مکتوب 272
ایمان بالغیب اور ایمان شہودی اور توحید شہودی اور تو جید وجودی کے بیان میں اور اس بیان میں کہ فنا کے حاصل ہونے میں جو درکار ہے وہ تو حید شہودی ہے ۔ توحید وجودی کچھ درکار نہیں ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اقسام کے بیان میں اور اس بیان میں کہ ایمان غیب کو ایمان شہادت پر فضیلت ہے اور اس بیان میں کہ اول اول جس شخص نے توحید وجودی کو ظاہر کیا ہے۔ فتوحات مکیہ کے صاحب ہیں اور گزشتہ مشائخ کی عبارت میں اگر چہ تو حید و اتحاد کی خبر دیتی ہیں لیکن تو حید شہودی پر محمول ہیں اور اس کے مناسب بیان میں میر سید محب اللہ مانکپوری کی طرف صادر فرمایا ہے :-
حمد وصلوٰۃ کے بعد سیادت پناہ برادر اور معزز محب اللہ کو واضح ہو کہ اس واجب الوجود کی ذات پاک اور اس کی تمام صفات کے ساتھ غیب سے ایمان لانا’ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اور ان کے اصحاب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور ان اولیا کا جو کلی طور پر مرجوع میں اور ان کی نسبت اصحاب رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی سی نسبت ہے۔ اگر قلیل بلکہ اقل ہے اور علمات اور عامہ مومنین کا نصیب ہے اور ایمان شہودی عامہ صوفیہ کا نصیب ہے ۔ خواہ وہ ارباب عزلت یعنی گوشہ نشین ہوں۔ خواہ وہ ارباب عشرت یعنی لوگوں میں رہنے والے ہوں کیونکہ ارباب عشرت اگر چہ مرجوع ہیں لیکن انہوں نے پورے طور پر رجوع نہیں کیا ہے۔ ان کا باطن اس فوق کی طرف نگراں ہے۔ یعنی ظاہر میں خلق کے ساتھ ہیں اور باطن میں حق جل شانہ کے ساتھ ۔ اسی واسطے ایمان شہودی ہر وقت ان کے نصیب ہے اور انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام چونکہ کلی طور پر مرجوع اور ظاہر و باطن میں خلق کو حق تعالیٰ کی طرف دعوت کرنے میں متوجہ ہیں ۔ اس لئے ایمان بالغیب ان کے نصیب ہے اور اس فقیر نے اپنے بعض رسالوں میں اس امر کی تحقیق کی ہے که با وجو در جوع کے فوق کا نگراں رہنا نقصان اور انجام تک نہ پہنچنے کی علامت ہے اور کلی طور پر رجوع کرنا نہایت النہایت تک پہنچنے کی علامت ہے۔ صوفیہ نے کمال کو جمع بین التوجہین یعنی دونوں توجہوں کے جمع ہونے میں جانا ہے اور تشبیہ اور تنزیہ کے جامع کو کاملین میں سے سمجھا ہے ۔
آں ایشا نندو من چنینم یا رب
ترجمه: میں ایسا ہوں وہ ایسے ہیں خدایا
۔
انبیائے علیہم الصلوٰہ والسلام جب مقام دعوت سے فارغ ہو جاتے ہیں اور عالم بقاء کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور رجوع کی مصلحت تمام ہو جاتی ہے تو بڑے شوق کے ساتھ الرفيق الا علی کی ندا لگا کر کلی طور پر حق جل شانہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور مراتب قرب میں بے خبر رہ جاتے ہیں ۔
هنيئاً لإرْبَاب النعِيمِ نَعِيمُهَا
وَلِلعَاشِقِ الْمِسْكِينِ مَا يَتَجَرَّعُ
ترجمہ مبارک منعموں کو اپنی نعمت
مبارک عاشقوں کو درد و کلفت
فقیر کے نزدیک کمال یہ ہے کہ عروج کے وقت کثرت بالکل نظر سے دور ہو جائے ۔ حتی کہ اسماء و صفات بھی ملحوظ نہ ہوں اور احدیت مجردہ کے سوا اور کچھ مشہود نہ ہو ۔ ثُمَّ عُوَمِلَ مَعَهُ مَاعُو مِل ا مَعَهُ ( پھر اس کے ساتھ معاملہ کیا گیا جو کیا گیا اور رجوع کے وقت سب کی سب کثرت پر پڑے اور عامہ مومنین کی طرح خلق کے سوا اور کوئی امر مشہود نہ ہو اور اطاعت کے ادا کرنے اور خلق کو حق تعالیٰ کی طرف دعوت کرنے کے سوا اس کا کوئی کام نہ ہو اور جب دعوت کے امر کو پورا کرے اور عالم فانی کو دواع کرے تو پورے طور پر جناب قدس کی طرف متوجہ ہو کر اپنا رخت غیب سے شہادت کی طرف لے جائے اور معاملہ گوش سے آغوش تک پہنچ جائے ۔ ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضلِ الْعَظیمِ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے ) کوئی ناقص پورے طور پر رجوع کرنے کو نقص خیال نہ کرے اور توجہ باطن کو جو حق سبحانہ کی طرف ہوتی ہے تو جہ بخلق سے جو ان کی دعوت و تکمیل کیلئے ہوتی ہے بہتر نہ جانے کیونکہ صاحب رجوع اپنے اختیار کے ساتھ مقام رجوع میں نہیں آیا بلکہ اس نے حق تعالیٰ کی مراد کے موافق اعلیٰ سے اسفل کی طرف نزول کیا ہے اور وصل سے ہجر کے ساتھ قرار پکڑا ہے۔ پس صاحب رجوع حق تعالیٰ کی مراد پر قائم اور اپنی مراد سے فانی ہے اور صاحب توجہ وصول وشہود کے ساتھ محفوظ اور قرب ومعیت کے ساتھ خوش ہے۔
ہجرے که بود مراد محبوب
از وصل ہزار بار خوشتر
ترجمہ: بیت جدائی جس میں دلبر کی رضا ہے
وہ بہتر وصل سے صدہا گنا ہے
لأنَّى فِي الْوِصَالِ عُبَيْدُ نَفْسِى
وَفِي الهجُرَ مَوْلَى لِلْمَوَالِيَ
وَشُغْلِى بِالْحَبيب بكل حال
أحبُّ إِلَيَّ مِنْ شُغْلِى بِحَالِى
ترجمہ: کہ وقت وصل نوکر نفس کا ہوں
جدائی میں غلام دلربا ہوں
خیال یار ہر دم دل جلائے
مجھے یکبار ہستی سے بھلائے
رجوع کے فضائل و کمالات بے شمار ہیں۔ صاحب توجہ کو صاحب رجوع کے ساتھ وہ نسبت ہے جو قطرہ کو دریائے محیط کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ رجوع نبوت کے فضائل میں سے ہے اور وہ توجہ ولایت کے آثار ہے۔ شَتَانِ مَا بَيْنَهُمَا ( ان دونوں میں بہت فرق ہے ) لیکن ہر شخص کا فہم اس کمال تک نہیں پہنچتا۔ ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم يا الله تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔
تشبیہ اور تنزیہ کے جمع کرنے والوں میں سے بعض کہتے ہیں کہ ایمان بہ تنزیہ سب مومنوں کو حاصل ہے۔ عارف وہ ہے جو ایمان یہ تشبیہ کو بھی اس کے ساتھ جمع کرے اور خلق کو خالق کا ظہور دیکھے اور کثرت کو وحدت کا لباس جانے اور صانع کو منع میں مطالعہ کرے۔
غرض صرف تنزیہ کی طرف توجہ کا رہنا ان کے نزدیک نقص ہے اور کثرت کے ملاحظہ کے بغیر وحدت کا مشاہدہ کرنا ان کے نزدیک سراسر عیب ہے۔ یہ لوگ احدیت صرف کی طرف متوجہ ہونے والوں کو ناقص خیال کرتے ہیں اور کثرت کے ملاحظہ کے بغیر وحدت کے ملاحظہ کرنے کو تحدید
و تقیید سمجھتے ہیں ۔
سُبْحَانَ اللهِ وَ بِحَمْدِهِ انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کی دعوت تنزیہ صرف کی طرف ہے
اور تمام آسمانی کتابیں ایمان تنزیہی کے ساتھ ناطق ہیں۔
انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام آفاقی و انفسی جھوٹے خداؤں کی نفی کرتے ہیں اور ان کے باطل ہونے کی دعوت فرماتے ہیں اور اس واجب الوجود کی وحدت کی طرف جو بی چون و چگون ہے رہنمائی کرتے ہیں۔ کبھی کسی نے نہیں سنا کہ کسی پیغمبر علیہ السلام نے ایمان تشبیہی کی طرف دعوت کی ہو اور خلق کو خالق کا ظہور کہا ہو۔ تمام پیغمبر علیہم الصلوۃ والسلام واجب الوجود کی تو حید کے کلمہ میں متفق ہیں اور حق تعالیٰ کے سوا تمام ارباس نفی کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَبِ تَعَالُوا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ الا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئاً وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّنْ دُونِ اللَّهُ ۖ فَانْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بأَنَّا مُسْلِمُونَ یا رسول اللہ اہل کتاب کو کہہ دو کہ آؤ ایک کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے یعنی ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ ہی کسی کو اس کے ساتھ شریک بنائیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا رب نہ بنائے ۔ پس اگر وہ مانیں تو کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں ۔
یہ لوگ بے نہایت اسباب ثابت کرتے ہیں اور سب کو رب الارباب کے ظہورات خیال کرتے ہیں اور کتاب وسنت کو جو اپنے مطالب کے لئے بطریق شہادت پیش کرتے ہیں۔
هُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ یعنی اول و آخر و ظاہر و باطن وہی ہے ۔
وَمَا رَمَيْتَ إِذْرَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى نہیں مارا تو نے جب کہ مارا مگر اللہ تعالیٰ نے
مارا۔
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللهِ فَوقَ أَيْدِيهِمُ جو تجھ سے بیعت کرتے
ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے
(سنت) اللَّهُمَّ أنتَ الأوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ وَ اَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ وَ اَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ یا اللہ تو ہی اول ہے اور تیرے اول کوئی شے نہیں ہے اور تو ہی آخر ہے تیرے بعد کوئی شے نہیں ہے اور تو ہی ظاہر ہے تیرے اوپر کوئی شے نہیں ہے اور تو ہی باطن ہے، تیرے سوا کوئی شے نہیں ہے ۔
اس میں کچھ شہادت نہیں ہے کیونکہ ان عبارتوں میں کامل طور پر وجود ما سوائے کمال کی نفی کا حصر ہے نہ کہ اصل وجود کی نفی، جیسا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے لَا صَلوةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الكتاب ( نماز نہیں ہوتی مگر فاتحہ کتاب کے ساتھ ) اور فرمايالا ايمان لمن لا امانة له (جس کو امانت نہیں اس کا ایمان نہیں)۔
کتاب وسنت میں اس قسم کی مثالیں بہت ہیں۔ یہ توجیہ نصوص کی تاویل نہیں ہے جیسا کہ ان لوگوں نے گمان کیا ہے۔ بلکہ کمال بلاغت پر نصوص کو عمل کیا گیا ہے اور عرف میں جب کسی شخص کے امر رسالت کو ضروری اور مہتم بالشان ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ اس کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے۔ اس سے مقصود حقیقت نہیں ہے بلکہ مجاز ہے جو حقیقت سے ابلغ ہے اور جب فائل سے جو کامل قدرت والے مالک کا غلام اور بندہ ہے۔ اس کے قدر واندازہ سے بڑھ کر کوئی فعل صادر ہو اور اس فعل میں اس مالک قادر کی التفات و توجہ مد نظر ہو تو اس وقت مالک کو لائق ہے کہ یہ کہہ دے کہ اس فعل کو میں نے ہی کیا ہے۔ یہ بات بھی نہ ہی اتحاد فعل پر اور نہ ہی اتحاد ذات پر دلالت کرتی ہے۔ حا شاد و کلا کہ بندہ غلام کا فعل عین مالک مقتدر کا فعل ہو یا اس کی ذات کا عین بن جائے ۔
ان لوگوں نے شاید انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے مذاق کو نہیں سمجھا ہے کیونکہ ان کی دعوت کا مدار اثنینیت یعنی دوئی اور غیر کے وجود اور غیریت پر ہے۔ ان کی عبارتوں کو تو حید و اتحاد پر حمل کرنا ہے ہودہ تکلف ہے اگر حقیقت میں ایک ہی موجود ہوتا اور اس کے سوا سب اس کے ظہورات ہوتے اور اس کے ماسوائے کی عبادت اس کی عبادت ہوتی ، جیسا کہ ان لوگوں نے گمان کیا ہے تو پھر انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام مبالغہ اور تاکید کے ساتھ ان کی پرستش سے کیوں منع کرتے اور ان کی پرستش پر دائی عذاب کیوں مرتب کرتے اور ان کے پجاریوں کو خدا کا دشمن کیوں کہتے ۔ جب تک ان لوگوں کو ان کی غلطی پر اطلاع نہ بخشیں عینیت کی دید جو جہالت سے ان میں پیدا ہوگئی ہے دور نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کی عبادت کو حق تعالیٰ کے غیر کی عبادت جانتے ہیں۔
ان لوگوں میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ پیغمبروں نے عام لوگوں کے قصور فہم کے باعث تو حید وجودی کے اسرار کو پوشیدہ رکھا ہے اور اپنی دعوت کی بناء غیر وغیریت پر رکھی ہے اور وحدت کو چھپا کر کثرت پر دلالت کی ہے۔
یہ بات شیعہ کے تقیہ کی طرح سنے کے قابل نہیں ہے کیونکہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام جو کچھ کہ واقعی اور نفس الامر ہے اس کی تبلیغ کے زیادہ مستحق اور حق دار ہیں ۔ جب نفس الامر میں ایک ہی موجود ہو اور اس کا غیر کچھ موجود نہ ہو تو مناسب نہیں کہ اس کو چھپا کر نفس الامر کے خلاف ظاہر کریں۔ خاص کر وہ احکام جو واجب الوجود کی ذات وصفات و افعال کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے اظہار اور اعلان کے زیادہ حق دار ہیں۔ کو تاہ نظر خواہ ان کو سمجھیں یا نہ سمجھیں کیا نہیں دیکھتے قرآن کی آیات متشابہات یا احادیث متشابہات جن کے سمجھنے سے عوام کیا خواص بھی عاجز ہیں ۔ ان کے اظہار کرنے سے منع نہیں ہوئے اور نہ ہی عوام کی غلطی اور کوتا نہی ان کے اظہار کی مانع ہوئی ۔ یہ اوگ اس شخص کو جو دو وجود کا قائل ہے اور ماسوا کی عبادت سے اجتناب و پر ہیز کرتا ہے، مشرک کہتے ہیں اور اس شخص کو جو ایک وجود کا قائل ہے موحد کہتے ہیں اگر چہ ہزار بت کی عبادت کرے اس خیال سے کہ یہ سب حق تعالیٰ کے ظہورات ہیں اور ان کی عبادت حق تعالیٰ کی عبادت ہے ۔ انصاف کرنا
چاہئے کہ ان دونوں گروہوں میں سے مشرک کون ہے۔
انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام نے وحدت وجود کی طرف دعوت نہیں کی ہے اور نہ ہی دو وجود کہنے والے کو مشرک کہا ہے بلکہ ان کی دعوت وحدت معبود کی طرف ہے اور انہوں نے ماسوائے کی ہاں عبادت کو شرک کہا ہے۔
اگر صوفیہ وجود یہ ماسوا کو غیریت کے طریق پر نہ بھی جانئیں تو بھی مشرک کو دفع نہیں کر سکتے کیونکہ ماسوا ما سوا ہی جانیں یا نہ جائیں۔ ان میں سے بعض متاخرین عالم کو حق تعالیٰ کا مین نہیں جانتے اور عینیت سے کنارہ کرتے ہیں اور عینیت کے قائلوں کو طعن و تشنیع کرتے ہیں اور شیخ محمد الدین اور اس کے تابعداروں کے ساتھ انکار سے پیش آتے اور ان کو برائی سے یاد کرتے ہیں ۔ ساتھ ہی یہ لوگ عالم کو حق تعالیٰ کا غیر بھی نہیں جانتے بلکہ نہ ہی حق تعالیٰ کا مین اور نہ ہی حق تعالیٰ کا غیر جانتے ہیں ۔ یہ بات بھی ثواب سے دور ہے۔ الاثنان مُتَغَائِرَان ( دو چیزیں ایک دوسرے کی غیر ہوتی ہیں ) قضیہ مقررہ ہے۔ اثنینیت یعنی دوئی کا منکر درجہ عقل کا مخالف ہے۔ متکلمین نے صفات واجبی جل سلطانہ کے بار میں لاھوا ولا غیر ہوا کہا ہے اور غیرت غیر اصطلاحی مرا در کھ کر اس امر کو مد نظر رکھا ہے کہ دو متغائر چیزوں کا باہم انفکاک یعنی الگ ہونا جائز ہے کیونکہ واجب تعالی و تقدس کی صفات حضرت ذات سے الگ نہیں ہیں اور نہ ہی حق تعالیٰ کی ذات وصفات وقدیمہ کے درمیان انفکاک یعنی الگ ہونا جائز متصور ہو سکتا ہے۔ پس لا هُوَ وَلا غَيْرَ هُوَ صفات قدیمہ میں صادق ہے برخلاف عالم کے کہ یہ نسبت اس میں مفقود ہے ۔ کان كَانَ اللَّهُ وَلَمْ يَكُنْ مَعَهُ شَيْءٌ (اللہ ہی تھا اور اس کے ساتھ کوئی چیز موجود نہ تھی ) پس عالم کی غیریت کی نفی کرنا لغت میں بھی اور اصطلاح میں بھی صدق سے دور ہے۔ ان لوگوں نے اپنی نارسائی کے باعث عالم کو صوفات قدیمہ کی طرح سمجھ کر اس کے مخصوص حکم کو اس جگہ اطلاع کیا ہے۔ یہ لوگ جب عینیت عالم کی نفی کے قائل ہوئے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ غیریت عالم کے قائل ہوں اور توحید وجودی میں عین کہنے سے چارہ نہیں ہے کہ عالم اپنے صانع کے ساتھ متحد ہے ۔ حاشا وکلا ان معنوں کے اعتبار سے ہے کہ عالم معدوم ہے اور حق تعالیٰ کا وجود واجب جیسا کہ اس فقیر نے اپنے بعض رسالوں میں اس امر کی تحقیق کی ہے۔
سوال: صوفیه وجود یہ دودوجود کے کہنے والے کو جو مشرک کہتے ہیں وہ اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ وہ دو بن ہیں اور دو میں طریقت کا مشرک ہے؟
جواب دو بینی (۱) جو طریقت کا شرک ہے، تو حید شہودی سے دفع ہو جاتا ہے تو حید وجودی اس مقام میں کچھ درکار نہیں ہے کیونکہ سالک کا مشہود وملحوظ ایک ذات مقدس کے سوا اور کوئی امر ہیں ہے تا کہ فنا متفق ہو اور طریقت کا شرک دور ہو جائے دن میں جو آفتاب کو تنہاد یکھتے ہیں اور ستاروں کو نہیں دیکھتے، دو بینی کا دفعیہ حاصل ہے۔ اگر چہ ہزاروں ستارے دن میں موجود ہوں مقصود یہ ہے کہ ایک آفتاب مشہود ہو ۔ خواہ ستارے معدوم ہوں یا موجود ۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ کمال اس صورت میں ہے کہ اشیاء موجود ہوں اور سالک کمال فنا کے باعث جو اپنے مطلوب حقیقی سے رکھتا ہے کسی چیز کی طرف توجہ نہ کرے بلکہ کسی چیز کا مشاہدہ نہ کرے اور کوئی چیز اس کے دیدہ بصیرت میں نہ آئے اور اگر اشیاء موجود نہ ہوں فنا کس سے متحقق ہوگی اور فانی کس سے ہوگا اور کس کو فراموش کرے گا۔
اول جس شخص نے تو حید وجودی کی تصریح کی ہے وہ شیخ محی الدین ابن عربی ہیں ان سے گزشتہ مشائخ کی عبارتیں اگر چہ تو حید وجودی کی خبر دیتی ہیں لیکن تو حید شہودی پر حمل کرنے کے قابل ہیں کیونکہ حق تعالیٰ جل شانہ کے غیر کو جب نہیں دیکھتے تو بعض کہتے ہیں کہ لَيْسَ فِى جُبَّتِى سِوَى اللهِ (میرے جبہ میں سوائے اللہ کے اور کچھ نہیں ) اور بعض سُبْحَانِى مَا أَعْظَمُ شانی کی ندا پکار اٹھتے ہیں اور بعض لَيْسَ فِي الدَّارِ غَيْرُهُ دَيَّارٌ (گھر میں اس کے سوا کوئی رہنے والا نہیں ) کا آوازہ لگاتے ہیں۔ یہ سب پھول ایک ہی یک بینی کی شاخ سے کھلے ہیں ان عبارتوں میں کوئی بھی وحدت وجود پر دلالت نہیں کرتی اور جس شخص نے اس مسئلہ کو بابوں اور تفصیلیوں میں لکھا ہے اور صرف ونحو کی طرح اس کو جمع کیا ہے وہ شیخ محی الدین ہی ہیں اور اسی مسئلہ کے بعض پوشیدہ معارف کو اپنی طرف منسوب کیا ہے ۔ حتیٰ کہ انہوں نے کہا ہے کہ خاتم النبوت بعض علوم و معارف کو خاتم الولایت سے اخذ کرتے ہیں اور خاتم الولایت محمدی صلى الله عليه وسلم اپنے آپ کو جانتے ہیں شارحین نے اس کی توجیہ میں کہا ہے کہ بادشاہ اپنے خزانچی سے اگر کوئی چیز لے لے تو اس میں کیا نقصان ہے۔
غرض فنا و بقا اور ولایت کبری کے کمالات حاصل کرنے کیلئے تو حید وجودی کچھ درکار نہیں ہے۔ توحید شہودی حاصل ہونی چاہئے تا کہ فنا متفق ہو جائے اور ماسوائے کانسیان حاصل ہو جائے ۔
ہوسکتا ہے کہ کوئی سالک ابتداء سے انتہا تک میر کر جائے اور توحید وجودی کے علوم ۔ و معارف سے کوئی بھی اس پر ظاہر نہ ہو۔ بلکہ نزدیک ہے کہ ان علوم سے انکار کر دے۔
فقیر کے دوران وہ راستہ جو ان معارف کے ظہور کے بغیر سلوک کے ساتھ میسر ہو جائے وہ اس راستہ سے زیادہ قریب ہے جو اس ظہور کو متضمن ہے اور نیز اس راہ کے سالکوں میں سے اکثر مطلوب تک پہنچتے ہیں اور اکثر راہ میں رہ جاتے ہیں اور دریا سے قطرہ کے ساتھ سیراب ہو جاتے ہیں اور اتحاد کے وہم میں پڑ کر نکل میں گرفتار رہتے ہیں اور وصل سے محرم رہتے ہیں۔ یہ امر تجربہ سے معلوم ہو چکا ہے۔ وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ الْمُلْهِمُ لِلصَّوَابِ
اور نیز فقیر کو اگر چہ راہ ثانی سے سلوک میسر ہوا ہے اور توحید وجودی کے علوم ومعارف کے ظہورات سے کافی حصہ حاصل ہوا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی عنایت شامل حال ہوئی اور سیر محبوبی کے ساتھ راستہ کے جنگلوں اور میدانوں کو فضل و عنایت کی امداد سے طے کروایا اور کمال کرم کے ساتھ ظلال سے گزار کر اصل تک پہنچایا اور جب معاملہ مستر شدوں یعنی مریدوں تک پہنچا، تو معلوم ہوا کہ اس کے علاوہ ایک اور راہ ہے جو وصول کے زیادہ قریب اور حصول میں زیادہ آسان ہے۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى هَدْنَا لِهَذَا وَمَا كُنَا لِنَهْتَدِى لَوْ لَا أَنْ هَدَنَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتُ رُسُلُ رَبَّنَا بِالْحَقِّ اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم کو اس کی ہدایت دی اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا توہم بھی ہدایت نہ پاتے ۔ بیشک ہمارے رب کے رسول حق بات لائے ہیں ۔
تنبیہ : سابقہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ اگر چہ موجودات متعددہ ہوں اور حق تعالیٰ کا ماسوائے بھی موجود ہو تو پھر بھی ہو سکتا ہے کہ فنا و بقاء متحقق ہو جائے نہ یہ کہ ماسوائے معدوم و نا چیز ہو جائے۔ یہ بات باوجود ظہور کے اکثر خواص پر پوشیدہ رہی ہے، پھر عوام کا کیا ذکر ہے۔ ان لوگوں نے توحید شہودی کوئین وجودی خیال کر کے وحدت وجود کی معرفت کو راستہ کی شرط جانا ہے اور وہ وجود کہنے والے کو ضَالَ وَ مُضِل ( گمراہ و گمراہ کرنے والا ) سمجھا ہے اور کثرت کے آئینوں میں وحدت کے مشاہدہ کو انجام کار تصور کیا ہے ان میں سے بعض نے یہاں تک تصریح کی ہے کہ ہمارے حضرت پیغمبر علیہ وعلى جميع اخوانه من الصلوات افضلها ومن التسلیمات اکمل با کمالات نبوت حاصل ہونے کے بعد شہود وحدت در کثرت کے مقام میں رہے ہیں اور آیت کریم انا اعطینک الكَوثَرُ سے اس مقام کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں کہ تحقیق ہم نے تجھ کو کثرت میں وحدت کا مشاہدہ دیا۔
معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کوثر کی واؤ کے درمیان آنے سے جو حروف کثر کے درمیان ہے۔ یہ اشارات سمجھے ہیں۔ حاشا و کلا اس قسم کے معارف مقام نبوت کے لائق نہیں کیونکہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام خدائے بیچون جل شانہ کی طرف دعوت کرتے ہیں اور جو چیز چون کے آئینوں میں گنجائش نہیں رکھتی ہے وہ بیچونی سے بے نصیب ہے اور چوٹی اور چندی کے داغ سے داغدار ہے۔ حضرت حق سبحانہ تعالیٰ ان کو انصاف دے۔ شاید یہ لوگ انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کو اپنے کمالات کے ترازو پر تولنا چاہتے ہیں اور ان کے کمالات کو اپنے کمالات کی طرح جانتے ہیں۔ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ چھوٹا منہ بڑی بات
چوآں کرنے کہ درستگے نہان است
زمین و آسمان او همان است
ترجمہ: وہ کیڑا جو کہ پتھر میں نہاں ہے
زمین و آسماں اس کا وہاں ہے
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی امت میں سے کمینہ اور عاجز اس قسم کی معرفت سے جو اول اول حاصل ہوئی تھی ، ندامت و استغفار کرتا ہے اور اس شہود کو نصاریٰ کے حلول کی طرح اس پاک جناب سے نفی کرتا ہے۔
حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ فرماتے ہیں کہ جو کچھ دیکھا گیا ہے اور سنا گیا اور جانا گیا۔سب اس کا غیر ہے۔ کلمہ لا کی حقیقت سے اس کی نفی کرنی چاہئے ۔ پس کثرت میں وحدت کا مشاہدہ بھی نفی کے لائق ہے، اس پاک بارگاہ سے منتفی اور دور ہے ۔
حضرت خواجہ قدس سرہ کی اس کلام نے مجھ کو اس شہود سے نکال دیا ہے اور مشاہدہ اور معائنہ کی گرفتاری سے نجات بخشی ہے اور میرے اسباب کو علم سے جہل کی طرف اور معرفت سے حیرت کی طرف لے گئی ہے۔ جَزَاهُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ عَنِى خَيْرَ الْجَزَاءِ ( اللہ تعالیٰ ان کو میری طرف سے جزائے خیر دے) میں صرف ایک ہی بابت سے حضرت خواجہ قدس سرہ کا مرید اور حلقہ بگوش ہوں اور واقعی اولیاء میں سے شاید ہی کسی نے اس طرح کی عبارت بیان کی ہو اور تمام مشاہدات ومعائنات کی اس طرح پر نفی کی ہو ۔
اس مقام میں آپ کے اس سخن کی حقیقت کو جہاں کہ آپ نے فرمایا ہے کہ خدائے تعالیٰ کی معرفت بہاؤ الدین پر حرام ہے۔ اگر اس کی ابتداء بایزید علیہ الرحمہ کی انتہا نہ ہو، ڈھونڈنی چاہئے کیونکه با یزید رحمتہ اللہ علیہ باوجود اس بزرگی کے شہود و مشاہدہ سے آگے نہیں بڑھے اور سُبحانی مَا أَعْظَمَ شانی کے تنگ کوچہ سے قدم باہر نہیں رکھا۔ برخلاف ہمارے حضرت خواجہ قدس سرہ کے کہ جنہوں نے ایک ہی کلمہ لا سے اس کے تمام مشاہدات کی نفی فرمادی اور سب کو حق تعالیٰ کا غیر ثابت کر دیا ۔ حضرت بایزید رحمتہ اللہ علیہ کی تنزیہ حضرت خواجہ قدس سرہ کے نزدیک تشبیہ ہے اور اس کا بیچوں ان کے نزدیک چون اور کمال نقص ہے ناچار اس کی انتہاء جو تشبیہ سے آگے نہیں بڑھا۔ خواجہ رحمتہ اللہ علیہ کی انتہا ہوگی کیونکہ بدایت تشبیہ سے ہے اور نہایت نہایت تنزیہ کے ساتھ ۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ آخر حال میں بایزید رحمتہ اللہ علیہ کو اس نقص پر اطلاع بخشی گئی کہ موت کے وقت اس طرح کہتا تھا ۔ مَاذَكَرُتُكَ إِلَّا عَنْ غَفْلَةٍ وَمَا خَدَمْتُكَ إِلَّا عَنُ فَتْرَةِ میں نے تجھے یاد نہیں کیا مگر غفلت سے اور میں نے تیری خدمت نہیں کی مگر سستی ہے۔
اس نے اپنے پہلے حضور کو غفلت جانا کیونکہ وہ حق تعالیٰ کا حضور نہ تھا بلکہ ظلال میں سے ایک ظل کا حضور اور اس کے ظہورات میں سے ایک ظہور تھا۔ پس ناچار حق تعالیٰ سے غافل رہا اور حق تعالى وراء الوراء – ظلال و ظہورات سب کے سب مبادی اور مقدمات اور معارج اور معدات ہیں اور یہ جو حضرت خواجہ قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ ہم نہایت کو ہدایت میں درج کرتے ہیں ۔ واقع کے موافق ہے کیونکہ ابتداء ہی سے ان کی توجہ احدیت صرف پر ہے او اسم وصفت سے ذات کے سوا کچھ نہیں چاہتے ۔
اس طائفہ علیہ کے مبتدیوں کو یہ دولت اپنے شیخ مقتداء سے جو اس کمال کے ساتھ مشرف ہوتا ہے۔ بطریق انعکاس حاصل ہو جاتی ہے خواہ وہ اس کو جانیں یا نہ جانیں پس ناچار کاملوں کی نهایت ان بزرگواروں کی ہدایت میں مندرج ہوگی۔
حاصل کلام یہ کہ احدیت کی توجہ ان میں غالب آجائے اور ظاہر کو بھی باطن کے ہم رنگ کر دے تو سالک مشاہدات سفلی سے جو ممکنات کے آئینوں میں ظاہر ہوتے ہیں، آزاد ہو جاتا ہے اور عارف تشبیہ سے خلاصی پا جاتا ہے اور اگر یہ توجہ غالب نہ ہو سکے اور صرف باطن پر ہی لگی رہے تو بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بظاہر کثرت میں وحدت کے مشاہدہ کی لذت پاتا ہے اور تو حید و اتحاد تے محفوظ ہوتا ہے لیکن یہ شہود ان کے حق میں ظاہر پر ہی محدود رہتا ہے باطن میں کچھ سرایت نہیں کرتا ۔ ان کا باطن احدیت صرف کی طرف متوجہ رہتا ہے اور ان کا ظاہر کثرت میں وحدت کا مشاہدہ کرنے والا ہوتا ہے۔ اس وقت ممکن ہے کہ ظاہری نسبت کے غلبہ کے باعث باطنی توجہ معلوم نہ اور شہود ظاہر کے سوا اور کوئی امر مفہوم نہ ہو۔ جیسا کہ ابتداء میں ان سطور کے لکھنے والے کا حال تھا کہ ظاہری نسبت کے غلبہ کے باعث باطنی توجہ سے جو احدیت صرف کی طرف تھی ، بالکل آگاہی نہ رکھتا تھا اور کلی طور پر اپنے آپ کو کثرت وحدت کی طرف متوجہ پاتا تھا۔ کچھ مدت کے بعد حضرت حق سبحانہ نے باطن کی توجہ پر اطلاع بخشی اور باطن کو ظاہر پر نصرت دی اور معاملہ کو یہاں تک پہنچایا۔ اَلحَمدُ لِلهِ
سُبْحَانَهُ عَلى ذلِكَ اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد ہے۔
وہ معارف تو حیدی اور مشاہدات سفلی جو اس خاندان بزرگ کے بعض خلفاء سے سرزد ہوئے ہیں۔ وہ بھی اسی قسم سے ہیں۔ نہ یہ کہ یہ لوگ ظاہر و باطن میں اسی شہود کی طرف متوجہ اور اسی معرفت میں گرفتار رہے ہیں۔ برخلاف دوسرے بزرگوں کے جو ظاہر و باطن میں اور اس شہود کو تشبیہ اور تنزیہ کا جامع جان کر اسی کو کمال سمجھتے ہیں ان لوگوں کا باطن بھی اگر چہ تنزیہ صرف کے ساتھ ایمان رکھتا ہے لیکن گرفتاری اور ہے اور ایمان کچھ اور اور حال اور ہے اور علم کچھ اور چیز وہ لوگ جو تنزیہ صرف کے ساتھ ایمان نہیں رکھتے اور مشاہدہ سفلی کے سوا کسی اور امر کے معتقد نہیں ہیں ۔ وہ ملحدوں میں سے ہیں جو اس بحث سے خارج ہیں۔
فقیر کے نزدیک ممکنات کے آئینوں میں حق تعالیٰ کا وہ شہود جس کو صوفیہ کی ایک جماعت کمال جانتی ہے اور تشبیہ اور تنزیہ کے درمیان جمع خیال کرتی ہے۔ در حقیقت حق تعالیٰ کا شہود نہیں ہے۔ اس میں ان کا مشہور ان کا خیالی اور من گھڑت امر ہے کیونکہ جو کچھ ممکن میں دیکھتے ہیں وہ واجب نہیں اور جو کچھ حادث میں پاتے ہیں، وہ قدیم نہیں ہے اور جو کچھ تشبیہ میں ظاہر ہوتا ہے وہ تنزیہ نہیں ہے۔ ہرگز ہرگز صوفیہ کی اس قسم کی تربات یعنی بے ہودہ باتوں پر فریفتہ نہ ہونا چاہئے اور حق تعالی کے غیر کو حق تعالیٰ نہ جاننا چاہئے مانا کہ یہ لوگ خطا کار مجتہد کی طرح معذور ہیں اور خطا کار مجتہد کی طرح مواخذہ سے بری ہیں لیکن ان کے مقلدوں کے ساتھ معلوم نہیں کس طرح معاملہ کریں گے۔ کاش کہ مجتہد تخلی کے مقلدوں کی طرح ہی ہوتے اور اگر ان کے ساتھ ایسا معاملہ نہ کیا تو پھر ان کا کام نہایت مشکل ہے۔ یاس و اجتہاد اصول شرعی میں سے ایک اصل ہے جس کی تقلید کا ہم کو امر ہوا ہے۔ برخلاف کشف اور الہام کے کہ اس کی تقلید کا ہم کو امر نہیں ہے اور الہام غیر پر حجت نہیں ہے لیکن اجتہاد مقلد پر حجت ہے۔ پس علمائے مجتہدین کی تقلید کرنی چاہئے اور دین کے اصول کو ان کی آراء کے موافق ڈھونڈنا چاہئے اور صوفیہ جو کچھ علمائے مجتہدین کی آراء کے برخلاف کہیں یا کریں اس کی تقلید نہ کرنی چاہئے اور حسن ظن کے ساتھ ان کے طعن سے لب باندھنی چاہئے اور ان کی اس قسم کی باتوں کو شطحیات سے جانا چاہئے اور ظاہر کی طرف مصروف و پھر ا ہوا خیال کرنا چاہئے۔
بڑے تعجب کی بات ہے کہ ان میں بعض صوفیہ عام لوگوں کو اپنے کشفیہ اور الہامیہ امور مثلاً وحدت وجود کے ساتھ ایمان لانے پر دلالت کرتے ہیں اور ان کی تقلید کی ترغیب دیتے ہیں اور ان کے عدم ایمان پر دھمکاتے ہیں۔ کاش کہ یہ لوگ ان ا ور کے عدم انکار پر دلالت کرتے اور ان کے منکر پر تہدید اور دھمکی فرماتے کیونکہ ایمان اور چیز ہے اور عدم انکار اور چیز ان امور کے ساتھ ایمان لا نالازم اور ضروری نہیں ہے۔ ہاں ان امور کے انکار سے بچنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ ان امور کا انکاران اموروں کے انکار تک پہنچا دے اور حق تعالیٰ کے اولیاء کے ساتھ بغض و عداوت پیدا ہو جائے ۔ علمائے اہل حق کے موافق کام کرنا چاہئے اور صوفیہ کی کشفیہ باتوں سے حسن ظن کے ساتھ سلوک کرنا چاہئے اور لا وَنَعَمُ پر جرات نہ کرنی چاہئے هَذَا هُوَ الْحَقُّ الْمُتَوَسَطُ بَيْنَ الْإِفْرَاطِ وَالتَّفْرِيط وَاللهُ سُبْحَانَهُ المُلهِم لِلصَّوَاب یہی وہ حق ہے جو افراط و تفریط کے درمیان واقع ہے اور اللہ تعالیٰ بہتری کی طرف الہام کرنے والا ہے۔
عجب معاملہ ہے کہ ان لوگوں میں سے بہت سے مدعی اسی شہود و مشاہدہ پر بھی قناعت نہیں کرتے بلکہ اس شہود کو تنزل خیال کر کے اس اثناء میں رویت بصری کے بھی قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم واجب الوجود جل سلطانہ کی ذات کو دیکھتے ہیں اور نیز کہتے ہیں کہ وہ دولت جو ہمارے پیغمبر صلى الله عليه وسلم کو شب معراج میں حاصل ہوئی تھی، ہم کو ہر روز میسر ہے اور وہ نور جو ان کے دیکھنے میں آتا ہے اس کو صبح کی سفیدی سے تشبیہ دیتے ہو اور اس نور کو مرتبہ بے کہنی خیال کرتے ہیں اور مراتب عروج کی نہایت اس نور کے ظہور تک تصور کرتے ہیں ۔ تَعَالَى سُبْحَانَهُ عَمَّا يَقُولُ الظَّالِمُونَ عُلُوًّا كَبيراً الله تعالیٰ اس بات سے جو ظالم کہتے ہیں، بہت بڑا ہے۔
اور نیز حضرت حق جل شانہ کے ساتھ مکالمہ وکلام ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے ایسا فرمایا ہے۔ کبھی دشمنوں کے حق میں حضرت حق سبحانہ کی طرف سے کئی قسم کی باتیں نقل کرتے ہیں اور بھی اپنے دوستوں کو بشارت دیتے ہیں اور ان میں سے بعض اس طرح کہتے ہیں کہ رات کی تہائی یا چوتھائی حصہ تک میں حق تعالٰی کے ساتھ کلام کرتا رہا اور ہر طرح کی باتیں پوچھتا رہا اور جواب لیتا رہا۔ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوا كَبِيراً ان لوگوں نے اپنے آپ میں تکبر کیا اور بڑی سرکشی کی۔ ان لوگوں کی باتوں سے منہم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس نور مرئی کو مین حق تعالیٰ سمجھتے ہیں اور اس نور کو حق تعالیٰ کی ذات تصور کرتے ہیں۔ نہ یہ کہ اس کے ظہورات میں سے کوئی ظہور یا اس کے ظلال میں سے کوئی ظل جانتے ہیں ۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ اس نور کو حق تعالیٰ کی ذات کہنا محض افتراء اور صرف الحاد اور خالص زندقہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا نہایت ہی علم و حمل ہے کہ اس قسم کے مفتریوں کے لئے طرح طرح کے عذابوں میں جلدی نہیں کرتا اور ان کی بیخ کنی نہیں فرماتا۔ سُبحَانَكَ عَلَى حِلْمكَ بَعْد عِلْمِكَ وَعَلَىٰ عَفْوِكَ بَعْدَ قُدْرَتِكَ یا الہ تو پاک ہے کہ ہماری برائیوں کو جان کر حلم فرماتا ہے اور قدرت کے باوجود معاف کرتا ہے۔
حضرت موسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی قوم صرف رویت یعنی دیدار کی طلب ہی کے باعث ہلاک ہو گئی اور حضرت موسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے طلب رویت کے بعد لن تَرَانِي کا زخم کھایا اور بے ہوش ہو کر گر پڑے اور اس طلب سے تائب ہوئے اور حضرت محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم جو رب العلمین کے محبوب اور تمام اولین و آخرین موجودات میں سے بہترین ہیں۔ باوجود اس کے کہ معراج بدنی کی دولت سے مشرف ہوئے اور عرش و کرسی سے گزر کر مکان و زمان سے بھی اوپر چلے گئے۔ باوجود قرآنی اشاروں کے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی رویت میں علماء کا اخلاف ہے۔ اکثر علماء حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی عدم رویت کے قائل ہیں ۔
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ وَالأصَحُ انَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَارَايَ رَبَّهُ سُبْحَانَهُ لَيْلَةَ الْمِعْرَاج یعنی صحیح یہی ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے معراج کی رات اپنے رب کو نہیں دیکھا ہے۔ یہ بے سروسامان اپنے خیال باطل میں ہر روز خدا کو دیکھتے ہیں۔ حالانکہ حضرت محمد رسول صلى الله عليه وسلم کے ایک دیدار میں بھی علماء کی قیل وقال ہے۔ فَضَّحَهُمُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ (اللہ تعالٰی ان کو خوار کرے۔)
اور نیز ان لوگوں کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کلام کو جس کو یہ لوگ سنتے ہیں۔ حق ا سبحانہ سے وہی نسبت ہے جو کلام کو اپنے متکلم کے ساتھ جانتے ہیں۔ یہ عین الحاد ہے حاشا وکلاء کہ حضرت حق سبحانہ سے تکلم کے طریقہ پر کوئی ایسی کلام صادر ہو جس میں ترتیب اور تقدیم دتا خیر ہو، جو حدوث کی علامات میں سے ہیں شاید مشائخ کبار کی باتوں نے ان کو غلطی میں ڈال دیا ہے کیونکہ مشائخ نے بھی حضرت حق جل سلطانہ کے ساتھ کلام و مکالمہ کیا ہے۔
لیکن جاننا چاہئے کہ مشائخ کبار اس کلام کو حضرت حق سبحانہ کے ساتھ ایسی نسبت نہیں دیتے جو کلام کو اپنے متکلم کے ساتھ دیکھیں ۔ بلکہ وہی نسبت ثابت کرتے ہیں جو مخلوق کو اپنے خلاق کے ساتھ ہے اور اس میں کوئی محظور (۱) اور قباحت نہیں ہے۔
حضرت موسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے جو شجرہ مبارکہ سے حق تعالیٰ کے کلام کو سنا تو اس کلام کو حق تعالیٰ کے ساتھ وہی نسبت تھی جو مخلوق کو اپنے خالق کے ساتھ ہوتی ہے نہ کہ وہ نسبت جو کلام کو اپنے متکلم کے ساتھ ہوتی ہے اور ایسے ہی وہ کلام جو آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے حضرت جبرائیل
علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام سے کیا اس کلام کو بھی حق تعالیٰ کے ساتھ وہی نسبت تھی جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ وہ کلام بھی حق تعالٰی کی کلام ہے اور اس کا منکر کا فروزندیق ہے گو یا حق تعالی کی کلام کلام لفظی اور کلام نفسی کے درمیان مشترک ہے جس کو حق تعالیٰ کسی امر کے ذریعے ایجاد فر ما تا ہے۔ پس کلام لفظی بھی حق تعالیٰ کی کلام ہوگی ۔ ناچار اس کا منکر بھی کافر ہو گا ۔فاف فَإِنَّ هَذَا التَّحْقِيقَ يَنْفَعُكَ فِى كَثِيرٍ مِّنَ الْمَوَاضِع وَاللهُ سُبْحَانَهُ الْمُوفَقُ پس مجھے کیونکہ تحقیق بہت جگہ تجھے نفع دے گی اور اللہ تعالیٰ توفیق دینے والا ہے۔
جاننا چاہئے کہ وہ وجود جو ممکنات میں ہم ثابت کرتے ہیں ۔ تام صفات کی طرح ایک ضعیف ہے ممکن کے علم کا واجب کے علم کے مقابلہ میں کیا مقدار ہے اور قدرت قدیمہ کے مقابلہ میں قدرت حادثہ کیا اعتبار رکھتی ہے ایسے ہی ممکن کا وجود واجب تعالی کے وجود کے مقابلہ میں لاشے محض ہے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ دیکھنے والا ان دونوں وجودوں کے تفاوت کے باعث شک میں پڑ جائے کہ آیا وجود کا اطلاق ان دونوں فردوں پر حقیقت کے طور پر ہے یا کہ وجود کا اطلاق ایک فرد بطریق حقیقت ہے اور دوسرے فرد پر بطریق مجاز ۔ کیا نہیں جانتے کہ صوفیہ میں سے بعض لوگوں نے شق ثانی پر یقین کیا ہے اور ممکن کے وجود پر وجود کا اطلاق کرنا تجوز کے طور پر سمجھا ہے اور ممکنات کے وجود کو ثابت نہیں کرتے ۔ مگر عوام یا اخص خواص – اخص سے مراد انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام اور ان کی امتوں میں سے وہ لوگ ہیں جو ان کی ولایت اصلیہ سے مشرف ہوئے ہیں اور دائر ہ ظلال کو پورے طور پر طے کر چکے ہیں۔ عوام ظاہر بین ہیں جو واجب تعالیٰ کے وجود اور ممکن کے وجود اور ممکن کے وجود کو مطلق وجود کے اقسام سے جانتے ہیں اور دونوں کو موجود تصور کرتے ہیں ۔ اختص خواص تیز نظر والے ہیں جو ہر دو وجود کو مطلق وجود کے افراد سے جانتے ہیں اور افراد وجود کے مراتب کے تفاوت کو وجود کی صفات اور اعتبارات کی طرف راجع کرتے ہیں نہ کہ وجود کی حقیقت اور ذات کی طرف تا کہ ایک حقیقت ہو اور دوسرا مجاز اور گروہ متوسطین جو عوام کے رتبہ سے قدم بڑھ کر رکھتے ہیں اور اخص خواص کے کمالات سے کوتاہ دست ہیں، ہمشکل ہے کہ ممکنات کے وجود کے قائل ہوں اور ممکن کے وجود پر بطریق حقیقت وجود کا اطلاق کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض کہتے ہیں کہ ممکن کو اس علاقہ سے موجود کہتے ہیں کہ وجود کے ساتھ اس کی نسبت ہے نہ یہ کہ وجود اس کے ساتھ قائم ہے تا کہ حقیقت کے طور پر موجود ہو ۔ اس گروہ میں سے بعض لوگ ممکن کے وجود سے ساکت و خاموش ہیں اور نفی و اثبات کے ساتھ اس کی تصریح نہیں کرتے اور بعض ممکن سے وجود کی نفی کرتے ہیں اور واجب تعالیٰ کے سوا اور کسی کو موجود نہیں جانتے۔ ان میں سے ایک گروہ ممکن کے وجود کو جیسا کہ وجود کا میں نہیں جانتے وجود کا غیر بھی نہیں جانتے اور ان میں سے ایک گروہ نے اس طرح تصریح کی ہے کہ جس وجود کے ساتھ واجب تعالی موجود ہے اس وجود کے ساتھ ممکن بھی موجود ہے۔ اس عبارت سے بھی ممکن کے وجود کی بھی نفی کرتے ہیں۔ غرض ممکن کا وجود ثابت کرنے کے لئے بڑی تیز نظر ہونی چاہئے تا کہ واجب تعالی کے نور کی روشنی میں اس کو دیکھ سکیں ۔ تیز نظر والے لوگ دن میں آفتاب کی روشنی کے باوجو دستاروں کو دیکھتے ہیں اور جس کی نظر تیز نہیں ہوتی ، وہ ستاروں کو نہیں دیکھ سکتا۔ پس ممکنات کا وجود دن میں ستاروں کے وجود کی طرح ہے کہ جو تیز نظر والا ہے، وہ دیکھ سکتا ہے اور جو کمزور نظر والا ہے اس دید سے بے نصیب ہے۔
اگر کوئی پوچھے کہ عوام با وجود ضعف بصر اور کوری بصیرت کے کس طرح ممکنات کے وجود کو دیکھ سکتے ہیں حالانکہ وجود واجب تعالیٰ کے انوار کی چمک اس کے دیکھنے سے مانع ہے تو میں کہتا ہوں کہ عوام لوگ ارباب علم میں سے ہیں نہ کہ ارباب دید میں سے ہماری گفتگوار باب دید کی نسبت ہے نہ کہ ارباب علم کی نسبت ۔ کیونکہ ارباب علم اس بحث سے خارج ہیں ۔ گو یا واجب تعالیٰ کے انوار کا ظہور ان کے حق میں مفقود ہے ۔ پس وجود ممکنات کے دیکھنے سے مانع نہ ہوگا ۔ یا ہم ، کہتے ہیں کہ انوار کا ظہور وجود ممکنات کے دیکھنے سے مانع ہے نہ کہ وجود ممکنات کے علم سے مانع ہے کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اشیاء کا علم سماع وتقلید سے بھی حاصل ہو جاتا ہے اور نظر واستدلال سے بھی متصور ہو سکتا ہے جیسا کہ روز روشن میں آفتاب کی روشنی کے باوجود، ستاروں کے وجود کا علم ضعیف نظر والوں کو بھی حاصل ہے۔ اسی طرح عوام کو وجود ممکنات کا علم حاصل ہے۔ نہ کہ وجود ممکنات کا شہود کیونکہ شہد صفات بصیرت سے ہے اور ان کی بصیرت کی آنکھ کور ہے ۔مشہود ملک ہو یا ملکوت جبروت ہو یالا ہوت۔
اے عزیز ! عوام جس طرح اس بحث میں خواص کے ساتھ شریک ہیں اور کئی باتوں میں بھی ان کے درمیان شرکت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام بہت سے احکام میں عوام کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور خلقت اور اہل و عیال کے ساتھ رہنے سہنے میں عوام کی طرح گزارہ کرتے تھے۔ اپنے اہل وعیال کے ساتھ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے حسن معاشرت کے اخبار مشہور ہیں۔
منقول ہے کہ ایک دن سید البشر صلى الله عليه وسلم امامین صلى الله عليه وسلم کے بوسے لے. رہے تھے اور کمال انبساط اور خوشی کے ساتھ ان سے سلوک کر رہے تھے ۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے عرض کیا کہ میرے گیارہ لڑکے ہیں۔ میں نے کبھی کسی کا بوسہ نہیں لیا۔ حضرت پیغمبر صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جو وہ اپنے مہربان بندوں کو عطا فرماتا ہے۔
چونکہ اخص خواص بعض اوصاف میں عوام کے ساتھ شریک ہیں۔ خواہ وہ شرکت باعتبار صورت کے ہو ۔ اس لئے عوام اپنی نارسائی کے باعث ان کے کمالات سے بے نصیب رہتے ہیں اور ان کو اپنی ہی طرح خیال کرتے ہیں اور وہ شخص جو اوصاف و شمائل میں ان سے جدا ہو ۔ اس کو بہتر اور بزرگ جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاء کے ان اوصاف واخلاق کو جو ان کے اوصاف واخلاق سے جدا ہیں۔ ان اخلاق و اوصاف سے جو ان کے اوصاف واخلاق کی مانند ہیں۔ بہتر جانتے ہیں اگر چہ وہ اخلاق انبیاء میں موجود ہوں۔
مخدوم فرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کی نسبت حکایت منقول ہے کہ جب ان کا کوئی لڑکا مر جاتا اور اس کے مرنے کی خبر ان کو پہنچتی ، ان کی طبیعت میں کچھ تغیر و تبدل نہ آتا اور اس طرح فرما دیتے که سگ بچہ مر گیا ہے جاؤ اس کو باہر پھینک دو۔
اور جب حضرت سید البشر صلى الله عليه وسلم کا ابراہیم بیٹا فوت ہو گیا۔ حضرت پیغمبر صلى الله عليه وسلم اس کے مرنے پر رو پڑے اور نہایت غمناک ہو کر فرمایا إِنَّا بِفَرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمَ لَمَحْزُونُونَ (اے ابراہیم ہم تیری جدائی سے بہت غمزدہ ہیں ) یعنی بڑے مبالغہ اور تاکید کے ساتھ اپنے غم کا بیان فرمایا ۔ پس ا حضرت گنج شکر علیہ الرحمۃ بہتر ہے یا حضرت سید البشر عوام کالانعام کے نزدیک معاملہ اول بہتر ہے اور اس کو بے تعلق جانتے ہیں اور دوسرے کو عین تعلق اور گرفتاری سمجھتے ہیں ۔ اعاذنا اللهُ سُبْحَانَهُ عَنْ اِعْتِقَادِهِمُ السُّوءِ اللہ تعالیٰ ہم کو ان کے برے عقیدے سے بچائے چونکہ یہ أَعَادَنا ابتلاء و آزمائش کا مقام ہے۔ عوام کو مشتبہ کرنا اور شبہ میں ڈالنا عین حکمت ومصلحت ہے ۔
اللَّهُمَّ اَرنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اِتِّبَاعَهُ وَآرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَارْزُقْنَا اجْتِنَا بَهُ ـحُرُمَتِ سَيّدِ البَشَرِ عَلَيْهِ وَعَلَى الِهِ وَأَصْحَابِهِ مِنَ الصَّلَوَاتِ أَفْضَلُهَا وَمِنَ السلِمَاتِ اَكْمَلُها یا اللہ حضرت سید البشر صلى الله عليه وسلم کے طفیل ہم کو حق امر دیکھا اور حق کی تابعداری ہمارے نصیب کر اور باطل کو باطل کر کے دکھا اور اس سے ہم کو بچا۔
اب ہم اصلی بات کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے ایمان اور ان کے اصحاب کا ایمان اور ان اولیاء جو اصحاب سے ملحق ہیں، دعوت کی طرف رجوع کرنے کے باعث غیب کے ساتھ بدل جاتا ہے جس طرح کوئی شخص دن میں آفتاب دیکھے اور آفتاب کے وجود کے ساتھ ایمان شہودی حاصل کرلے اور جب رات ہو جائے تو اس کا ایمان شہودی ایمان غیب کے ساتھ بدل جائے اور علماء کا ایمان اگر چہ غیب کے ساتھ ہے لیکن ان کے غیب نے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی متابعت کے باعث حدس کا حکم پیدا کر لیا ہے اور نظریت سے نکل چکا ہے۔
علماء سے مراد اس جگہ علماء آخرت ہیں نہ علمائے دنیا۔ کیونکہ علمائے دنیا عام مومنین میں داخل ہیں اور ایمان بالغیب جو عام مومنین کی طرف منسوب ہے اس کی اقسام میں سے بہترین قسم وہ ایمان ہے جو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی تقلید پر وابستہ ہے اور قَالَ اللهُ اور قَالَ الرُّسُولُ سے تعلق رکھتا ہے۔
سوال: علماء نے فرمایا ہے کہ ایمان استدلالی ایمان تقلیدی سے بہتر ہے۔ حتی کہ بہت سے علما نے استدلال کو ایمان کی شرائط میں سے مقرر کیا ہے اور ایمان تقلیدی کو معتبر نہیں جانتے اور تو نے ایمان تقلیدی کو بہتر کیا ہے؟
جواب: وہ ایمان جو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی تقلید سے حاصل ہوتا ہے وہی ایمان استدلالی ہے کیونکہ صاحب تقلید دلیل کے ساتھ جانتا ہے کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام تبلیغ رسالت میں صادق ہیں کیونکہ وہ شخص جس کی اللہ تعالیٰ معجزات کے ساتھ تصدیق کرے بیشک سچا ہوتا ہے۔ پس انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام جن کی تائید معجزات کے ساتھ ہوئی ہے،سب کے سب صادق اور راست ہیں۔ تقلید غیر معتبر یہ ہے کہ ایمان میں اپنے دادا کی تقلید کرے اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی صداقت اور ان کے تبلیغ کی حقیقت کو منظور نہ رکھے ۔ یہ ایمان اکثر علماء کے نزدیک معتبر نہیں ہے ۔
باقی رہاوہ استدلال جوار باب نظر ( منطقی) اپنے مقدمات کے ساتھ حاصل کرتے ہیں اور صغری و کبری کی ترتیب سے ایمان نتیجہ ظاہر کرتے ہیں۔ یہ استدلال ایک ایسا امر ہے جو امکان کے نزدیک اور وقوع سے دور ہے اور مقام استدلال میں واجب تعالیٰ کے اثبات کے لئے ارباب نظر میں سے مولانا جلال الدین روانی جیسا معلوم نہیں کہ اور بھی کوئی گزرا ہو کیونکہ وہ محقق بھی ہے اور متاخر بھی اس نے اس امر عالی کے ثابت کرنے میں بہت کوشش کی ہے۔ باوجود اس امر کے اس کے استدلالی مقدمات میں سے کوئی ایسا مقدمہ نہیں ہے جس میں اس کے رسالوں کے محشی منع یا نقص کے ساتھ پیش نہ آئے ہوں اور اچھے اچھے اعتراض نہ کئے ہوں۔ اس صاحب استدلال پر نہایت ہی افسوس ہے جو ایمان کو صرف استدلال ہی سے حاصل کرے اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی تقلید اس کی دستگیری اور مدد نہ کرے۔
رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّهِدِينَ اے ہمارے رب ہم اس چیز کے ساتھ ایمان لائے جو تو نے نازل فرمائی ہے اور اپنے رسول کی تابعداری کی پس ہم کو شاہدین کے ساتھ لکھ۔