2

مکتوب 285: سماع ورقص و وجد کے احکام اور بعض ان معارف کے بیان میں جو روح سے تعلق رکھتے ہیں


مکتوب 285

سماع ورقص و وجد کے احکام اور بعض ان معارف کے بیان میں جو روح سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرسید محب اللہ مانکپوری کی طرف صادر فرمایا ہے :-

بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کے برگزیدہبندوں پر سلام ہو ۔

بدَانِ اَرْشَدَ اللهُ تَعَالَى طَرِيقَ السّدَادِ وَ الْهَمَكَ صِرَاطَ الرِّشَادِ الله تعالى تجھے سیدھے راستہ کی ہدایت دے اور ہدایت کے راستہ پر چلائے ۔

جان لے کہ سماع و وجدان لوگوں کیلئے فائدہ مند ہے جن کے احوال متغیر اور اوقات متبدل ہوتے رہتے ہیں۔ یعنی کبھی حاضر ہیں اور کبھی غائب اور کبھی واجد ( پانے والے ہیں ) اور کبھی فاقد ( گم کرنے والے ) یہ لوگ ارباب قلوب ہیں، جو تجلیات صفاتیہ کے مقام میں ایک صفت سے دوسری صفت کی طرف اور ایک اسم سے دوسرے اسم کی طرف منتقل اور محول ہوتے رہتے ہیں۔ احوال کا تلون ان کا نقد وقت ہے اور امید کا پراگندہ ہونا ان کے مقام کا حاصل ہے اور دوام حال ان کے حق میں محال ہیں اور استمرار وقت ان کی شان میں مشکل ہے۔ کبھی قبض میں ہیں اور کبھی بسط میں یہ لوگ ابناء الوقت یعنی وقت کے بیٹے اور وقت کے مغلوب ہیں۔ کبھی عروج کرتے ہیں اور کبھی ہبوط کرتے ہیں۔ یعنی نیچے اتر آتے ہیں لیکن تجلیات ذاتیہ والے لوگ جو پورے طور پر قلب سے نکل گئے ہیں اور مقلب قلب یعنی دل کے پھیرنے والے یعنی خدا تک پہنچ گئے ہیں اور کلی طور پر آزاد ہو گئے ہیں۔ ان کا وقت دائمی اور ان کا جال سرمدی ہے نہیں بلکہ وہاں نہ وقت ہے نہ حال، یہ لوگ ابوالوقت اور صاحب تمکین ہیں اور یہی لوگ ایسے واصل ہیں جن کے لئے ہرگز نہ رجوع ہے نہ فقد ہے نہ وجد ہے ہاں منتہیوں میں سے ایک قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کو سماع باوجودیکہ ان کا حال دائمی ہے فائدہ دیتا ہے۔ ان کا بیان اس بحث کے اخیر میں انشاء اللہ تعالیٰ مفصل طور پر لکھا جائے گا۔


اگر سوال کریں کہ حضرت رسالت خاتمیت علیہ و علی آلہ الصلوۃ والتحية نے فرمایا ہے۔ لی اللَّهِ وَقَتْ لَا يَسَعُنِى فِيْهِ مَلَكَ مُقَرَّبٌ وَلَا نَبِيُّ مُرْسِل میرے لئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسا وقت ہے جس میں کسی ملک مقرب اور نبی مرسل کو دخل نہیں ۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وقت دائمی نہیں ہوتا۔

میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کو صحیح مان لینے پر بعض مشائخ نے اس وقت سے وقت مستمرہ مراد رکھا ہے یعنی لِی مَعَ اللهِ وَقَتْ مُسْتَمِر پس اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔

اس کا دوسرا جواب کہتا ہوں کہ وقت مستمرہ میں بھی بھی کیفیت خاصہ حاصل ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وقت سے وقت نادرہ اور یہ کیفیت نادرہ مراد ہو ۔ اس صورت میں بھی یہ اشکال دور ہو جاتا ہے اگر یہ سوال کریں کہ ہو سکتا ہے کہ نغمہ کے سننے کو اس کیفیت نادرہ کے حاصل ہونے میں دخل ہو ۔ پس منبتی بھی اس کیفیت کے حاصل ہونے کے لئے سماع کا محتاج ہوا تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ کیفیت غالباً ادائے نماز کے وقت متحقق ہوتی ہے اور اگر کبھی نماز کے علاوہ بھی حاصل ہو جائے تو نماز ہی کے نتائج اور ثمرات میں ہے اور ممکن ہے کہ حدیث قُرَّةُ عَيْني في الصلوة نماز میں میری آنکھ کی ٹھنڈک ہے ) میں اسی کیفیت نادرہ کی طرف اشارہ ہو اور نیز خبر میں ہے کہ أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنَ الرَّبِ فِى الصَّلوة ( بندہ کو اپنے رب سے زیادہ قرب نماز میں ہوتا ہے ) اور اللہ تبارک تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب ( سجدہ کر اور قرب حاصل کر ) اور کچھ شک نہیں ہے کہ جس وقت میں اللہ تعالیٰ کا قرب زیادہ ہے اس وقت میں غیر کی گنجائش ہرگز نہیں ہے۔ پس اس حدیث اور آیت سے بھی مفہوم ہوتا ہے کہ وہ وقت نماز میں ہے اور وقت کے استمرار اور وصل کے دوام پر دلیل مشائخ کا اتفاق ہے۔


ذوالنون مصری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے مَا رَجَعَ مَنْ رَجَعَ إِلا مِنَ الطَّريق ومن وَصَل لَا رَجَعَ ( نہیں پھرا جو کہ پھر اگر طریق سے اور جو واصل ہو گیا وہ نہیں پھرا ) اور یادداشت جو خداوند جل شانہ کے ساتھ دوام حضور سے مراد ہے ۔ حضرات خواجگان قدس سرہم کے طریق میں امر مقرر ہے۔ غرض دوام وقت سے انکار کرنا نا رسائی کی علامت ہے اور بعض مشائخ ابن عطا وغیرہ کی جو اس بات کے قائل ہیں کہ واصل کی صفات بشریت کی طرف رجوع کرنا جائز ہے اور اس سے وقت کا دائمی نہ ہونا مفہوم ہوتا ہے۔ ان کا خلاف رجوع جواز میں ہے نہ کو وقوع میں کیونکہ رجوع بے شک واقع نہیں ہے۔ كَمَا لَا يَخْفَى عَلَى أَرْبَابِهِ جیسا کہ اس کے جانے والوں پر سے پوشیدہ نہیں ہے۔

پس مشائخ کا اجماع واصل کے عدم رجوع پر ثابت ہو گیا اور بعض کا خلاف رجوع کے جواز کی طرف راجع ہوا۔

منتہیوں میں سے ایک گروہ کے لوگوں کا یہ حال ہے کہ کمال وصول کے درجات میں سے کسی درجہ تک پہنچنے کے بعد جمال لایزال کے مشاہدہ سے ان کو قومی برودت حاصل ہو جاتی ہے اور نسبت تامہ خلق کے ساتھ پیدا ہو جاتی ہے جو ان کو منازل وصول تک عروج کرنے سے ہٹا رکھتی ہے کیونکہ منازل وصول ابھی آگے ہوتے ہیں اور قرب کے مدارج نہایت تک طے نہیں ہوئے ہوتے لیکن باوجود اس برودت کے عروج کی خواہش اور کمال قرب کی آرزو رکھتے ہیں یہ اس صورت میں ان کیلئے سماع فائدہ مند اور حرارت بخش ہوتا ہے ہر گھڑی سماع کی مدد سے ان کو منازل قرب کی طرف عروج میسر ہوتا ہے اور تسکین کے بعد ان منازل سے نیچے آجاتے ہیں لیکن عروج کے ان مقامات سے کوئی نہ کوئی رنگ اپنے ہمراہ لے آتے ہیں اور اس رنگ میں رنگے جاتے ہیں ۔ یہ وجد فقد کے بعد نہیں ہے کیونکہ فقدان کے حق میں مفقود ہے بلکہ دوام وصل کے باوجود یہ و جد منازل وصول کی طرف ترقی کرنے کے لئے ہے۔ منتہیوں اور وا حملوں کا سماع و وجد اسی قسم سے ہے لیکن فنا و بقا کے بعد ان کو اگر چہ جذبہ عطا فرما دیتے ہیں لیکن چونکہ برودت تو یہ رکھتے ہیں اور جذ بہ تنہا منازل عروج تک ترقی حاصل کرنے کے لئے ان کو کافی نہیں ہوتا۔ اس لئے سماع کے محتاج ہوتے ہیں اور مشائخ میں سے ایک اور گروہ کے لوگ ہیں جن کے نفوس درجہ ولایت تک پہنچنے کے بعد مقام بندگی میں اتر آتے ہیں اور ان کے ارواح نفوس کی مزاحمت کے بغیر جناب قدس کی طرف متوجہ رہتے ہیں اور ہر گھڑی نفس مطمئنہ کے مقام سے جو مقام بندگی میں متمکن و راسخ ہو چکا ہے ان کے روح کو مدد پہنچتی رہتی ہے اور ان کے روح کو اس امداد کے باعث مطلوب کے ساتھ خاص نسبت پیدا ہو جاتی ہے۔

ان بزرگواروں کا آرام عبادت کے ساتھ ہے اور ان کی تسکین بندگی اور اطاعت کے حقوق ادا کرنے میں ہوتی ہے۔ عروج کی خواہش ان کے نہایت میں کم ہوتی ہے اور صعود کا شوق ان کے باطن میں قلیل ہوتا ہے۔ ابھی تک ملت کی متابعت ان کے وقت کی پیشانی سے ظاہر ہے اور ان کی بصیرت کی آنکھ سنت کی اتباع کے سرمہ سے سرنگیں ہے۔اسی واسطے یہ لوگ تیز نظر والے ہیں۔ یہ لوگ دور سے اس چیز کو دیکھ لیتے ہیں جس کے دیکھنے سے نزدیک کے لوگ عاجز ہیں۔ یہ لوگ اگر چه عروج کمتر رکھتے ہیں لیکن نورانی ہیں جو اصلی نور سے منور ہیں اور اسی مقام میں شان عظیم اور قد رجلیل رکھتے ہیں۔ ان کو سماع و وجد کی کچھ حاجت نہیں ہے۔ عبادات ان کے لئے سماع کا کام دے جاتیں ہیں اور اصل کی نورانیت عروج سے کفایت بخشتی ہے۔ ان ایک کو اہل سماع و وجد کے اکثر مقلد لوگ جو ان بزرگواروں کی شان عظیم سے واقف نہیں ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو عشاق خیال کرتے ہیں اور ان کو زاہد سمجھتے ہیں گویا یہ لوگ عشق و محبت کو رقص و وجد ہی میں منحصر جانتے ہیں

اور منتہوں میں سے ایک گروہ کے لوگ ہیں جن کو سیر الی اللہ کے قطع کرنے اور بقا باللہ کے ساتھ متحقق ہونے کے بعد جذب قومی عنایت فرماتے ہیں اور جذب وانجذاب کی رسی سے کشاں کشاں لے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں برودت کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ تسلی و آرام ان کے لئے ناجائز ہوتا ہے۔ یہ لوگ عروج میں امور غریبہ کے محتاج نہیں ہوتے ۔ سماع و رقص ان کی خلوت کی تنگ جگہ میں دخل نہیں پاتے اور وجد و تواجد کا ان کے ساتھ کچھ کام نہیں ہوتا اسی انجذابی عروج کے ساتھ نهایت النہایت مرتبہ تک جہاں تک کہ وصول ممکن ہے پہنچ جاتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اس مقام سے جو آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مخصوص ہے حصہ پا لیتے ہیں۔ اس قسم کا وصول گروہ وافراد کے ساتھ مخصوص ہے۔ اقطاب کو بھی اس مقام سے کچھ حاصل نہیں ہے۔ اگر محض فضل ایزدی جل شانہ سے نہایت النہایت کے اس قسم کے واصل کو عالم کی طرف واپس لائیں اور مستعدوں کی تربیت اس کے حوالہ کریں تو اس کا نفس مقام بندگی میں اتر آتا ہے اور اس کی روح نفس کی مزاحمت کے بغیر جناب مقدس کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ ایسا شخص کمالات فردیہ کا جامع اور تکمیلات قطبیہ کا حاوی ہوتا ہے اور قطب سے ہماری مراد اس جگہ قطب ارشاد ہے نہ قطب اوتاد اور مقامات ظلی کے علوم اور مارج اصلی کے معارف اس کو حاصل ہوتے
ت-
ہیں بلکہ جس مقام میں وہ ہوتا ہے وہاں نہ ظل ہے نہ اصل ۔ وہ ظل واصل سے گزرا ہوا ہوتا ایسا کامل مکمل بہت ہی عزیز الوجود اور نایاب ہے۔ اگر بے شمار زمانوں کے بعد بھی ظہور میں آ جائے تو بھی غنیمت ہے۔ ایسے شخص کے وجود سے جہان منور ہوتا ہے اور اس کی نظر دلی امراض کو شفا بخشتی ہے اور اس کی توجہ نا پسندیدہ اور ردی اخلاق کو دور کرتی ہے۔ ایسا شخص مدارج عروج کو تمام کر کے مقام بندگی میں اتر آتا ہے اور عبادت کے ساتھ انس و آرام پاتا ہے۔ مقام عبدیت کے ساتھ کہ جس سے بڑھ کر مقام ولایت میں اور کوئی بلند مقام نہیں ہے ۔ اس طائفہ میں سے ایک شخص کو منتخب کر کے مشرف فرماتے ہیں اور منصب محبوبیت کی قابلیت بھی اسی کو مسلم ہوتی ہے۔ ایسا شخص مرتبہ ولایت کے کمالات کا جامع اور درجہ دعوت کے تمام مقامات کا حادی اور والا بیت خاصہ اور نبوت سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ غرض اس کی شان میں یہ مصرع صادق آتا ہے۔

آنچه خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
ترجمہ
: جو کچھ معشوق سب رکھتے ہیں تو تنہا ہی رکھتا ہے


مبتدی کے لئے وجد وسماع مضر ہے اور اس کے عروج کے منافی ہے خواہ شرائط کے موافق ہی واقع ہو ۔

سماع کی شرائط کا تھوڑا سا حال انشاء اللہ اس رسالہ کے اخیر میں لکھا جائے گا۔ اس کا وجد معلول ہے اور اس کا حال وبال۔ اس کی حرکت طبعی ہے اور اس کی تحرک ہوائے نفسانی پر ہے اور مبتدی سے میری مراد وہ شخص ہے جو ارباب قلوب یعنی صاحبان دل میں سے ہے اور ارباب قلوب وہ لوگ ہیں جو مبتدیوں اور منتہیوں کے درمیان متوسط ہوتے ہیں اور منتہی وہ ہے جو فانی فی اللہ اور باقی باللہ اور واصل کامل ہو اور انتہا کے بہت سے درجات ہیں، جو ایک دوسرے کے اوپر ہیں اور وصول کے بھی بہت سے مراتب ہیں جن کا ابدالاباد یعنی ہمیشہ تک قطع کرنا ناممکن ہے۔

غرض سماع متوسطوں اور ایک قسم کے منتہوں کے لئے بھی نافع اور مفید ہے۔ جیسا کہ اوپر گزر چکا۔ لیکن جانا چاہئے کہ ارباب قلوب کو بھی سماع کی حاجت نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کے لئے جو جذب کی دولت سے مشرف نہیں ہوئے اور سخت ریاضتوں اور کٹھن مجاہدوں کے ساتھ مسافت کو قطع کرنا چاہتے ہیں۔ اس صورت میں سماع و وجد ان لوگوں کا مددگار بن جاتا ہے اور اگر ارباب قلوب مجذوبوں میں سے ہوں تو ان کی سیر کی مسافت جذبہ کی مدد سے قطع ہو جاتی ہے۔ ان کو بھی سماع کی حاجت نہیں ہوتی ۔

اور نیز جاننا چاہئے کہ غیر مجذوب ارباب قلوب کیلئے سماع مطلق طور پر فائدہ مند نہیں ہے بلکہ ر اس سے نفع کا حاصل ہونا چند شرائط پر منحصر ہے۔ وَبِدُونِهَا خَرْطُ الْقِتَادِ ورنہ بے فائدہ رنج ہے۔ سماع کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ اس کو اپنے کمال کا اعتقاد نہ ہو اور اگر اپنی کمالیت کا معتقد ہے تو محبوس ہے۔ ہاں سماع اس کو بھی ایک قسم کا عروج بخشتا ہے لیکن تسکین کے بعد اس مقام سے نیچے اتر آتا ہے۔ باقی تمام شرائط مستقیم الاحوال بزرگواروں کی کتابوں مثل عوارف المعارف وغیرہ میں مفصل طور پر درج ہیں جن میں سے اکثر اس وقت کے لوگوں میں مفقود ہیں بلکہ اس قسم کا سماع و رقص جو آج کل لوگوں میں شائع ہے اور اس قسم کی مجلس و اجتماع جو اس زمانہ میں متعارف اور مشہور ہے کچھ شک نہیں کہ مضر محض اور منافی صرف ہے عروج وہاں کچھ معنے نہیں رکھتا اور صعود اس صورت میں متصور نہیں ہے اور سماع سے مدد و اعانت کا اصل ہونا وہاں مفقود ہے اور مضرت و منافات موجود ۔


تنبیه : سماع در رقص اگرچہ بعض منتہیوں کے لئے بھی درکار ہے لیکن چونکہ یہ لوگ ابھی بہت سے مراتب عروج آگے رکھتے ہیں اس لئے اوساط میں سے ہیں اور جب تک عروج کے مراتب کو جہاں تک کہ ان کا حاصل ہونا ممکن ہے۔ پورے طور پر طے نہ کر لیں انتہا کی حقیقت ان سے مفقود ہے اور اس کو نہایت کہنا سیر الی اللہ کی نہایت تک ہے اور اس سیر کی نہایت اس اسم تک ہے جس کا مظہر سالک ہے۔ اس کے بعد اس اسم اور اس کے متعلقات میں سیر ہوتی ہے اور جب اس اسم اور اس کے متعلقات سے جو صاحبان اسم پر منکشف ہوتے ہیں، گزر کر مسمی حقیقی تک پہنچ جائے اور وہاں فنا و بقا حاصل کرلے تو اس وقت اس کو منتہی حقیقی کہتے ہیں اور در حقیقت سیر الی اللہ کی حقیقت اس صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ نہایت اول کو بھی جو اسم تک ہی ہے۔ سیر الی اللہ کی نہایت اعتبار کیا ہے اور اس فنا و بقا کے اعتبار سے جو اس مرتبہ میں حاصل ہوتا ہے۔ ولایت کا اسم اس پر اطلاع کیا ہے اور یہ جو بعض نے کہا ہے کہ سیر فی اللہ کی نہایت نہیں ہے۔ یہ سیر بقا کے وقت میں ہے اور عروج کی منازل طے کرنے کے بعد اس سیر کی بے نہاتی کے معنی ہیں کہ اگر سیر اس اسم میں مفصل طور پر واقع ہو جائے تو اس اسم کے مندرجات شیونات میں لگا رہتا ہے اور ہرگز اس کی نہایت تک نہیں پہنچتا کیونکہ ہر ایک اسم بے نہایت مندرجہ شیونات پر مشتمل ہے لیکن اگر عروج کے وقت اس کو اس اسم سے گزارنا چاہیں تو ہو سکتا ہے کہ ایک ہی قدم سے اس کو طے کر لے اور نہایت النہایت تک پہنچ جائے اور اگر اسی جگہ مستبلک اور فانی ہیں تو ز ہے شرافت اور اگر خلق کی تربیت کے واسطے اس کو واپس لے آئیں تو ز ہے فضیلت ۔ تو گمان نہ کرے کہ اسم اسم تک پہنچنا آسان کام ہے۔ دیکھیں کس کو اس دولت سے مشرف فرما ئیں اور ان میں کس کو اس اعلیٰ نعمت سے سرفراز کریں اور جس امر کو تو تنزیہ وتقدیس خیال کرتا ہے وہ عین تشبیہ اور تنقیص ہے بلکہ بہت سے مراتب جن کو تو تنز یہ خیال کرتا ہے مقام روح سے بھی بہت نیچے ہیں اور وہ تنزیہ بھی جس کو تو عرش کے اوپر خیال کرتا ہے دائرہ تشبیہ میں داخل ہے اور وہ مکشوف منزہ عالم ارواح سے ہے کیونکہ عرش تمام جہات کا گھیر نے والا اور تمام ابعاد یعنی بعدوں کا منتہا ہے اور عالم روح ، عالم جہات و ابعاد کے ماسوائے ہے کیونکہ روح الا مکانی ہے مکان میں نہیں سما سکتا اور عرش کے ماسوائے روح کا ثابت کرنا تجھے اس وہم میں نہ ڈال دے کہ روح تجھ سے دور ہے اور تیرے اور روح کے درمیان دور دراز مسافت ہے۔ روح کو باوجود لا مکانی ہونے کے تمام مکانوں کے ساتھ برابر نسبت ہے۔ عرش کے ماسوائے کہنا اور معنے رکھتا ہے جب تک تو وہاں نہ پہنچے ان معنی کو نہیں پاسکتا۔

صوفیاء کا ایک گروہ جو تنزیہ روحی تک پہنچے ہیں اور عرش کے اوپر اس کو معلوم کیا ہے ۔ انہوں نے اس تنزیہ کو تنزیہ الہی جل شانہ تصور کیا ہے اور اس مقام کے علوم و معارف کو علوم غامضہ یعنی پوشیدہ علوم کہا ہے اور استوا کے سر کو ہے کہ وہ نور روح کا نور ہے۔ ں مقام میں حل کیا ہے اور حق یہ فقیر کو بھی اس مقام کے حاصل ہونے کے وقت اس قسم کا اشتباہ پیدا ہوا تھا

لیکن جب اللہ تعالیٰ کی عنایت نے اس بھنور سے نکال دیا تو معلوم ہوا کہ وہ نور روح کا نور تھا نہ نورالہی جل شانہ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى هَدْنَا لِهَذَا وَمَا كُنَا لِنَهْتَدِى لَوْ لَا أَنْ هَدَنَا اللهُ ( اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم کو با ایت دی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے ) چونکہ روح الا مکانی ہے اور بچگونگی کی صورت میں مخلوق ہے اس لئے اشتباہ کامل ہو جاتا ہے۔ وَاللهُ يُحِقُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِى السَّبیل اللہ تعالیٰ حق ثابت کرتا ہے اور وہی سیدھے راستہ کی ہدایت دیتا ہے )۔


ان میں سے ایک گروہ اس ذق العرش روح کے نور کو ہمراہ لے کر نیچے آ جاتے ہیں اور اس کے ساتھ بقا حاصل کرتے ہیں اور اپنے آپ کو تشبیہ اور تنزیہ کا جامع جانتے ہیں اور اگر اس نور کو اپنے آپ سے جدا پاتے ہیں تو فرق بعد اجمع کا مقام تصور کرتے ہیں۔ اس قسم کے مغالطے صوفیوں کو بہت پڑ جاتے ہیں ۔ وَهُوَ سُبْحَانَهُ الْعَاصِمُ عَنْ مَطَانِ الأَغْلاطِ وَمُحَالِ الاختباط ( اللہ تعالیٰ ہی لغزش کے مقام اور خبط کی جگہ سے بچانے والا ہے ۔ )

جاننا چاہئے کہ روح اگر چہ عالم بیچوں کے ساتھ نسبت رکھتی ہے لیکن در حقیقت دائرہ چون میں داخل ہے۔ گویا عالم چون اور بارگاہ حقیقی کے درمیان برزخ ہے اور دونوں طرف کا رنگ رکھتا ہے اور ہر دو اعتبار اس میں صحیح ہیں۔ برخلاف بیچوان حقیقی کے کہ چون کو ہرگز اس کی طرف راہ نہیں ہے۔ پس جب تک روح کے تمام مقامات سے عروج نہ کریں اس اسم تک نہیں پہنچتے ۔ پس اول آسمان سے لے کر عرش تک کے تمام طبقات سے گزرنا پڑتا ہے اور لوازم امکان سے پورے طو ر پر نکلنا پڑتا ہے۔ بعد ازاں، عالم ارواح کے تمام لا مکانی مراتب کو بھی طے کرنا پڑتا ہے۔ پھر اس اسم تک پہنچتے ہیں ۔

خواجہ پندارد که مرد واصل است
حاصل خواه بجز پندار نیست


ترجمہ: خیال کرتا ہے خواجہ کہ مرد واصل ہوں
سوائے خیال کے خواجہ کو کچھ نہیں حاصل


حق تعالیٰ وراء الوراء ہے۔ اس عالم خلق کے آگے امر ہے اور عالم امر کے آگے اسماء وشیونات کے ظلی اور اصلی اور اجمالی اور تفصیلی مراتب ہیں۔ ان ظلی اور اصلی اور اجمالی اور تفصیلی مراتب کے بعد مطلوب حقیقی کو ڈھونڈنا چا ہئے ۔ دیکھیں اس جستجو سے کس کو نوازش فرماتے ہیں اور کس صاحب دولت کو اس سعادت سے مشرف کرتے ہیں۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے ) ہمت کو بلند رکھنا چاہئے اور جو کچھ راہ میں آئے اس پر قناعت نہ کرنی چاہئے اور اس کو وراءالوراء میں ڈھونڈنا چاہئے

كَيْفَ الْوُصُولُ إِلَى سُعَادَ وَ دُونَهَا
قلل الجبال و دُونهن خيوق

ترجمہ: ہائے پہنچوں کس طرح میں یار تک
راہ میں ہیں پر خطر کو ہ اور غار


تنبیہ: دائی وصل اور استمراری وقت اس شخص کیلئے مسلّم ہے جو فنائے مطلق نے متحقق ہونے کے بعد بقا باللہ سے شرف ہوا ہو اور اس کا علم حصولی علم حضوری سے تبدیل ہو گیا ہو۔ اس بحث کو ذرا زیادہ تشریح کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔

جاننا چاہئے کہ وہ علم جو عالم کو اپنی ذات کی ماسوائے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے حاصل ہونے کا طریق عالم کے ذہن میں معلوم کی صورت کا حاصل ہونا ہے اور جس علم میں صورت کے حصول کی طرف محتاج نہ ہوں وہ اپنی ذات کا علم ہے اور یہی علم حضوری ہے کیونکہ ذات بنفشہ عالم میں حاضر ہے اور علم حصولی میں جب تک معلوم کی صورت ذہن میں حاصل رہتی ہے۔ تب تک معلوم کی طرف توجہ رہتی ہے اور جب وہ صورت ذہن سے زائل ہو جاتی ہے وہ پہنی توجہ بھی زائل ہو جاتی ۔ ہے۔ پس علم حصولی میں توجہ کا دائی ہونا محال عادی یعنی از روئے عادت کے محال ہے۔ بر خلاف علم حضوری کے کہ اس میں معلوم سے غافل ہونا غیر متصور ہے کیونکہ اس علم کے ثابت ہونے کا منشاء عالم کی ذات کا حضور ہے اور چونکہ یہ حضور دائمی ہے۔ اس لئے ذات کا علم بھی دائمی ہوگا ۔ پس اپنی ذات سے توجہ کا زائل ہونا ممکن نہیں ہے اور بقا اللہ میں علم حضوری ہے جس کا زوال متصور نہیں ہے۔ تو گمان نہ کرے کہ بقا باللہ کے یہ معنی ہیں کہ تو اپنے آپ کو حق تعالیٰ کا میں معلوم کرے۔ جس طرح کہ اس گروہ میں سے بعض نے اس کی تعبیر حق الیقین ت کی ہے۔ ایسا نہیں ہے کیونکہ وہ بقا باللہ جو فنائے مطلق کے بعد حاصل ہوتا ہے اس قسم کے علوم کے ساتھ کچھ منا سبت نہیں رکھتا اور یہ حق الیقین کہ جس کو بعض نے کہا ہے اس بقا کے مناسب ہے جو جذ بہ میں حاصل ہوتا ہے اور وہ بقاء جو اصلی مقصود ہے وہ اور ہے ۔

ذوق ایں ثنا کی بخدا تا نچشی
ترجمہ
:مزہ تجھ کو نہ آئے گا نہ جب تک ان کو کھائے گا


پس، استمرار توجہ اور دوام حضور بقا باللہ کی صورت میں ثابت ہوا۔ بقا باللہ کے ساتھ متحقق ہونے سے پہلے دوام حضور ممکن نہیں ہے۔ اگر چہ بہت لوگوں کو اس مقام تک پہنچنے سے پہلے ہی ملی المخصوص طریقہ علیہ نقشبندیہ میں اس معنی کا وہم دامن گیر ہو جاتا ہے ۔ وَالْحَقُّ مَا حَقَّقْتُ وَالصَّوَابُ مَا الْهِمْتُ وَاللهُ تَعَالَى أعْلَمُ بالصَّوَاب وَالَيْه الْمُرْجِعُ وَالْمَابُ ( لكن حق بیہی ہے جو میں نے ثابت کیا اور بہتر وہی ہے جو مجھے الہام ہوا اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانے والا ہے اور سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے)۔


اَلْحَمْدُ لِلَّهِ اَوَّلًا وَاخِرًا وَالصَّلوةِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِهِ دَائِماً وَ سَرْمَدًا اول و آخر اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہمیشہ صلوۃ و سلام ہو ۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا