مکتوب 274
بلند ہمتی کی ترغیب اور شہودات سفلی کی طرف جو کثرت کے آئینوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ التفات نہ کرنے اور اس کے مناسب بیان میں شیخ یوسف برکی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
حمد وصلوٰۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد واضح ہو کہ آپ کے تینوں خط جو آپ نے ارسال کئے تھے ، پہنچے اور احوال و کرامات کے واقعات جو ان میں درج تھے ، سب واضح ہوئے ۔ وہ حال جو شهود وحدت در کثرت ) کے حال کے بعد لکھا ہے اور اس عبارت میں ادا کیا ہے کہ دیگر انتہا یہ ہے کہ اول حال کی طرح شہود اور گم ہونا کم کرتا ہے یعنی میں بندہ ہوں اور مخلوق ہوں اور مصطفیٰ صلى الله عليه وسلم کی امت ہوں ۔ یہ حال اصل ہے اور وہ مذکورہ احوال سے بڑھ کر ہے لیکن انتہا اور چیز ہے اور نہایت اس سے کئی منزلیں دور ہے۔
ہنوز ایوان استغنا بلند است
مرا فکر رسیدن ناپسند است
ترجمہ: بہت اونچا ہے استغنا کا ایواں
نہ کر کوشش وہاں چڑھنے کی ایجاں
کلمہ طیبہ لا إِلهَ إِلَّا الله کے تکرار سے جو فقیر نے اس سے پہلے مکتوب میں آپ کی طرف لکھا تھا۔ یہی مقصود تھا کہ اس شہود کی نفی ہو جائے جو کثرت کے ساتھ تعلق رکھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ اس کلمہ کی برکت سے یہ شہود آپ سے زائل ہو گیا ۔ آپ ہمت کو بلند رکھیں اور اس راہ کی جوز و مویز پر کفایت نہ کریں۔ ان اللہ سُبحَانَهُ يُحِبُّ مَعَالِى الهمم ( الله تعالى بلند ہمت کو دوست رکھتا ہے ) اور توحید کے تنگ کو چہ سے نکل کر شاہراہ پر آ جائیں اگر آپ پہلے احوال کا تذکرہ نہ کریں اور کثرت آمیز شہود کی لذتوں کو یاد نہ کریں اور عمر بھر کی استقامت کے ساتھ اس راہ میں تگا پو فرمادیں تو کس قدر بڑی نعمت ہے کیونکہ بہت سے پوستیوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ انہوں نے اپنے فعل کی برائی پر اطلاع پا کر پوست پینا چھوڑ دیا۔ اتفاقا پھر مدت کے بعد جب کبھی پوست پینے کا حال اور اس کی لذت یاد آئی پھر اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ آئے۔ میرے مخدوم ! وہ شہود جو کثرت کے آئینوں سے تعلق رکھتا ہے لذت بخش ہے اور شہود تنزیہی جو جہالت و نادانی کی طرف میلان رکھتا ہے، اس التذاذ یعنی لذت بخشی سے بعید ہے شیخ و مقتداء کی مدد کے بغیر اس راہ پر چلنا مشکل ہے۔
برادر عزیز مولانا احمد برکی جس کو عام لوگ علماء ظاہر سے جانتے ہیں اور وہ بھی اپنے احوال اور اپنے یاروں کے احوال کی خبر نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا باطن شہود تنزیہی کی طرف متوجہ ہے جو جہل و نادانی کا مقام ہے اور اس کا ایمان علماء کی طرح ایمان بالغیب ہے۔ اس کے باطن نے بلند فطرتی کے باعث کثرت آمیز شہود کی طرف التفات نہیں کی اور بظاہر تربات صوفیہ کے ساتھ فریفتہ اور مغرور نہیں ہوا۔ اس کا وجود مبارک ان اطراف میں نغنیمت ہے۔ یہ حالت جس کی آپ نے خبر دی ہے۔ مولانا مذکور مدت سے اس حالت کے ساتھ تحقیق ہے لیکن اس کا علم کوئی نہیں جانتا۔ فقیر کے نزدیک اس جگہ کا مدار مولانا کے وجود پر ہے۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ ان اطراف کے صاحبان کشف پر کس طرح مخفی رہا ہے۔ حالانکہ فقیر کے نزدیک مولانا کا وجود آفتاب کی طرح ظاہر وباہر ہے۔ زیادہ کیا تکلیف دی جائے۔ فقط دعا وفاتحہ کی التماس ہے ۔
والسلام ۔