مکتوب 284
اس بیان میں کہ احوال و مواجید عالم امر کے نصیب ہیں اور احوال و مواجید کا علم عالم خلق کا حصہ ہے۔ یہ معرفت معارف سابقہ سے ہے اور حقیقت معاملہ وہی ہے جو حضرت مخدوم زادہ کلاں علیہ الرحمتہ کے مکتوبات میں طریقت کے بیان میں لکھی گئی ہے۔ ملاعبدالقادر انبالوی کی طرف صادر فرمایا ہے:-
جاننا چاہئے کہ انسان مرکب ہے عالم خلق سے جو اس کا ظاہر ہے اور عالم امر سے جو اس کا باطن ہے۔ وہ احوال و مواجید اور مشاہدات و تجلیات جو ابتدا اور توسط میں ظاہر ہوتے ہیں۔ عالم امر کا نصیب ہیں جو انسان کا باطن ہے اور ایسے ہی حیرت و جہالت اور عجز و یاس جو انتہا میں حاصل ہوتے ہیں۔ وہ بھی عالم امر ہی کا حصہ ہے اور لِلأرضِ مِنْ كَأْسِ الْكَرَامِ نَصِيبُ (سخیوں کے کاسہ سے زمین کو بھی حصہ ملتا ہے ) کے موافق یہی حالات واردہ کے قوی ہونے کے وقت اس ماجر سے حصہ پالیتا ہے۔ اگر چہ ثبات و استقامت نہیں رکھتا لیکن اس عالم سے کچھ تعلق پیدا کرتا ہے اور اصل معاملہ جو ظاہر سے تعلق رکھتا ہے ان احوال کا علم ہے کیونکہ باطن کو احوال حاصل ہوتے ہیں اور ان احوال کا علم نہیں ہوتا۔ اگر ظاہر نہ ہوتا تو دانش و تمیز کا راستہ نہ کھلتا۔ مثالیہ صورتوں اور مقامات کے عروج کا ظہور ظاہر ہے ادراک کے لئے ہے۔ پس حال باطن کے لئے ہے اور ان احوال کا علم ظاہر کے لئے۔ اس بیان سے معلوم ہوا کہ وہ اولیاء جو صاحب علم ہیں اور جو علم تے بے نصیب ہیں احوال کے نفس حصول میں کچھ فرق نہیں رکھتے ۔ اگر کچھ فرق ہے تو ان احوال کے معلم یا عدم علم کے باعث ہے۔
مثلاً ایک شخص پر بھوک کی حالت غالب ہے اور وہ بھوک کے باعث بے قرار و بے آرام ہے اور اس کے علاوہ وہ شخص جانتا ہے کہ اس حالت کو بھوک کہتے ہیں اور ایک اور شخص ہے جس پر یہی حالت طاری ہے، لیکن وہ نہیں جانتا کہ اس حالت کو بھوک سے تعبیر کر تے ہیں ۔ پس یہ دونوں شخص نفس حصول میں برابر ہیں ۔ فرق صرف علم اور عدم علم میں ہے۔
جاننا چاہئے کہ وہ لوگ جو علم نہیں رکھتے، دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جو احوال کے نفس حصول کا علم نہیں رکھتے اور ان کی تلونیات سے ہر گز واقفیت نہیں ہیں ۔ دوسرا وہ لوگ ہیں جو احوال کے تلونیات کی خبر رکھتے ہیں لیکن احوال کی تشخیص نہیں کر سکتے ۔ یہ لوگ اگر چہ احوال کی تشخیص نہیں کر سکتے لیکن ارباب علم میں داخل ہیں اور مشخیت یعنی شیخی اور پیشوائی کے لائق ہیں اور احوال کی تشخیص کرنا ہر شیخ کا کام نہیں ہے بلکہ یہ دولت بے شمار زمانوں کے بعد ظہور میں آتی ہے اور ایک کو اس دولت سے سرفراز فرماتے ہیں اور دوسروں کو اس کے علم کے حوالہ کر کے اس کے طفیلی بنا دیتے ہیں ۔ اولو العزم پیغمبر صلوۃ اللہ والتسلیمات علیہم اجمعین بڑی مدت کے بعد معبوث ہوا کرتے تھے اور ان میں سے ہر ایک پیغمبر اپنے اپنے احکام متمیزہ کے ساتھ مخصوص ہوتا تھا اور دوسرے انبیائ علیہم الصلوۃ والسلام ان کی تبعیت کے ساتھ مامور ہوتے تھے اور دعوت میں انہی کے احکام پر کفایت کیا کرتے تھے۔
خاص کند بنده مصلحت عام را
ترجمه: خاص کر لیتا ہے بندہ تا بھلا ہو عام کا
والسلام