگر نہی ہے تو وہ بھی وہیں سے ہے اور اگر اعلام ہے تو وہ بھی وہیں سے ماخوذ ہے اور اگر استعلام ہے تو وہ بھی وہیں سے ہے اور اگر تُمُنِي يَا تَرجِی ہے تو وہ بھی وہیں سے
مستفاد ہے
تمام منزلہ کتا بیں اور مرسلہ صحیفے اس کلام بسیط کا ایک ورق ہیں۔ اگر توریت ہے تو وہیں سے لکھی گئی ہے اور اگر انجیل ہے تو اس نے بھی وہیں سے لفظی صورت حاصل کی ہے اور اگر زبور ہے تو وہیں سے مسطور ہے اور اگر فرقان ہے تو وہ بھی وہیں سے نازل ہوا ہے ۔
واللہ کلام حق کہ علی الحق کمیسیت و بس
ترجمہ : واللہ کلام حق ہے بیچ ایک ہی فقط
ہاں نزول میں مختلف آثار آئے ہیں ۔
اور اسی طرح ایک ہی فعل ہے اور اسی ایک فعل کے ذریعے اولین و آخرین مصنوعات وجود میں آرہے ہیں ۔ آیت کریم وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةً كَلَمْحِ بِالْبَصَرِ (آنکھ کے چھپنے کی طرح ہمار ا مر صرف ایک ہی ہے۔ میں اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے۔ اگر احیا اور امانت ہے تو اسی فعل سے وابستہ ہے اور اگر انعام یا ایلام ہے تو اس فعل سے متعلق ہے اور ایسے ہی اگر ایجاد ہے یا اعدام ہے تو وہ بھی اس فعل سیپ سے پیدا ہے۔ پس حق تعالی کے فعل میں بھی تعدد تعلقات ثابت نہیں ہوتا بلکہ ایک ہی تعلق سے تمام اولین و آخرین مخلوقات اپنے اپنے وجود کے مخصوصہ وقتوں میں ظاہر ہو رہی ہیں۔ یہ تعلق بھی حق تعالیٰ کے فعل کی طرح بیچون وبیچگو نہ ہے۔ کیونکہ چون کو بیچون ۔ کی طرف کوئی راہ نہیں ۔ لاَ يَحْمِلُ عَطَايَا الْمَلِكِ إِلَّا مَطَايَاهُ ( بادشاہ کے عطیوں کو اسی کے اونٹ اٹھا سکتے ہیں۔ )
اشعری نے چونکہ حق تعالیٰ کے فعل کی حقیقت سے اطلاع نہ پائی۔ اس لے تکوین کو حادث کہہ دیا اور حق تعالٰی کے افعال کو بھی حادث جان لیا اور نہ جانا کہ یہ سب حق تعالیٰ کے ازلی فعل کے آثار ہیں نہ کہ حق تعالیٰ کے افعال۔
اور بعض صوفیہ نے جو تجلی افعال ثابت کی ہے اور اس مقام میں ممکنات کے افعال کے آئینہ میں اس واحد جل شانہ کے فعل کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا ہے ۔ وہ بھی اسی قسم سے ہے یعنی وہ تجلی در حقیقت حق تعالیٰ کے فعل کے آثار کی تجلی ہے نہ کہ حق تعالیٰ کے فعل کی تجلی کیونکہ حق تعالیٰ کے فعل کے لئے جو بیچوں اور بچگون اور قدیم اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور جس کو تکوین کہتے ہیں۔ محدثات کے آئینوں میں کوئی گنجائش نہیں اور ممکنات کے مظہروں میں اس کا کوئی ظہور نہیں ۔۔
در تنگنائے صورت معنی چگونه گنجد
در گلبه گدایاں سلطان چه کار وارد
ترجمه: صورت کی تنگ جا میں معنی نہیں سماتے
گھر میں گدا کے سلطان برگز نہیں ہیں آتے
افعال وصفات کی تجلی فقیر کے نزدیک ذات کی تجلی کے سوا متصور نہیں ہے۔ کیونکہ افعال وصفات حق تعالیٰ تقدس کی ذات پاک سے الگ نہیں ہیں تاکہ ان کی تجلی ذات کی تجلی کے سوا متصور ہو سکے اور وہ چیز جو حق تعالیٰ کی ذات سے الگ ہے وہ حق تعالیٰ کی صفات اور افعال کے ظلال ہیں جن کی تجلی کو افعال وصفات کے خلال کی تجلی کہنا چاہئے نہ کہ افعال وصفات کی تجلی لیکن ہر شخص کا فہم اس کمال تک نہیں پہنچ سکتا ۔ ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَآءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم يا الله تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
اب ہم اصلی بات کو بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز میں حلول نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی چیز اس میں حلول کرتی ہے اور حق تعالیٰ تمام اشیاء کو محیط ہے اور ان کے ساتھ قرب ومعیت رکھتا ہے اس احاطہ اور قرب اور معیت سے وہ مراد نہیں ہے جو ہمارے فہم قاصر میں آ سکے۔ کیونکہ وہ حق تعالی کی جناب پاک کے لائق نہیں اور جو کچھ کشف و شہود سے معلوم کرتے ہیں۔ اس سے بھی منزہ اور پاک ہے کیونکہ ممکن کو حق تعالیٰ کی ذات وصفات وافعال کی حقیقت سے سوائے نادانی اور حیرت کے کچھ حاصل نہیں ہے غیب کے ساتھ ایمان لانا چاہئے اور جو کچھ مکشوف ومشہود ہو اس کو لا کی نفی کے نیچے لانا چاہئے ۔
عنقا شکار کس نشود دام باز چیں
کا نیچا ہمیشه باد بدست است دام را
ترجمہ : اٹھا لے جال عنقا کب کسی کے ہاتھ آتا ہے
لگاتا ہے یہاں جو حال خالی ہاتھ جاتا ہے
حضرت ایشان یعنی خواجہ صاحب بزرگوار کی مثنوی کی یہ بیت اس مقام کے مناسب ہے
ہنوز ایوان استغنا بلند است
مرا فکر رسیدن ناپسند است
ترجمہ : بہت اونچا ہے استغنا کا ایواں
نہ کر کوشش وہاں چڑھنے کی ایجاں
پس ہم ایمان لاتے ہیں کہ حق تعالٰی اشیاء کو محیط اور ان کے قریب اور ساتھ ہے لیکن اس کے قرب اور احاطہ اور معیت کی حقیقت کو نہیں جانتے کہ کس طرح ہے اس کو احاطہ وقرب علمی کہنا بھی متشابہ تاویلوں سے ہے لیکن ہم ان کی تاویل کے قائل نہیں ۔
اور حق تعالیٰ کسی چیز سے متحد نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی چیز اس سے متحد ہو سکتی ہے اور جو کچھ کہ صوفیہ کی بعض عبارات سے مفہوم ہوتا ہے۔ وہ ان کی مراد کے برخلاف ہے کیونکہ ان کی مراد اس کلام سے جس سے اتحاد کا وہم گزرتا ہے۔ یعنی اذائمَّ الْفَقْرُ فَهُوَ اللَّهُ سے یہ ہے کہ جب فقر تمام ہو جائے اور محض نیتی حاصل ہو جائے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا نہ کہ یہ خدائے تعالیٰ کے ساتھ متحد ہو جاتا ہے اور خدا بن جاتا ہے کیونکہ یہ کفر اور زندقہ ہے ۔ تَعَالیٰ الله سُبْحَانَهُ عَمَّ يُتَوَهَّمُ الظَّالِمُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا اللہ تعالیٰ ظالموں کے وہم و گمان سے بہت برتر و بلند ہے۔
حضرت خواجہ قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ عبارت انا الحق کے معنی یہ نہیں ہیں کہ میں حق ہوں بلکہ یہ ہیں کہ میں نہیں ہوں اور حق موجود ہے اور تغیر و تبدل کو حق تعالیٰ کی ذات وصفات وافعال کی طرف راہ نہیں ہے ۔ فَسُبْحَانَ الَّذِي لَا يَتَغَيَّرُ بِذَاتِهِ وَلَا بِصِفَاتِهِ وَلَا فِي أَفْعَالِهِ بِحَدُوثِ الأكوان (پس پاک ہے وہ ذات جو اپنی ذات وصفات و افعال میں موجودات کے حدوث سے متغیر نہیں ہوتا ) اور صوفیہ وجودیہ نے جو تنزلات خمسہ ثابت کئے ہیں وہ مرتبہ وجوب میں تغیر و تبدل کی قسم سے نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ کفر و گمراہی ہے بلکہ ان تنزلات کو حق تعالیٰ کے کمال کے مراتب ظہورات میں اعتبار کیا ہے بغیر اس بات کے کہ حق تعالیٰ کی ذات وصفات و افعال میں تغییر و تبدل راہ پائے ۔
اور حق تعالی اپنی ذات وصفات میں بھی غنی مطلق ہے اور کسی امر میں کسی چیز کامحتاج نہیں ہے اور جس طرح وجود میں محتاج نہیں ہے ظہور میں بھی محتاج نہیں ہے اور بعض صوفیہ کی عبارت سے جو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے اسمائی وصفاتی ظہور میں ہمار احتاج ہے۔ یہ بات اس فقیر پر بہت گراں ہے۔ بلکہ جانتا ہے کہ ان کی پیدائش سے مقصود ان کے اپنے کمالات کا حاصل ہونا ہے نہ وہ کمال جو حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کی طرف عاید ہو سکے۔ آیت کریمہ وما خلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ أَى لِيَعْرِفُونَ ) میں نے جن و انسان کو عبادت و معرفت کے لئے پیدا کیا ہے ) میں اسی مطلب کی تائید ہے۔
پس جن و انسان کی پیدائش سے مقصود یہ ہے کہ ان کو اپنی معرفت حاصل ہو جائے جو ان کا کمال ہے۔ نہ کوئی ایسا امر جو حق سبحانہ کی جناب کی طرف عائد ہو سکے اور حدیث قدسی میں جو یہ واقع ہے فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِأعْرَف ) میں نے خلقت کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ پہچانا جاؤں ) اس جگہ یہی مراد ان کی معرفت ہے نہ یہ کہ میں معرفت ہوں اور ان کی معرفت کے ذریعے کمال حاصل کروں ۔ شغالی الله عَنْ ذَلِكَ عُلُوًّا كَبِيراً (اللہ تعالیٰ اس سے بہت ہی برتر ہے)
اور حق تعالٰی نقصان کی تمام صفتوں اور حدوث کے نشانوں سے منزہ اور مبرا ہے نہ جسم وہ جسمانی ہے اور نہ مکانی اور زمانی اور صفات کمال اس کے لئے ثابت ہیں جن میں سے آٹھ صفات کمال وجود ذات تعالی پر وجود زائد کے ساتھ موجود ہیں اور وہ صفات یہ ہیں ۔ حیات و علم و قدرت واردات و بصر وسمع و کلام و تکوین اور یہ صفات خارج میں موجود ہیں اور یہ نہیں کہ وجود ذات پر علم میں وجود زائد کے ساتھ موجود ہیں اور خارج نفس ذات تعالی و تقدس ہیں جس طرح کہ بعض صوفیہ وجود یہ نے گمان کیا ہے اور اس طرح کہا ہے ۔
از روے عقل ہمہ غیر اند صفات
باذات تو از روے تحقق ہمہ عین
ترجمہ : از روے عقل و علم کے سب صفات غیر ہیں اور زروئے تحقق کے سب ذات کے
ساتھ عین ہیں۔
کیونکہ اس میں در حقیقت صفات کی نفی ہے کیونکہ صفات کی نفی کرنے والوں یعنی معتزلہ اور فلاسفہ نے بھی تغائر علمی اور اتحاد خارجی کہا ہے اور تغائر علمی سے انکار نہیں کیا ہے اور نہ ہی یہ کہا ہے کہ علم کا مفہوم عین ذات کا مفہوم ہے۔ یامین قدرت واردات کا مفہوم ہے بلکہ عینیت کی نفی کرنے والوں سے نہیں نکل سکتے کیونکہ تغائر اعتباری کچھ نفع نہیں دیتا ۔ كَمَا عَرَفَتُ.
اور حق تعالیٰ قدیم اور ازلی ہے اور اس کے سوا کسی کے لئے قدیم اور ازلیت ثابت نہیں ہے۔ تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے اور جو کوئی حق تعالیٰ کے سوا کسی غیر کے قدیم اور از لی
ہونے کا قائل ہوا ہے وہ کافر ہے
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے ابن سینا اور فارابی کی تکفیر اسی واسطے کی ہے کہ وہ عقول اور نفوس کے قدیم ہونے کے قائل ہوئے ہیں اور صورت اور ہیولیٰ کے قدیم ہونے کا گمان کیا ہے اور آسمانوں کو بمع ان اشیاء کے جوان میں ہیں قدیم سمجھا ہے۔ اور ہمارے حضرت خواجہ قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ شیخ محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کا ملین کے ارواح کے قدیم کا قائل ہوا ہے۔ اس بات کو ظاہر کی طرف سے پھیر کر تاویل پر محمول کرنا چاہئے ۔ تاکہ اہل ملت کے اجماع کے مخالف نہ ہو۔
اور حق تعالیٰ قادر مختار ہے اور ایجاب کی آمیزش اور اضطرار کے گمان سے منزہ اور مبرا ہے۔ فلاسفہ بے خرد نے کمال کو ایجاب میں جان کر حق تعالی سے اختیار کی نفی کر کے ایجاب کو ثابت کیا ہے اور ان بیوقوفوں نے اس واجب الوجود کو معطل و بیکار سمجھا ہے اور سوائے ایک مصنوع کے کہ وہ بھی ایجاب سے ہے زمین و آسمان کے خالق سے صادر ہوا ہوا نہیں جانتا ہے اور حوادث کے وجود کو عقل فعال کی طرف نسبت دی ہے جس کا وجود ان کے وہم کے سوا کہیں ثابت نہیں ہے اور ان کے گمان میں ان کو حق تعالیٰ کے ساتھ کچھ تعلق نہیں ہے۔ پس چاہئے تھا کہ اضطراب واضطرار کے وقت عقل فعال کی طرف التجا کرتے اور حضرت حق سبحانہ کی طرف رجوع نہ کرتے ۔ کیونکہ حوادث کے وجود میں اس کا کچھ دخل نہیں جانتے اور کہتے ہیں کہ صرف عقل فعال ہی حوادث کے ایجاد سے تعلق رکھتی ہے بلکہ فعال کی طرف بھی ان کا رجوع نہیں کیونکہ ان کی بلیات کے دفع کرنے میں اس کا بھی کچھ اختیار نہیں ہے۔ یہ بد بخت اپنی نادانی اور بیوقوفی کے باعث فرقہ فعالہ یعنی گمراہ فرقوں کے پیش رو ہیں حالانکہ کافر بھی ان بد بختوں کے برخلاف حق تعالیٰ کی طرف التجا کرتے اور بلیات کا دفع کرنا اسی سے طلب کرتے ہیں ان بد بختوں میں یہ نسبت اور تمام فرقوں کے دو چیزیں زیادہ ہیں۔ ایک یہ کہ احکام منزلہ کا کفر اور انکار کرتے اور اخبار مرسلہ کے ساتھ عداوت و دشمنی رکھتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اپنے بیہودہ اور واہی مطالب اور مقاصد کے ثابت کرنے میں جس قدر ان کو خبط لاحق ہوا ہے اور کسی بے وقوف کو اس قدر لاحق نہیں ہوا۔ آسمان اور ستارے جو ہر وقت بے قرار اور سرگرداں ہیں ان کا مدار کار ان کی اپنی حرکات اور اوضاع پر رکھا ہے اور آسمانوں کے خالق اور ستاروں کے موجد اور محرک اور مدبر کی طرف سے آنکھیں بند کی ہیں اور دو راز معاملہ سمجھے ہیں۔ یہ ادگ بہت ہی بخیر د اور بیوقوف ہیں اور ان میں سے زیادہ کمینہ اور بے وقوف اور احمق وہ شخص ہے جو ان کو دانا اور عقلمند جانتا ہے۔ ان کے مُتَسَقُ اور مُنتَظَمُ یعنی مرتبہ علوم میں سے ایک علم ہندسہ ہے جو محض لا یعنی اور بہودہ اور لا طائل ہے۔ بھلا مثلث کے تینوں زاویوں کا دونوں زاویہ قائمہ کے ساتھ برابر ہونا کس کام آئے گا اور شکل عروسی اور مامونی جوان کے نزدیک بڑی مشکل اور جانکاہ ہے ۔ کس غرض کے لئے ہے۔
علم طب و نجوم اور علم تہذیب اخلاق جو ان کے تمام علوم میں سے بہتر علم ہے۔ گزشتہ انبیائے علی نبينا علیہم الصلوۃ والسلام کی کتابوں سے چرا کر اپنے باطل اور بیہودہ علوم کو رائج کیا ہے جیسا کہ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ الْمُنْقِذُ عَنِ الصَّلالِ میں اس امر کی تشریح اور تصریح کی ہے۔
اہل ملت اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے تابعدار اگر دلائل اور براہین میں غلطی کریں تو کچھ دور نہیں کیونکہ ان کے کام کا انداز انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی تقلید پر ہے اور اپنے مطالب عالیہ کے ثبوت کیلئے دلائل اور براہین کو صرف تبرع کے طور پر لاتے ہیں۔ یہی تقلید ان کے لئے کافی ہے۔ برخلاف ان بدبختوں کے جو تقلید سے نکل کر صرف دلائل کے ساتھ اپنے مطالب کو ثابت کرنے کے پیچھے پڑے ہیں۔ ملُوا فَا ضَلُّوا یہ لوگ خود بھی گمراہ ہوئے اور اور وں کو بھی
گمراہ کیا۔
حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت کی دعوت جب افلاطون کو جوان بدبختوں کا رئیس ہے پہنچی تو اس نے جواب میں یوں کہا کہ نَحْنُ قَوْمَ مُهْتَدُونَ لَا حَاجَةَ بِنَا إِلَىٰ مَنْ يَهْدِينَا ہم ہدایت یافتہ لوگ ہیں ہم کو ایسے شخص کی حاجت نہیں ہے جو ہم کو ہدایت دے۔
اس بیوقوف کو چاہئے تھا کہ ایسے شخص کو جومردوں کو زندہ کرتا اور مادر زاد اندھوں اور کوڑھی کو تندرست کرتا ہے جو ان کی حکمت کے طور سے خارج ہے، پہلے دیکھتا اور اس کے حالات کو دریافت کرتا اور پھر جواب دیتا بن دیکھے اس کا یہ جواب دینا اس کی کمال عداوت اور کمینہ پن ہے ۔
فلسفہ چوں اکثرش باشد سفہ پس کل آں
ہم سفه باشد که حکم کل حکم اکثر است
ترجمہ: فلسفہ کا جب کہ اکثر ہے سفہ پس اس کا کل
بھی سفہ ہو گا کہ حکم کل ہے اکثر کا حکم
نَجْنَا اللهُ عَنْ مُتَعَقِدَاتِهِمُ السُّوءِ اللہ تعالیٰ ہم کو ان کے برے عقائد سے بچائے ۔
فرزندی محمد معصوم نے انہی دنوں میں جواہر، شرح مواقف کو تمام کیا ہے، اثنائے سبق میں
ان بیوقوفوں کی بڑی بڑی قباحتیں ظاہر ہوئیں اور بہت سے فائدے ان پر مترتب ہوئے ۔
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى هَدْنَا لِهَذَا وَمَا كُنا لِنَهْتَدِى لَوْ لَا أَنْ هَدَنَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبَّنَا بِالْحَق اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہمیں ہدایت نہ دیتا تو ہم ہرگز ہدایت نہ پاتے بے شک ہمارے رب کے رسول حق بات کو لائے ہیں۔
اور شیخ محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کی بعض عبارتیں بھی ایجاب کی طرف ناظر ہیں اور قدرت کے معنی میں فلسفہ کے ساتھ موافقت رکھتی ہیں۔ یعنی ترک کی صحت قادر سے تجویز نہیں کرتا اور فعل کی جانب کو لازم جانتا ہے۔ عجب معاملہ ہے کہ شیخ محی الدین مقبولوں میں سے نظر آتا ہے اور اس کے اکثر علوم جو آ رائے اہل حق کے مخالف ہیں خطا اور ناصواب ظاہر ہوتے ہیں شاید خطاء کشفی کے باعث اس کو معذور رکھا ہے اور خطائے اجتہادی کی طرح ملامت کو اس سے ہٹا رکھا ہے۔
شیخ محی الدین کے حق میں فقیر کا اعتقاد خاص بھی یہی ہے کہ اس کو مقبولوں میں سے جانتا ہے اور اس کے مخالف علوم کو خطا اور مضر دیکھتا ہے۔
اس طائفہ میں سے بعض لوگ شیخ کو طعن و ملامت بھی کرتے ہیں اور اس کے علوم کو بھی خطا پر جانتے ہیں اور بعض لوگ شیخ کی تقلید اختیار کر کے اس کے تمام علوم کو بہتر اور صواب جانتے ہیں اور ان علوم کی حقیقت کو دلائل و شواہد کے ساتھ ثابت کرتے ہیں اور شک نہیں کہ ان دونوں فریقوں نے افراط و تفریط کا رستہ اختیار کیا ہے اور توسط حال سے دور رہے ہیں ۔ شیخ کو جو مقبول اولیا میں سے ہے خطائے کشفی کے باعث کس طرح رد کیا جائے اور اس کے علوم کو جو صواب سے دور اور اہل حق کی آراء کے مخالف ہیں تقلید سے کس طرح قبول کئے جائیں . فَالْحَقُّ هُوَ التَّوَسُطُ الَّذِى کس . وَفَقَنِيَ اللهُ سُبْحَانَهُ بِمَتِهِ وَ كَرَمِهِ پس حق یہی تو سط ہے جس کی توفیق اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل وکرم سے بخشی ہے۔
ہاں مسئلہ وحد وجود میں اسی گروں میں سے ایک جم غفیر یعنی بہت سے لوگ شیخ کے ساتھ شریک ہیں اگر چہ شیخ اس مسئلہ میں بھی طرز خاص رکھتا ہے۔ لیکن اصل بات میں سب کے سب با ہم شریک ہیں۔ یہ مسئلہ بھی اگر چہ بظاہر اہل حق کے مخالف ہے لیکن توجہ کے قابل اور جمع کے لائق ہے۔
اس فقیر نے اللہ تعالیٰ کی عنایت سے حضرت ایشاں قدس سرہ کی رباعیات کی شرح میں اس مسئلہ کو اہل حق کے معتقدات کے ساتھ جمع کیا ہے اور فریقین کی نزاع کو لفظ کی طرف راجع کیا ہے اور دونوں طرف کے شکوک اور شبہات کو اس طرح حل کیا ہے کہ اس میں کوئی شک وشبہ کا محل نہیں رہا۔ كَمَا لاَ يَخْفَى عَلَى النَّاظِرِ فِيهِ جیسا کہ اس کے دیکھنے والے پر پوشیدہ نہیں ہے۔
جاننا چاہئے کہ ممکنات کیا جواہر کیا اعراض اور کیا اجسام اور کیا عقول اور کیا نفوس اور کیا افلاک اور کیا عناصر سب کے سب اس قادر مختار کی ایجاد کی طرف منسوب ہیں جو ان کو عدم کی پوشیدگی سے وجود میں لایا ہے اور جس طرح یہ سب چیزیں اپنے وجود میں حق تعالیٰ کی محتاج ہیں اسی طرح بقا میں بھی اس کے محتاج ہیں اور اس نے اسباب اور وسائل کے وجود کو اپنے فعل کا روپوش بنایا ہے اور حکمت کو اپنی قدرت کا پردہ بنایا ہے نہیں بلکہ اسباب کو اپنے فعل کے ثبوت کے لئے دلائل بنایا ہے اور حکمت کو قدرت کے وجود کا وسیلہ فرمایا ہے۔ کیونکہ وہ دانا لوگ بے بصیرت کی آنکھ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی متابعت کے سرمہ سے سرمگیں اور روشن ہوئی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اسباب و وسائل جو اپنے وجود اور اپنے بقا میں حق تعالیٰ کے محتاج ہیں اور اپنا ثبوت و قیام اسی سے اور اس کے ساتھ رکھتے ہیں ۔ حقیقت میں جماد محض ہیں۔ وہ کس طرح دوسرے میں جو وہ بھی انہی کی طرح جماعت محض ہے تاثیر کر سکتے ہیں اور اس میں اختر او احداث کس طرح پہلےا کر سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں بلکہ ان کے سوا اور قادر ہے اور جو ان کو ایجاد کرتا ہے اور ہر ایک کے لائق اور مناسب کمالات ان کو عطافرماتا ہے اور جس طرح کہ عقلمند جماد محض سے فعل کو دیکھ کر اس کے فاعل اور محرک کی طرف سراغ لے جاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ فعل اس جہاد کے حال کے مناسب نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے سوا کوئی اور فاعل ہے جو اس فعل کو اس میں ایجاد کرتا ہے۔ پس جماد کا فعل عقلمندوں کے نزدیک فاصل حقیقی کے فعل کا روپوش ثابت نہ ہوا۔ بلکہ اس کی جمادیت کی طرف نظر کرنے کے لحاظ سے اس کا وو فعل فاعل حقیقی کے وجود پر دلیل ہے پس یہاں بھی اسی طرح ہے۔ ہاں اس بیوقوف کے فعل میں جماد کا فعل فاعل حقیقی کے فعل کا روپوش ہے جس نے اپنی کمال نادانی اور بیوقوفی کے باعث جماد خفض کو اس فعل کے سبب صاحب قدرت سمجھاہ اور فاعل حقیقی کی طرف سے کافر اور منکر ہوات۔ نصل كَثِيراً وَ يَهْدِى بِهِ كَثِيراً بہت کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہت کو اس سے ہدایت دیتا ہے ۔ یہ معرفت مشکوۃ نبوت سے مقتبس ہے لیکن ہر ایک شخص کا فہم یہاں تک نہیں پہنچتا ۔ اکثر لوگ کمال کو اسباب کے رفع کرنے میں جانتے ہیں اور اشیا کو ابتدا ہی سے اسباب کے ذریے ۔ بغیر حضرت حق سبحانہ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اسباب کے رفع کرنے میں اس حکمت کا رفع ہوتا ہے۔ جس کے ضمن میں بہت سی مصلحتیں مدنظر میں ۔ رتنا ما خلفت هذا باطلا اے ہمارے رب تو نے اس کو باطل پیدا نہیں کیا۔
انبياء عليهم الصلوۃ والسلام اسباب کو مد نظر رکھتے ہیں اور باوجود اس رعایت کے اپنے امر اور کام کو حضرت حق سبحانہ کے سپرد کرتے ہیں جیسا کہ حضرت یعقوب علی نبینا علیہ والصلوۃ والسلام نے بدنظری کا لحاظ کر کے اپنے بیٹوں کو فرمایا
يَا بُنَيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بَابِ وَاحِدٍ وَ ادْخُلُوا مِنْ ابْوابِ مُتفرّقةٍ ( اے میرے بیٹو
ایک دروازہ سے داخل نہ ہوتا بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہوتا ) اور باو جود اس رعایت کے پھر اپنے امر کو حق جل شانہ کے سپرد کر کے فرما یا مَا اَغْنِی عَنْكُم مِنَ اللهِ مِنْ شَيء إنَّ الْحُكْمُ إلا لِلَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَ عَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ ( میں تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ بے پروا نہیں کرتا حکم صرف اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ میں نے اس پر تو کل کیا اور تو کل کرنے والے اسی پر تو کل کرتے ہیں ۔ ) اور حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے ان کی معرفت کو پسند فرمایا ہے اور اپنی طرف نسبت دے کر اس طرح فرمایا ہے وَإِنَّهُ لذو عَلَم لِمَا عَلَّمْنهُ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ ( اور وہ بے شک بہت ہی صاحب علم تھا اس لئے کہ ہم نے اس کو اپنے پاس سے علم سکھایا تھا اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ) اور حضرت حق سبحانہ وتعالی بھی قرآن مجید میں ہمارے ر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسباب کے توسط کی طرف اشارہ فرماتا ہے۔ يَآيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (اے نبی تجھے اللہ اور تابعدار مومن کافی ہیں ) باقی رہی اسباب کی تاثیر ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات اسباب میں تاثیر بھی پیدا کر دے تا کہ مؤثر اور بعض اوقات تا شیر کو ان میں پیدا نہ کرے اور کوئی اثر ان پر مترتب نہ ہو جیسا کہ ہم روز مرہ میں اس امر کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ کبھی ان اسباب پر مسببات کے وجود پر مترتب ہوتے ہیں اور کبھی کوئی اثر ان سے ظاہر نہیں ہوتا۔ اسباب کی تاثیر مطلق انکار کرنا مکابرہ اور ہٹ دھرمی ہے تاثیر کو ماننا چاہئے اور اسی تاثیر کو اس سبب کے وجود کی طرح حضرت حق سبحانہ تعالیٰ کی ایجاد سے جاننا چاہنے فقیر کی رائے اس مسئلہ میں یہی ہے۔ واللہ سبحانہ اعلم ۔ اس بیان طے ظاہر ہوا کہ اسباب کا توسط اور وسیلہ توکل کے منافی نہیں ہے جیسا کہ اکثر ناقصوں نے گمان کیا ہے بلکہ اسباب کے توسط میں کمال توکل ہے۔
حضرت یعقوب علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے اسباب کو مد نظر رکھ کر اپنے امر کو حق سبحانہ و تعالیٰ کے سپرد کرنے کو تو کل فرمایا ہے ۔
عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَ عَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ ) میں نے اسی پر توکل کیا اور توکل کرنے والے اسی پر توکل کرتے ہیں)۔
اور حق تعالیٰ خیر و شر کا ارادہ کرنے والا اور ان دونوں کا پیدا کرنے والا ہے لیکن خیر سے راضی ہے اور شر سے راضی نہیں ہے۔ ارادہ اور رضا کے درمیان یہ ایک بڑاد قیق فرق ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اہل سنت و جماعت کو ہدایت فرمائی ہے۔ باقی تمام فرقے اس فرق کی طرف ہدایت نہ پاپینے کے باعث گمراہ ہو گئے۔
معتزلہ بندہ کو اپنے افعال کا خالق کہتے ہیں اور کفر و معاصی کی ایجاد کو اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اور شیخ محی الدین اور ان کے تابعداروں کے کلام سے مفہوم ہوتا ہے کہ جس طرح ایمان اور اعمال صالحہ اسم الہادی کے پسندیدہ ہیں اسی طرح کفر و معابھی بھی اسم المثل کے پسندیدہ ہیں۔
یہ بات بھی اہل حق کے مخالف ہے اور ایجاب کی طرف میلان رکھتی ہے جو رضا کا منشا ہے۔ جس طرح کہیں کہ اشراق واضائت آفتاب کے پسندیدہ ہے اور حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے بندوں کو قدرت وارادہ دیا ہے کہ اپنے اختیار سے افعال کا کسب کرتے ہیں ۔ افعال کا پیدا کرنا حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ کی طرف منسوب ہے۔ اور ان افعال کا کسب بندوں کی طرف منسوب ہے۔ عادت اللہ اسی طرح جاری ہے کہ پہلے بندہ اپنے فعل کا قصد کرتا ہے اور پھر اللہ تعالٰی اس فعل کو پیدا کر دیتا ہے۔ چونکہ بندہ کا فعل اپنے قصد و اختیارت صادر ہوتا ہے۔ اس لئے مدو وزم اور ثواب و عذاب بھی اس کے متعلق ہوتا ہے اور یہ جو بعض نے کہا ہے کہ بندے کا اختیار ضعیف ہے تو بجا ہے اور اگر اس لحاظ سے کہا ہے کہ فعل مامور کے ادا کرنے میں کافی نہیں ہے تو صحیح نہیں ہے۔ فإِنَّ سُبْحَانَهُ لاَ يُكَلِّفُ بِمَا لَيْسَ فِي وُسْعِهِ بَلْ يُرِيدُ الْيُسْرَ وَلَا يُريدُ الْعُسْرَ کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے فعل کے لئے تکلیف نہیں دیتا جو بندے کی طاقت سے باہر ہے، بلکہ وہ تو آسانی ہی چاہتا ہے اور تنگی کا ارادہ نہیں کرتا۔
غرض یہ کہ فعل موقت یعنی چند روزہ فعل پر ہمیشہ کی جزا کا مقرر کرنا حق تعالیٰ عزیز وعلم کی تقدیر کے حوالہ ہے جس نے کفر موقت کے لئے ہمیشہ کا عذاب برابر برابر جز افرمائی اور دائگی لذت و نعمت کو ایمان موقت پر وابستہ کیا ۔ ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْحَكِيم.
حق تعالیٰ کی توفیق سے اس قدر تو ہم بھی جانتے ہیں کہ حق تعالیٰ کی بارگاہ کی نسبت ( جو ظاہری اور باطنی نعمتوں کا دینے والا اور زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اور جس کی پاک بارگاہ کے لئے ہرقسم کی بزرگی اور کمال ثابت ہے ) کفر اختیار کرنے کے لئے جزا بھی ایسی ہونی چاہئے جو تمام سخت عذابوں سے بڑھ کر ہو اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہنا ہے اور ایسے ہی اس منعم بزرگ پر غیب کے ساتھ ایمان لانے اور نفس و شیطان کی مزاحمت کے باوجود اس کو است گو جاننے کیلئے جزاء بھی ویسی ہونی چاہئے جو سب جزاؤں سے بہتر اور اعلیٰ درجہ کی ہو اور وہ ناز و نعمت ولذت میں ہمیشہ رہتا ہے۔
بعض مشائخ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ بہشت میں داخل ہونا درحقیقت حق تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے اور ایمان کے ساتھ اس کو وابستہ کرنا اس لئے ہے کہ جو کچھ اعمال کی جزا ہوتی ہے وہ زیادہ لذیذ ہوتی ہے۔
فقیر کے نزدیک بہشت میں داخل ہونا ایمان پر وابستہ ہے لیکن ایمان حق تعالیٰ کا فضل اور اس کا عطیہ ہے اور دوزخ میں داخل ہونا کفر پر منحصر ہے اور کفر نفس امارہ کی خواہش سے پیدا ہوتا ہے ۔ مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةِ فَمِنْ نَفْسِكَ جو تجھے نیکی پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو تجھے برائی پہنچے وہ تیرے نفس سے ہے۔
جاننا چاہئے کہ بہشت میں داخل ہونے کو ایمان کے ساتھ وابستہ کرنے میں درحقیقت ایمان کی تعظیم ہے بلکہ مومن بہ کی تعظیم ہے جس پر اتنا بڑا عظیم الشان اجر مرتب ہوا ہے اور ایسے ہی دوزخ میں داخل ہونے کو کفر کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں۔ کفر کی حقارت اور اس ذات بزرگ کی کہ جس کی نسبت یہ کفر وقوع میں آیا ہے، فضیلت ہے۔ جس پر ایسا ہمیشہ کا عذاب مترتب ہوا ہے برخلاف اس بات کے جو بعض مشائخ نے کہی ہے، جو اس دقیقہ سے خالی ہے اور نیز ہمیشہ کے لئے دوزخ میں داخل ہونے کے لئے جو اس کا عدیل ہے کوئی مثال اس طرح پر جاری نہیں ہے۔ کیونکہ دوزخ میں داخل ہونا در حقیقت کفر پر موقوف ہے ۔ وَاللهُ سُبْحَانَهُ الْمُلْهِمُ هَذَا .
اور آخرت میں مومن لوگ اللہ تعالیٰ کو بے جہت و بے کیف اور بے شبہ و بے مثال جنت میں دیکھیں گے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے اہل سنت و جماعت کے سوا تمام اہل ملت غیر اہل ملت فرقے منکر اور بے جہت اور بے کیف دیدار کو جائز نہیں سمجھتے حتی کہ شیخ محی الدین ابن عربی بھی دیدار آخرت کو تجلی صوری کی حالت میں بیان کرتا ہے اور تجلی صوری کے سوا تجویز نہیں کرتا۔
ایک دن حضرت ایشاں قدس سرہ اپنے شیخ سے نقل کرتے تھے کہ اگر معتزلہ دیدار و تنزیہ کے مرتبہ میں مقید نہ کرتے اور تشبیہ کے بھی قائل ہوتے اور دیدار کو اس تجلی میں بھی جانتے تو ہرگز دیدار کا انکار نہ کرتے اور محال نہ سمجھتے یعنی ان کا انکار بے جہتی اور بے کیفی سے ہے جو مرتبہ تنزیہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ برخلاف اس تجلی کے اس میں جہت وکیف ملحوظ ہے۔
پوشیدہ نہ رہے کہ دیدار آخرت کو تجلی صوری کی طرح بیان کرنا در حقیقت دیدار سے انکار کرنا ہے کیونکہ وہ تجلی صوری اگر چہ دنیا کی صوری تجلیات سے جدا ہے حق تعالیٰ کا دیدار نہیں ہے۔
يَرَاهُ الْمُؤْمِنُونَ بِغَيْرَ كَيْف
وَإِدْرَاتٍ وَ ضَرْبٍ مِّنْ مِثَالٍ
ترجمه : مومن خدا کو دیکھیں گے جنت میں خوش خصال
بے کیف و بے جہت بے شبہ و بے مثال
انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کام معبوث ہونا اہل جہان کے لئے سراسر رحمت ہے۔ اگر ان
بزرگواروں کا واسطہ اور ذریعہ نہ ہوتا تو ہم گمراہوں کو اس واجب الوجود تعالی وتقدس کی ذات وصفات کی معرفت کی طرف کون ہدایت فرماتا اور ہمارے مولیٰ جل شانہ کی مرضیات اور نا مرضیات میں کون تمیز کرتا۔ ہماری ناقص عقلیں ان بزرگواروں کے نور دعوت کی تائید کے بغیر معزول و بیکار ہیں اور ہمارے نا تمام اور ادھورے فہم ان کی تقلید کے بغیر اس معاملہ میں مخزول وخوار ہیں ۔ ہاں عقل بھی اگر چہ حجت ہے لیکن حجت ہونے میں نا تمام ہے اور مرتبہ بلوغ تک نہیں پہنچی ہے۔ حجت بالغہ انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کی بعثت ہے جس پر آخرت کا دائی عذاب و ثواب وابستہ ہے۔
سوال: جب آخرت کا دائگی عذاب بعثت پر موقوف ہے تو پھر بعثت کو رحمت عالمیان کہنا کس وجہ سے ہے؟
جواب : بعثت عین رحمت ہے جو واجب الوجود تعالی و تقدس کی ذات وصفات کی معرفت کا سبب ہے جو دنیا و آخرت کی سعادت کو متضمن ہے اور بعثت کی بدولت معلوم ہو گیا ہے کہ یہ چیز حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کے مناسب ہے اور یہ چیز نامناسب ۔ کیونکہ ہماری اندھی اور لنگڑی عقل جو حدوث اور امکان کے داغ سے داغدار ہے کیا جانتی ہے کہ اس حضرت وجوب کے لئے جس کے واسطے قدم لازم ہے۔ اس کے اسماء وصفات وافعال میں سے کون سے مناسب ہیں اور کون سے نا مناسب تا کہ ان کا اطلاق کیا جائے اور ان سے اجتناب کیا جائے بلکہ بسا اوقات اپنے نقص کی وجہ سے کمال کو نقصان جانتے ہیں اور کمال کو نقصان سمجھتے ہیں۔ یہ تمیز فقیر کے نزدیک تمام ظاہری و باطنی نعمتوں سے بڑھ کر ہے وہ شخص بڑا بد بخت ہے جو امور نامناسب کو حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کی طرف منسوب کرے اور ناشائستہ اشیا کو حق سبحانہ کی طرف نسبت دیوے بعثت ہی کی بدولت حق باطل سے جدا ہوا ہے اور بعثت ہی کی وجہ سے عبادت کے مستحق اور غیر مستحق میں تمیز ہوئی ہے۔ وہ بعثت ہی ہے جس کے ذریعے حق تعالیٰ کے راستہ کی طرف دعوت کرتے ہیں اور بندوں کو مولی جل شانہ کے قرب اور وصل کی سعادت تک پہنچاتے ہیں اور بعثت کے ذریعے حق تعالیٰ کی مرضیات پر اطلاع حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ گزر چکا اور بعثت ہی کی طفیل حق تعالیٰ کے ملک میں تصرف کے جواز اور عدم جواز میں تمیز ہوتی ہے۔ بعثت کے اس قسم کے فائدے بکثرت ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ بعثت سراسر رحمت ہے اور جو شخص اپنے نفس امارہ کی خواہش کے تابع ہو جائے شیطان لعین کے حکم سے بعثت کا انکار کر دے اور بعثت کے موافق عمل نہ کرے تو بعثت کا کیا گناہ ہے اور بعثت کیوں رحمت نہیں۔
سوال : عقل فی ذاتہ اگر چہ جل شانہ کے احکام میں ناقص و نا تمام ہے لیکن یہ کیوں نہیں ہو سکتا کہ تصفیہ اور تزکیہ کے حاصل ہونے کے بعد عقل کو مرتبہ وجوب تعالی و تقدس کے ساتھ بے تکیف مناسبت اور اتصال پیدا ہو جائے ۔ جس مناسبت اور اتصال کے سبب احکام کو وہاں سے اخذ کرے اور اس کو اس بعثت کی جو فرشتہ کے واسطے ہے کوئی حاجت نہ رہے۔
جواب : عقل اگر چہ یہ مناسبت اور اتصال پیدا کر لے لیکن یہ تعلق جو اس کا اس مادی صورت کے ساتھ ہے بالکل دور نہیں ہوتا اور اس کو پورا پورا تجر حاصل نہیں ہوتا۔ پس وہم ہمیشہ اس کا دامن گیر رہتا ہے اور متخیلہ ہرگز اس کا خیال نہیں چھوڑتی اور قوت عضمی اور شہوی ہمیشہ اس کی دوست رہتی ہیں اور حرص و شر کی رذیل صفتیں اس کی ہمنشیں ہوتی ہیں اور سہو و نسیان جو نوع انسان کا لازمہ ہے اس سے دور نہیں ہوتے اور خطا اور غلطی جو اس جہان کا خاصہ ہے اس سے جدا نہیں ہوتے ۔ پس عقل اعتماد کے لائق نہیں ہے اور اس کے ماخوذہ احکام وہم کے غلبہ اور خیال کے تصرف سے نہیں بچ سکتے اور زبان کی آمیزش اور خطا کے گمان سے محفوظ نہیں رہ سکتے ۔ برخلاف فرشتہ کے کہ وہ ان اوصاف سے پاک اور ان رذائل سے مبرا ہے پس وہ بالضرور اعتماد کے لائق ہوگا اور اس کے ماخوذه احکام وہم و خیال کی آمیزش اور نسیان و خطا کے گمان سے محفوظ ہوں گے اور بعض اوقات ان علوم میں جو تلقی روحانی سے اخذ کیے ہوتے ہیں محسوس ہوتا ہے کہ قوے وحواس کے ساتھ ان کی تبلیغ کی اثناء میں بعض مقدمات مسلمہ غیر صادقہ جو وہم و خیال وغیرہ کے ذریعے حاصل ہوئے ہوتے ہیں۔ ان علوم میں اس طرح مل جاتے ہیں کہ اس وقت ہرگز تمیز نہیں کر سکتے اور ثانی الحال میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس تمیز کا علم حاصل ہوتا ہے اور کبھی نہیں بھی ہوتا ۔ پس وہ علوم ان مقدمات کے مل جانے کے باعث کذب کی ہیئت پیدا کر لیتے ہیں اور پھر اعتماد کے قابل نہیں رہتے یا دوسرا اس کا یہ جواب ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ تصفیہ اور تزکیہ کا حاصل ہونا ان اعمال صالحہ کے بجالانے پر موقوف ہے جو حق تعالیٰ کو پسند ہیں اور یہ امر بعثت موقوف ہے جیسا کہ گزر چکا۔
پس ثابت ہوا کہ بعثت کے بغیر تصفیہ اور تزکیہ کی حقیقت حاصل نہیں ہو سکتی اور وہ صفائی جو کافروں اور فاستوں کو حاصل ہوتی ہے وہ نفس کی صفائی ہے نہ قلب کی صفائی اور صفا نفس سے گمراہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور خسارہ کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا اور بعض امور غیبی کا کشف جو صفائی کے وقت کافروں اور فاسقوں کو حاصل ہوتا ہے اور استدراج ہے جس سے مقصود ان لوگوں کی خرابی اور خسارہ ہے۔
نَجْنَا اللهُ سُبْحَانَهُ مِنْ هذِهِ الْبَلِيَّةِ بِحُرُمَةِ سَيّدِ الْمُرْسَلِينَ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمُ الصَّلوة وَالتَّسْلِيمَاتُ وَعَلَى اللِه الله تعالى سيد المرلین صلى الله عليه وسلم کے طفیل ہم کو اس بلا سے بچائے۔
اور اس تحقیق سے واضح ہوا کہ تکلیف شرعی جو بعثت کی راہ سے ثابت ہوئی ہے وہ بھی رحمت ہے نہ کہ جس طرح تکلیف شرعی کے منکروں یعنی ملحدوں اور زندیقوں نے گمان کیا ہے اور تکلیف کو کلفت سے تصور کر کے غیر معقول اور نا پسند جانا ہے اور جو کہتے ہیں کہ یہ کونسی مہر بانی ہے کہ بندوں کو سخت مشکل امور کی تکلیف دیں اور کہیں کہ اگر تم اس تکلیف کے بموجب عمل کرو گے تو بہشت میں جاؤ گے اور اگر اس کے برخلاف کرو گے تو دوزخ میں جاؤ گے ان کو ایسے امور کی کیوں تکلیف دیتے ہیں ان کو کیوں نہیں چھوڑ دیتے کہ کھائیں پئیں اور سور ہیں اور اپنے حال میں رہیں یہ بد بخت اور بیوقوف نہیں جانتے کہ منعم کا شکر از روئے عقل کے واجب ہے اور یہ تکلیفات شرعیہ اس شعر کے بجالانے کا بیان ہے۔ پس تکلیف عقل کی رو سے واجب ہے اور نیز جہان کا انتظام اس تکلیف پر منحصر ہے۔ اگر ہر ایک کو اپنے اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو ان سے سوائے شرارت اور فساد کے کچھ ظاہر نہ ہوتا۔ ہر بوالہوس دوسرے کے جان و مال میں ست درازی کرتا اور خبث وفساد سے پیش آتا اور خود بھی ضائع ہوتا اور دوسرے کو بھی ضائع کرتا عَيَاذَا بِاللَّهِ سُبْحَانَهُ اگر شرقی موانع اور زواجر نہ ہوتے تو معلوم نہیں کس قدر شرارت اور فساد ظاہر ہوتا ۔ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيوا يَا أُولِي الألْبَابِ اے داناؤں قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے ۔
کند زنگئے مست در کعبہ قے
اگر چوب حاکم نبا شد زپے
ترجمہ: اگر چوب حاکم سے زنگی نہ ڈرتا
تو مستی سے کعبہ میں قے جا کے کرتا
یا ہم یہ کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ خود مختار مالک ہے اور بندے اس کے مملوک اور غلام ہیں ۔ نہیں جو حکم و تصرف جو وہ ان میں فرماتا ہے عین خیر و صلاح ہے اور ظلم و فساد کی آمیزش سے منزہ اور میر ہے لا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ جو وہ کرتا ہے اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا ۔ ۔
کر از هر آنکه از بیم تو
کشاید زباں جزبہ تعلیم تو
ترجمہ: نہیں طاقت کہ کوئی تیرے ڈر سے
زباں اپنی بجز تسلیم کھولے
اگر سب کو دوزخ میں بھیج دے اور ان کو ہمیشہ کا عذاب فرمائے کوئی اعتراض کی جگہ نہیں اور غیر کے ملک میں یہ تصرف نہیں ہے جو ستم کی صورت پیدا کرے۔ برخلاف ہمارے املاک کے جو در حقیقت اسی کے املاک ہیں ان املاک میں ہمارے تمام تصرفات عین ستم ہیں کیونکہ صاحب شرع نے بعض مصلحتوں کے باعث ان املاک کو ہماری طرف منسوب کیا ہے اور در حقیقت اسی کے املاک ہیں۔ پس ہمارا تصرف ان املاک میں اس قدر جائز ہے جس قدر کہ اس مالک مختار نے اس تصرف کو تجویز فرمایا ہے اور ہمارے لئے مباح کیا ہے اور جو کچھ ان بزرگواروں یعنی انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام نے حق جل وعلا کے جتلانے سے خبر دی ہے اور جن احکام کا بیان فرمایا ہے سب سچ اور واقع کے اخطاء کی تقریر کو ان کے حق میں جائز نہیں رکھا اور کہا ہے کہ ان کو خطا پر جلدی آگاہ کر دیتے ہیں اور صواب و بہتری سے اس کا تدارک فرماتے ہیں ۔ فَلَا اعْتَدَا دَ بِذلِكَ الْخَطَاءِ پس یہ خطا کسی گنتی میں نہیں ہے۔
اور قبر کا عذاب کافروں کو اور بعض گنہگار مومنوں کے لئے حق ہے۔ مخبر صادق علیہ وعلی آلہ
الصلوات والتسلیمات نے اس کی نسبت خبر دی ہے۔
اور قبر میں مومنوں اور کافروں سے منکر و نکیر کا سوال بھی حق ہے۔ قبر دنیا اور آخرت کے درمیان ایک برزخ ہے۔ اس کا عذاب ایک وجہ سے عذاب دینوی سے مناسبت رکھتا ہے اور انقطاع پذیر ہے اور دوسری وجہ سے عذاب آخرت کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے جو درحقیقت آخرت کے عذابوں سے ہے۔ آیت کریمہ اَلنَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غَدُوًّا وَعَشِيَّا ( آگان پر صبح و شام پیش کی جاتی ہے ) عذاب قبر میں نازل ہوئی ہے اور اسی طرح قبر کا آرام بھی دو جہت رکھتا ہے۔ وہ شخص بہت ہی سعادت مند ہے جس کی لغزشوں اور قصوروں کو کمال کرم اور مہربانی سے بخش دیں اور ہرگز اس کا مواخذہ نہ کریں اور اگر مواخذہ کے مقام میں آئے بھی تو کمال مہربانی سے دنیا کے رنجوں اور مصیبتوں کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنادیں اور جو کچھ بقیہ رہ جائے تو قبر کی تنگی اور ان تکلیفوں کو جو اس مقام میں مقرر کی ہوئی ہیں اس کے گناہوں کا کفارہ بنادیں تا کہ پاک و پاکیزہ محشر میں مبعوث ہو اور جس شخص کے لئے ایسا نہ کریں اور اس کا مواخذہ آخرت پر موقوف رکھیں اس کے حق میں بھی عدل ہے لیکن گنہ گاروں اور شرمساروں کے حال پر افسوس ہے ہاں جو کوئی اہل اسلام سے ہے۔ اس کا انجام رحمت سے ہے اور عذاب ابدی سے محفوظ ہے یہ بھی بڑی اعلیٰ نعمت ہے۔
رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْلَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرِ بِحُرُمَتِ سَيّدِ الْمُرْسَلِينَ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمُ الصَّلَوَاتُ وَالتَّسْلِيمَاتُ اے ہمارے رب سید المرسلین صلى الله عليه وسلم کے طفیل ہمارے لئے نور کو کامل کر اور ہمارے گناہوں کو بخش تو ہر شے پر قادر ہے۔
روز قیامت حق ہے اور اس دن آسمان وزمین اور ستارے اور پہاڑ اور سمندر اور حیوان اور نباتات اور معادن سب کے سب معدوم اور نا چیز ہو جائیں گے۔ آسمان پھٹ جائیں گے اور ستارے پراگندہ ہو کر گر جائیں گے اور زمین و پہاڑ اڑ جائیں گے۔ یہ اعدام اور فنا نفحہ اولیٰ سے تعلق رکھتا ہے اور نفحہ ثانیہ میں قبروں سے انھیں گے اور محشر میں جائیں گے۔
اہل فلسفہ آسمانوں اور زمینوں کے نیست و نابود ہونے کو نہیں مانتے اور ان کا فانی اور فاسد ہونا جائز نہیں سمجھتے اور ان کو ازلی ابدی کہتے ہیں اور باوجود اس امر کے ان میں سے متاخرین لوگ اپنی بیوقوفی کے باعث اپنے آپ کو اہل اسلام کے گروہ سے جانتے ہیں اور بعض اسلامی احکام کے بجالانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ بعض اہل اسلام ان کی ان باتوں پر یقین کر لیتے ہیں اور بے تحاشا ان کو مسلمان جانتے ہیں اور اس سے زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض مسلمان ان لوگوں میں بعض کے اسلام کو کامل جانتے ہیں اور اگر کوی ان کو طعن و تشنیع کرے تو بہت برا مناتے ہیں حالانکہ یہ لوگ نصوص قطعی کے منکر ہیں اور انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کے اجماع کا انکار کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِذَا الشَّمْسُ كُوّرَتْ * وَإِذَا النجوم الكدرت (جس وقت آفتاب ( کے نور کی چادر کو لپیٹ لیا جائے اور جس وقت تارے جھڑ پڑیں ) اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اِذَا السَّمَاء انْشَقَّتْ * وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( اور جب آسمان پھٹ جائے اور سن لے حکم اپنے پروردگار کا اور اسی لائق ہے ) اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَفُتِحَتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ اَبْوَاباً ائی شَقَّتْ ( اور آسمان پھٹ کر اس میں دروازے دروازے ہو جائیں گے۔)
اس قسم کی آیتیں قرآن مجید میں بکثرت موجود ہیں اور نہیں جانتے کہ صرف کلمہ شہادت کا منہ سے بول لینا اسلام میں کافی نہیں ہے بلکہ ان تمام چیزوں کی تصدیق ضروری ہے جن کا بجالانا اور ان پر عملدرآمد کرنا دین کی ضروریات سے سمجھا گیا ہے اور کفرو کا فری سے تیر ا یعنی بیزار ہونا بھی ضروری ہے تا کہ اسلام ثابت ہوجاۓ ۔ وَبِدُونِهِ خَرْطُ الْقَتَادِ ( کچھ بھی نہیں ہے ۔ )
اور حساب اور میزان اور صراط حق ہے کہ مخبر صادق علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام نے ان کی نسبت خبر دی ہے اور نبوت کے حال سے بعض جاہلوں کے نزدیک ایسے امور کا بعید از عقل ہونا اعتبار سے ساقط ہے کیونکہ نبوت کی حقیقت عقل کی حقیقت سے برتر ہے اور انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کے صادقہ اخبار کو نظر عقل کے ساتھ موافق کرنا در حقیقت طور نبوت سے انکار کرنا ہے کیونکہ یہاں تو معاملہ تقلید پر ہے۔ نہیں جانتے کہ طور نبوت طور عقل کے مخالف ہے بلکہ عقل انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کی تقلید کے ایسے عالی مطالب کی طرف ہدایت نہیں پاسکتی۔ مخالفت اور چیز ہے اور وہاں تک نہ پہنچنا اور شے ۔ کیونکہ مخالفت مطلب تک پہنچنے کے بعد متصور ہوتی ہے۔
بهشت و دوزخ موجود ہیں قیامت کے دن حساب لینے کے بعد ایک گروہ کو بہشت میں اور ایک دوزخ میں بھیج دیں گے اور ثواب و عذاب ابدی ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا جیسا کہ قطعی اور مؤکدہ نصوص اس امر پر دلالت کرتی ہیں۔
صاحب فصوص کہتا ہے کہ سب کا انجام رحمت سے ہے۔ إِنَّ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ ء ( میری رحمت سب چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے ) اور کفار کے لیے دوزخ کا عذاب تین حصہ تک ثابت کرتا ہے اور بعد ازاں کہتا ہے کہ آگ ان کے حق میں برد اور سلام یعنی ٹھنڈی اور سلامت ہو جائے گی۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام پر ہوگئی تھی اور حق تعالیٰ کے وعید میں خلاف جائز سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ کوئی اہل دل صوفی کفار کے ہمیشہ کے عذاب کی طرف نہیں گیا ہے۔ اس مسئلہ میں بھی صواب سے دور جا پڑا ہے اور اس نے نہیں جانا ہے ، کو مومنوں اور کافروں کے حق میں رحمت کا وسیع ہونا صرف دنیا ہی میں مخصوص ہے اور آخرت میں کافروں کو رحمت کی بو بھی نہ پہنچے گی جیسا کہ اللہ فرماتا ہے۔ إِنَّهُ لَا يَايَبْنَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ( میری رحمت سے کافروں کے سوا اور کوئی نا امید نہ ہوگا ) اور رَحْمَتِی وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ کے بعد فرماتا ہے۔ فَسَاكُتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَالَّذِينَ هُمُ بِايْتِنَا يُؤْمِنُونَ پھر میں اپنی رحمت کو ان لوگوں کے لئے لکھوں گا جو ڈرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔
شیخ نے آیت کے اول حصہ کو پڑھا ہے اور آخر حصہ پر عمل نہیں کیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ (اللہ کی رحمت نیکوکاروں کے قریب ہے ) اور آیت كريم فَلا تَحْسَبَنَّ اللهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَه خلف وعدہ کی خصوصیت پر دلالت نہیں کرتی۔ ہو سکتا ہے کہ اس جگہ وعدہ خلافی کے نہ ہونے کا اقتصار وانحصار اس سبب سے ہو کہ وعدہ سے اس جگہ مرا در سولوں کی نصرت اور فتح اور کفار پر ان کا غلبہ ہے اور یہ بات وعدہ وعید پر متضمن ہے۔ یعنی رسول کے لئے وعدہ ہے اور کفار کیلئے وعید ۔ پس گویا اس آیت میں خلف وعدہ کی بھی اور خلف وعید کی بھی نفی ہے ۔ فَالآيَةَ مُسْتَشْهِدَةٌ عَلَيْهِ لا لَهُ اور نیز وعید میں خلاف ہو نا وعدہ کے خلاف کی طرح کذب کو ستلزم ہے اور یہ بات حق تعالیٰ کی بلند بارگاہ کے مناسب نہیں ہے یعنی حق تعالیٰ نے ازل میں جان لیا تھا کہ کفار کو ہمیشہ کا عذاب نہ دوں گا اور پھر باوجود اس بات کے کسی مصلحت کیلئے اپنے علم کے خلاف کہہ دیا کہ ان کو ہمیشہ کا عذاب کروں گا۔ اس امر کا تجوی کرنا نہایت ہی برا ہے۔
سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَ سَلامُ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ( تیرا بری عزت والا رب اس بات سے برتر و پاک ہے جس کے ساتھ اس کو موصوف کرتے ہیں اور مرسلین پر سلام ہو ) اور کفار کے لئے دائگی عذاب کے نہ ہونے پر اہل دل کا اجماع صرف شیخ کا اپنا کشف ہے اور کشف میں خطا کی مجال بہت ہے اور چونکہ یہ کشف مسلمانوں کے اجماع کے مخالف ہے اس لئے اس کا کچھ اعتبار اور شمار نہیں ہے۔
فرشتے اللہ جل شانہ کے بندے ہیں جو گناہوں سے معصوم اور خطا ونسیان سے محفوظ ہیں ۔ لا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ( جو امران کو اللہ تعالیٰ کرتا ہے اس میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم ہوتا ہے ) اور کھانے پینے اور زن ومرد ہونے سے پاک اور منزہ ہیں اور قرآن مجید میں ان کیلئے مذکر ضمیروں کا استعمال اس اعتبار سے ہے کہ مردوں کا گروہ عورتوں کے گروہ سے بزرگ اور شریف مانا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ نے بھی اپنی ذات کے واسطے مذکر ضمیروں کا استعمال فرمایا ہے اور حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ نے ان میں سے بعض کو رسالت کیلئے برگزیدہ کیا ہے جس طرح کہ بعض انسان کو بھی اس دولت سے مشرف کیا ہے۔ اَللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلاً وَ مِنَ النَّاسِ ( اللہ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں سے بعض کو رسول بنالیتا ہے ) تمام اہل حق اس بات پر متفق ہیں کہ خاص خاص انسان فرشتوں سے افضل ہیں۔
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ اور امام الحرمین اور صاحب فتوحات مکیہ اس بات کے قائل ہیں کہ خاص ملک خاص انسان سے افضل ہیں اور جو کچھ اس فقیر پر ظاہر کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ فرشتہ کی ولایت نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی ولایت سے افضل ہے لیکن نبوت اور رسالت کے درمیان نبی کے لئے ایک ایسا درجہ جہاں تک فرشتہ نہیں پہنچا ہے اور وہ درجہ عنصر خاک کی راہ سے ظاہر ہوا ہے جو بشر کے ساتھ مخصوص ہے اور اس فقیر پر یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ کمالات ولایت کمالات نبوت کے مقابلہ میں کسی گنتی میں نہیں ہیں۔ کاش کہ ان کے درمیان وہ نسبت ہی ہوتی جو قطرہ کو دریائے محیط کے ساتھ (1) ہے جو راہ ولایت سے حاصل ہو ۔ پس افضلیت مطلق انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا حصہ ہے اور فضل جزئی ملائکہ کرام کے لئے ہے۔ پس بہتر وہی ہے جو جمہور علماء شکر اللہ تعالی ستیہم
نے کہا ہے.
اس تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہو گیا ہے کہ کوئی ولی کسی نبی کے درجہ تک نہیں پہنچتا بلکہ اس ولی کا سر ہمیشہ اس نبی کے قدم کے نیچے ہوتا ہے۔
جاننا چاہئے کہ ان مسائل میں سے ہر ایک مسئلہ میں جس میں صوفیہ وعلماء کا باہم اختلاف ہے جب اچھی طرح اور ملاحظہ کیا جاتا ہے تو حق بجانب علماء معلوم ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء کی نظر نے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی متابعت کے باعث نبوت کے کمالات اور اس کے علوم میں نفوذ کیا ہے اور صوفیہ کی نظر ولایت کے کمالات اس کے معارف تک ہی محدود ہے۔ پس وہ علم جو نبوت کی پیش گاہ سے حاصل کیا جائے وہ بالضرور اس علم سے جو مرتبہ ولایت سے اخذ کیا جائے کئی درجے بہتر اور حق ہوگا۔
بعض معارف کی تحقیق اس مکتوب میں جو اپنے فرزند ارشد کے نام طریقہ کے بیان میں لکھا
ہے درج ہو چکی ہے اگر کچھ وقت اور پوشیدگی رہ جائے تو اس مکتوب کی طرف رجوع کریں۔
ایمان ان تمام دینی امور کے ساتھ جو ضرورت اور تواتر کے طریق پر ہم تک پہنچے ہیں تصدیق قلبی سے مراد ہے اور اقرار زبانی بھی ایمان کا رکن کہا ہے کہ سقوط کا احتمال رکھتا ہے اور کفر اور کا فری اور کفر کے خصائص اور لوازم مثلا ز نا ر با دینی اور اس قسم کی اور رسوم سے جو اس میں پائی جاتی ہیں تری کرنا اور بیزار ہونا اس تصدیق کی علامت میں سے ہے اور اگر عیاذ باللہ کوئی اس تصدیق کا بھی دعوی کرے اور کفر سے بیزاری اور تیری بھی نظاہر نہ کرے تو ظاہر ہے کہ ایسا شخص دو دینوں کی تصدیق کرنے والا ہے جو ارتدادک نشان سے داغدار ہے اور حقیقت میں اس کا حکم منافق کا سا حکم ہے۔ لا الى هؤُلَاءِ وَلا إلى هؤلاء ( نہ ادھر کا نہ ادھر ) آیت کریمہ یا أيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ (اے نبی کفار اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر ) اسی مضمون کی تائید کرتی ہے کیونکہ اللہ جل شانہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی محبت ان کے دشمنوں کی دشمنی کے بغیر ثابت نہیں ہوتی ۔ اس جگہ یہ مصرعہ صادق آتا ہے
تولی بے تبری نیست ممکن
ترجمہ نہیں ہوتی محبت بن تبری
شیعہ نے جو یہ قاعدہ اہل بیت کی محبت اور دوستی میں جاری کیا ہوا ہے اور خلفائے ثلاثہ کے تبرے کو اس محبت کی شرط قرار دیا ہے نا مناسب ہے کیونکہ دوستوں کی محبت کے لئے شرط ہے کہ ان کے دشمنوں سے تیری کیا جائے نہ کہ مطلق طور پر دشمنوں کے سوا غیروں سے بھی اور کوئی منصف عاقل اس بات کو جائز نہیں سمجھتا کہ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب اہل بیت کے دشمن ہوں جبکہ ان بزرگواروں نے نبی صلى الله عليه وسلم کی محبت میں اپنے مالوں اور جانوں کو صرف کر دیا اور جاہ وریاست کو برباد کر دیا ہے اور کس طرح اہل بیت کی دشمنی کو ان کی طرف منسوب کر سکتے ہیں جبکہ نص قطعی کے ساتھ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے قرابت والوں کی محبت ثابت ہے اور دعوت کی اجرت ان کی محبت مقرر کی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
قُلْ لا أَسْتَلُكُمْ اَجْراً إِلَّا الْمُوَدَّةَ فِي الْقُرْبِي وَمَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةٌ نَزِدْلَهُ فِيهَا حُسنا کہ یا رسول اللہ کہ دو کہ میں تم سے اہل قرابت کی دوستی کے سوا اور کچھ اجر نہیں مانگتا اور جو شخص ایک نیکی کمائے گا ہم اس کی نیکیوں میں اور نیکیاں زیادہ کریں گے ۔ حضرت ابراہیم خلیل الرحمن علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ بزرگی پائی اور شجرہ انبیا بن گئے سب حق تعالیٰ کے دشمنوں سے تبری کرنے کے باعث ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِين معه اذ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآؤُا مِنْكُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرُنا بِكُمْ وَ بَدَا بَيْننا و بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغَضَاءُ اَبَدا حَتَى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَہ تمہارے لئے ابراہیم اور اس کے اصحاب میں نہایت اعلیٰ درجہ کی بہتر پیروی تھی جب کہ انہوں نے قوم کے لوگوں کو کہا کہ ہم تم سے اور ان سے جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو بیزار ہیں اور ہم تم سے انکار کرتے ہیں اور جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے عداوت اور دشمنی ظاہر ہو چکی ہے۔
اور حق جل وعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کیلئے فقیر کی نظر میں اس تہبری کے برابر کوئی عمل نہیں ہے۔ تبری کا ہونا ضروری ہے کیونکہ حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ کو کفر اور کافری کے ساتھ عداوت ہے اور اللہ تعالیٰ آفاقی مثل لات و عزمی اور ان کے عبادت کرنے والے بالذات حق
سلامنہ کے دشمن ہیں اور دوزخ کا دائی عذاب اس برے فعل کی جزا ہے اور اللہ انفسی یعنی ہوائے نفسانی اور تمام برے اعمال یہ نسبت نہیں رکھتے کیونکہ غضب وعداوت ان کی نسبت ذاتی نہیں ہے۔ اگر غضب ہے تو صفات کی طرف منسوب ہے اور اگر عقاب و عتاب ہے تو افعال کی طرف راجع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوزخ کا دائگی عذاب ان برے فعلوں کی جزا نہیں بنا بلکہ ان کی معرفت کو اپنی مشیت اور اردہ پر منحصر کیا ہے۔
جاننا چاہئے کہ جب کفر اور کافروں کے ساتھ ذاتی عداوت ثابت ہو چکی تو ناچار رحمت ورافت جوصفات جمال میں سے ہے آخرت میں کافروں کو نہ پہنچے گی اور رحمت کی صف عداوت ذاتی کو دور نہ کرے گی وہ چیز جو ذات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اس چیز کی نسبت جو صفت سے تعلق رکھتی ہے زیادہ اقوئی اور ارفع ہے۔ پس مقتضائے صفت مقتضائے ذات کو تبدیل نہیں کر سکتا اور یہ جو حدیث قدسی میں آیا ہے کہ سَبَقَتْ رَحْمَتِي عَلَى غَضبی ( میری رحمت غضب پر بڑھی کہ ہوئی ہے ) اس غضب سے مراد غضب صفاتی سمجھنا چاہئے جو گنہ گاروں کے ساتھ مخصوص ہے نہ کہ غضب ذاتی جو مشرکوں کے ساتھ مخصوص ہے
سوال : اگر کہیں کہ دنیا میں کافروں کو رحمت نصیب ہے۔ جیسا کہ تو نے اوپر تحقیق کی ہے تو پھر دنیا میں رحمت کی صفت نے ذاتی عداوت کو کیسے دور کر دیا؟
جواب میں کہتا ہوں کہ دنیا میں کافروں کو رحمت کا حاصل ہونا ظاہر اور صورت کے اعتبار سے ہے اور در حقیقت ان کے حق میں استدراج اور مکر ہے۔
آیت کریمہ أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّ هُمُ بِهِ مِنْ مَّالٍ وَّ بَنِيْنَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَلْ لا يَشْعُرُونَ چاغ کیا یہ لوگ ایسا خیال کرتے ہیں کہ ہم جو مال و اولاد سے ان کی امداد کئے چلے جارہے ہیں (اس کے یہ معنی ہیں کہ ) ان کو فائدہ پہنچانے میں ہم جلدی کر رہے ہیں ۔ (نہیں) بلکہ یہ لوگ اصل مطلب ) کو سمجھتے نہیں۔
اور آیت کریم سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لا يَعْلَمُونَ وَاُملِى لَهُمْ إِنَّ كَيْدِى مین ۱۳ ہم انہیں اس طرح پر کہ ان کو خبر بھی نہ ہو آہستہ آہستہ (جہنم کی طرف گھسیٹ کر ) لے جائیں گے اور ہم ان کو ( دنیا میں ) مہلت دیتے ہیں اور ہمار داؤ بے شک (پکا) داؤ ہے۔ انہی
معنوں پر شاہد ہیں ۔ فَلْيَفْهَمُ.
فائدہ جلیلہ : دوزخ کا دائمی عذاب کفر کی جزا ہے۔ پھر اگر پوچھیں کہ ایک شخص باوجود ایمان کے کفر کی رسمیں بجالا تا اور کفر کی رسموں کی تعظیم کرتا ہے اور علماء اس کفر کا حکم لگاتے اور اس کو مرتد سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ ہندوستان کے اکثر مسلمان اس بلا میں مبتلا ہیں پس چاہئے کہ عملاء کے فتویٰ کے بموجب وہ شخص آخرت کے عذاب ابدی میں گرفتار ہو۔ حالانکہ اخبار صحیحہ میں آچکا ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ ایمان بھی ہوگاس کو دوزخ سے باہر نکال لیں گے اور دائمی عذاب میں نہ رہنے دیں گے ۔ تیرے نزدیک اس مسئلہ کی کیا تحقیق ہے۔
میں کہتا ہوں کہ اگر وہ شخص کا فر محض ہے تو دائمی عذاب اس کے نصیب ہے ۔ نَعُوذُ بِاللهِ مِنْهُ اور کفر کی رسموں کے بجالانے کے باوجود ذرہ ایمان بھی رکھتا ہے تو دوزخ کے عذاب میں مبتلا ہوگا لیکن اس ذرہ بھر ایمان کی برکت سے امید ہے کہ دائی عذاب سے اخلاص ہو جائے گا اور دائیگرفتاری سے نجات پا جائے گا۔
فقیر ایک دفعہ ایک شخص کی بیمار پرسی کے لئے گیا جس کا معاملہ نزع کی حالت تک پہنچا ہوا تھا۔ جب یہ فقیر اس کے حال کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ اس کے دل پر بہت سی ظلمتیں چھائی ہوئی ہیں۔ ان یہ ظلمتوں کو دور کرنے کا ارادہ کیا اور چاہا کہ وہ ظلمیں اس کے دل پر سے دور ہو جائیں لیکن اس کے دل نے قبول نہ کیا بہت کی توجہ کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ظلمتیں صفات کفر بعد وہ سے پیدا ہوئی ہیں جو اس میں پوشیدہ تھیں اور وہ کدورتیں کفر اور اہل کفر کے ساتھ دوستی رکھنے کے باعث پیدا ہوئی ہیں۔ توجہ کہ ساتھ یہ ظلمتیں دور نہیں ہو سکتیں۔ بلکہ ان ظلمات سے اس کا پاک ہونا دوزخ کے عذاب پر موقوف ہے جو کفر کی جزا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ذرہ بھر ایمان بھی رکھتا ہے جس کی برکت سے آخر کار اس کو دوزخ سے نکال لیں گے۔ جب اس میں اس حال کا مشاہدہ کیا تو دل میں گزرا کہ آیا اس شخص پر نماز جنازہ پڑھنی چاہئے یا نہ ۔ توجہ کے بعد ظاہر ہوا کہ نماز ادا کرنی چاہئے ۔ پس وہ مسلمان جو باوجود ایمان کے کافروں کی رسمیں بجالاتے ہیں اور ان کی تعظیم کرتے ہیں اور ان پر نماز جنازہ پڑھنی چاہئے اور کفار کے ساتھ نہ ملانا چاہئے جیسا کہ آج تک یہ عمل برابر ہوتا چلا آیا ہے اور امیدوار ہونا چاہئے کہ آخر کار ایمان کی برکت سے عذاب سے نجات پا جائیں گے۔
پس معلوم ہوا کہ اہل کفر کے لئے عفو اور مغفرت نہیں ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ لَا يَفْعِرُ أَنْ يُشْرَكَ به (اللہ تعالیٰ شرک کو نہیں بخشے گا ) اور اگر کا فر محض ہے تو عداب ابدی اس کے کفر کی جزا ہے اور اگر ذرہ بھر ایمان رکھتا ہے تو اس کی جزا دوزخ کا عذاب موقت ہے اور اس کے تمام کبیرہ گناہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں چاہے تو ان کو بخش دے چاہے تو ان کو عذاب دے۔
فقیر کے نزدیک دوزخ کا عذاب موقت ہو خواہ دائمی، کفر اور صفات کفر کے ساتھ مخصوص ہے چنانچہ اس کی تحقیق آگے آئے گی اور وہ اہل کبائر کہ جن کے گناہ تو بہ یا شفاعت یا صرف عفو و احسان کے ساتھ مغفرت میں نہیں آتے یا جن کبیرہ گناہوں کا کفارہ دنیا کے رنج اور تکلیفوں اور موت کے سکرات اور سختیوں کے ساتھ نہیں ہوا ۔ امید ہے کہ ان کے عذاب میں بعض کو عذاب قبر کے ساتھ کفایت کریں گے اور بعض کو قبر کی تکلیفوں کے علاوہ قیامت کی سختیوں اور ہول کے ساتھ کفایت کریں گے اور ان کے گناہوں میں سے کوئی ایسا گناہ باقی نہ چھوڑیں گے جس کے لئے عذاب دوزخ کی ضرورت پڑے۔ آیت کریمہ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بظلم أوْلَئِكَ لَهُمُ الآمن پے ( ۱۵ ) وہ لوگ جو ایمان لائے اور اپنے ایمانوں کو ظلم سے نہ ملایا ان ع ( کیلئے امن ہے ) اسی مضمون کی مؤید ہے کیونا ظلم سے مراد شرک ہے واللهُ سُبْحَانَهُ أَعْلَمُ بِحَقَائِقِ الْأُمُورِ كُلَهَا اور تمام امور کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
اگر کہیں کہ کفر کے سوا بعض اور برائیوں کی جزا بھی دوزخ کا عذاب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزَاءُ هُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا ( جس نے کسی مومن کو عدا قتل کیا اس کی جزا جہنم ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا ) اور اخبار میں بھی آیا ہے کہ جو شخص ایک نماز فریضہ کو عمد اقضا کرے گا اس کو حقبہ دوزخ میں عذاب دیں گے۔ پس دوزخ کا عذاب صرف کفار کے ساتھ مخصوص نہ رہا۔
میں کہتا ہوں کر قتل کا عذاب اس شخص کے لئے جو قتل کو حلال جانے، کیونکہ قتل کو حلال جانئے والا کافر ہے جیسا کہ مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ اور کفر کے سوا اور برائیاں جن کے لئے دوزخ کا عذاب آیا ہے۔ وہ بھی صفات کفر کی آمیزش سے خالی نہ ہوں گی ۔ جیسا کہ اس برائی کو خفیف سمجھنا اور اس کے بجالانے کے وقت لا پروائی کرنا اور شریعت کے امر و نہی کو خوار سمجھنا وغیرہ وغیرہ۔ اور خبر میں آیا ہے کو شَفَاعَتِی لَاهْلِ الْكَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِی ( میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے ہوگی ) اور دوسری جگہ فرمایا ہے کہ اُمَّتِى أُمَّةٍ مَّرْحُوْمَة” لاَ عَذَابَ لَهَا فِي الآخِرَة ( میری امت امت مرحومہ ہے اس کو عذاب آخرت نہ ہوگا ) اور آیت كريم الَّذِينَ مِنُو وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أَوْلَئِكَ لَهُمُ الْآمَنَ اِس مضمون کی موید ہیں ۔ جیسا کہ مذکور ہوا اور مشرکوں کے اطفال اور شاہقان جبل اور پیغمبروں کے زمانہ فترت کے مشرکوں کا حال اس مکتوب میں جو فرزندی محمد سعید کے نام لکھا ہے۔ مفصل ذکر ہو چکا ہے وہاں سے معلوم کر لیں ۔
اور ایمان کے کم و زیادہ ہونے میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام اعظم کوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ الايمانُ لَا يَزِيدُ وَلَا يَنقُصُ ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے اور نہ کم اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ يَزِيدُ وَ يَنْقُصُ کہ ایمان زیادہ اور کم ہوتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ایمان قلبی تصدیق اور یقین سے مراد ہے جس میں زیادت اور نقصان کی گنجائش نہیں اور وہ جو زیادت اور نقصان کو قبول کرے دائرہ ظن میں داخل ہے نہ یقین میں ۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اعمال صالحہ کا بجالانا اس یقین کو روشن کر دیتا ہے اور برے اعمال کا بجالانا اس یقین کو مکدر و سیاہ کر دیتا ہے۔ پس زیادت اور نقصان اعمال کے اعتبار سے اور اعمال صالحہ کا بجالا نا اس یقین کے روشن ہونے میں ثابت ہوئی نہ کہ نفس یقین میں بعض نے اس یقین کو جب کہ منجلی اور روشن معلوم کیا تو اس یقین کی نسبت جو انجلا اور روشنی نہیں رکھتا زیادہ نہیں کہہ دیا۔ گویا بعض نے غیر منجلی یقین کو یقین نہ جانتا اور انہی بعض نے منجلی کو یقین جان کر ناقص کہہ دیا اور بعض دوسروں نے جو زیادہ تیز نظر رکھتے تھے جب دیکھا کہ یہ زیادت اور نقصان صفات یقین کی طرف راجع ہے نہ کہ نفس یقین کی طرف تو اس سبب سے یقین کو غیر زائد و ناقص کہہ دیا جس طرح کہ دو آئینے جو باہم برابر ہوں۔ لیکن انجلا اور نورانیت میں تفاوت رکھتے ہوں تو ایک شخص اس آئینہ کو جو زیادہ روشن ہےاور نمائندگی زیادہ رکھتا ہے کہہ دے کہ یہ آئینہ بہ نسبت اس آئینہ کے جس میں ویسی روشنی اور انجلا نہیں ہے، زیادہ ہے اور دوسرا شخص کہہ دے کہ یہ دونوں آئینے برابر ہیں اور ان میں کسی قسم کی زیادت اور نقصان نہیں ہے۔ فرق صرف انجلا اور نمائندگی میں ہے جو ان دونوں آئینوں کی صفات ہیں۔ پس دوسرے شخص کی نظر صائب ہے اور حقیقت شے تک نافذ ہے در شخص اوّل کی نظر کوتاہ ہے اور صفت سے بڑھ کر ذات تک نہیں پہنچتی ہے۔ يَرَفعَ اللهُ الَّذِيْن امَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوُ الْعِلْمَ دَرَجتَ پ ۲۸ ۲۴ – اللہ تعالیٰ ایمان داروں کو بلند کرتا ہے اور جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے وہ لوگ صاحب درجات بلند ہیں ۔
اس تحقیق سے کہ جس کے اظہار کیلئے اللہ تعالیٰ نے اس فقیر کو توفیق بخشی مخالفوں کے وہ سب اعتراض جو انہوں نے ایمان کے کم و بیش نہ ہونے پر کئے ہیں، زائل ہو گئے اور عام مومنوں کا ایمان تمام وجوہ میں انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے ایمان کی طرح نہ ہوا کیونکہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا ایمان جو کامل طور پر منجلی اور نورانی ہے۔ عام مومنوں کے ایمان سے جو مومنوں کے درجوں کے اختلاف کے بموجب بہت سی ظلمتیں اور کدورتیں رکھتا ہے اور اسی طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایمان جو وزن میں اس امت کے ایمان سے زیادہ ہے۔ انجلا اور نورانیت کے اعتبار سے سمجھنا چاہئے اور زیادت کو صفات کا ملہ کی طرف راجع کرنا چاہئے کیا نہیں دیکھتے کہ انبیائے علیہم الصلوة والسلام نفس انسانیت میں عام لوگوں کے ساتھ برابر ہیں اور حقیقت اور ذات میں سب با ہم متحد ہیں۔ تفاضل یعنی ایک کا دوسرے سے افضل ہونا صفات کاملہ کے اعتبار سے ہے اور جس میں یہ صفات کا ملہ نہیں ہیں، گویا وہ اس نوع سے خارج ہے اور اس نوع کے فضائل اور خواص سے محروم ہے لیکن باوجود اس تفاوت کے نفس انسانیت میں زیادت اور نقصان کا کوئی دخل نہیں اور نہیں کہہ سکتے کہ وہ انسانیت زیادت و نقصان کے قابل ہے ۔ وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ الْمُلُهمُ لِلصَّوَاب – اور نیز کہتے ہیں کہ تصدیق ایمانی سے مراد بعض کے نزدیک تصدیق منطقی ہے۔ جو ظن اور یقین کو شامل ہے۔ اس تقدیر پر نفس ایمان میں زیادت اور نقصان کی گنجائش ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ باہم اس جگہ تصدیق سے مراد دلی یقین اور ادغان ہے نہ کہ معنی عام جو ظن کو بھی شامل ہیں ۔
امام اعظم رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اَنَّا مُؤْمِن حَقًّا اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں که أَنَا مُؤْمِن إِنْشَاء الله تعالی در حقیقت ان میں نزاع لفظی ہے لیکن مذہب اول باعتبار ایمان حال کے ہے اور مذہب ثانی باعتبار ایمان انجام اور عاقبت ہے لیکن صورت استثناء سے کنارہ کرنا بہتر اور مناسب ہے ۔ كَمَا لَا يَخْفَى عَلَى الْمُنْصِفِ جیسا کہ منصف آدمی پر مخفی
نہیں ہے۔
اور اولیاء اللہ کی کرامتیں حق ہیں اور ان سے بکثرت خرق عادات کے واقع ہونے کے باعث ان کی یہ بات عادت مستمرہ ہوگئی اور کرامت کا منکر علم عادی اور ضروری کا منکر ہے۔ نبی کا معجزہ دعوئی نبوت کے ساتھ ملا ہوا ہوتا ہے اور کرامت اس بات سے خالی ہے۔ بلکہ اس نبی کی متابعت کے اقرار کرنے کے ساتھ ملی ہوتی ہے۔ فَلَا اِشْتَبَاهُ بَيْنَ الْمُعْجِزَةِ وَالْكِرَامَةِ كَمَا زَعْمَ الْمُنْكِرُونَ
پس معجزہ اور کرامت کے درمیان کوئی اشتباہ نہ رہا جیسا کہ منکروں نے گمان کیا ہے۔
اور فضیلت کی ترتیب خلفائے راشدین کے درمیان خلافت کی ترتیب کے موافق ہے لیکن شیخین کی افضلیت صحابہ اور تابعین کے اجماع سے ثابت ہوئی ہے۔ چنانچہ بڑے بڑے آئمہ کی
ایک جماعت نے جن میں سے ایک امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ ہے اس بات کو نقل کیا ہے:۔
قَالَ الشَّيْحَ إِلامَامُ ابُو الْحَسَنِ الْاَشْعَرِيُّ إِنَّ تَفْضِيْلَ أَبِي بِكْرٍ ثُمَّ عُمَرٍ له عَلى بَقِيَّة الأمة قطعی شیخ امام ابوالحسن اشعری فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت باقی امت پر قطعی ہے۔
قَالَ الذَّهَبِيُّ قَدْ تَوَاتَرَ تَرَعَنُ عَلِي فِي خِلَافَتِهِ وَ كُرْسِي مَمُلِكَتِهِ وَ بَيْنَ الْجَمِّ الْغَفِيْرِ مِنْ شِيعَتِهِ إِنَّ أَبي بكرٍ وَ عُمُرِ أَفْضَلُ الْأُمَّةِ قَالَ وَرَوَاهُ عَنْ عَلِي كَرَمَ اللهَ تَعَالَى وَجْهَهُ نِيْفٌ وَ ثَمَانُونَ نَفْسًا وَعَدَّ جَمَاعَةً ثُمَّه قَالَ فَقَبَحَ اللهُ الرَّافِضَةُ مَا اَجْهَلُهُمُ امام ذہبی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ان کی خلافت ومملکت کے زمانہ میں اور آپ کے تابعداروں میں سے ایک جم غفیر کے درمیان یہ بات بطریق تو اتر ثابت ہو چکی ہے کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر تمام امت میں سے افضل ہیں ۔ پھر فرماتے ہیں کہ ! اس بات کو حضرت علی کرم اللہ وجہ سے اسی (۸۰) سے کچھ زیادہ آدمیوں نے روایت کیا ہے اور ان میں سے ایک جماعت کا نام بھی لیا ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رافضیوں کا برا کرے اور یہ کیسے جاہل ہیں ۔
وَرَوَى الْبُخَارِيُّ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ خَيْرُ النَّاسُ بَعدَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ الصَّلوة وَالسَّلامُ أَبُو بَكْرٌ ثُمَّ عُمَرٌ ثُمَّ رَجُلٌ آخَرَ فَقَالَ ابْنُهُ مُحَمَّدٍ مِنْ الْحَيْفِيَّةَ ثُمَّ أَنْتَ فَقَالَ إِنَّمَا أَنَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ اور بخاری نے ان سے روایت کی ہے فرمایا کہ نبی صلى الله عليه وسلم کے بعد سب لوگوں میں سے بہتر حضرت ابو بکر ہیں پھر حضرت عمر پھر ایک اور شخص ۔ پس اس کے بیٹے محمد بن حنفیہ نے کہا کہ پھر تو ۔ پس فرمایا کہ میں تو ایک مسلمان شخص ہوں۔
وَصَحْحَ الذَّهَبِى وَغَيْرَهُ عَنْ عَلى إِنَّهُ قَالَ إِلا وَإِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ رِجَالًا يُفَصِلُونَنَى عَلَيْهِمَا وَ مَنْ وَجَدْتَهُ فَضَّلَنِي عَلَيْهِمَا فَهُوَا مُفْتَرِ عَلَيْهِ ما عَلَى الْمُفْتَرَى امام ذہبی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صحیح کہا ہے آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ لوگ مجھے ان دونوں پر فضیلت دیتے ہیں اور جس کو میں پاؤں گا مجھے ان پر فضیلت دیتا ہے وہ مفتری ہے اور اس کی سزا بھی وہی ہوگی جو مفتری کی سزا ہوتی ہے۔
وَاَخْرَجَ الدَّارَ قَطْنِى عَنْهُ لَا أَجِداً أَحَدًا فَضَّلَنِي عَلَى أَبِي بَكرٍ ، وَ عُمر الا جَلْدَتُهُ جَلْدَ الْمُفْتَرِی اور دار قطنی نے آپ سے روایت کی ہے کہ جس کو میں دیکھوں کہ مجھے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر پر فضیلت دیتا ہے تو میں اس کو اتنے کوڑے لگاؤں گا جو مفتری کی سزا ہے۔
اس قسم کی اور بہت سی مثالیں حضرت علی کرم اللہ وجہ سے اور ان کے سوا اور بہت سے تا بہ سے متواتر آئی ہیں جن میں کسی کو انکار کی مجال نہیں ہے حتی کہ عبدالرزاق جو ا کا بر شیعہ میں سے ہے کہتا ہے کہ اُفَضِلُ الشَّيخَيْنَ بِتَفْضِيلِ عَلِي اياهُمَا عَلَى نَفْسه وَإِلَّا لَما فضلتهما كَفى بى وزرًا اَنْ أحِبَّهُ ثُمَّ اُخَالِفہ میں شیخین کو اس لئے فضیلت دیتا ہوں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خود اپنے اوپر ان کو فضیلت دی ہے ورنہ میں ان کو کبھی فضیلت نہ دیتا۔ مجھے یہی گنا : حافی ہے کہ میں اس کو دوست رکھوں اور پھر اس کی مخالفت کروں ۔ كُلُّ ذَلِكَ مُستفاد من الصَّوَاعِقَ یہ سب کچھ صواعق سے لیا گیا ہے۔
لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ۔ پس اکثر اہاں سنت اس بات پر ہیں کہ شیخین کے بعد افضل حضرت عثمان ہیں ۔ حضرت علی اور آئمہ اربعہ مجتہدین رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کا بھی یہی مذہب ہے اور وہ تو قف جو حضرت عثمان کی فضیلت میں امام مالک سے نقل کیا ہے ۔ اس کے بارہ میں قاضی عیاض نے کہا ہے کہ امام مالک نے توقف سے حضرت عثمان کی تفصیل کی طرف رجوع کیا ہے اور قرطبی نے کہا ہے کہ هُوَ الَاصُحُ انشاء اللهُ تَعَالَى درست ہے اور ایسے ہی وہ توقف جو بعض نے امام اعظم رحمتہ اللہ علیہ کی اس عبارت سے سمجھا ہے که مِنْ عَلَامَاتِ السُّنَتِه وَالْجَمَاعَةِ تَفْضِيلُ الشَّيَخين وَمُحَبَّةُ الحَسَنين تيخين كى تفضيل اور ختنین کی محبت اہل سنت و جماعت کی علامات میں سے ہے۔
اس فقیر کے نزدیک اس عبارت کے اختیار کرنے کا حل اور ہے چونکہ حضرت ختینین رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں فتنہ و فساد لوگوں میں بہت ظاہر ہو گیا تھا اور اس سبب سے لوگوں کے دلوں میں بہت کدورت آگئی تھی۔ اس لئے امام رحمتہ اللہ علیہ نے اس بات کو مد نظر رکھ کر ان کے حق میں محبت کا لفظ اختیار کیا ہے اور ان کی دوستی کو سنت کی علامات سے فرمایا ہے ۔ بغیر اس امر کے کہ کسی قسم کا توقف ملحوظ ہو اور ہو بھی کیونکر جب کہ حنفیہ کتا ہیں اس مضمون سے بھری ہیں کہ ان کی افضلیت ان کی خلافت کی ترتیب پر ہے۔
الغرض شیخین کی افضلیت یقینی ہے اور حضرت عثمان کی افضلیت اس سے کم تر ہے لیکن احوط یہی ہے کہ حضرت عثمان کی افضلیت کے منکر بلکہ شیخین کی افضلیت کے منکر کو بھی کفر کا حکم نہ کریں اور مبتدع اور ضال جانیں کیونکہ اس کی تکفیر میں علماء کا اختلاف ہے اور اس اجتماع کے قطعی ہونے میں بہت قیل وقال ہے ایسا منکر یزید بد بخت کا ساتھی اور بھائی ہے کہ اسی احتیاط کے باعث علماء نے اس کے لعن کرنے میں توقف کیا ہے۔ وہ ایذا جو پیغمبر صلى الله عليه وسلم کو خلفائے راشدین کی جہت سے پہنچی ہے۔ وہ بعینہ اسی ایڈا کی طرح ہے جو امامین کی جہت سے پہنچی ہے۔ علیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات۔
قالَ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ اللهُ اللهُ فِي اَصْحَابِي لَا تَتَّخِذُوهُمْ عَرَضًا مِن بَعْدِى فَمِنْ اَحَبَّهُمْ فَبِحُتِى اَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبَغْضى اَبْغَضَهُمْ وَ مَنْ اَذَا هُمْ فَقَدْ أذَانِيَ وَ مَنْ آذَانِى فَقَدْ أَذَى اللهُ وَرَسُولَهُ فَتُوشَكُ أَنْ يُوْخِذَهُ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے اصحاب کے بارہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ان کو میرے بعد نشانہ نہ بناؤ جس نے ان کو دوست رکھا اس نے گویا میری محبت کے باعث ان کو دوست رکھا اور جس نے ان سے بغض کیا اس نے گویا میرے ہی بغض کے باعث ان سے بغض رکھا اور جس نے ان ایذا دی اس نے گویا مجھے ایذا دی اور جس نے مجھ کو ایذا دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی اور جس نے اللہ اور رسول کو ایذا دی وہ اس کا مواخذہ کرے گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وه لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔
اور جو کچھ مولانا سعد الدین نے شرح عقائد نسفی میں اس افضلیت کے حق میں انصاف سمجھا ہے وہ انصاف سے دور ہے اور وہ تردید جو اس نے کی ہے وہ سراسر لا حاصل ہے کیونکہ علماء کے نزدیک یہ بات مقرر ہے کہ اس جگہ افضلیت سے وہ مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بکثرت ” ثواب کے اعتبار سے ہے نہ کہ وہ افضلیت جو فضائل اور مناقب کے بکثرت ظاہر ہونے کے اعتبار سے ہے۔ کیونکہ ایسی افضلیت عقل مندوں کے نزدیک کچھ اعتبار نہیں رکھتی ۔ کیونکہ سلف صحابہ و تابعین نے جس قدر فضائل و مناقب حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی نسبت نقل کئے ہیں وہ اور کسی صحابی کی نسبت منقول نہیں ہیں۔ حتی کہ امام احمد رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ مَا جَاءَ لَاحَدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ مِنَ الْفَضَائِل Ras وكل على الله تعالى عنہ اور جو فضائل ۔۔۔۔۔۔۔ اور جو فضائل حضرت علی کے بارہ میں آئے ہیں وہ کسی اور صحابی کی نسبت نہیں آئے ) اور باوجود اس امر کے امام مذکور نے خانمان ثلاثہ کی افضلیت کا حکم کیا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ افضلیت کی وجہ ان فضائل و مناقب کے سوا کچھ اور ہے اور اس افضلیت پر اطلاع پا نا دولت وحی کی ان مشاہدہ کرنے والوں کو میسر ہے جنہوں نے صریح طور پر قرآن سے معلوم کی ہے اور وہ صحابہ پیغمبر علیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات ہیں ۔ پس جو کچھ شارح عقائد نسفی نے کہا ہے کہ اگر مراد افضلیت سے کثرت ثواب ہے تو پھر توقف کی جہت ساقط ہے کیونکہ توقف کی تبھی گنجائش ہوتی ہے جبکہ اس افضلیت کو صاحب شریعت کی طرف سے صریح طور پر یا دلالت کے طور پر معلوم نہ کیا ہو اور جب معلوم ہو چکی ہو تو پھر کیوں تو قف کریں اور جو شخص سب کو برابر جانے اور ایک کو دوسرے پر فضیلت دینا فضول سمجھے ۔ وہ بوالفضول اور احمق ہے وہ کیسا عجب بوالفضول ہے جو اہل حق کے اجماع کو فضول جانتا ہے۔ شاید فضل کا لفظ اس کو اس فضولی کی طرف لے گیا ہے اور یہ جو صاحب فتوحات مکیہ نے کہا ہے کہ ان کی خلافت کی ترتیب کا سبب ان کی عمروں کی مدت ہے فضیلت اور مساوات پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ خلافت امر دیگر ہے اور افضلیت کی بحث دیگر ہے۔ اور اگر مان بھی لیں تو یہ بات اور اس قسم کی اور باتیں اس کے شطحیات کی قسم سے ہیں، جو تمسک کے لائق نہیں ہیں۔ اس کے اکثر کشفیہ معارف جو اہل سنت کے علوم سے جدا واقع ہوئے ہیں، صواب اور بہتری سے دور ہیں ۔ ایسی باتوں کی وہی شخص متابعت کرتا ہے جس کا دل بیمار ہے یا مقلد صرف ہے۔
اور جو کچھ صحابہ کے درمیان لڑائی جھگڑے واقع ہوئے ہیں ان کو نیک توجیہ پر محمول چاہئے اور ہوا د تعصب سے دور سمجھنا چاہئے۔
تفتازانی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت میں افراط کرنے کے باوجود فرمایا ہے۔ وما وَقَعَ مِنَ الْمُخَالِفَاتِ وَالْمُحَارِبَاتِ لَمْ يَكُن عَنْ نِزَاعٍ فِي خِلَافَةٍ بَلْ عَنْ خِطَاءٍ فِي الاجتهاد اور لڑائی جھگڑے ان کے درمیان واقع ہوئے ہیں وہ خلافت کے بارہ میں نزاع کے باعث نہ تھے ۔ بلکہ اجتہاد میں خطا کے سبب تھے ۔
اور اس کے حاشیہ خیالی میں ہے فَإِنَّ مُعَاوِيَةِ وَاَحْزَابُهُ بِغوا عَنْ طَاعَتِهِ مَعَ اِعْتَرَافِهِمْ بِأَنَّهُ أَفْضَلُ أهْلَ زَمَانِهِ أَلَا حَقُّ بِالْإِمَامَةِ مِنْهُ بِشُبُهَةٍ هِيَ تَرُكُ الْقِصَاصِ عَنْ قَتْلَةٍ عُثمَانَ رَضِيَ اللهُ تَعَالیٰ عَنهُ ) کے معاویہ اور اس کے لشکر نے اس کی اطاعت سے سرکشی کی با وجود یہ کہ وہ مانتے تھے کہ وہ تمام اہل زمانہ سے افضل ہے۔ اور نیز وہ اس سے امامت کا زیادہ مستحق ہے از روئے شبہہ کے اور وہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے قصاص کا ترک کرنا ہے ) اور حاشیہ قرہ کمال قری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت علی نے فرمایا ہے إخْوَانُنَا بَغَوُا عَلَيْنَا وَلَيْسُوا كَفْرَةً وَلَا فِسَقَةٍ لِمَا لَهُمْ مِنَ التَّاوِيلِ ( ہمارے بھائیوں نے ہم پر بغاوت کی حالانکہ نہ ہی وہ کافر ہیں اور نہ ہی فاسق کیونکہ ان کے لئے تاویل ہے ) اور شک نہیں کہ خطائے اجتہادی ملامت سے دور ہے اور طعن و تشنیع سے مرفوع ہے۔
حضرت خیر البشر علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والتحیات کی صحبت کے حقوق کو مد نظر رکھ کر تمام اصحاب کرام کو نیکی سے یاد کرنا چاہئے اور پیغمبر علیہ وعلی آلہ الصلوات والتسلیمات کی دوستی کے باعث ان کو دوست رکھنا چاہئے ۔ مَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُتِى أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبَغْضِى أَبْغَضَهُم ( جس ۔ نے ان کو دوست رکھا اس نے میری محبت سے ان کو دوست رکھا اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کے باعث ان سے بغض رکھا ) یعنی وہ محبت جو میرے اصحاب کے متعلق ہے وہ وہی محبت ہے ۔ ہم مجھ سے متعلق ہے اور ایسے ہی وہ بغض جو ان سے متعلق ہے وہ وہی بغض ہے جو مجھ سے متعلق ہے۔ ہم کو حضرت امیر کے ساتھ لڑائی کرنے والوں سے کچھ آشنائی نہیں ہے بلکہ مناسب ہے کہ ہم ان سے بیزار ر ہیں لیکن چونکہ سب کے سب حضرت پیغمبر صلوت اللہ وسلامہ کے اصحاب کرام ہیں جن کی محبت کے لئے ہم مامور اور ان کے بغض وایڈا سے ممنوع ہیں۔ اس لئے ہم حضرت پیغمبر علیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات کی دوستی کے باعث سب کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے بغض وایزا سے دور بھاگتے ہیں کیونکہ ان کا بغض و ایذا آ نحضرت صلى الله عليه وسلم کے بغض وایذا تک پہنچادیتا ہے لیکن محق کو محق اور مخطی کو محظی کہتے ہیں ۔ یعنی حضرت امیر رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور ان کے مخالف خطا پر اس سے زیادہ کہنا فضول ہے۔
اس بحث کی تحقیق اس مکتوب میں جو خواجہ محمد اشرف کی طرف لکھا ہے مفصل ذکر ہو چکی ہے اگر کوئی بات مخفی رہ گئی ہو تو اس مکتوب کی طرف رجوع کریں۔
عقائد کے درست کرنے کے بعد احکام فقہ کا سیکھنا ضروری ہے اور فرض و واجب وحلال و حرام و سنت و مندوب و مشتبہ و مکروہ کے جانے سے چارہ نہیں ہے اور ایسا ہی اس علم کے وافق عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ فقہ کی کتابوں کا مطالعہ ضروری سمجھیں اور اعمال صالحہ کے بجالانے میں بڑی کوشش مد نظر رکھیں۔ نماز جو دین کا ستون ہے اس کے تھوڑے فضائل اور ارکان بیان کیے جاتے ہیں، غور سے سنیں ۔
اول وضو کے کامل اور پورے طور پر کرنے سے چارہ نہیں ہے۔ ہر عضو کو تین بار تمام و کمال طور پر دھونا چاہئے تا کہ وضو بروجہ سنت ادا ہوا اور سر کا مسح بالاستیعاب ( یعنی سارے سر کا مسح ) کرنا چاہئے اور کانوں اور گردن کے مسح میں احتیاط کرنی چاہئے اور بائیں ہاتھ کی خنصر یعنی چھنگلی ۔ پاؤں کی انگلیوں کے نیچے کی طرف خلال کرنا لکھا ہے اس کی رعایت رکھیں اور مستحب کے بجالانے کو تھوڑا نہ جانیں ۔ مستحب اللہ تعالیٰ کے نزید پسندیدہ اور دوست ہے اگر تمام دنیا کے عوض اللہ تعالیٰ کا ایک پسندیدہ فعل معلوم ہو جائے اور اس کے مطابق عمل میسر ہو جائے تو بھی غنیمت ہے اس کا بعینہ یہی حکم ہے کہ کوئی خزف ریزوں یعنی ٹھیکوں سے قیمتی موتی خرید لے یا بیہودہ اور بے فائر و جماد یعنی پتھر سے روح کو حاصل کر لے۔
کمال طبارت اور کامل وضو کے بعد نماز کا قصد کرنا چاہئے جو مومن کی معراج ہے اور کوشش کرنی چاہئے کہ فرض نماز جماعت کے بغیر ادا نہ ہونے پائے بلکہ امام کے ساتھ تکبیر اولی ترک نہ کرنی چاہئے اور نماز کو مستحب وقت میں ادا کرنا چاہنے اور قرآت میں قدر مسنون کو مدنظر رکھنا چاہئے اور رکوع وسجود میں طمانیت ضروری ہے کیونکہ بقول مختار یا فرض ہے یا واجب اور قومہ میں اس طرح سیدھا کھڑا ہونا چاہئے کہ تمام بدن کی ہڈیاں اپنی اپنی جگہ پر آجائیں اور سیدھا کھڑا ہونے کے بعد طمانیت درکار ہے، کیونکہ فرض ہے یا واجب یا سنت علی اختلاف الاقوال ایسا ہی جلسہ میں جو دو سجدوں کے درمیان ہے۔ درست بیٹھنے کے بعد اطمینان ضروری ہے جیسا کہ قومہ میں اور رکوع وسجود کی کمتر تسبیحیں تین بار ہیں اور زیادہ سے زیادہ سات بار یا گیارہ بار ہیں، علی اختلاف اقوال اور امام کی تسبیح مقتدیوں کے حال کے مواقف ہے۔ شرم کی بات ہے کہ انسان کیا! ہونے کی حالت میں باوجود طاقت کے اقل تسبیحات پر کفایت کرے اور اگر زیادہ نہ ہو سکے تو پانچ یا سات بار تو کہے اور سجدہ کرنے کے وقت اوّل وہ اعضاء زمین پر رکھے جو زمین کے نزدیک ہیں۔ پس اول دونوں زانوں زمین پر رکھے پھر دو ہاتھ پھر ناک پھر پیشانی اور زانوں اور ہاتھ رکھنے کے وقت دائیں طرف شروع کرنا چاہئے اور سر کے اٹھانے کے وقت اول ان اعضاء کو اٹھانا چاہئے جو آسمان سے نزدیک ہیں۔ پس پہلے پیشانی اٹھانی چاہئے الخ اور قیام کے وقت اپنی نظر کو سجدہ کی جگہ پر اور رکوع کے وقت اپنے پاؤں پر اور سجدہ کے وقت اپنے پاؤں پر اور سجدہ کے وقت نوک بینی پر اور جلوس کے وقت اپنے دونوں ہاتھوں پر یا دونوں بغلوں کی طرف رکھنا چاہئے جب نظر کو پراگندہ ہونے سے روک رکھیں اور مذکورہ بالا جگہوں پر لگائے رکھیں، تو سمجھ لینا چاہئے کہ نماز جمعیت کے ساتھ میسر ہو گئی اور خشوع والی نماز حاصل ہو گئی، جس طرح کہ نبی علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام سے منقول ہے اور ایسا ہی رکوع کے وقت دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کا کھلا رکھنا اور تجود کے وقت انگلیوں کا ملانا سنت ہے۔ اس کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے انگلیوں کا کھلا رکھنا یا ملا نا بے تقریب اور بے فائدہ نہیں ہے۔
صاحب شرع نے اس میں کئی قسم کے فائدہ ملاحظہ کر کے اس پر عمل کیا ہے۔ ہمارے لئے صاحب شریعت علیہ وعلی آلہ الصلوٰۃ والسلام کی متابعت کے برابر کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ سب احکام مفصل اور واضح طور پر کتب فقہیہ میں مذکور ہیں۔ یہاں بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ علم فقہ کے مطابق عمل بجالانے پر ترغیب ہو ۔
وَفَّقَنَا اللهُ سُبْحَانَهُ وَإِيَّاكُمْ عَلَى الأَعْمَالُ الصَّالِحَةِ المُوَافِقَةِ لِلْعُلُومِ الشَّرِيعَةِ بَعْدَ أَنْ وَفَقَنَا اللهُ سُبْحَانَهُ بِتَصْحِيح الْعَقَائِدِ الدِنِيَّةِ بِحُرْمَةِ سَيْدِ المُرْسَلِينَ عَلَيْهِ وَ عَلَيْهِمْ وَعَلَى آلِ كُلّ مِنَ الصَّلَوَاتِ اَفْضَلُهَا وَمِنَ التَّسْلِيمَاتِ اَكْمَلُها الله تعالى حضرت سید المرسلین صلى الله عليه وسلم کے طفیل ہم کو اور آپ کو دینی عقائد کے درست ہونے کے بعد شرعی علوم کے موافق اعمال صالحہ کے بجالانے کی بھی توفیق دے۔
اگر نماز کے فضائل اور اس کے مخصوصہ کمالات کے معلوم کرنے کا شوق ہو تو تین مکتو بوں کو جو ایک دوسرے کے قریب و متصل ہیں مطالعہ کریں۔ پہلا مکتوب فرزندی محمد صادق کے نام پر اور دوسرا میر محمد نعمان کے نام پر اور تیسرا مشیخیت مآب میاں شیخ تاج کے نام لکھا ہے۔
ان اعتقادی اور عملی دو پروں کے حاصل ہونے کے بعد اگر اللہ جل سلطانہ کی توفیق رہنمائی کرے تو صوفیہ کے طریقہ علیہ کا سلوک کرے۔ نہ اس غرض کے لئے کہ اس اعتقاد اور عمل سے بڑھ کر کوئی چیز حاصل ہو اور کوئی نئی بات ہاتھ آئے ۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ معتقدات کی نسبت ایسا یقین اور اطمینان حاصل کریں جو ہر گز کسی مشکلک سے زائل نہ ہو اور کسی شبہ کے وارد ہونے سے باطل نہ ہو کیونکہ استدلال کے جو پاؤں ہوتے ہیں اور مستدل سے بے تمکین ہوتا ہے۔ الا بذكرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقَلُوبُ ( خبر دار اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے ) اور اعمال کی نسبت آسانی اور سہولت حاصل کریں اور سرکشی کو جو نفس امارہ سے پیدا ہوتی ہے دور کریں اور طریقہ صوفیہ کے سلوک سے یہ مقصود نہیں ہے کہ غیبی صورتوں اور شکلوں کا مشاہدہ کریں اور الوان وانوار کا معائنہ کریں۔ یہ بات خود لہو و لعب میں داخل ہے۔ کیا حصی صورتیں اور شکلیں کم ہیں کہ ان کو چھوڑ کر ریاضتوں اور مجاہدوں کے ساتھ غیبی صورتوں اور انوار کی تمنا کریں۔ یہ صورتیں اور وہ صورتیں اور یہ انوار اور وہ انوار سب حق جل وعلیٰ کی مخلوق اور اس کے وجود پر دلالت کرنے والے نشانات ہیں۔
اور طرق صوفیہ میں سے طریقہ علیہ نقشبندیہ کا اختیار کرنا بہت مناسب اور بہتر ہے کیونکہ ان بزرگواروں نے سنت کی متابعت کو لازم پکڑا ہے اور بدعت سے اجتناب کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اگر ان کو متابعت کی دولت حاصل ہو اور احوال کچھ بھی نہ ہوں تو خوش ہیں اور اگر احوال کے باوجود متابعت میں فتور جانیں تو احوال کو پسند نہیں کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان بزرگواروں نے سماع ورقص کو جائز نہیں سمجھا اور ان احوال کا جان پر مترتب ہوتے ہیں کچھ اعتبار نہیں کیا ہے بلکہ ذکر جہر کو بھی بدعت جان کر اس سے منع کیا ہے اور وہ فائدے اور ثمرے جو اس پر مترتب ہوتے ہیں ان کی طرف التفات نہیں کی۔
ایک دن میں حضرت ایشاں رحمتہ اللہ علیہ کی ملازمت میں مجلس طعام میں حاضر تھا۔ شیخ کمال نے جو حضرات خواجہ قدس سرہ کے مخلص دوستوں میں تھا کھانا شروع کرتے وقت حضرت ایشاں کے حضور میں اسم اللہ کو بلند کہا، حضور کو بہت نا خوش معلوم ہوا اور یہاں تک کہ جھڑ کا اور فر مایا کہ اس کو کہہ دو کہ ہماری مجلس طعام میں حاضر نہ ہوا کرے۔ اور میں نے حضرت ایشاں سے سنا ہے کہ حضرت خواجہ نقشبند قدس سر و علماء بنا را کو جمع کر کے حضرت امیر قدس سرہ کی خانقاہ میں لے گئے تھے تا کہ ان کو ذکر جہر سے منع کریں ۔ علماء نے حضرت امیر رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کیا کہ ذکر جہر بدعت ہے نہ کیا کریں۔ انہوں نے جواب میں فرمایا کہ نہ کریں گے۔
جب اس طریقہ کے بزرگوار ذکر جہر سے منع کرنے میں اس قدر مبالغہ کرتے ہیں تو پھر سماع رقص اور وجد کا کیا ذکر ہے وہ احوال و مواجید جو غیر شرع اسباب پر مترتب ہوں فقیر کے نزدیک استدراج کی قسم سے ہیں کیونکہ استداراج والوں کو بھی احوال واذواق حاصل ہوتے ہیں اور جہان کی صورتوں کے آئینوں میں کشف و تو جید اور مکاشفہ و معائنہ ان کو ظاہر ہو جاتا ہے۔ اس امر میں حکماء یونان اور ہند کے جوگی اور برہمن سب برابر ہیں۔ احوال کے سچا اور صادق ہونے کی علامت علوم شرعیہ کے ساتھ ان کا موافق ہونا اور محرمہ اور مشتبہ امور کے ارتکاب سے بچنا ہے۔
جاننا چاہئے کہ سماع ور رقص در حقیقت لہو و لعب میں داخل ہیں ۔ آیت کریمہ وَمَنْ يَشْتَرِئُ لَهُوَ الْحَدِیثِ ( اور لوگوں میں ( کوئی ایسا بھی ( نالائق ) ہے جو واہیات ( خرافات ) قصے کہانیاں مول لے لیتا ہے) سرود کے منع ہونے کے شان میں نازل ہوئی ہے۔
چنانچہ مجاہد رضی اللہ عنہ جو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شاگرد ہے اور کبائر تابعین میں سے ہیں کہتا ہے کہ لَهُوا الْحَدِیثِ سے مراد سرود ہے۔
فِى الْمَدَارَكَ لَهُوَ الْحَدِيثِ السَّمُرُ وَالْغِنَاء وَكَان ابْن عَبَّاسِ وَ اِبْنُ مَسْعُودٍ يَحْلِفَان اَنَّهُ الْغِنَاءِ تفسیر مدارک میں ہے کہ لھو الحدیث سے مراد سمر یعنی بے ہودہ قصے کہانیاں اور سرود ہے
اور حضرت ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم قسم کھاتے تھے کہ بے شک وہ غنا اور سرود ہے۔
حضرت مجاہد اللہ تعالیٰ کے قول لَا يَشْهَدُونَ الْزُورَ ( زور میں حاضر نہیں ہوتے ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں آئی لَا يَحْضَرُونَ الْغِنَاءِ ( یعنی سرود و سماع میں حاضر نہیں ہوتے ) ۔
اور امام الہدی ابومنصور ماتریدی سے حکایت کی گئی ہے کہ مَن قَالَ لِمُقْرِي زَمَانِنَا اَحْسَنُتَ عِنْدَ قِرَاءَتِهِ يَكْفُروَ بَانَتْ مِنْهُ اِمْرَءَ تُهُ وَاَحْبَطَ اللَّهُ تَعَالَى كُلَّ حَسَنَاتِهِ جس نے ہمارے زمانہ کے کسی قاری کو قرات کے وقت کہا کہ تو نے بہت اچھا پڑھا کافر ہو جاتا ہے اور اس کی عورت اس سے جدا ہو جاتی ہے اور اس کی تمام نیکیاں دور ہو جاتی ہیں۔
اور ابو نصیر الد بوی سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے قاضی ظہیر الدین خوارزمی سے نقل کیا ہے كه مَنْ سَمِعَ الْغِنَاءِ مِنَ الْمُغَنِيَ وَغَيْرِهِ أَوْيَرَى فَعِلاً مِنَ الْحَرَامِ فَيُحْسِنُ ذَلِكَ بِاعْتَقَادٍ أَوْ بِغَيْرِ اعْتَقَادٍ يَصِيرُ مُرْتَدَّا فِي الْحَالِ بِنَاءً عَلَى أَنَّهُ أَبْطَلَ حُكْمَ الشَّرِيعَةِ وَمِنَ ابْطَلَ حُكْمَ الْشَرِيعَةِ فَلَا يَكُونَ مُؤْمِناً عَندَ كُلّ مُجْتَهِدٍ وَلَا يَقْبِلُ الله تَعَالَى طَاعَتَهُ وَاَحْبَطَ اللهُ تَعَالَى كُلَّ حَسَنَاتِهِ جس نے کسی گانے والے یا کسی اور سے سرو د سنا یا فعل حرام کو دیکھا اور اس کو اچھا جانا از روئے اعتقاد کے یا بغیر اعتقاد کے تو اسی وقت مرتد ہو جاتا ہے کیونکہ اس نے شریعت کے حکم کو باطل کر دیا اور جس نے شریعت کے حکم کو باطل کر دیا وہ کسی مجتہد کے نزدیک مومن نہیں رہتا اور نہ اللہ تعالیٰ اس کی اطاعت قبول کرتا ہے اور اس کی سب نیکیوں کودور کر دیتا ہے۔ اَعَاذَنَا اللَّهُ سُبْحَانَهُ مِنْ ذلِکَ اللہ تعالیٰ ہم کو اس سے بچائے۔
آیات و احادیث اور آیات فقہیہ غنا اور سرود کی حرمت میں اس قدر ہیں کہ ان کا شمار کرنا مشکل ہے۔ اگر کوئی شخص منسوخ حدیث یا روایت شاذہ کو سرود کے مباح ہونے میں پیش کرے تو اس کا ہرگز اعتبار نہ کرنا چاہئے کیونکہ کسی فقیہ نے کسی زمانہ میں سرورد کے مباح ہونے کا فتویٰ نہیں دیا ہے اور نہ ہی رقص و پاکوبی کو جائز قرار دیا ہے۔
چنانچہ امام ہمام ضیاء الدین شامی کی ملتقط میں مذکور ہے اور صوفیہ کا عمل حمل وحرمت میں سند نہیں ہے۔ صرف یہی کافی نہیں ہے کہ ہم ان کو معذور سمجھیں اور ان کو ملامت نہ کریں اور انکا امر اللہ تعالیٰ کے سپرد کریں یہاں تو امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول معتبر ہے نہ ابو بکر شبلی اور ابی حسن نوری کا عمل ۔
اس زمانہ کے بچے اور خام صوفیوں نے اپنے پیروں کے عمل کو بہانہ کر کے سرود و رقص کو اپنا دین وملت بنالیا ہے اور اسی کو اطاعت و عبادت سمجھ لیا ہے۔ أُولئِكَ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دينهم لَهُواً وَ لَعْبًا ( یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے لہو و لعب کو اپنا دین بنالیا ہے ) اور روایت سابقہ سے معلوم ہو چکا ہے کہ جو شخص فعل حرام کو مستحسن اور اچھا جانے وہ اسلام کے گروہ سے نکل جاتا ہے اور مرتد ہو جاتا ہے تو پھر خیال کرنا چاہئے کہ سماع در رقص کی مجلس کی تعظیم کرنا بلکہ اس کو اطاعت و عبادت سمجھنا کیسا برا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ ہمارے پیر اس امر میں مبتلا نہ ہوئے اور ہم تابعداروں کو اس قسم کے امور کی تقلید سے چھڑا دیا۔
سننے میں آتا ہے کہ مخدوم زادے سرود کی رغبت کرتے ہیں اور سرود و قصیدہ خوانی کی مجلس جمعہ کی راتوں میں منعقد کرتے ہیں اور اکثر یار اس امر میں موافقت کرتے ہیں۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ دوسرے سلسلوں کے مرید تو اپنے پیروں کے عمل کا بہانہ بنا کر اس امر کے مرتکب ہوتے ہیں اور شرعی حرمت کو اپنے پیروں کے عمل سے دفع کرتے ہیں اگر چہ فی الحقیقت اس امر میں حق پر نہیں ہیں۔ بھلا اس سلسلہ کے یار اس ارتکاب میں کون سا عذر پیش کریں گے۔ ایک طرف حرمت شرعی اور دوسری طرف اپنے پیروں کی مخالفت نہ اہل شریعت اس فعل سے راضی ہیں اور نہ ہی اہل طریقت اور اگر حرمت شرعی بھی نہ ہوتی تو پھر بھی طریقت میں صرف کسی نئے امر کا پیدا کرنا برا تھا۔ پھر ایسے امر کیونکر برے نہ ہوں جب کہ حرمت شرعی بھی اس کے ساتھ جمع ہو جائے ۔ مجھے امید ہے کہ جناب مرزا جی اس امر سے راضی نہ ہوں گے لیکن آپ کے آداب کو مد نظر رکھ کر صریح طور پر منع نہ کرتے ہوں گے اور یاروں کو اس اجتماع سے نہ روکتے ہوں گے اس فقیر نے چونکہ اپنے آنے میں کچھ توقف دیکھا ہے اس لئے چند فقرے جمع کر کے لکھ کر بھیج دیئے ہیں اس سبق کو مرزا جی کی خدمت و ملازمت میں لے جائیں اور اول سے آخر تک ان کے سامنے پڑھیں ۔
والسلام۔