مکتوب 278
اس بیان میں کہ عقائد کے درست کرنے اور شریعت کے موافق عمل کرنے کے بعد ہر شخص کو لازم ہے کہ اپنے دل کو ماسوائے حق سے سلامت رکھے جس کو نسیان ماسوا کہتے ہیں اور طریقہ علیہ نقشبندیہ کی تعریف اور موتی یعنی مردوں کی امداد و اعانت پر ترغیب دینے اور اس کے مناسب بیان میں مُلا عبد الکریم سنامی کی طرف لکھا ہے۔
ا اَلْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامُ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔
برادر عزیز کا مکتوب مرغوب پہنچا۔ بہت خوشی حاصل ہوئی ۔ وہ نصیحتیں جو آگے یاروں کو کی گئی ہیں اور اب بھی کرنے کے لائق ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ اول اہل سنت و جماعت شکر اللہ تعالیٰ سعیہم کی کلامیہ کتابوں کے موافق اپنے عقائد کو درست کریں۔ پھر احکام فقہیہ یعنی فرض و واجب وسنت ومندوب و حلال و حرام و مکروہ و مشتبہ علمی اور عملی طور پر ر بجالائیں۔ اس کے بعد لازم ہے کہ اپنے دل کو ماسوائے حق کی گرفتاری سے سلامت رکھیں اور دل کی سلامتی اس وقت حاصل ہوتی ہے جبکہ دل میں ماسوائے حق کا گزر نہ رہے۔ یعنی اگر بالفرض ہزار سال تک زندگی وفا کرے تو بھی حق تعالیٰ کے سوا اور کچھ دل میں نہ گزرے۔ نہ اس معنی ہے کہ اشیاء دل میں گزریں اور ان کو غیر حق نہ جائیں کیونکہ یہ بات ابتداء میں توحید کے مراقبہ کرنے والوں کو بھی حاصل ہو جاتی ہے بلکہ اس معنی سے کہ اشیاء ہرگز دل میں نہ آنے پائیں اور اشیاء کا دل پر گزر نہ ہونا اس بات پر مبنی ہے کہ دل ماسوائے حق کو اس طرح بھول جائے کہ اگر تکلف کے ساتھ بھی اشیاء اسے یاد دلائیں تو اس کو یاد نہ آئیں اس دولت کو فنائے قلب سے تعبیر کرتے ہیں اور اس راہ میں یہ پہلا قدم ہے اور باقی جتنےولایت کے کمالات ہیں سب اسی دولت کی فرع ہیں۔
بیچکس را تا نگردد او فنا
نیست ره در بارگاه کبریا
ترجمہ: جب تلک کوئی نہ ہو جائے فنا
رہ نہیں ملتی اسے سوئے خدا
اور اس دولت عظمیٰ تک پہنچنے کے لئے سب سے زیادہ قریب راستہ طریقہ علیہ نقشبند یہ قدس سرہم کا طریق ہے کیونکہ ان بزرگواروں نے اپنی سیر کی ابتداء عالم امر سے کی ہے اور قلب سے قلب کے پھیرنے والے یعنی خدا کی طرف راستہ لے گئے ہیں۔ انہوں نے دوسروں کی ریاضتوں اور مجاہدوں کے بجائے سنت کو لازم پکڑا ہے اور بدعت سے کنارہ کیا ہے۔
حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ ہمارا طریقہ سب طریقوں سے زیادہ قریب ہے لیکن سنت کو لازم پکڑنا بہت مشکل کام ہے۔ فطوبى لِمَنْ تَوَسَّلَ بِهِمُ وَاقْتَدَى بِهَدَهُمُ مبارک ہیں وہ لوگ جنہوں نے ان کے ساتھ وسیلہ پکڑا اور ان کی ہدایت کا راستہ اختیار کیا۔
مولانا جامی قدس سرہ نے فرمایا ۔
نقشبندیہ عجب قافله سالارانند
که برنداز ره پنہاں بحرم قافله را
از دل سالک رہ جاز به صحبت شاں
می برد وسوسه خلوت وفکر چله را
قاصرے گر کند ایں طائفہ راطعن وقصور
حاش لله که برارم بزباں ایس گله را
ہمہ شیران جہاں بستہ ایں سلسلہ اند
رو به از حیله چسان بگسلد این سلسله را
ترجمہ: عجب ہی قافلہ سالار ہیں یہ نقشبندی
کہ لے جاتے ہیں پوشیدہ حرم تک قافلے کو
دل سالک سے جذ بہ انکی صحبت اور الفت کا
مٹا دیتا ہے یکدم فکر خلوت اور چلے کو
اگر کو یہ نظر کوئی لگائے طعن ان کو
نہ لاؤس میں کبھی اپنی زباں پر اس گلے کو
جہاں کے شیر ب باندھے ہوئے ہیں سلسلے میں
نہیں حیلے سے روبہ توڑ سکتی سلسلے کو
دوسرا یہ کہ قاضی محمد شریف کا محبت سے بھرا ہوا نوازش نامہ پہنچا۔ چونکہ فقراء کی محبت سے پر تھا، کمال خوشی کا باعث ہوا۔ فقیر کی دعا و سلام اس کو پہنچادیں۔
تیر واضح ہو کہ شیخ حبیب اللہ کا مکتوب مرغوب پہنچا۔ اس نے اپنے والد مرحوم کے فوت ہو جانے کے نسبت لکھا تھا۔ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ فقیر کی طرف سے دعا پہنچا کر ماتم پری بجالائیں اور کہیں کہ دعا وفاتحہ وصدقہ استغفار سے اپنے والد مرحوم کی امداد و اعانت کریں۔ فان الْمَيِّتَ كَالْغَرِيقِ يَنتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهُ مِنْ وَلَدٍ أَوْ ابِ أَوْ أَمَ اوْ احْ أَو صديق: مرده غریق کی طرح ہوتا ہے جو دعا کا منتظر رہتا ہے جو اس کو بیٹے یا باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف پہنچتی ہے۔
چوتھا واضح ہو کہ شیخ احمد ان بزرگواروں کا طریقہ اخذ کر کے بہت متاثر ہوا ہے ۔ حق تعالیٰ اس کو استقامت عطا فرمائے۔ مشار الیہ چونکہ از سر نو اسلام لایا ہے یعنی نو مسلم ہے اس واسطے اس کو عقائد کلامیہ جو فارسی کتابوں میں مذکور ہیں، سکھائیں اور احکام فقہیہ کی بھی تعلیم دیں تا کہ فرض و واجب وسنت مندوب و حلال و حرام و مکروہ و مشتبہ کو پہچان لے اور اس کے موافق اپنی زندگی بسر کرے اور کتاب گلستان و بوستان کا پڑھنا پڑھانا بیکاری میں داخل ہے۔
والسلام ۔