2

مکتوب 288: اس بیان میں کہ عاشورہ اور شب برات میں نماز نوافل کو جماعت کے ساتھ ادا نہ کرنا چاہئے


مکتوب 288

اس بیان میں کہ عاشورہ اور شب برات میں نماز نوافل کو جماعت کے ساتھ ادا نہ کرنا چاہئے اور اس کے مناسب بیان میں سیدامین مانکپوری کی طرف صادر فرمایا ہے۔

بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى شَرَّفَنَا بِمُتَابِعَةِ سَيّدِ الْمُرْسِلِينَ وَجَنَّبَنَا عَنْ اِرْتِكَابِ المُبْتَدِعَاتِ فِى الدِّينَ وَالصَّلوةُ وَالسَّلَامُ عَلى مَنْ قَمَعَ بُنْيَانَ الصَّلالَةِ وَرَفَعَ اَعَلامَ الْهِدَايَةِ وَعَلَى الِهِ الابْرَارِ وَصَحْبَهِ الاخْيَارِ : الله تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم کو سید المرسلین کی متابعت سے مشرف فرمایا اور دین کی بدعتوں سے بچایا اور آنحضرت صلى الله عليه وسلم پر جنہوں نے گمراہی کی بنیاد کو اکھیڑا اور ہدایت کے جھنڈوں کو بلند کیا اور ان کی آل ابرار اور اصحاب اخیار پر صلوٰۃ وسلام ۔

جاننا چاہئے کہ اکثر خاص و عام لوگ اس زمانہ میں نوافل کے ادا کرنے میں بڑا اہتمام کرتے ہیں اور فرضی نمازوں میں سستی کرتے ہیں اور ان میں سنتوں اور مستحبوں کی رعایت کم کرتے ہیں۔ نوافل کو عزیز جانتے ہیں اور فرائض کو ذلیل و خوار ۔ فرائض کو اوقات مستحبہ میں بمشکل ادا کرتے ہیں اور جماعت مسنونہ کی تکثیر بلکہ نفس جماعت میں کوئی تنقید نہیں رکھتے ۔ نفس فرائض کو غفلت و سستی سے ادا کرنا غنیمت سمجھتے ہیں اور روز عاشورا اور شب برات اور ماہ رجب کی ستائیسویں رات اور ماہ رجب کے اول جمعہ کی رات کو جس کا نام انہوں نے لیلہ الرغائب رکھا ہے بڑا اہتمام کرتے ہیں اور نوافل کو بڑی جمعیت کے ساتھ جماعت سے ادا کرتے ہیں اور اس کو نیک و مستحسن خیال کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ شیطان کے تسویلات یعنی مکر وفریب ہیں جو سیئات کو حسنات کی صورت میں ظاہر کرتا ہے۔

شیخ الاسلام مولانا عصام الدین ہروی شرح وقایہ کے حاشیہ میں فرماتے ہیں کہ نوافل کو جماعت سے ادا کرنا اور فرض کی جماعت کو ترک کرنا شیطان کا مکر وفریب ہے۔ جانا چاہئے کہ نوافل کو جمعیت تمام کے ساتھ ادا کرنا ، ان مکروہہ اور مذمومہ بدعتوں میں سے ہے جن کے حق میں حضرت رسالت پناہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے ۔ مَنْ أحدث فِي دِينَنَا هذا فَهُوَرَةٌ ( جس نے ہمارے اس دین میں نئی بات نکالی وہ رد ہے۔)


جاننا چاہئے کہ نوافل کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا فقہ کی بعض روایات میں مطلق طور پر مکروہ ہے اور بعض روایات میں کراہت تداعی اور تجمیع ( یعنی بلانے اور جمعیت ) پر مشروط ہے۔ پس اگر بغیر تداعی کے ایک دو آدمی مسجد کے گوشہ میں نفل کو جماعت سے ادا کریں تو بغیر کراہت کے روا ہے اور تین آدمیوں میں مشائخ کا اختلاف ہے اور بعض روایات میں چار آدمیوں کی جماعت بالا تفاق مکروہ نہیں اور بعض روایات میں اصح یہ ہے کہ مکروہ ہے۔


فتاوی سراجیہ میں ہے کہ تراویح اور کسوف کی نماز کے سوا نوافل کو جماعت سے ادا کرنا مکروہ ہے۔ اور فتاوی غیاشیہ میں ہے کہ شیخ امام سرخسی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ رمضان کے سوا نوافل کو جماعت سے ادا کرنا جبکہ تداعی کے طریق پر ہو مکروہ ہے لیکن جب ایک یا دو اقتداء کریں تو مکروہ نہیں اور تین میں اختلاف ہے اور چار میں بلا خلاف کراہیت ہے ۔

اور خلاصہ میں ہے کہ نفلوں کی جماعت جب تداعی کے طریق پر ہو تو مکروہ ہے لیکن جب اذان واقامت کے بغیر گوشہ مسجد میں ادا کئے جائیں تو مکروہ نہیں۔

اور شمس الائمہ حلوانی نے کہا ہے کہ جب امام کے سوا تین آدمی ہوں تو بالا تفاق مکروہ ہے اور چار میں اختلاف ہے اور اصح یہی ہے کہ مکروہ ہے۔

اور فتاوی شافعیہ میں ہے کہ ماہ رمضان کے سوا نوافل کو جماعت سے ادا نہ کریں اور نوافل کو تداعی کے طور پر یعنی اذان واقامت کے ساتھ ادا کرنا مکروہ ہے لیکن اگر ایک یا دو اقتداء کر لیں جو تداعی کے طور پر نہ ہو تو مکروہ نہیں اور اگر تین اقتداء کریں تو اس میں مشائخ کا اختلاف ہے اور اگر چار اقتداء کریں تو بالاتفاق مکروہ ہے۔ اس قسم کی اور بھی بہت سی روایتیں ہیں اور فقہ کی کتابیں ان سے بھری ہوئی ہیں اور اگر کوئی ایسی روایت پیدا ہو جائے جو عدد کے ذکر سے ساکت ہو اور اس سے مطلق طور پر نفل کو جماعت سے ادا کرنا جائز ہوتا ہو تو اس کو مقید پر محمول کرنا چاہئے جو دوسری روایات میں واقع ہے اور مطلق سے مقید مراد لینا چاہئے اور جواز کو دو یا تین پر منحصر کرنا چاہئے

کیونکہ علمائے حنفیہ اگر چہ اصول میں مطلق کو مقید پر حمل نہیں کرتے لیکن روایات کو مقید پر حمل کرنا جائز بلکہ لازم جانتے ہیں اور اگر بفرض محال حمل نہ کریں اور اطلاق پر ہی رہنے دیں تو یہ مطلق اس مقید کا معارض ہوگا۔ اگر چہ قوت میں برابر ہوں اور مساوات ممنوع ہے کیونکہ کراہت کی روایتیں باوجود کثرت کے مختار اور مفتی بہا ہیں۔ برخلاف اباحت کی روایتوں کے اور اگر مساوات کو مان بھی لیں تو ہم کہتے ہیں کہ کراہت واباحت کے دلائل متعارض ہونے کی صورت میں کراہت کی جانب کو ترجیح ہے کیونکہ احتیاط کی رعایت اسی میں ہے جیسا کہ اصول فقہ کے جاننے والوں کے نزدیک مقرر ہے۔

پس وہ نماز جو روز عاشورا اور شب برات اور لیلۃ الرغائب میں جماعت کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور دو دو سویا تین تین سو یا اس سے زیادہ آدمی مسجدوں میں جمع ہوتے ہیں اور اس نماز اور اجتماع اور جماعت کو مستحسن خیال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ فقہاء کے اتفاق سے امر مکروہ کے مرتکب ہیں اور مکروہ کو مستحسن جانا بڑا بھاری گناہ ہے کیونکہ حرام کو مباح جاننا کفر تک پہنچا دیتا ہے اور مکروہ کو احسن سمجھنا ایک درجہ اس سے کم ہے۔ اس فعل کی برائی کو اچھی طرح ملاحظہ کرنا چاہئے اور ا کراہیت کے دفع کرنے میں ان کے پاس سند عدم تداعی ہے ہاں عدم تداعی بعض روایات میں کراہت کو دفع کرتی ہے لیکن ایک یا دو کے ساتھ مخصوص ہے اور وہ بھی اس شرط پر کہ گوشہ مسجد میں ہو۔ وَبِدُونِهَا خَرْطُ الْقِتَادِ اس کے علاوہ بے فائدہ رنج ہے۔


تداعی سے مراد ہے نماز نفل کے ادا کرنے کے لئے ایک دوسرے کو خبر دینا اور یہ معنی اس جماعت میں متحقق ہیں کیونکہ قبیلہ قبیلہ عاشورا کے ایک دوسرے کو خبر کرتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ فلاں شیخ یا فلاں عالم کی مسجد میں جانا چاہئے اور نماز کو جمعیت سے ادا کرنا چاہئے اور اس فعل کو معتبرہ جانتے ہیں اس قسم کا اعلام اذان واقامت سے بھی اہلغ ہے۔ پس تداعی بھی ثابت ہوگئی ۔ اگر تداعی کو اذان واقامت پر ہی مخصوص رکھیں جیسا کہ بعض روایات میں واقع ہے اور اس سے اذان واقامت کی حقیقت مراد لیں تو پھر بھی جواب وہی ہے جو او پر گزر چکا کہ ایک یادو کے ساتھ مخصوص ہے یا دوسری شرط کے ساتھ جو او پر مذکور ہو چکی ۔


جاننا چاہئے کہ ادائے نوافل کی بنیاد اخفا و تستر یعنی پوشیدگی پر ہے تا کہ سمعہ دریا کا گمان نہ گزرے اور جماعت اس کے منافی ہے اور فرائض کے ادا کرنے میں اظہار واعلان مطلوب ہے کیونکہ ریا وسمعہ کی آمیزش سے پاک ہے۔ پس ان کا جماعت کے ساتھ ادا کرنا مناسب ہے یا ہم یہ کہتے ہیں کہ کثرت اجتماع هختنہ پیدا ہونے کا محل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز جمعہ کے ادا کرنے کے لئے سلطان یا اس کے نائب کا حاضر ہونا شرط ہے تا کہ فتنہ کے پیدا ہونے سے امن رہے اور ان مکروہہ جماعت میں بھی فتنہ پیدا ہونے کا قومی احتمال ہے۔ پس یہ اجتماع بھی مشروع نہ ہوگا بلکہ منکر ہوگا۔


حدیث نبوی میں ہے الْفِتْنَةِ نَائِمَة لَعَنَ اللَّهُ مَنْ أَيْقَظَهَا فتنہ سویا ہوتا ہے جو اس کو جگاتاہے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔


پس اسلام کے والیوں اور قاضیوں اور نستسبوں کو لازم ہے کہ اس اجتماع سے منع کریں اور ۔ اس بارے میں بہت ہی زجر و تنبیہ کریں تا کہ یہ بدعت جس سے فتنہ برپا ہو، جڑ سے اکھڑ جائے و وَاللهُ يُحِقُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِى السَّبِيلَ ( الله تعالى حق ثابت کرتا ہے اور وہی سیدھے راستہ کی ہدایت دیتا ہے۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا