مکتوب 277
علم الیقین اور عین الیقین اور حق الیقین کے بیان میں ملا عبدالحئی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
اور یہ علوم ان علوم سابقہ میں سے ہیں جو آپ نے توسط حال میں تحریر کئے تھے ۔ اس معرفت میں نہایت شہود، شہود انفسی ہے اور وہ معارف جو اخیر میں لکھے ہیں ان میں انفسی کو شہود آفاقی کی طرح لا حاصل سمجھ کر انفسی و آفاقی شہود کے ماسوا اور شہود کو ثابت کیا ہے بلکہ نفس شہود کو وصول کا دروازہ جان کر اس کے علاوہ اور علوم و معارف لکھے ہیں۔ جیسا کہ آپ کی کتابوں اور رسالوں سے یہ بات ظاہر ہے۔
بداں رشَدَكَ الله تعالیٰ ! خدا تجھے ہدایت دے۔ جان لے کہ حق تعالیٰ وسبحانہ کی ذات میں علم الیقین ان آیات و نشانات کے شہود سے مراد ہے، جو حق تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرتے ہیں اور ان آیات کے شہود کو سیر آفاقی کہتے ہیں لیکن ذاتی شہود اور حضور سیر نفسی کے سوائے متصور نہیں اور وہ سالک کے اپنے نفس میں ہوتا ہے
ذره گربس نیک در بس بدوود
گر چه عمرے تنگ زند در خود بود
ترجمہ: ذرہ دوڑے خواہ کم خواہ تیز تر
ہے اسی جا گر چہ دوڑے عمر بھر
اور جو کچھ اپنے باہر میں مشاہدہ کرتا ہے سب حق تعالیٰ کی ذات پر دلائل و آثار کے مشاہدہ کی قسم سے ہے نہ کہ حق تعالیٰ کی ذات مشاہدہ ۔
قطب محققین سید العارفین ناصر الدین خواجہ عبید اللہ قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ سیر دو قسم پر ہے۔ ایک سیر مستطیل دوسری سیر مستدیر ۔
مستطیل بعد در بعد ہے اور سیر متدیر ، قرب در قرب۔
سیر مستطیل یہ ہے کہ اپنا مقصود اپنے دائرہ کے باہر طلب کریں اور سیر مستدیر یہ ہے کہ اپنے یر دل کے گرد پھریں اور اپنا مقصود اپنے ہی سے طلب کریں۔
پس وہ تجلیات جو حسی یا مثالی صورتوں میں اور انوار کے پردہ میں ہوں ۔ خواہ کوئی صورت ہو اور خواہ کوئی نور ظاہر ہو ۔ وہ نور خواہ رنگین ہو یا بے رنگ اور متناہی ہو یا غیر متناہی اور کائنات کو محیط ہو یا نہ ہو ۔ سب علم الیقین میں داخل ہیں۔
حضرت مخدومی مولوی عبد الرحمن جامی قدس سره السامی لمعات میں اس طرح فرماتے ہیں۔
اے دوست ترا بہر مکاں مچتم
ہر دم خبرت زاین واں چشم
ترجمہ: ڈھونڈتا پھرتا تھا میں اے دوست تجھ کو جابجا
اور این و آں سے تھا تیری خبر میں پوچھتا
اس مضمون میں بھی مشاہدہ آفاقی کی طرف اشارہ ہے جو علم الیقین کے لئے مفید ہے اور یہ شہود چونکہ مقصود منہ کی خبر نہیں دیتا اور سوائے امارت و استدلال کے اس کا کچھ حضور نہیں بخشتا۔ اس لئے دھوئیں اور گرمی کے مشاہدہ کی طرح ہے جو آگ کی ذات پر دلالت کرتا ہے ۔ پس یہ شہود علم کے دائرہ سے نہیں نکل سکتا اور نہ ہی عین الیقین کے لئے کچھ مفید ہو سکتا ہے اور نہ ہی سالک کا وجود اس سے فانی ہوسکتا ہے۔
عین الیقین حق تعالیٰ کے شہود سے مراد ہے۔ بعد اس کے کہ علم الیقین سے معلوم کر چکیں اور شہود سالک کے فنا کو مستلزم ہے اور اس شہود کے غلبہ میں اس کا تعین بالکل گم ہو جاتا ہے اور اس کے دیدہ شہود میں اس کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا اور اس شہود میں فانی و مستہلک یعنی مستغرق ہو جاتا ہے۔ یہ شہود اس طائفہ علیہ قدس سرہم کے نزدیک ادراک سے تعبیر کیا گیا ہے اور معرفت بھی اس کو کہتے ہیں ۔ اس ادراک میں خواص و عوام شریک ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ خواص کو خالق کا شہود ، حق تعالیٰ کے شہود سے مانع نہیں ہوتا بلکہ ان کے دیدہ شہود میں حق جل شانہ کے سوا اور کچھ مشہور نہیں ہوتا اور عوام کو یہ شہود مانع ہے۔ یہی باعث ہے کہ اس شہود سے غافل اور اس ادراک سے بے خبر رہتے ہیں اور یہ عین الیقین علم الیقین کا حجاب ہے۔ جیسا کہ علم الیقین عین الیقین کا حجاب ہے۔
اس شہود کی تحقیق کے وقت سراسر حیرت و نادانی ہے۔ علم کی اس میں ہرگز گنجائش نہیں ہے۔
بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ علم الیقین ، عین الیقین کا حجاب ہے اور عین الیقین علم الیقین کا حجاب۔
اور نیز بعض نے فرمایا ہے کہ اس شخص کی علامت جس نے اللہ تعالیٰ کو جیسا کہ اس کے پہچانے کا حق ہے، پہچان لیا۔ یہ ہے کہ اس کے سر پر واقف ہو جاتا ہے لیکن اس کا اس کو علم نہیں ہو سکتا۔ ایسا شخص اس معرفت میں کامل ہے جس کے سوا اور کوئی معرفت نہیں ہے۔
اور نیز بعض نے فرمایا ہے کہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا عارف وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ حیران و پریشان ہے۔
حق الیقین حق تعالیٰ کے شہود سے مراد ہے بعد اس کے کہ تعیین دور ہو جائے اور متعین فانی اور نابود ہو جائے لیکن یہ شہود حق تعالیٰ سے حق تعالیٰ کی طرف ہے کیونکہ لَا يَحْمِلُ الْعَطَايَا الْمَلِكِ إِلَّا مَطَايَاهُ ( بادشاہ کے عطیوں کو اسی کے اونٹ اٹھا سکتے ہیں ) اور یہ شہود بقا باللہ میں جو بِی يَسْمَعُ اور بِى يَنصُرُ کا مقام ہے، حاصل ہوتا ہے اور کبھی سالک کو فنائے مطلق کے ساتھ متحقق ہونے کے بعد جو ذات وصفات کی فتا ہے حق تعالٰی محض اپنی عنایت سے اپنے نزدیک سے ایک وجود عطا کرتا ہے اور سکر حال اور بے خودی سے صحو اور افاقت یعنی ہوشیاری میں لے آتا ہے اور اس وجود کو وجود موہوب حقانی یعنی خدا کا دیا ہوا وجود کہتے ہیں۔ اس مقام میں علم و عین ایک دوسرے کا حجاب نہیں ہوتے۔ عین میں علم کا شہود اور علم میں عین کا مشاہدہ ہوتا ہے جس کو عارف اس مقام میں مین حق پاتا ہے۔ نہ یہ کہ تعین کونی کے ساتھ کیونکہ اس کے دیدہ شہود میں اس کا کوئی اثر نہیں رہتا اور ان تجلیات صوریہ سے کہ جن میں اپنے تعینات اور صورتوں کو حق تعالیٰ معلوم کرتے ہیں، مراد وہ تعینات کو نیہ ہیں جن کی طرف فنا نے راہ نہیں پایا۔ فَأَيْنَ اَحَدُهُمَا عَنِ الْآخَرِ ( ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے ) مَالِلتُّرَابِ وَرَبِّ الْأَرْبَابِ )
چه نسبت خاک را با عالم پاک
اگر چہ ظاہر عبارت سے عوام کے نزدیک تجلی صوری ( کہ جس میں اپنے آپ کو حق پاتے ہیں ) اور حق الیقین کے درمیان ( جہاں کہ اپنے سر کو حق پاتے ہیں ) کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا لیکن تجلی صوری میں انا صورت پر پڑتا ہے اور حق الیقین میں حقیقت پر اور نیز تجلی صوری میں حق کو اپنے آپ سے دیکھتے ہیں اور اس مقام میں حق کو حق سے دیکھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ حق کو اپنے آپ سے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ حق الیقین ہی کا مرتبہ ہے جہاں کہ شہود کی حقیقت متحقق ہے اور بعض مشائخ زمان نے جب اس فرق پر اطلاع نہ پائی اور تعین کونی کے سوا اس تعین کو نہ جانا تو انہوں نے ان بزرگواروں پر جنہوں نے حق الیقین کی اس طرح پر تفسیر وتشریح کی ہے جیسا کہ مقر رو ثابت ہو چکی ہے ، زبان طعن دراز کی۔ بدیں خیال کہ یہ تعین تجلی صوری میں جو سلوک کا اول قدم ہے، حاصل ہو جاتا ہے اور اس تعین کی انہوں نے حق الیقین کے ساتھ جو سلوک میں نہایت قدم ہے۔ تفسیر و تشریح کی ہے ۔ یہ ان کا خیال کس طرح ٹھیک ہو سکتا ہے جبکہ یہ امرثابت ہے کہ وہ حق الیقین جوان کو نہایت میں حاصل ہوتا ہے۔ وہ ہم کو تجلی صوری میں حاصل ہو جاتا ہے جو ہمارا اول قدم ہے۔ وَاللَّهُ يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ، سیدھے راستہ کی ہدایت دیتا ہے۔