2

مکتوب 273: اس بیان میں کہ سالک کو چاہئے کہ اپنے شیخ کے طریق کو لازم پکڑے


مکتوب 273

اس بیان میں کہ سالک کو چاہئے کہ اپنے شیخ کے طریق کو لازم پکڑے اور دوسرے مشائخ کے طریق کی طرف التفات و توجہ نہ کرے اور اگر اس کے برخلاف واقعات ظاہر ہوں تو ان کا کچھ اعتبار نہ کرے کیونکہ شیطان بڑا بھاری دشمن ہے۔ اس کے مکر و فریب سے غافل نہ ہونا چاہئے اور اس کے مناسب بیان میں مرزا حسام الدین احمد کی طرف صادر فرمایا ہے۔


الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِى هَدْنَا لهذا وما كنا لنهتدي لو لا ان حدنا اللهُ لَقَدْ جَاءَتُ رُسُلُ رَبَّنا بالحق اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے ۔ بیشک ہمارے رب کے رسول حق بات لائے ہیں ۔


آپ کا بزرگ محبت نامہ جو از روئے کرم کے اس حقیر کے نام لکھا ہوا تھا، پہنچا۔ بڑی خوشی حاصل ہوئی جَزَاكُمُ اللهُ سُبْحَانَهُ خَيْراً اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔

آپ کو لکھا جاچکا تھا کہ سماع کے منع ہونے کا مبالغہ مولود کے منع ہونے کو بھی شامل ہے جو نعتیہ قصیدوں اور غیر نعتیہ شعروں کے پڑھنے سے مراد ہے لیکن برادر عزیز میر محمد خان اور بعض اس جگہ کے یار جنہوں نے واقعہ میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو دیکھا ہے کہ اس مجلس مولود خوانی سے بہت خوش ہیں ان پر مولود نہ سننا اور ترک کرنا بہت مشکل ہے۔


میرے مخدوم! اگر واقعات کا کچھ اعتبار ہوتا اور منامات اور خوابوں کا کچھ بھروسہ ہوتا تو مریدوں کو پیروں کی حاجت نہ رہتی اور طرق میں سے کسی ایک طریق کا لازم پکڑ نا عبث معلوم ہوتا کیونکہ ہر ایک مرید اپنے واقعات کے موافق عمل کر لیتا اور اپنی خوابوں کے مطابق زندگی بسر کر لیتا۔ خواہ وہ واقعات و منامات پیر کے طریقہ کے موافق ہوتے یا نہ ہوتے اور خواہ پیر کے پسند ہوتے یا نہ ہوتے ۔ اس تقدیر پر سلسلہ پیری مریدی درہم برہم ہو جاتا اور ہر بوالہوس اپنی وضع پر مستقل و برقرار ہو جاتا۔ حالانکہ مرید صادق ہزار ہا واقعات کو اپنے پری کے باوجود نیم جو کے ساتھ نہیں خریدتا اور طالب رشید حضور پیر کی بدولت منامات کو اضغاث احلام یعنی جھوٹی خوابیں جانتا ہے اور کچھ التفات ان کی طرف نہیں کرتا ۔ شیطان لعین بڑا بھاری دشمن ہے جب منتہی اس کے مکر سے امن میں نہیں ہیں اور اس کے مکر سے ترساں و لرزاں ہیں تو پھر متوسطوں اور مبتدیوں کا کیا ذکر ہے

حاصل کلام یہ کہ منتہی محفوظ ہیں اور شیطان کے غلبہ سے بچے ہوئے ہیں۔ برخلاف مبتدیوں اور متوسطوں کے۔ پس ان کے واقعات اعتماد کے لائق نہیں ہیں اور نہ ہی دشمن کے مکر سے محفوظ ہیں ۔

سوال: وہ واقعہ جس میں حضرت پیغمبر کو دیکھیں وہ صادق ہے اور شیطان کے مکر وفریب سے محفوظ ہے ۔ لانَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَلُ بِصُورَتِهِ كَمَا وَرَدَ ( کیونکہ شیطان حضور صلى الله عليه وسلم کی صورت سے متمثل نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ احادیث میں وارد ہے۔ ) پس یہ واقعات جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں صادق اور شیطان کے مکر و فریب سے محفوظ ہیں؟


جواب: صاحب فتوحات مکیہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی اس صورت خاصہ کے ساتھ جو مدینہ منورہ میں مدفون ہے، متمثل نہیں ہوسکتا۔ اس خاص صورت کے سوا اور جس صورت میں کہ حضور کو دیکھیں متمثل ہو سکتا ہے اور ان تمام صورتوں میں متمثل نہ ہونے کا حکم تجویز نہیں کرتا اور کچھ شک نہیں کہ اس صورت علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی تشخیص خصوصا منامات میں بہت مشکل ہے۔ پھر کس طرح اعتماد کے لائق ہو اور اگر شیطان کے متمثل نہ ہونے کو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی صورت مخصوصہ کے ساتھ مخصوص کریں اور ہر صورت میں کہ دیکھیں عدم تمثل کو تجویز نہ کریں جیسا کہ بہت سے علماء اس طرف گئے ہیں تو یہ بات آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی بلندی شان کے مناسب ہے ۔

میں کہتا ہوں کہ اس صورت سے احکام کا اخذ کرنا اور مرضی کا معلوم کرنا مشکل ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ دشمن لعین درمیان آ گیا ہو اور خلاف واقع کو واقع کی صورت میں ظاہر کیا ہو اور دیکھنے والے کو شک وشبہ میں ڈال دیا ہو اور اپنی عبارت و اشارت کو اس صورت علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی عبارت و اشارات کر دکھایا ہو ۔


چنانچه مروی ہے کہ ایک دن حضرت سید البشر مجلس لگائے ہوئے تھے اور قریش کے سردار اور کفار کے رئیس بھی اس مجلس میں حاضر تھے اور بہت سے اصحاب کرام بھی وہاں موجود تھے ۔ حضرت سید البشر صلى الله عليه وسلم نے سورہ نجم پڑھنی شروع کی جب ان کے باطل خداؤں کا ذکر آیا تو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے کلام کے ساتھ (شیطان نے اپنا کلام ) اس طرح ملا دیا کہ حاضرین نے ان کو آنحضرت صلى الله عليه وسلم ہی کا کلام سمجھا اور اس میں کچھ تمیز نہ کر سکے تو کافروں نے جو وہاں موجود تھے، شور مچایا اور کہنے لگے کہ محمد صلى الله عليه وسلم نے ہمارے ساتھ صلح کر لی ہے اور ہمارے بتوں کی تعریف کی ہے۔ حاضرین اہل اسلام بھی اس کلام سے متحیر ہو گئے اور آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو شیطان لعین کے کلام سے اطلاع نہ ہوئی۔ فرمایا کہ یہ کیا واقع ہے۔ اصحاب کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ اثنائے کلام میں اس قسم کے فقرے حضور ﷺ کی زبان سے نکلے ہیں۔ آنحضرت صلى الله عليه وسلم بہت متفکر اور غمناک ہوئے۔ اسی اثناء میں جبرائیل امین علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام حاضر ہوئے اور وحی لائے کہ وہ کلام القائے شیطانی تھا اور کوئی نبی اور رسول ایسا نہیں گزرا ہے جس کے کلام میں شیطان نے القاء نہ کیا ہو۔ پس ازاں اللہ تعالیٰ نے اس کو رد کیا ہے اور کلام کو محکم کیا ہے ۔

پس جب آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی زندگی میں بیداری کے وقت صحابہ کی مجلس میں شیطان لعین نے اپنے کلام باطل کو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے کلام میں القا کر دیا اور کسی نے تمیز نہ کی تو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی وفات کے بعد خواب کی حالت میں جو حواس کے معطل و بیکار ہونے کامل اور شک وشبہ کا مقام ہے باوجود دیکھنے والے کی تنہائی کے کہاں سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ واقعی شیطان کے تصرف اور مکروفریب سے محفوظ اور مامون ہے یا میں کہتا ہوں کہ نعتیہ قصیدوں کے پڑھنے اور سننے والوں کے ذہن میں متمکن ہو چکا تھا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم اس عمل سے راضی ہیں جیسا کہ ممدوح اپنی مدح کرنے والوں سے راضی ہوتے ہیں اور یہ معنی ان کی قوت متخیلہ میں متنقش ہو گئے ہوں تو ہو سکتا ہے کہ واقعہ میں اسی اپنی متخیلہ صورت کو دیکھا ہو ۔ بغیر اس بات کے کہ وہ واقع حقیقی ہو یا تمثل شیطانی اور نیز واقعات اور رویائے صادقہ کبھی ظاہر پرمحمول ہوتے ہیں اور ان کی حقیقت وہی ہے جو دیکھنے والے نے دیکھی ہے۔ مثلا زید کی صورت کو خواب میں دیکھا ہے اور مراد اس سے عمر رکھا ہے۔ اس مناسبت کے لحاظ سے جو زید و عمر کے درمیان ہے۔

پس کس طرح معلوم ہو سکے کہ یاروں کے یہ واقعات ظاہر پر محمول ہیں اور ظاہر سے مصروف اور پھرے ہوئے نہیں ہیں۔ کیوں نہیں ہو سکتا کہ ان واقعات سے مراد ان کی تعبیریں ہوں اور وہ واقعات دوسرے امور سے کنایہ ہوں۔ بغیر اس بات کے کہ شیطانی تمثل کی گنجائش ہو ۔ غرض واقعات کا کچھ اعتبار نہ کرنا چاہئے۔ اشیاء خارج میں بہت موجود ہیں ۔ کوشش کرنی چاہئے کہ اشیاء کو بیداری میں دیکھیں جو اعتبار کے لائق ہے اور اس میں تعبیر کی بھی گنجائش نہیں جو کچھ خواب و خیال میں دیکھا جائے خواب و خیال ہی ہے۔ وہاں کے یار مدت سے اپنی ہی وضع و طرز پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اختیار کی باگ ان کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن میر محمد نعمان کا کیا چارہ ہے کہ منع کے بعد ایک لمحہ بھی توقف کرے اور اگر بالفرض توقف کرے تو اس کو کون بخشے گا۔

اس منع کرنے میں فقیر کا مبالغہ اپنی طریقت کے مخالفت کے باعث ہے۔ طریقت کی مخالفت خواہ سماع ورقص سے ہو خواہ مولود اور شعر خوانی ہے۔ ہر طریق کے لئے ایک مطلب خاص تک وصول ہوتا ہے اور اس طریق میں خاص مطلب تک وصول کا حاصل ہونا ان امور کے ترک کرنے کے سبب سے ہے جس شخص کو یہ طلب ہو کہ اس طریق کے مطلب خاص تک پہنچ جائے اس کو چاہئے کہ اس طریق کی مخالفت سے بچے اور دوسرے طریقوں کے مطالب کو منظور نظر نہ رکھے۔


حضرت خواجہ نقشبندی قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ ” میں نہ یہ کام کرتا ہوں اور نہ ہی انکار کرتا ہوں۔ یعنی یہ کام ہمارے خاص طریق کے منافی ہے اس لئے نہیں کرتا اور چونکہ اس کام کو دوسرے مشائخ کرتے ہیں اس لئے انکار بھی نہیں کرتا۔ لِكُلٍ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا ہر ایک کے واسطے ایک نہ ایک جہت ہے جس کی طرف وہ اپنا منہ کرنے والا ہے۔


فیروز آباد جو ہم فقراء کا ماویٰ اور ہم پیروں اور معتقدوں کا جائے پناہ ہے جب اس میں کوئی ایسا امر حادث ہو جائے جو اس طریقہ علیہ کے مخالف ہو تو پھر ہم فقراء کیونکر مضطرب و بیقرار نہ ہوں ۔ حضرت مخدوم زادے اپنے والد بزرگوار کے طریق کو محفوظ رکھنے کے زیادہ مستحق اور حقدار ہیں ۔


نیز آپ نے ہمارے حضرت خواجہ قدس سرہ کے مشرب قوی العذب کی نسبت لکھا تھا ہاں اول اول بعض امور میں مذہب ملامتیہ کی رعایت کرکے مساہلہ اور سستی کیا کرتے تھے اور ملامت کو ترجیح دے کر بعض اشیاء میں ترک پھر ملامت و علامتیہ کو کبھی یاد نہ کیا، آپ نظر انصاف سے کام لیں اگر بالفرض حضرت ایشاں قدس سرہ اس وقت دنیا میں زندہ ہوتے اور یہ مجلس و اجتماع ان کی موجودگی میں منعقد ہوتا تو آیا حضرت قدس سرہ اس وقت دنیا میں زندہ ہوتے اور اس اجتماع کو پسند کرتے یا نہ؟۔ فقیر کا یقین ہے کہ حضرت قدس سرہ ہرگز اس امر کو پسند نہ کرتے بلکہ انکار کرتے ۔ فقیر کا مقصد آپ کو جتلا دینا ہے۔ آپ قبول کریں یا نہ کریں کچھ مضائقہ نہیں ہے اور نہ ہی آپ سے کوئی مشاجرہ اور لڑائی جھگڑے کی گنجائش ہے اگر مخدوم زادے اور وہاں کے یار اپنی اسی وضع پر استقامت رکھیں اور اپنی حالت کو نہ بدلیں تو ہم فقیروں کو ان کی صحبت سے سوائے مایوسی کے اور کچھ چارہ نہیں ہے۔ اس سے زیادہ کیا تکلیف دی جائے۔

والسلام اولاََ و اخراً۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا