2

مکتوب 286: اہل سنت و جماعت کی آرائے صائبہ کے موافق صحیح اعتقاد کے بیان میں


مکتوب 286

اہل سنت و جماعت کی آرائے صائبہ کے موافق صحیح اعتقاد کے بیان میں جو کتاب وسنت سے ماخوذ ہے اور ان لوگوں کے رد میں جنہوں نے کتاب وسنت سے اہل وسنت و جماعت کے معتقدات کے برخلاف سمجھا ہے۔ یا کشف کے ساتھ اہل حق کا خلاف معلوم کیا ہے۔ مولانا امان اللہ فقیہ کی طرف صادر فرمایا ہے:-

بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

بداں اَرُشَدَكَ اللهُ تَعَالَى وَالْهَمَكَ سِوَاءَ الصِرَاطِ اللہ تعالیٰ تجھے سیدھا راستہ کی ہدایت دے۔

تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ طریق سلوک کی جملہ ضروریات میں سے ایک اعتقاد صحیح ہے جس کو علمائے اہل سنت و جماعت نے کتاب و سنت اور آثار سلف سے استنباط فرمایا ہے اور کتاب وسنت کو ان کے معانی پر محمول رکھنا بھی ضروری ہے۔ جن معانی کو تمام علمائے اہل حق یعنی اہل سنت و جماعت نے اس کتاب وسنت سے سمجھا ہے اور اگر بالفرض کشف والہام کے ساتھ ان معانی مفہومہ کے برخلاف کوئی امر ظا ہر ہو تو اس کا اعتبار نہ کرنا چاہئے اور اس سے پناہ مانگنی چاہئے ۔ مثلا وہ آیات و احادیث جن کے ظاہر سے توحید سمجھی جاتی ہے اور ایسے ہی احاطہ اور سریان اور قرب اور معیت ذاتیہ معلوم ہوتے ہیں جب علمائے حق نے ان آیات و احادیث سے یہ معنی نہیں سمجھے ہیں تو اگر اثنائے راہ میں سالک پر یہ معانی منکشف ہو جائیں اور سوائے ایک کے اور کو موجود نہ پائے اور اس کو محیط بالذات جانے اور از روئے ذات کے قریب جانے ۔ اگر چہ اس وقت وہ غلبہ حال اور سکر وقت کے باعث معذور ہے لیکن اس کو چاہئے کہ ہمیشہ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا اور زاری کرتا رہے تا کہ اس کو اس بھنور سے نکال کر وہ امور جو علمائے اہل حق کی آرائے صائبہ کے مطابق ہیں، اس پر منکشف کرے اور ان کے معتقدات حقہ کے برخلاف سرمو ظاہر نہ کرے۔

غرض علمائے اہل حق کے معانی مفہومہ کو اپنے کشف کا مصداق اور اپنے الہام کی کسوٹی بنانا چاہئے کیونکہ وہ معانی جو ان کے مفہومہ معانی کے برخلاف ہیں محل کے اعتبار سے ساقط ہیں کیونا۔ ہر مبتدع یعنی بدعتی اور ضال یعنی گمراہ کتاب وسنت ہی کو اپنے معتقدات کا مقتدا جانتا ہے اور اپنے ناقص فہم کے موافق اس سے معانی غیر مطابقہ سمجھ لیتا ہے ۔ يُضل به كثيرا و يهدى به كَثِيرًا (اکثر کو ہدایت دیتا ہے اور اکثر کو گمراہ کرتا ہے ) اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ علمائے اہل حق کے معانی مفہومہ معتبر ہیں اور ان کے برخلاف معتبر نہیں ہے وہ اس سبب سے کہ انہوں نے ان معانی کو آثار صحابہ وسلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے چشمہ سے اخذ کیا ہے اور ان کے نجوم ہدایت کے انوار سے اقتباس فرمایا ہے۔ اسی واسطے نجات ابدی انہیں پر مخصوص ہے اور فلاح سرمدی انہی کے نصیب ہے۔ أُولَئِكَ حِزْبُ اللهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ) لوگ اللہ تعالیٰ کا گروہ ہیں خبردار یہی اللہ تعالیٰ کا گروہ خلاصی پانے والا ہے ) اور اگر بعض علماء اعتقاد حقہ کے باوجود فرعیات میں سستی کریں اور تقصیرات کے مرتکب ہوں تو عملیات میں مطلق علماء کا انکار کرنا اور سب کو مطعون کرنا محض بے انصافی اور صرف مکابرہ یعنی ہٹ دھرمی ہے بلکہ اس میں دین کی اکثر ضروریات کا انکار ہے کیونکہ ان ضروریات کے ناقل اور ان کے کھوٹے کھرے کو پہچاننے والے یہی لوگ ہیں ۔


لَوْلَا نُورُ هدَايَتِهِمْ لِمَا اهْتَدَيْنَا وَلَوْلا تَميُز هُمُ الصَّوَاب عَن الخطاء لغوينا وَهُمُ الَّذِينَ بَذَلُوا جُهْدَهُمْ فِى إِعْلَاءِ كَلِمَةِ الدِّينِ القويم واسْلَكو الطريق كثيراً مِنَ النَّاسِ عَلَى الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيْمُ فَمَنْ تَابَعَهُمُ افْلَحَ وَ نَجا وَمَنْ خَالَفَهُمْ ضَلَّ و أَضَلَّ اگر ان لوگوں کا نور ہدایت ہم کو نہ پہنچتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے اور اگر یہ لوگ صواب کو خطا سے الگ نہ کر دیتے تو ہم گمراہ رہتے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی ساری کوشش کو دین قویم کے کلمہ کو بلند کرنے میں لگا دیا اور اکثر لوگوں کو صراط مستقیم پر چلایا جس نے ان کی متابعت کی وہ بچ گیا اور نجات پا گیا اور جس نے ان کی مخالفت کی وہ خود بھی گمراہ ہوا اور اس نے اوروں کو بھی گمراہ کیا۔

جاننا چاہئے کہ صوفیہ کے معتقدات آخر کار یعنی منازل سلوک کے طے کرنے اور ولایت کے اعلیٰ درجات تک پہنچنے کے بعد علمائے اہل حق کے یہی معتقدات ہیں۔ علماء ان کو نقل و استدلال سے حاصل کرتے ہیں اور صوفیہ کشف والہام ہے۔ اگر چہ بعض صوفیہ کو اثنائے راہ میں سکر وقت اور غلبہ حال کے باعث ان معتقدات کے مخالف امور ظاہر ہوتے ہیں لیکن اگر ان کو ان مقامات سے گزار کر نہایت کار تک پہنچائیں تو وہ امور گرد کی طرح اڑ جاتی ہیں اور اگر اس مخالفت پر ر ہیں تو بھی امید ہے کہ اس مخالفت پر ان کو مواخذہ نہ کریں گے۔ ان کا حکم مجتہد مخطی کا حکم ہے یعنی مجتہد نے استنباط میں خطا کی اور صوفیہ نے کشف میں ۔


صوفیہ کی جملہ مخالفات میں سے ایک وحدت وجود اور احاطہ اور قرب اور معیت ذاتیہ کا حکم ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا اور ایسا ہی صفات سبعہ یا ثمانیہ کے وجود سے ان کا انکار ہے جو ذات باری تعالی پر وجود زائد کے ساتھ خارج میں موجود ہیں کیونکہ علمائے اہل سنت و جماعت صفات کو حق تعالیٰ کی ذات پر وجود زائد کے ساتھ خارج میں موجود جانتے ہیں۔ ان کا انکار اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت ان صفات کے آئینہ میں ان کو حق تعالیٰ کی ذات مشہود ہوتی ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ دیکھنے والے کی نظر سے آئینہ پوشیدہ رہتا ہے۔ پس اس اختفاء کے باعث خارج میں ان کے عدم وجود کا حکم کر دیتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ اگر خارج میں موجود ہوتیں تو مشہود ہوتیں۔ فَحَيْثُ لَا شَهُودَ لَا وُجُودَ (چونکہ شہود نہیں اس لئے موجود بھی نہیں ) اور علماء پر اس سبب سے کہ انہوں نے صفات کے وجود کا حکم کیا ہے طعن کرتے ہیں بلکہ کفر اور ٹنویہ یعنی دو بینی کا حکم کرتے ہیں ۔ اعاذنا اللہ سبحانہ عن الجرءة فى الطعن (اللہ تعالیٰ ہم کو طعن کی جرات سے بچائے ) اور ان کو اس مقام سے ترقی ہو جاتی اور ان کا شہود اس پردہ سے نکل آتا اور مراتیت کا حکم زائل ہو جاتا اور صفات کو جدا د یکھتے تو انکار کا حکم نہ کرتے اور ان کی نوبت علمائے بزرگوار کے طعنتک نہ پہنچتی ۔


اور ان کے جملہ مخالفات میں سے دوسری یہ ہے کہ یہ لوگ بعض ایسے امور کا حکم کرتے ہیں جو واجب تعالٰی کے ایجاب کو مستلزم ہیں۔ اگر چہ یہ لوگ ایجاب کے لفظ کا اطلاق نہیں کرتے اور ارادہ کو ثابت کرتے ہیں لیکن در حقیقت ارادہ کی نفی کرتے ہیں۔ اس حکم میں یہ تمام لوگ اہل ملت کے مخالف ہیں ۔ ان امور میں سے ایک یہ ہے کہ یہ لوگ اس بات کا حکم کرتے ہیں کہ حق سبحانہ و تعالیٰ قدرت کے ساتھ قادر ہے ان معنی میں کہ اِن شَاءَ فَعَلَ وَ إِنْ لَمْ يَشَاءُ لَمْ يَفْعَلُ (اگر چاہے گا کرے اور اگر نہ چاہے گا نہ کرے گا لیکن شرطیہ اولی کو واجب الصدق جانتے ہیں اور شرطیہ ثانیہ کو متنع الصدق ۔ یہ قول بھی ایجاب تک پہنچ جاتا ہے بلکہ قدرت کا ان معنی کے لحاظ سے بھی انکار ہے جو اہل ملت کے نزدیک ثابت و مقرر ہیں کیونکہ ان کے نزدیک قدرت کے معنی صحت فعل اور ترک کے ہیں اور ان کے قول سے فعل کا وجوب اور ترک کا امتناع لازم آتا ہے۔ فـــایــن هذَا مِنْ ذَلِكَ اس میں اور اس میں بہت فرق ہے۔

اس مسئلہ میں ان کا مذہب بعینہ حکما کا مذہب ہے اور صدق اولٰی کے وجوب اور صدق ثانیہ کے امتناع کے باوجو ارادہ کا ثابت کرنا اور اس اثبات کے ساتھ اپنے آپ کو حکماء سے جدا کرنا نافع نہیں ہے کیونکہ ارادہ کے معنی دو تساوی چیزوں میں سے ایک کو خاص کرنے کے ہیں۔ پس جہاں تساوی و مساوات نہیں ہے وہاں ارادہ بھی نہیں اور اس جگہ وجوب اور امتناع کے درمیان تساوی ومساوات معدوم ہے۔ فافہم ۔

اور ان امور میں سے دوسرا یہ ہے کہ مسئلہ قضا و قدر کی تخصیص میں ان کا بیان اس طرح پر ہے جس کا ظاہر ایجاب ہے اور اس بحث میں ان کی جملہ عبارات میں سے ایک یہ عبارت ہے کہ الْحَاكِمُ مَحْكُومٌ وَالْمَحْكُومٌ حَاكِمٌ (حکام محکوم ہے اور محکوم حاکم ہے ) ایجاب سے قطع نظر کر کے حق تعالی کوکسی کا محکوم بنانا اور کسی کو اس پر حاکم مقرر کرنا بہت ہی برا ہے ۔ اِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ ا مُنكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورًا ( یہ لوگ بہت ہی برے اور جھوٹ بات بولتے ہیں ) اور ابھی اس قسم ا کی بہت کی مخالفتیں ہیں كَقَوْلِهِمْ إِمْكَانَ رَويَّتِ الحَقِّ سُبْحَانَهُ لَيْسَتِ إِلَّا بِالتَّجْلى الصُّورتي (حق سبحانہ کی رویت تجلی صوری کے سوانا ممکن ہے ) یہ قول بھی حق تعالی کی رویت کو مستلزم ہے وہ رویت جو انہوں نے تجلی صوری میں تجویز کی ہے، درحقیقت حق تعالی کی رویت نہیں ہے۔ وہ صبح دمثال کی رویت ہے ۔


يَرَاهُ الْمُؤمِنُونَ بِغَيْر كَيْفِ
وَاِدْرَاتٍ وَّ ضَرَب مِنْ مِثالٍ


ترجمہ : مومن خدا کو دیکھیں گے جنت میں خوش خصال
بے کیف و بے شباہت و بے درک و بے مثال


كَقَوْلِهِمْ بِتَقَدُّمِ أَرْوَاحِ الْكُمَّلِ لَا زَلِيَتِهَا یعنی یہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ کاملین کی ارواح ازل ہی سے قدیم ہیں ۔

ان کا یہ قول بھی اہل اسلام کے مخالف ہے کیونکہ اہل اسلام کے نزدیک تمام عالم بمع اپنے اجزاء کے محدث ہے اور ارواح بھی جملہ عالم میں سے ہیں کیونکہ تمام ماسوائے اللہ کا نام عالم ہے ۔ فافہم

پس سالک کو چاہئے کہ حقیقت حال تک پہنچنے سے پہلے اپنے کشف والہام کے برخلاف علمائے اہل حق کی تقلید کو لازم جانے اور علماء کو حق پر اور اپنے آپ کو خطا پر خیال کرے کیونکہ علماء کی مند انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کی تقلید ہے جن کی تائید وحی قطعی سے کی گئی ہے اور خطا و غلط سے معصوم ہیں اور کشف والہام وحی کے ساتھ ثابت ہوئے احکام کے مخالف ہونے کی صورت میں سراسر خطا اور غلط ہیں۔ پس اپنے کشف کو علماء کے قول پر مقدم کرنا در حقیقت احکام قطعیہ منزلہ پر مقدم کرنا ہے اور یہ مین گمراہی اور تمخض خسارہ ہے اور نیز جس طرح کتاب وسنت کے موافق اعتقاد کا درست کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح ان کے موافق جیسا کہ علمائے مجتہدین نے کتاب وسنت سے استنباط فرمایا ہے اور احکام حلال و حرام و فرض و واجب و مستحب و مکروہ و مشتبہ ان سے نکالے ہیں، ان کا علم و عمل بھی ضروری ہے۔ مقلد کو لائق نہیں کہ مجتہد کی رائے کے برخلاف کتاب وسنت سے احکام اخذ کرے اور ان پر عمل کرے اور عمل کرنے میں اس مجتہد کے مذہب سے جس کا وہ تابع ہے قول مختار کو اختیار کرے اور رخصت سے اجتناب کر کے عزیمت پر عمل کرے اور جہاں ہو سکے مجتہدین کے اقوال جمع کرنے میں کوشش کرے تا کہ متفق علیہ قول پر عمل واقع ہو۔

مثلاً امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ وضو میں نیت کو فرض کہتے ہیں۔ نیت کے بغیر وضو نہ کریں اور ایسے ہی ترتیب اور اعضا کے دھونے اور تواتر کو بھی لازم جانتے ہیں۔ ترتیب و تواتر کی بھی رعایت کرنی چاہئے ۔


امام مالک رحمتہ اللہ علیہ اعضا کے دھونے میں دلک یعنی ملنے کو فرض کہتے ہیں۔ اعضا کو ملنا بھی چاہئے ۔


ایسا ہی مس نساء اور مس ذکر کو وضو کا ناقص یعنی توڑنے والا کہتے ہیں ۔پیس نساء اور مس ذکر کے واقع ہونے کی صورت میں از سرنو وضو کر لے۔ علی ہذا القیاس۔

ان دو اعتقادی و عملی پروں کے حاصل ہونے کے بعد قرب ایزدی جل شانہ کے مدارج عروج کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور منازل ظلمانی اور سالک نورانی کے قطع کرنے کا طالب ہونا چاہئے

لیکن جانا چاہئے کہ ان منازل کا قطع کرنا اور ان مدارج پر عروج کرنا شیخ کامل مکمل راہ داں راہ میں رہنما کی توجہ و تصرف پر وابستہ ہے جس کی نظر امراض قلبی کو شفا بخشنے والی ہے اور اس کی توجہ نا پسندیدہ ردی اخلاق کو دور کرنے والی ہے۔ پس طالب کو چاہئے کہ اول شیخ کی طلب کرے۔ اگر محض فضل خداوندی سے اس کو شیخ کا پتہ بتلادیں تو شیخ کی معرفت کو نعمت عظمیٰ تصور کر کے اپنے آپ کو اس کا ملازم بنائے اور ہمہ تن اس کے تصرف کے تابع ہو جائے۔


شیخ الا سلام ہروی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ الہی یہ کیا ہے جو تو نے اپنے دوستوں کو عطا کیا ہے کہ جس نے ان کو پہچانا اس نے تجھ کو پالیا اور جب تک تجھ کو نہ پایا ان کو نہ پہچانا اور اپنے اختیار کو کلی طور پر شیخ کے اختیار میں گم کر دے اور اپنے آپ کو تمام مرادوں سے خالی کر کے کمر ہمت کو اس کی خدمت میں باندھے اور جو کچھ شیخ اس کو فرمائے اس کو اپنی سعادت کا سرمایہ جان کر اس کے بجا لانے میں جان سے کوشش کرے۔ شیخ مقتدا اگر ذکر کو اس کی استعداد کے مناسب دیکھے گا تو اس کا امر کرے گا اور اگر توجہ و مراقبہ کے مناسب دیکھے گا تو اس کی طرف اشارہ کرے گا اور اگر صرف صحبت ہی میں رہنا اس کیلئے کافی دیکھے گا تو اس کا امر کرے گا۔


غرض شیخ کی صحبت کے حاصل ہونے کے باوجود ذکر اور شرائط راہ میں سے کسی شرط کی حاجت نہیں ہے جو کچھ طالب کے حال کے مناسب دیکھے گا فرما دے گا اور اگر راستہ کی بعض شرائط میں تقصیر واقع ہوگی تو شیخ کی صحبت اس کا تدارک کر دے گی اور اس کی توجہ اس کی کمی کو پورا کر دے گا اور اگر ایسے شیخ مقتدا کے شرف صحبت سے مشرف نہ ہو تو پھر اگر مرادوں میں سے ہے تو اس کو اپنی طرف جذب کر لیں گے اور محض عنایت بیغایت سے اس کا کام کردیں گے اور جو شرط وادب کہ اس کیلئے درکار ہو گا اس کو جتلا دیں گے اور منازل سلوک کے قطع کرنے میں بعض بزرگواروں کی روحانیات کو اس کے راستہ کا وسیلہ بنائیں گے کیونکہ عادت اسی طرح جاری ہے کہ راہ سلوک کے طے کرنے میں مشائخ کی روحانیات کا وسیلہ درکار ہے اور اگر مریدوں میں سے ہے تو اس کا کام شیخ مقتدا کے وسیلہ کے بغیر مشکل ہے۔ جب شیخ مقتدا نہ ملے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجاوز اری کرتا رہے تا کہ اس کو شیخ مقتدا تک پہنچادیں اور نیز چاہئے کہ شرائط راہ کی رعایت کو لازم جانے ۔ شرائط مشائخ کی کتابوں میں مفصل طور پر بیان ہو چکی ہیں ۔ وہاں سے ملاحظہ کر کے ان کو مد نظر رکھیں ۔

شرائط راہ میں سے اعلیٰ اور اعظم شرط نفس کی مخالفت ہے اور وہ مقام ورع و تقویٰ کی رعایت پر موقوف ہے جو محارم یعنی حرام سے ہٹ جانے سے مراد ہے اور محرمات و حرام سے نہیں بیچ سکتے جب تک فضول مباحات سے پرہیز نہ کریں کیونکہ مباحات کے ارتکاب میں نفس کی باگ کا ڈھیلا کرنا مشتبہات تک پہنچا دیتا ہے اور مشتبہ حرام کے نزدیک ہے اور حرام میں گر پڑنے کا احتمام قوی ہے۔ مَنْ حَامَ حَوْلَ الْحَمَى يُؤشَكُ أَنْ يُقَعَ فِيهِ ) جو شخص چرا گاہ کے گرد پھر اوہ بے شک اس میں جا پڑے گا ) پس محرمات سے بچنا فضول مباحات سے بچنے پر موقوف ہوا۔ پس ورع میں فضول مباحات سے بچنا بھی ضروری ہوا اور ترقی و عروج ورع پر وابستہ ہے۔


اس کا بیان یہ ہے کہ اعمال کے دو جزو ہیں ایک امتثال اوامر یعنی امر کا بجالانا دوسرا انتہا ، از منا ہی یعنی منہیات سے بچنا۔ امتثال امر میں قدی یعنی فرشتے بھی شامل ہیں۔ اگر امتثال امر میں ترقی واقع ہوتی تو قدسیوں کو بھی واقع ہوتی اور مناہی سے بچ رہنا قدسیوں میں نہیں ہے کیونکہ وہ بالذات معصوم ہیں اور مخالفت کی مجال نہیں رکھتے تاکہ اس سے نہی کی جائے۔ پس معلوم ہوا کہ ترقی اسی جزو پر وابستہ ہے اور یہ اجتناب سراسر نفس کی مخالفت ہے کیونکہ شریعت ہوائے نفسانی اور ا رسوم ظلمانی کے دفع کرنے اور مٹانے کے لئے وارد ہوئی ہے چونکہ نفس کی طبعی خواہش کا محرم کا ارتکاب یا فضول امر کا ارتکاب ہے جو محرم کے ارتکاب تک پہنچا دیتا ہے۔ اس لئے محرم و فضول کے اجتناب میں نفس کی عین مخالفت ہے۔


اگر سوال کریں کہ امتثال اوامر میں بھی نفس کی مخالفت ہے کیونکہ نفس نہیں چاہتا کہ عبادات میں مشغول ہو پس امتثال بھی ترقی کا مستلزم ہوگا اور چونکہ ملائکہ میں امتثال کی مخالفت مفقود ہے۔ اس لئے ان کی ترقی کا سبب نہیں ہے۔ پس قیاس مع الفارق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عبادات میں نفس کا راضی نہ ہونا اس سبب سے ہے کہ وہ اپنی فراغت و آرام کا خواہاں ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اپنے آپ کو کسی چیز سے مقید کرے اور یہ فراغت اور عدم تقلید بھی محرم میں داخل ہے یا فضول میں ۔ پس امتثال اوامر میں نفس امارہ کی مخالفت اس محرم یا فضول سے اجتناب کے باعث ہے نہ صرف ادائے اوامر کے باعث جو کہ ملائکہ کو بھی حاصل ہے۔ پس قیاس صحیح ہے۔ پس جس طریق میں نفس کی مخالفت زیادہ تر ہے وہی سب طریقوں سے اقرب اور زیادہ تر نزدیک ہے اور کچھ شک نہیں کہ تمام طریقوں میں سے طریقہ علیہ نقشبندیہ میں نفس کی مخالفت کو زیادہ تر مدنظر رکھتے ہیں کیونکہ ان بزرگواروں نے مل عزیمت پر اختیار کیا ہے اور رخصت سے اجتناب فرمایا ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ عزیمت میں محرم و فضول کے اجتناب کے دونوں جزو مد نظر ہوتے ہیں۔ برخلاف رخصت کے کہ فقط محرم کا اجتناب ہے اگر کوئی یہ کہے کہ ہو سکتا ہے کہ باقی طریقوں نے بھی عزیمت کو اختیار کیا ہو تو میں کہتا ہوں کہ اکثر طریقوں میں سماع در قص ہے۔ بڑے تامل کے بعد کام رخصت تک پہنچ جاتا ہے۔ عزیمت کی اس میں کیا مجال ہے ایسا ہی ذکر جہر ہے جس میں رخت سے زیادہ متصور نہیں ۔ اور نیز دوسرے سلسلوں کے مشائخ نے اپنے اپنے طریقوں میں بعض حقانی نیتوں کے باعث امور محدثہ یعنی نئے نئے امور پیدا کئے ہیں جن میں نہایت صحت و تحقیق کے بعد رخصت ہی کا حکم ہے۔ برخلاف اس سلسلہ علیہ کے بزرگواروں کے جوسر موسنت کی مخالفت پسند نہیں کرتے اور ابداع واحداث یعنی کسی نئے امر کا پیدا کر نا روا نہیں رکھتے ۔ پس اس طریق میں نفس کی مخالفت پورے طور پر ہے اس لئے یہی طریقہ سب طریقوں سے اقرب ہے۔ پس طالب کے لئے اس طریق کا اختیار کرنا نہایت ہی بہتر اور مناسب ہے کیونکہ یہ راہ نہایت اقرب ہے اور مطلب کمال رفعت میں ہے لیکن ان کے متاخرین خلفاء کی ایک جماعت نے ان بزرگواروں کے اوضاع واطوار کو ترک کر کے اس طریق میں بعض نئے نئے امور پیدا کئے ہیں اور سماع در قص وذکر جہر کو اختیار کیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اس خاندان بزرگ کے بزرگواروں کی نیتوں کی اصل حقیقت تک نہیں پہنچے ۔ یہ لوگ اپنے زعم میں خیال کرتے ہیں کہ ان محدثات اور مبدعات یعنی نئے امور اور بدعتوں سے اس طریقہ کی تکمیل اور تمیم کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اس کی بربادی اور خرابی میں کوشش کر رہے ہیں ۔ واللهُ يُحِقُ الحق وهو يهدى السبيل الله تعالیٰ حق بات کو پسند کرتا ہے اور وہی سیدھے راستہ کی ہدایت دیتا ہے۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا