2

مکتوب 268: اس بیان میں کہ انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کی وراثت کا علم کون سا ہے


مکتوب 268

اس بیان میں کہ انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کی وراثت کا علم کون سا ہے اور ان علماء سے جو حدیث عُلَمَاءُ أُمَّتِى كَانُبِيَا بَنی اسرائیل میں واقع ہوئے ہیں کون سے ہیں۔ اور اس بیان میں کہ علم اسرار جو انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کی وراثت سے باقی رہا ہے وہ علم توحید ووجود کے ان اسرار سے ماسوا ہے جن کے ساتھ اولیائے امت نے تکلم کیا ہے اور احاطہ دسریان و قرب ومعیت کے مناسب بیان میں خان خانان کی طرف صادر ہوا ہے:۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامُ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔

ان حدود کے فقرا کے احوال و اوضاع شکر کے لائق ہیں ۔ وَالْمُسْئُولُ مِنَ اللهِ سُبْحَانَهُ سَلامَتَكُمْ وَعَافِيَتَكُمْ وَ ثَبَاتَكُمْ وَاسْتِقَامَتَكُمْ اور آپ کی تندرستی اور عافیت اور ثابت قدمی اور استقامت اللہ تعالیٰ سے چاہتے ہیں ۔


چونکہ علم وراثت کی بحث درمیان آگئی ہے اس لئے چند کلمے اس کی نسبت بمتقضائے وقت لکھے جاتے ہیں ۔

اخبار میں آیا ہے کہ العلماء ورثة الأنبياء علماء انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے وارث ہیں ۔ وہ علم جو انبیا علیہم الصلوات والتسلیمات سے باقی رہا ہے دو قسم کا ہے۔ ایک علم احکام دوسرا علم اسرار اور عالم وارث وہ شخص ہے جس کو ان دونوں علموں سے حصہ حاصل ہو۔ نہ کہ وہ شخص جس کو ایک ہی قسم کا علم نصیب ہو اور دوسرا علم اس کے نصیب نہ ہو کہ بعض کو چھوڑ کر بعض سے اور وہ شخص جس کو بعض معین سے حصہ ملتا ہے۔ وہ غرماء یعنی قرض خواہوں میں داخل ہے کہ جس کا حصہ اس کے حق کی جنس سے متعلق ہے اور ایسا ہی آنحضرت علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام فرمایا ہے۔ عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانُبِيَا بَنِي إِسْرَائِيلَ میری امت کے علماء نبی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں۔


ان علماء سے مراد علمائے وارث ہیں نہ کہ غرباء کہ جنہوں نے بعض ترکہ سے حصہ لیا ہے کیونکہ وارث کو قرب و جنبیت کے لحاظ سے مورث کی ابتدا کر سکتے ہیں۔ برخلاف غریم کے کہ اس علاقہ سے خالی ہے۔ پس جو شخص وارث نہ ہو وہ عالم بھی نہ ہوگا۔ مگر یہ کہ اس کے علم کو ایک نوع کے ساتھ مقید کریں اور مثال کے طور پر یوں کہیں کہ علم احکام کا عالم ہے اور عالم مطلق وہ ہے جو وارث ہو اور اس کو دونوں قسم کے علم سے پورا حصہ حاصل ہو۔ اگر لوگوں کا یہ گمان ہے کہ علم اسرار علم توحید وجودی سے مراد ہے اور کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت کا مشاہدہ کرنا اور حق تعالیٰ کے احاطہ اور سریان وجود اور قرب ومعیت سے کنایہ ہے جس طرح پر کہ ارباب احوال کے نزدیک مکشوف ومشہود ہے۔ حَاشَاوَ كَلَّاثُمَّ حَاشَا وَكَلَّا کہ اس قسم کے علوم و معارف علم اسرار سے ہوں اور مرتبہ نبوت کے لائق ہوں کیونکہ ان معارف کی بناء پر سکر وقت اور غلبہ حال پر ہے جو صحو کے منافی ہے اور انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمت کا علم کیا علم احکام اور کیا علم اسرار سب صحو در صحو ہے کہ سکر کا ایک شمہ بھی اس کے ساتھ نہیں ملا ہے۔ بلکہ یہ معارف اس مقام ولایت کے مناسب ہیں جو سکر میں قدم راسخ رکھتا ہے۔ پس یہ علوم اسرار ولایت کے ہیں نہ کہ انبیاء کی نبوت کے اسرار سے۔ اگر چہ نبی سے ولایت بھی ثابت ہے لیکن اس کے احکام مغلوب ہیں اور احکام نبوت کے مقابلہ میں مضمحل اور ناچیز ہیں ۔


بلے ہر جا شود مهر آشکارا
سہارا جز نہاں بودن چه مارا

ترجمہ: بھلا جس جاپہ ہو سورج چمکتا
سہا ہرگز نہیں واں پھر دمکتا

فقیر نے اپنی کتابوں اور رسالوں میں لکھا ہے اور تحقیق کی ہے کہ کمالات نبوت دریائے محیط کا حکم رکھتے ہیں اور کمالات ولایت ان کے مقابلہ میں ایک قطرہ نا چیز کا حکم لیکن کیا کریں جن لوگوں کو کمالات نبوت تک رسائی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ الولایت افضل من النبوت ،
ولایت نبوت سے افضل ہے ۔

اور ایک جماعت نے اس کی توجیہ میں کہا ہے کہ نبی کی ولایت اس کی نبوت سے افضل ہے۔ ان دونوں گروہوں نے نبوت کی حقیقت کو نہ سمجھ کر غائب پر حکم کیا ہے۔ صحو پر سکر کو ترجیح دینے کا حکم بھی اس حکم کے نزدیک ہے۔ اگر صحو کی حقیقت کو جانتے ہرگز سکر کو صحو کے ساتھ نسبت نہ دیتے ۔

چه نسبت خاک را با عالم پاک

جن لوگوں نے خواص کے صحو کو عوام کے صحو کی مانند سمجھ کر سکر کو اس پر ترجیح دی ہے ۔ کاش کے خواص کے سکر کو بھی عوام کے سکر کی طرح سمجھتے اور اس حکم پر جرات نہ کرتے کیونکہ علماء کے نزدیک یہ بات ثابت و مقرر ہے کہ صحو و سکر مجازی ہے تو یہ حکم ثابت ہے اور اگر حقیقی ہے تو پھر ولایت کو نبوت سے افضل کہنا اور سکر کو صحو پر ترجیح دینے کا حکم ایسا ہے جیسا کہ کوئی کفر کو اسلام پر ترجیح دے اور جہل کو علم سے بہتر جانے کیونکہ کفر و جہل مقام ولایت کے مناسب ہے اور اسلام و معرفت مرتبہ نبوت کے مناسب منصور کہتا ہے۔

كَفَرْتُ بِدِينِ اللهِ وَالْكُفْرِ وَاجِب
لَدَيَّ عِندَ الْمُسْلِمِينَ قَبيح.

ترجمہ: نہ ہوا کا فر میں دیں حق سے مجھ کو کفر واجب ہے
اگر چه سب مسلمانوں کے ہاں یہ کفر بدتر ہے


حضرت محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کفر سے استغاذہ اور پناہ مانگتے تھے۔ قُلْ كُلّ يَعمل على شَاكِلَتِه ) کہ ہر ایک اپنی وضع و طرز پر عمل کرتا ہے) جس طرح عالم مجاز میں اسلام کفر سے بہتر ہے۔ اسی طرح حقیقت میں بھی اسلام کو کفر سے بہتر جاننا چاہئے ۔ فَاِنَّ الْمَجَازَ قَنطَرَة الْحَقِيقَة مجاز حقیت کا پل ہے ۔

اگر کہیں کہ مقام ولایت میں جس طرح کہ مرتبہ جمع میں کفر وسکر و جہل ثابت ہے۔ اسی طرح مرتبه فرق بعد الجمع میں اسلام و صحو معرفت بھی محقق و ثابت ہے تو کفر وسکر وجہل کو مقام ولایت کے مناسب کہنا کسی معنیٰ کے باعث ہے۔

میں کہتا ہوں کہ صحو وغیرہ کو مرتبہ فرق ثابت کرنا جمع کی نسبت سے ہے جو سراسر سکر و استتار ہے۔ ورنہ اس مرتبہ کا صحو بھی سکر کے ساتھ اور اس اسلام کفر کے ساتھ اور اس کی معرفت جہل کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ اگر فقیر کتاب میں گنجائش جانتا تو مرتبہ فرق کے احوال و معارف کو مفصل طور پر ذکر کرتا اور اس مرتبہ میں سکر وغیرہ کے ملنے کو بیان کرتا ۔ دانا لوگ شاید اس معنے کو دانائی سے بھی معلوم کرلیں گے ۔ الْعَجُبُ كُلَّ الْعَجب

اس قدر تو سمجھنا چاہئے کہ انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات نے جو اس قدر بڑائی اور بزرگی حاصل کی ہے تو وہ نبوت کی راہ سے حاصل کی ہے۔ نہ ولایت کی راہ سے ۔ ولایت نبوت کے لئے خادم کی طرح ہے۔ اگر ولایت کو نبوت پر کچھ زیادتی ہوتی تو ملائکہ ملائے اعلیٰ جن کی ولایت تمام ولایات سے اکمل ہے۔ انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات سے افضل ہوتے اور اس طائفہ میں سے ایک گروہ نے جب ولایت کو نبوت سے افضل جان کر ملائے اعلیٰ کی ولایت کو انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کی ولایت سے اکمل دیکھا تو ناچار ملائکہ علیین کو انبیاء علیہم الصلوت والتسلیمات سے کر دیا اور تمام اہلسنت سے جدا جا پڑے۔ كُلُّ ذَلِكَ لِعَدَمِ الاطلاعِ عَلَى حَقِيقَةِ النَّبوَّة یہ سب کچھ حقیقت نبوت پر اطلاع نہ پانے کے باعث ہے اور چونکہ بعد زمانہ کے باعث لوگوں کی نظر میں کمالات نبوت کے مقابلہ میں کمالات نبوت حقیر دکھائی دیتے ہیں ۔ اس لئے اس بارہ میں سخن کو مفصل بیان کیا اور معاملہ کی تھوڑی سی حقیقت ظاہر کر دی ۔ رَبَّنَا غْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَ إِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ يا اللہ ہمارے گناہوں اور ہمارے کام ہماری زیادتی کو بخش اور ہمارے قدموں کو ثابت رکھ اور کافر
لوگوں پر ہم کو مدد دے۔


اخویٰ رشدی شیخ داؤد چونکہ ان حدود کی طرف جانے والے تھے اس لئے وہی اس تکلیف کے باعث ہوئے ہیں ۔ والسلام

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا