مکتوب 289
قضا و قدر کے اسرار اور اس کے مناسب بیان میں مولانا بدرالدین کی طرف صادر فرمایا ہے۔
بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جس نے قضا و قدر کے اسرار کو اپنے خاص بندوں پر ظاہر کیا اور عوام سے اس لئے چھپارکھا کہ وہ راہ راست سے گمراہ نہ ہو جائیں اور سیدھے راستہ سے بہک نہ جائیں اور آنحضرت صلى الله عليه وسلم پر کہ جن کے ساتھ حجت بالغہ کامل ہوئی اور نافرمانبرداروں کے باطل عذر قطع ہوئے اور ان کی نیکو کار آل اور پرہیزگار اصحاب پر جو قدر کے ساتھ ایمان لائے اور قضا سے راضی ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ وسلام ہو ۔
اس کے بعد واضح ہو کہ مسئلہ قضا و قدر میں اکثر لوگ حیران اور گمراہ ہور ہے ہیں اور اس مسئلہ کے اکثر دیکھنے والوں پر اس قسم کے باطل وہم و خیال غالب ہیں کہ جو کچھ بندہ سے اپنے اختیار سے صادر ہوتا ہے، اس میں جبر کے قائل ہیں اور بعض بندے کے فعل کو حق تعالیٰ کی طرف منسوب ہی نہیں کرتے اور بعض نے طریق اعتدال اختیار کیا ہے جس کو صراط مستقیم یا راہ راست کہا جا سکتا ہے اور اس صراط مستقیم کی توفیق حق تعالیٰ نے فرقہ ناجیہ کو عطا فرمائی ہے جن کو اہل سنت و جماعت ( رضی اللہ تعالیٰ عنہم وعن اسلا فہم و اخلا ہم) کہتے ہیں جنہوں نے افراط و تفریط کو چھوڑ کر ان کے درمیان وسط اور میانہ روی کو اختیار کیا ہے۔
حضرت ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا کہ اے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بیٹے کیا اللہ تعالٰی نے کوئی امر اپنے بندوں کے سپرد کیا ہے تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے برتر ہے کہ اپنی ربوبیت اپنے بندوں کے سپرد کرے۔
پھر عرض کیا کہ کیا ان کو جبر کرتا ہے؟ فرمایا کہ یہ بات بھی اللہ تعالیٰ کی شان سے بعید ہے کہ پہلے کسی بات پر مجبور کرے اور پھر اس پر عذاب دے۔
پھر عرض کیا کہ یہ بات کس طرح ہے؟ امام رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے بین بین ہے یعنی نہ جبر کرتا ہے اور نہ سپرد کرتا ہے اور نہ اکراہ اور تسلیط ہے ( یعنی نہ جبر اور غلبہ سے کسی کام پر لگاتا ہے۔)
اسی واسطے اہلسنت و جماعت کے لوگ فرماتے ہیں کہ بندوں کے اختیاری فعل خلق و ایجاد کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہیں اور کسب و اکتساب کی کوشش وسعی کے تعلق کے باعث بندوں کی طرف منسوب ہیں۔ بندوں کی حرکت کو حق تعالیٰ کی قدرت کی طرف منسوب کرنے کے اعتبار سے خلق کہتے ہیں اور بندے کی قدرت کی طرف منسوب کرنے کی اعتبار سے اس کا نام کسب رکھتے ہیں۔ برخلاف اشعری کے کہ وہ اس طرف گئے ہیں کہ بندوں کا اپنے افعال میں ہرگز کچھ اختیار نہیں ہے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بطریق جرى الْعَادَتْ (یعنی عادت اللہ اسی طرح جاری ہے ) بندوں کے اختیار کے بعد افعال کو ایجاد کیا ہے کیونکہ وہ قدرت حادثہ کے لئے کوئی تاثیر نہیں جانتا۔ یہ مذہب بھی جبر کی طرف راجع ہے۔ اسی واسطے اس کو جبر المتوسط کہتے ہیں ۔ استاد ابو اسحاق اسفرائی اصل فعل میں قدرت حادثہ کی تاثیر کا اور دونوں قدرتوں کے مجموعہ سے فعل کے حاصل ہونے کا قائل ہے اور اس نے اثر واحد پر دو مختلف جہتوں کے لحاظ سے دو موثروں کا جمع ہونا جائز قرار دیا ہے۔
قاضی ابو بکر باقلانی وصف فعل میں قدرت حادثہ کی تاثیر کا قائل ہے۔ اس طرح پر کہ اس فعل کو طاعت و معصیت کے ساتھ موصوف کیا جائے۔
اس خاکسار بندہ ضعیف کے نزدیک مختار یہ ہے کہ اصل فعل دونوں میں قدرت حادثہ کی تاثیر ہے کیونکہ اصل کی تاثیر کے بغیر وصف کی تاثیر کے کچھ معنی نہیں ہیں اور وصف اس کا اثر ہے جو اس پر متفرع ہے یعنی اس سے نکلا ہوا ہے لیکن وہ اصل فعل کی تاثیر کی محتاج ہے کیونکہ وصف کا وجود اصل کے وجود پر زائد ہے اور تاثیر کے قائل ہونے میں کوئی معذور نہیں ہے۔
اگر چہ یہ بات اشعری پر ناگوار ہے کیونکہ قدرت میں تاثیر کا ہونا بھی صواب اور بہتری کے
زیادہ قریب ہے اور اشعری کا مذہبت در حقیقت دائرہ جبر میں داخل ہے کیونکہ اس کے نزدیک ہرگز اختیار نہیں ہے اور نہ ہی قدرت حادثہ کی کوئی تاثیر ہے۔ سوائے اس کے فعل اختیاری جبریہ کے نزد یک فاعل کی طرف حقیقی طور پر منسوب نہیں کیا جاتا بلکہ مجازی طور پر اور اشعری کے نزدیک حقیقی را طور پر فاعل کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اگر چہ اس کے لئے حقیقی طور پر اختیار ثابت نہیں کیونکہ فعل حقیقی طور پر بندہ کی قدرت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ خواہ قدرت مجمل طور پر موثر ہو جیسا کہ اشعری کے سوا اہلسنت و جماعت کا مذہب ہے یا مدار محض ہو جیسا کہ اشعری کا مذہب ہے اور اسی فرق سے اہل حق کا مذہب اہل باطل کے مذہب سے جدا ہو جاتا ہے۔ فعل کے فاعل کی طرف سے حقیقی طور پر نفی کرنی اور مجازی طور پر اس کے لئے ثابت کرنا جیسا کہ جبریہ کا مذہب ہے محض کفر ہے اور ضرورت کا انکار ہے۔
اور صاحب تمہید نے کہا ہے کہ جبریہ میں سے جو اس بات کا قائل ہے کہ بندہ سے فعل کا صار ہونا ظاہری اور مجازی طور پر ہے لیکن حقیقت میں اس کے لئے کوئی استطاعت و طاقت نہیں جیسا کہ درخت جو ہوا کے ہلانے سے ہلتا ہے۔ اسی طرح بندہ بھی درخت کی طرح مجبور ہے، یہ بات کفر ہے اور جس شخص کا یہ اعتقاد ہو وہ کافر ہے۔
اور نیز مذہب جبریہ میں اس بات کے قائل ہیں کہ افعال خواہ شر ہوں خواہ خیر حقیقی طور پر بندوں کے نہیں ہیں۔ بندے جو کچھ کرتے ہیں، ان کا فاعل اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ یہ بھی کفر ہے ۔
اگر کوئی سوال کرے کہ جب بندہ کی قدرت کو افعال میں کچھ تاثیر نہیں اور نہ ہی حقیقت میں اس کا کچھ اختیار ہے تو پھر اشعری کے نزدیک افعال کو بندوں کی طرف حقیقی طور پر منسوب کرنے کے کیا معنی ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ قدرت کی اگر چہ افعال میں تاثیر نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو وجود افعال کا مدار بنایا ہے اس طرح پر کہ اللہ بطریق جرى الْعَادَتُ بندوں کو افعال کی طرف اختیار اور قدرت دینے کے بعد افعال کو پیدا کر دیتا ہے۔ گویا قدرت افعال کے وجود کے لئے ملت عاد یہ ہے۔ پس اس لحاظ سے عادت کے طور پر افعال کے صادر ہونے میں قدرت کا دخل ہے کیونا ۔ قدرت کے سوا اور عادت پائی نہیں جاتی۔ اگر چہ افعال میں اس کی کوئی تاثیر نہیں ۔ پیس علت عادیہ کے اعتبار سے بندوں کے افعال ان کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ مذہب اشعری کی تصیح میں نہایت کلام یہی ہے لیکن ابھی اس کلام میں محل تامل ہے۔
جاننا چاہئے کہ اہلسنت و جماعت قدر کے ساتھ ایمان لائے ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ قدرت کا خیر وشر و حلو ومر ، اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے کیونکہ قدر کے معنی احداث اور ایجاد کے ہیں اور ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ کے سوا اور کوئی محدث اور موجد نہیں ہے ۔ لَا إِلهُ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلَّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ ( اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں وہی تمام اشیاء کا پیدا کرنے والا ہے اس کی عبادت کرو ) اور معتزلہ اور قدریہ نے قضا و قدر کا انکار کیا ہے اور انہوں نے خیال کیا ہے کہ بندوں کے افعال صرف بندوں کی قدرت ہی سے حاصل ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ شر کو قضا کرے اور پھر اس پر عذاب دے تو یہ اس کا جور ہے۔ ان کی یہ بات جہالت پر مبنی ہے کیونکہ قضا بندہ سے قدرت اور اختیار کو سلب نہیں کرتی بلکہ اس طرح قضا فرمائی ہے کہ بندہ اپنے اختیار سے اس کو کرے یا چھوڑ دے۔
حاصل کلام یہ کہ قضا اختیار کو واجب کرتی ہے اور اختیار کا ثابت ہونا اس کے منافی نہیں اور نیز حق تعالیٰ کے افعال میں نقص لازم آتا ہے کیونکہ قضا کی طرف نظر کرنے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے افعال یا واجب میں یا ممتنع ۔ اس لئے کہ اگر قضا کا تعلق وجود کے ساتھ ہو تو واجب ہوتا ہے اور اگر عدم کے ساتھ ہوتو ممتنع ہوتا ہے پس اگر اختیار کے ساتھ فعل کا واجب ہونا اس کے منافی ہو تو حق تعالی مختار نہ ہوگا اور یہ کفر ہے اور یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں ہے کہ اس بات کا قائل ہونا کہ بندے کو باوجود کمال ضعف کے افعال کے ایجاد میں مستقل طور پر قدرت حاصل ہے۔ نہایت بیوقوفی اور کمال نادانی ہے۔ اسی واسطے مشائخ ماوراء النهر شكر الله تعالى سعيهم نے اس مسئلہ میں ان کی تضلیل اور تکفیر میں بہت مبالغہ کیا ہے اور یہاں تک فرمایا ہے کہ مجوس ان سے کئی درجے بہتر ہیں کہ انہوں نے ایک شریک کے سوا اور کو ثابت نہیں کیا اور معتزلہ نے اس قدر شریک ثابت کئے ہیں جو شمار سے باہر ہیں اور جبریہ نے یہ خیال کیا ہے کہ بندہ کا اپنا ہر گز فعل نہیں ہے اور اس کی حرکات جمادات کی حرکات کی مانند ہیں جن کے لئے کوئی قدرت نہیں ہے۔ نہ قصداً نہ اختیارا۔ نیز انہوں نے یہ گمان کیا ہے کہ بندوں کو خیر پر ثواب ملے گا اور شر پر عذاب نہ ہوگا اور کا فرو عاصی معذور ہیں ان سے کچھ نہ پوچھا جائے گا کیونکہ افعال سب کے سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور بندہ ان میں مجبور ہے۔ یہ بھی کفر ہے۔ یہ مرجیہ ملعون وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ معصیت ضرر نہیں دیتی اور عاصی کو عذاب نہ دیا جائے گا۔
نبی صلى الله عليه وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ لُعِنَتِ الْمَرْجِيَّةُ عَلَى لِسَانِ سَبِعِينَ نَبِی مرجیہ کو ستر نبی کی زبان پر لعنت کی گئی ہے اور ان کا مذہب باطل ہے اس لئے کہ حرکت بکش اور حرکت ارتعاش میں فرق ظاہر ہے اور سب کو معلوم ہے اور ہم بھی جانتے ہیں کہ حرکت اول اس کے اختیار سے ہے اور دوسری نہیں اور نصوص قطعیہ اس مذہب کی نفی کرتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جَزَاءً بِمَا كَانُو يَعْمَلُونَ ( یہ اس کی جزاء ہے جو عمل کرتے تھے ) اور فرماتا ہے فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ جو چاہے مومن بن جائے جو چاہے کافر بن جائے۔
جاننا چاہئے کہ اکثر لوگ اپنی کم ہمتی اور بدنیتی کے باعث عذر خواہی طلب کرتے ہیں اور اپنی جانوں سے سوال کو دفع کرتے ہیں اور کبھی مذہب اشعری کی طرف اور کبھی مذہب جبری کی طرف میلان کرتے ہیں۔ کبھی اس طرح کہتے ہیں کہ بندہ کا در حقیقت کوئی اختیار نہیں ہے اور اس کی طرف فعل کی نسبت مجازی ہے اور کبھی ضعف اختیار کے قائل ہوتے ہیں جو اجبار گوستلزم ہے۔ اس کے علاوہ اس مقام میں بعض صوفیہ کے کلام کو سنتے ہیں کہ فاعل ایک ہی ہے اس کے سوا اور کوئی فائل نہیں ہے اور بندہ کی قدرت کو افعال میں کوئی تاثیر نہیں اور اس کی حرکات جمادات کی حرکات کی طرح ہیں بلکہ بندہ کا وجود ذات و صفت میں جنگل کے سراب کی طرح ہے جس کو پیاسا پانی سمجھ کر جب اس کے نزدیک آتا ہے تو اس کو کچھ نہیں پاتا۔ اس قسم کی باتیں ان کو اقوال وافعال میں مداہنت اور ستی پر زیادہ دلیر کرتی ہیں۔ پس ہم اس مقام کی تحقیق میں کہتے ہیں اور حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اگر اختیار حقیقی طور پر بندہ کیلئے ثابت نہ ہوتا جیسا کہ اشعری کا مذہب ہے تو اللہ تعالی ظلم کو بندوں کی طرف منسوب نہ کرتا کیونکہ اشعری کے نزدیک نہ ہی بندوں کا اختیار ہے اور نہ ہی ان کی قدرت کی تاثیر ہے بلکہ قدرت اس کے نزدیک محض مدار ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مجید میں کئی جگہ ظلم کو بندوں کی طرف منسوب کیا ہے اور تاثیر کے سوا شخض مدار ہو نا ظلم کو واجب نہیں کرتا۔ ہاں حق تعالیٰ کا بندوں کو رنج و عذاب دینا بغیر اس امر کے کہ ان کے لئے اختیار ثابت ہو۔ ہرگز ظلم نہیں ہے کیونکہ حق سبحانہ و تعالی خود مختار بادشاہ ہے وہ جس طرح چاہتا ہے اپنے ملک میں تصرف کرتا ہے لیکن ظلم کی نسبت ان کے اختیار کے ثبوت کو ستلزم ہے اور اس نسبت میں مجاز کا احتمال خلاف متبادر ہے جس کو بلاضرورت اختیار نہیں کیا جاتا لیکن ضعف اختیار کا قائل ہونا دو حال سے خالی نہیں۔ اگر ضعف سے مراد یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے اختیار کی نسبت بند و کا اختیار ضعیف ہے تو یہ بات مسلّم ہے اور اس میں کسی نوع کو نزاع نہیں ہے اور اگر ضعف کے یہ معنی ہیں کہ افعال کے صادر ہونے میں بندہ کا استقلال نہیں تو یہ بھی مسلّم ہے لیکن اگر ضعف سے یہ مراد ہو کہ افعال میں بندے کے اختیار کو ہرگز دخل نہیں تو ممنوع ہے اور وہی پہلا مسئلہ ہے اور منع کی سند مفصل گزر چکی ہے اس بات کو جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ان کی طاقت اور استطاعت کے
موافق تکلیف دی ہے اور ان کے ضعف خلقت کے موافق تکلیف میں تخفیف کی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُريدُ اللهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا ( الله تعالى تم سے تخفیف کرنا چاہتا ہے اور انسان ضعیف پیدا کیا گیا ہے ) اور کیونکر تخفیف نہ کرے جبکہ اللہ تعالیٰ حکیم اور رؤف اور رحیم ہے۔ اس کی حکمت اور رافت اور رحمت کے لائق نہیں کہ بندے کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف دے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے بندوں کو ایسے ایسے بھاری پتھر اٹھانے کی تکلیف نہیں دی جن کے اٹھانے کی ان میں طاقت نہیں بلکہ ایسی چیزوں سے مکلف کیا ہے جو بندے پر نہایت ہی آسان ہیں مثلا نماز جو قیام ورکوع وسجود اور قرات میسرہ پر مشتمل ہے۔ یہ سب کے سب نہایت ہی آسان ہیں اور ایسے ہی روزوں کا حال ہے کہ نہایت سہولت میں ہیں اور ایسے ہی زکوۃ ہے کہ چالیسواں حصہ مقرر ہے اور آدھایا کل مقرر نہیں کیا تا کہ بندوں کو گراں معلوم نہ ہو۔ سیہ اس کی کمال رافت و مہربانی ہے اور مامور کیلئے خلیفہ بنایا اگر اصل دشوار ہو یعنی وضو کیلئے تیتم کو خلیفہ بنایا اور ایسے ہی حکم کیا ہے کہ جو قیام پر طاقت نہ رکھتا ہو وہ بیٹھ کر پڑھے اور جو بیٹھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو ، وہ لیٹ کر ادا کرے۔ ایسے ہی جو رکوع و سجود کی طاقت نہ رکھتا ہو، وہ اشارے سے ادا کرے۔ وغیرہ وغیرہ جو احکام شرعیہ میں اعتبار و انصاف کی نظر سے دیکھنے والے پر مخفی نہیں ہیں ۔ ان تمام شرعیہ تکلیفات کی حد نہایت آسانی اور سہولت میں ہے اور ان تکلیفات کے صفحوں میں اللہ تعالیٰ کی کمال رافت کا مطالعہ ہوتا ہے۔ ان تکلیفات کی تخفیف کا مصداق عام لوگوں کی خواہش اور تمنا ہے جوان مامورہ تکلیفات کے زیادہ ہونے میں کرتے ہیں۔ یعنی بعض کہتے ہیں کہ فرضی روزے زیادہ ہوتے اور بعض کہتے ہیں کہ فرضی نمازیں زیادہ ہوتیں علی ہذا القیاس اور اس قسم کی تمنا کمال تخفیف ہی کے باعث ہے اور بعض لوگوں کو ادائے احکام میں آسانی کا معلوم نہ ہونا۔ اس سبب سے ہے کہ ان پر نفسانی ظلمتیں اور طبعی کدورتیں غالب ہیں جو نفس امارہ کی خواہش سے پیدا ہوتی ہیں اور نفس امارہ اللہ تعالیٰ کی دشمنی میں قائم ہے۔ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوهُمُ اَلَيْهِ ( مشرکوں پر وہ بات بہت ہی بھاری ہے جس کی طرف تو ان کو بلاتا ہے ) اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ وَإِنَّهَ لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (خاشعین کے سوا نما ز سب پر بھاری ہے ) جس طرح ظاہری مرض احکام کو بمشکل ادا کرنے کا موجب ہے۔ اسی طرح باطنی مرض بھی اس دشواری کا باعث ہے اور شرع شریف نفس امارہ کی رسوم کو منانے اور اس کی خواہشات کو دور کرنے کے لیے وارد ہوئی ہے۔ گویا ہوائے نفس اور شریعت کی متابعت دو طرفیں ہیں جو ایک دوسرے کی نقیض ہیں۔ پس اس دشواری کا وجود ہوائے نفس کے وجود پر دلالت کرتا ہے اور جس قدر ہوائے نفس زیادہ ہوگی اسی قدر یہ دشواری زیادہ ہوگی۔ پس جب خواہش نفس بالکل دور ہو جائے گی۔ یہ دشواری بھی بالکل دور ہو جائے گی لیکن بعض صوفیہ کی کلام جو اختیار کی نفی یا اس کے ضعف میں ابھی مذکور ہو چکی ہے تو جاننا چاہئے کہ اگر ان کی کلام احکام شریعہ کے مطابق نہیں ہے تو اس کا ہرگز اعتبار نہیں ہے اور نہ ہی حجت کے لائق ہے کیونکہ حجت اور تقلید کے لائق علمائے اہل سنت و جماعت کے اقوال ہیں ۔ پس صوفیہ کا جو کلام علمائے اہل سنت و جماعت کے اقوال کے موافق ہے، وہ قبول ہے اور جو ان کے اقوال کے مخالف ہے وہ مردود اور نا مقبول ہے۔ اس کے علاوہ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ مستقیم الاحوال صوفیہ احوال و اعمال اور علوم و معارف میں ہرگز شریعت سے تجاوز نہیں کرتے اور چانتے ہیں کہ شریعت کا بقیہ خلاف حال کی خرابی اور نادرستی سے پیدا ہے۔ اگر حال درست وصادق ہوتا تو شریعت حقہ کے مخالف نہ ہوتا۔ غرض خلاف شریعت زندقہ کی دلیل اور الحاد کی علامت ہے۔ حاصل کلام یہ کہ اگر صوفیہ غلبہ حال یا سکر وقت میں اپنے کشف سے کوئی ایسا کام کرے جو شریعت کے مخالف ہو تو وہ معذور ہے اور اس کا کشف غیر صحیح ہے اور اس کی تقلید نا جائز اور نا درست ہے۔ اس کی کلام کو ظاہر کی طرف سے اور معنی کی طرف حمل کرنا اور پھیرنا چاہئے کیونکہ اہل سکر کی کلام ظاہر کی طرف سے محمول و مصروف کی جاتی ہے ۔ هَذَا مَاتَيَسَّرَ لِى فِى هَذَا الْمُقَامِ بِعَونَ اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَحُسْنِ تَوْفِيقِه ( یہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد سے اور اس کی حسن توفیق سے مجھ سے ہو سکا ۔ )
الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامُ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کےبرگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔