مکتوب 290
ملا ہاشم کی طرف صادر فرمایا ہے۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَالصَّلوةُ وَالسَّلامُ عَلَى سَيّدِ الْمُرْسَلِينَ وَالِهِ وَأَصْحَابِهِ الطَّيِّبِينَ الطَّاهِرِينَ جانا چاہئے کہ وہ طریقہ جو اقرب اور اسبق اور اوفق اور اسلم اور احکم اور اصدق اور اول اور اعلیٰ اور اجل اور ارفع اور اکمل ہے ، وہ طریقہ نقشبندیہ ہے ۔ قَدَّسَ اللهُ تَعَالَى أَزْوَاحَ أَهْلِيهَا وَأَسْرَارَ مَوَالِيها اس طریق کی سب بزرگی اور ان بزرگواروں کی یہ بلندشان سُنت سنیہ علی صاحبها الصلوۃ والسلام و التحیہ کے لازم پکڑنے اور نامرضیہ بدعت سے بچنے کے باعث ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ اصحاب کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی طرح کام کی نہایت ان کی بدایت میں مندرج ہے اور ان کے حضور اور آگاہی نے دوام پیدا کر کے درجہ کمال تک پہنچنے کے بعد دوسروں کی تمام آگاہیوں سے برتری حاصل کی ہے۔
اے بھائی خدا تجھے سیدھے راستہ کی ہدایت دے۔ تجھے جاننا چاہئے کہ جب اس درویش کو
اس راہ کی ہوس پیدا ہوئی تو حق تعالیٰ کی ہدایت نے ہادی راہ ہو کر ولایت پناہ حقیقت آگاہ ایسے طریق کی طرف ہدایت دینے والے جس کی ہدایت میں نہایت مندرج ہے اور ایسا راستہ بتانے والے جو درجات ولایت تک پہنچانے والا ہے۔ دین پسندیدہ کی تائید کرنے والے ہمارے شیخ اور امام خواجہ محمد باقی قدس سرہ کی خدمت میں جو حضرت مشائخ نقشبندیہ قدس سرہم کے خاندان بزرگ کے بڑے خلفاء میں سے تھے، پہنچایا۔ انہوں نے اس درویش کو ذکر اسم ذات تعلیم فرمایا اور مقررہ طریق سے ایسی توجہ فرمائی کہ مجھ میں کمال لذت پیدا ہوئی اور کمال شوق سے گر یہ شروع ہوا۔ ایک روز کے بعد بے خودی کیفیت جو ان بزرگواروں کے نزدیک معتبر ہے اور غنیمت سے موسومہ ہے، طاری ہوئی اور اس بے خودی کی حالت میں، میں نے ایک دریائے محیط کو دیکھا جس میں عالم کی صورتیں اور شکلیں سایہ کی طرح معلوم ہوئیں ۔ یہ بے خودی رفتہ رفتہ غالب ہوتی گئی اور اس قدر بڑھ گئی کہ کبھی ایک پہر روز تک رہتی اور کبھی دوپہر تک اور بعض اوقات تمام رات طاری رہتی جب اس قصہ کو حضرت ایشاں قدس سرہ کی حضور میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ تھوڑی سی فنا حاصل ہو گئی اور ذکر کہنے سے منع فرمایا اور اس آگاہی کی نگہداشت کا امر فرمایا۔ دوروز کے بعد مجھے فنائے اصطلاحی حاصل ہو گئی۔ پھر عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ اپنے کام میں مشغول رہ۔ بعد ازاں فناۓ فنا حاصل ہوئی پھر عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ تو تمام عالم کو ایک دیکھتا ہے اور متصل واحد پاتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ فنائے فنا میں معتبر یہ ہے کہ اس اتصال کی دید کے باوجود بے شعوری حاصل ہو ۔ اسی رات کو اس قسم کی فنا حاصل ہوگئی اس کو بھی عرض کیا اور وہ حالت جو فنا کے بعد حاصل ہوئی ، وہ بھی عرض کی اور کہا کہ میں اپنے علم کو حق سبحانہ کی نسبت حضوری پاتا ہوں اور ان اوصاف کو جو میری طرف منسوب تھے۔ حق سبحانہ کی طرف منسوب پاتا ہوں۔ بعد ازاں وہ نور جو تمام اشیاء کو محیط ہے، ظاہر ہوا اور میں نے اس کو حق سبحانہ و تعالٰی جانا۔ اس نور کا رنگ سیاہ تھا۔ میں نے عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ حق جل سلطانہ پردہ نور میں مشہود ہے اور نیز فرمایا کہ یہ انبساط اور پھیلاؤ جو اس نور میں دکھائی دیتا ہے، علم میں ہے حق تعالیٰ کی ذات کا اشیاء متعددہ کے ساتھ جو بلندی و پستی میں واقع ہیں۔ تعلق ہونے کے باعث منبسط اور پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس کی بھی نفی کرنی چاہئے ۔ بعد ازاں وہ پھیلا ہوا۔ سیاہ نور کم کم اور تنگ ہونے لگا یہاں تک کہ ایک نقطہ بن گیا۔ فرمایا کہ اس نقطہ کی بھی نفی کرنی چاہئے تا کہ حیرت آ جائے میں نے ایسا ہی کیا اور وہ نقطہ موہوم بھی درمیان سے دور ہو گیا اور حیرت تک جا پہنچا کہ جس خود بخود ہے جب میں نے عرض کیا تو فرمایا کہ یہی حضور نقشبندیہ کا تصور ہے اور نسبت نقشبندیہ اسی حضور سے مراد ہے اور اس حضور کو حضور بے غیبت بھی کہتے ہیں اور ہدایت میں نہایت کا مندرج ہونا اس مقام میں حاصل ہوتا ہے۔ اس طریق میں طالب کو اس نسبت کا حاصل ہونا ویسا ہی ہے جیسا کہ دوسرے سلسلوں میں طالب اذکار و اوراد اپنے پیروں سے اخذ کرتے ہیں تا کہ ان پر عمل روا کر کے مقصود تک پہنچیں ۔
قیاس کن زگلستان من بهار مرا
ترجمہ: میری بہار کا کر لے قیاس بستاں سے
یہ عزیز الوجود نسبت ذکر سیکھنے سے دو ماہ اور چند روز بعد حاصل ہوگئی تھی ۔ اس نسبت کے ثابت ہونے کے بعد ایک اور فنا جس کو فنائے حقیقی کہتے ہیں، حاصل ہوئی اور دل کی اس قدر وسعت پیدا ہوئی کہ عرش سے لے کر مرکز زمین تک تمام عالم کا اس کے مقابلہ میں رائی کے دانہ جتنا بھی قدر نہ تھا۔ بعد ازاں اپنے آپ کو اور ہر فرد عالم کو بلکہ ہر ذرہ کو حق تعالیٰ دیکھنے لگا۔ اس کے بعد ہر ذرہ عالم کو الگ الگ اپنا عین اور اپنے آپ کو ان سب کا عین معلوم کرنے لگا حتی کہ تمام عالم کو ایک ذرہ میں تم پایا۔ بعد ازاں اپنے آپ کو بلکہ ہر ذرہ کو اس قد ر منبسط اور وسیع دیکھا کہ تمام عالم بلکہ اس سے کئی گنا اور عالم اس میں سا سکیں بلکہ اپنے آپ کو اور مہر ذرہ کو ایسا پھیلا ہوا نور معلوم کیا جو ہر ذرہ میں ساری ہے اور عالم کی صورتیں اور شکلیں اس نور میں مضمحل اور متلاشی ہیں۔ بعد ازاں اپنے آپ کو بلکہ ہر ذرہ کو تمام عالم کا مقوم ( جس کے ساتھ کسی چیز کا قیام ہو ) معلوم کیا جب میں نے عرض کیا تو فرمایا کہ توحید میں مرتبہ حق الیقین یہی ہے اور جمع الجمع اس مقام سے مراد ہے ۔ بعد ازاں عالم کی صورتوں اور شکلوں کو کہ جن کو اول حق معلوم کرتا تھا اس وقت موہوم معلوم کیا اور یہ ذرہ کو کہ جنہیں بے تفاوت و بے تمیز حق پا تا تھا ، ان کو بھی موہوم پایا اور نہایت حیرت حاصل ہوئی۔
اس اثناء میں خصوص کی وہ عبارت جو اپنے والد بزرگوار علیہ الرحمتہ سے سنی تھی ، یاد آئی ۔ ان شِئْتَ قُلْتَ إِنَّهُ أَى الْعَالَمُ حَقٌّ وَإِنْ شِئْتَ قُلْتَ إِنَّهُ خَلْقُ وَإِنْ شِئت قُلْتَ إِنَّهُ حَقٌّ مَنْ وَجَهِ وَإِنْ شِئْتَ قُلْتَ بِالْحَيْرَتِ لِعدم التمييز بَيْنَهُمَا (اگر تو چاہے تو کہہ دے کہ عالم حق ہے یا تو اگر کہہ دے کہ عالم خلق ہے یا اگر تو کہہ دے کہ ایک وجہ سے حق ہے اور اگر تو ان دونوں میں تمیز نہ ہونے کے باعث حیرت کہہ دے تو بجا ہے ) اس عبارت سے اس اضطراب کی کچھ تسکین ہوگئی ۔ بعد ازاں خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اپنا حال عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ ابھی تیر ا حضور صاف نہیں ہوا۔ جا اپنے کام میں مشغول ہوتا کہ موہوم کی موجودگی کی تمیز ظاہر ہو۔ میں نے خصوص کی عبارت کو جس سے عدم تمیز ظاہر ہوتی تھی ، پڑھا تو فرمایا کہ شیخ نے کامل حال کو بیان نہیں کیا۔ عدم تمیز بھی بعض کی نسبت ثابت ہے۔ حسب الامر اپنے کام میں مشغول ہوا۔ حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ نے حضور کی محض توجہ شریف سے دو روز کے بعد موجود اور موہوم میں تمیز ظاہر کر دی اور میں نے موجود حقیقی کو موہوم تخیل سے ممتاز پایا اور ان صفات و افعال و آثار کو جو موہوم سے دکھائی دیتے تھے۔ میں نے حق سبحانہ سے دیکھا اور ان صفات و افعال کو بھی محض موہوم معلوم کیا اور خارج میں ایک ذات کے سوا کچھ موجود نہ دیکھا جب اس حالت کو خدمت اشرف میں عرض کیا تو فرمایا کہ مرتبہ فرق بعد الجمع یہی ہے اور سعی و کوشش کی نہایت یہیں تک ہے اس کے آگے جو کچھ کسی کے نہاد و استعداد میں رکھا ہے، ظاہر ہو جاتا ہے۔ اس مرتبہ کو مشائخ طریقت نے مقام تکمیل کہا ہے ۔
جاننا چاہئے کہ اس درویش کو جب اول مرتبہ میں سکر سے صحو میں لائے اور فنا سے بقاء کے ساتھ مشرف فرمایا تو جب اپنے وجود کے ذرات میں سے ہر ذرہ میں نظر کی تو حق تعالیٰ کے سوانہ پایا اور ہر ذرہ کو اس کے شہود کا آئینہ معلوم کیا۔ اس مقام سے پھر حیرت میں لے گئے جب ہوشیاری میں لائے تو اپنے وجود کے ذرات میں سے ہر ذرہ کے ساتھ حق تعالیٰ کو پایا۔ نہ ہر ذرہ میں اور پہلا مقام اس دوسرے مقام کی نسبت بہت نیچے نظر آیا۔ پھر حیرت میں لے گئے جب ہوش میں لائے تو اس مرتبہ میں حق سبحانہ کو نہ عالم کے متصل نہ اس کے منفصل اور نہ عالم میں داخل اور نہ اس سے خارج معلوم کیا اور معیت اور احاطہ اور سریان کی نسبت جس طرح کہ اول پاتا تھا، بالکل منتفی ہوگئی ۔ باوجود اس کے اسی کیفیت پر مشہور ہوا بلکہ اس طرح پر کہ گویا محسوس ہے اور عالم بھی اس وقت مشہود تھا لیکن حق تعالیٰ کے ساتھ یہ نسبت مذکورہ کچھ نہ رکھتا۔ پھر حیرت میں لے گئے جب صحو میں لائے تو معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کو عالم کے ساتھ اس نسبت مذکورہ کے سوا ایک نسبت ہے اور وہ نسبت مجبول الکیفیت ہے حق تعالیٰ مجبول الکیفیت نسبت سے مشہور ہوا ۔ پھر حیرت میں لے گئے اور جب اس مرتبہ میں افاقہ حاصل ہوا اور ہوش میں لائے تو حق تعالی اس مجہول الکیفیت نسبت کے بغیر اس طرح مشہور ہوا کہ عالم کے ساتھ کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ نہ معلوم الکیفیت نہ مجہول الکیفیت اور اس وقت عالم اسی خصوصیت سے مشہور تھا۔ اس وقت ایک خاص علم عنایت ہوا جس کے باعث ہر دو شہود کے حاصل ہونے کے باوجو د خلق اور حق تعالیٰ کے درمیان کوئی مناسبت نہ
رہی۔ اس وقت مجھے جتلایا گیا کہ ایم این است حق کی تنزیہ نہیں ہے۔ حق تعالی اس کی سے برتر ہے بلکہ اس کے تکوین کے تعلق کی صورت مثالی ہے کیونکہ حق تعالی تعلقات کونی کے ورا الوراء ہے۔ خواہ وہ تعلق معلوم الکیفیت ہو یا مجهول الكيفيت – هيهات هيهات
كَيْفَ الْوُصُولُ إِلى سُعَادَ وَدُونَهَا
قلل الجبال ودونهنَّ حَيُوف
ترجمہ: ہائے جاؤں کس طرح میں یار تک
راہ میں ہیں پر خطر دشت و جبال
اے عزیز ! اگر قلم کو احوال کی تفصیل اور معارف کے بیان کرنے میں جاری کروں تو بشن دراز ہو جائے ۔ خاص کر تو حید وجودی اور ظلیت اشیاء کے عالم کے معارف اگر بیان کئے جائیں تو جن لوگوں نے اپنی عمر میں تو حید وجودی میں گزاری ہیں ۔ معلوم کر لیں کہ ابھی اس دریائے بے نہایت سے قطرہ بھی حاصل نہیں کیا۔ پھر بڑے تعجب کی بات ہے کہ وہ لوگ اس درونیش کو تو حید وجودی والوں سے نہیں جانتے اور توحید کے منکرین علماء سے سمجھتے ہیں یہ لوگ اپنی کوتاہ نظری سے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ توحیدی معارف پر اصرار کرنا ہی کمال ہے اور اس مقام سے ترقی سراسر نقصان ہے
بے خبر دے چند زخود بے خبر
عیب پسند ند برغم بند
ترجمہ: وہ بے خبر کہ جن کو نہیں اپنی کچھ خبر
کرتے پسند عیب کو میں چھوڑ کر ہنر
یہ لوگ اس امر میں گزشتہ مشائخ کے اقوال کے جو تو حید وجودی میں واقع ہیں ۔ بطور شہادت پیش کرتے ہیں۔ حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ ان کو انصاف دے۔ انہوں نے کہاں سے معلوم کیا ہے کہ ان مشائخ کو ان مقام سے ترقی واقع نہیں ہوئی اور اسی مقام میں محبوس رہے ہیں ، معارف تو حیدی کے نفس حصول میں تو کوئی کلام نہیں کیونکہ وہ تو بیشک واقع ہے بلکہ گفتگو اس مقام سے ترقی کے بارے میں ہے اگر صاحب ترقی کوتو حید کا منکر کہیں اور اس پر اصطلاح باندھیں تو کیا مناقشہ ہے۔ اب ہم اصلی بات کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ قلیل کثیر پر دلالت کرتا ہے اور قطرہ بحر غدیر کی خبر دیتا ہے۔ اس لئے قلیل پر موقوف رکھا اور قطرہ پر کفایت کی ۔
اے برادر جب حضرت خواجہ نے مجھ کو کامل مکمل جان کر تعلیم طریقہ کی اجازت فرمائی اور طالبوں کی ایک جماعت کو میرے حوالہ کیا تو مجھ کو اس وقت اپنی کمال و تکمیل میں تردد تھا۔ آپ نے فرمایا کہ تردد کی کوئی جگہ نہیں کیونکہ مشائخ عظام نے اس مقام کو مقام کمال اور تکمیل فرمایا ہے۔ اگر اس مقام میں تردد کریں تو ان مشائخ کی کمالیت میں تردد لازم آتا ہے۔ حسب الا مر طریقت کی تعلیم کو شروع کیا ہے اور طالبوں کے حق میں توجہ کو مد نظر رکھا اور طالبوں میں اس کا بڑا اثر محسوس ہوا حتی کہ سالکوں کا کام گھڑیوں میں ہونے لگا۔ کچھ مدت تک اس کام کو بڑی سرگرمی اور مستعدی سے کرتا رہا۔ آخر کار اپنے نقص کا علم پیدا ہوا اور ظاہر ہوا کہ تجلی ذاتی برقی جس کو مشائخ بزرگوار نے نہایت کہا ہے اس راہ میں کوئی پیدا نہیں ہوئی اور نیز معلوم نہیں ہوا کہ سیر الی اللہ کیا ہے۔ ان کمالات کا حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس وقت اپنے نقص کا علم روشن ہو گیا۔ وہ طالب جو میرے پاس جمع تھے ،سب کو ! جمع کر کے اپنا نقص بیان کیا اور سب کو وداع کر دیا لیکن طالب اس بات کو تواضع سے جان کر اپنے عقیدہ سے نہ پھرے۔ کچھ مدت بعد حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے حبیب صلى الله عليه وسلم کے طفیل احوال منتظرہ کو حاصل فرمایا۔
جاننا چاہئے کہ حضرات خواجگان قدس سرہم کے طریقہ کا ماحصل یہ ہے کہ اہل سنت و جماعت کے عقائد کے موافق اپنا اعتقاد درست کریں ۔ سنت سنیہ مصطفویہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی متابعت کریں۔ بدعت اور ہوائے نفسانی سے پر ہیز کریں جہاں تک ہو سکے عزیمیت پر عمل کریں اور رخصت سے احتراز کریں۔ اس کے بعد اول جہت جذبہ میں استهلاک و اضمحلال یعنی فاو استغراق و حاصل کریں۔ اس استبلاک کو عدم سے تعبیر کرتے ہیں اور وہ بقاء جو اس جہت میں اس استبلاک کے متحقق ہونے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ اس کو وجود عدم سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی وہ وجود و بقاء جو عدم پر مترتب ہے جس کو استهلاک و اضمحلال کہتے ہیں اس استہلاک یا عدم سے یہ مراد نہیں کہ جس سے بیخبر یا غائب ہو جا ئیں بلکہ باوجود اس استهلاک کے بعض جس سے بیخبر اور غائب ہو جاتے ہیں ور بعض نہیں ہوتے اور اس بقاء والے کیلئے ممکن ہے کہ صفات بشریت کی طرف رجوع کرے اور اخلاق نفسانیہ کی طرف لوٹ آئے۔ برخلاف اس بقاء کے جو فنا پر مرتب ہے کہ اس سے عود کرنا جائز نہیں اور ممکن ہے کہ حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہ نے انہی معنوں کے لحاظ سے فرمایا ہو کہ وجود عدم وجود بشریت کی طرف رجوع کرتا ہے لیکن وجو دفناء، وجود بشریت کی طرف ہرگز عود نہیں کرتا کیونکہ مقام اول میں ابھی کچھ راستہ باقی ہے اور راستہ سے رجوع کرنا ممکن ہے اور دوسرا واصل منتہی ہے اور واصل کیلئے رجوع نہیں ہوتا۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ مَا رِجَعَ مَنْ رَجَعَ إِلَّا مِنَ الطَّرِيقِ وَمَنْ وَصَلَ إِلَيْهِ لَا رجع ( کوئی شخص نہیں مڑا نگر راستہ سے اور جو واصل ہوتا ہے، وہ نہیں مڑتا )
جانا چاہئے کہ وجود عدم والا اگر چہ راہ ہی میں ہے لیکن بدایت میں نہایت درج ہونے کے موافق نہایت کار سے آگاہ ہے جو کچھ منتہی کو آخر میں میسر ہوتا ہے اس کو اس جہت میں اس کا خلاصہ و مجمل طور پر حاصل ہے۔ اس نسبت نے چونکہ منتہی میں شمول اور عموم سیر پیدا کیا ہوا ہے اس لئے وہ نسبت اس کی روحانیت اور جسمانیت میں حاصل ہوئی ہے اور وجود عدم میں خلاصہ قلب پر ہی موقوف ہے ۔ وَلَوْ فِى الْجُمْلَةِ وَإِنْ كَانَ عَلَى سَبِيلِ الْإِجْمَال (اگر چہ فی الجملہ ہو اور اجمال کے طور پر ہو ) اسی واسطے منتہی صاحب تفصیل ہے اور صفات جسمانیہ کی طرف اس کا رجوع کرنا ممتنع ہے کیونکہ اس نسبت نے اس کے تمام مراتب جسمانیہ میں سرایت کر کے اس کو ان صفات سے نکال دیا ہے اور فانی کر دیا ہے اور یہ فنا موہبت محض یعنی اللہ تعالیٰ کی بخشش ہے اور موہبت محض سے رجوع کرنا حق تعالیٰ کی پاک درگاہ کے لائق نہیں ۔ برخلاف وجود عدم والے کے کہ یہ سرایت اس کے حق میں مفقود ہے۔ چونکہ یہ مراتب قلب کے تابع ہیں اس لئے وہ نسبت تبعیت کے طور پر ان میں بھی فی الجملہ ساری ہے اور صورت سے ہٹا کر مغلوب کر دیا ہوا ہے لیکن فنا اور زوال تک نہیں پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے رجوع کرناممکن ہے کیونکہ مغلوب کبھی بعض عوارض کے پیش آنے اور بعض موانع کے لاحق ہونے سے مغلوب ہو جاتا ہے اور واصل عود نہیں کرتا جیسا کہ گزر چکا۔
جاننا چاہئے کہ اس سلسلہ علیہ کے بعض مشائخ قدس سرہیم نے مذکورہ بالا استبلاک و انحلال اور اس بقاء پر جو اس پر مرتب ہے فنا و بقاء کا اطلاق کیا ہے اور تجلی ذاتی اور شہود ذاتی بھی اس مرتبہ میں ثابت کیا ہے اور اس باقی کو واصل کہا ہے اور یادداشت بھی جو حق تعالیٰ کی بارگاہ کے ساتھ دوام آگاہی سے مراد ہے، اسی مقام میں متحقق جانتے ہیں ۔ یہ سب کچھ ہدایت میں نہایت درج ہونے کے اعتبار سے ہے ورنہ فناو بقا منتہی واصل کے سوا کسی کو نہیں ہوتی اور تجلی ذاتی بھی اس سے مخصوص ہے اور دوام حضور بھی واصل منتہی کے لئے ہوتا ہے کیونکہ اس کے لئے ہرگز رجوع نہیں ہوتا لیکن پہلا اطلاق بھی مذکورہ بالا اعتبار سے صحیح ہے اور وجہ وجیہ پر مبنی ہے اور واصل کی فناو بقاء اور تجلی ذاتی اور شہود ذاتی اور یادداشت جو کتاب فقرات حضرات خواجہ احرار قدس سرہ میں واقع ہیں۔ اسی قسم سے ہیں۔
ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ وہ کتاب اور مکتوبات ورسائل جو بعض مخلصوں کی طرف لکھے ہیں ۔ مکتوب الیہ کی درایت و معرفت پر مبنی ہیں اور کلمو النَّاسَ عَلَى قَدْرِ عُقُولِهِمْ (لوگوں) کے ساتھ ان کی عقل کے موافق کلام کرو ) ان میں مدنظر ہے اور رسالہ سلسلہ الاحرار جو حضرت خواجہ احرار قدس سرہ کے طریق پر واقع ہے اور رباعیات مشرح جو حضرت خواجہ پسندیدہ دین کی تائید کرنے والے ہمارے شیخ مولا محمد باقی قدس سرہ نے لکھی ہیں ، اسی قسم سے ہیں اور اس بقا ، کا بلکہ ہر ایک اس بقاء کا جو جذ بہ میں پیدا ہو ۔ اس کا رخ تو حید وجودی میں ہے اسی واسطے بعض مشائخ رحمتہ اللہ علیہ نے حق الیقین کو اس طور پر بیان کیا ہے کہ جس کا انجام تو حید وجودی کی طرف ہے
اور بعض لوگوں کو اسی بیان نے اشتباہ میں ڈال دیا کہ حق الیقین ان کے نزدیک تجلی صوری مراد ہے اور طعن و تشفیع تک نوبت پہنچادی اور حق یہ ہے کہ ان کا یہ حق الیقین جہت جذ بہ میں پیدا ہوا ہے اور یہ معرفت اس مقام کے لائق ہے اور تجلی صوری چیز دیگر ہے كَمَا لَا يَخْفَى عَلَى أَرْبَابِهِ ( جیسا کہ اس کے صاحبان پر واضح ہے ) اور کثرت کے آئینہ میں وحدت کا اس طرح پر مشاہدہ کرنا کہ آئینہ بالکل پوشیدہ ہو جائے اور وحدت کے سوا اور کچھ مشہود نہ ہو ۔ اس مقام کو یادداشت کے مناسب جان کر اس مرتبہ پر یادداشت کا اطلاق کیا ہے اور اس کو تجلی ذاتی اور شہود ذاتی بھی کہتے ہیں اور اس مقام کو مقام احسان فرماتے ہیں اور اس گم ہونے کو وصل سے تعبیر کرتے ہیں ۔
تو در دگم شو وصال این است وبس
ترجمه: وصال نام ہے اس کا کہ ہو تو گم اس میں
یا اصطلاح حضرت خواجہ ناصر الدین خواجہ عبید اللہ احرار قدس سرہ سے مخصوص ہے۔ اس سلسلہ کے مشائخ متقدمین سے کسی نے بھی اس اصطلاح کی نسبت کلام نہیں کی
۔ هرچه خوباں کنند خوب آید
ترجمه: خوب صورت جو کریں وہ خوب ہے
ان کے کلمات قدمی سات سے ہے کہ زبان دل کا آئینہ ہے اور دل روح کا اور روح حقیقت انسانی کا اور حقیقت انسانی حق تعالیٰ کا آئینہ ہے۔ حقائق غیبیہ غیب ذات سے مسافت بعیدہ کو قطع کر کے زبان پر آتے ہیں اور وہاں صورت لفظی قبول کر کے مستعدوں کے کانوں میں
پہنچتے ہیں ۔
اور نیز حضرت خواجہ قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ بعض بزرگواروں نے جن کی میں نے ملازمت کی، دو چیزیں مجھے کر امت کیں۔ ایک یہ کہ جو کچھ لکھوں ، جدید لکھوں نہ قدیم ۔ دوسرا یہ کہ جو کچھ کہوں مقبول ہوگا نہ مردود ۔ ان کی بزرگی اور ان کے معارف کی بلندی ان کلمات قدسیہ سے سمجھی جاتی ہے اور واضح ہوتا ہے کہ آپ ان باتوں کے درمیان نہیں ہیں اور آئینہ سے زیادہ نہیں ہیں ۔ وَاللهُ سُبحَانَهُ أَعْلَمُ بِحَقِيقَةِ الْحَالِ وَمَا عِنْدَهُ مِنْ عُلُوّ دَرَجَتِهِ وَمَنْزِلَةِ كَمَالِهِ ان کی حقیقت حال اور درجہ کی بلندی اور کمال مرتبہ کوحق تعالیٰ ہی جانتا ہے ) اپنے حال کے موافق ان مثنویات کو پڑھا کرتے تھے ۔
مثنوی
ہر کسے از ظن خود شد یارمن
از در ون من نجست اسرار من
سر من از ناله من دور نیست
لیک چشم و گوش را این نور نیست
ترجمه: یار میرا ہر کوئی ظن سے بنا
پر نہ میرے راز کا واقف ہوا
سر میرا کچھ نہیں نالہ سے دور
پر نہیں کان آنکھ میں ہرگز یہ نور
ان کے علوم و معارف کا تھوڑا سا بیان اس مکتوب کے اخیر میں یہ حقیر اپنے فہم قاصر کے
موافق لکھے گا ۔ وَالامُرُ عِندَ اللهِ.
اگر حق سبحانہ و تعالیٰ اپنی کمال عنایت کے ساتھ ان میں سے بعض کو اس جذ بہ کے حاصل ہونے کے بعد سلوک کی دولت سے مشرف فرمائے تو جذبہ کی مدد سے دور دراز مسافت کو جس کا اندازہ پنجاہ ہزار سال کا راستہ مقرر ہے اور آیت کریمہ تَعْرُجُ الْمَلَئِكَةِ وَالرُّوْحُ إِليه فى يوم كَانَ مقْدَارُهُ خَمْسِينَ اَلْفَ سَنَةٍ (فرشتے اور روح اس کی طرف چڑھتے ہیں ایسے دن میں جس کا اندازہ پنجاہ ہزار سال ہے ) میں اسی اندازہ کی طرف اشارہ ہے۔ تھوڑی سی مدت میں قطع کر سکتے ہیں اور فنافی اللہ اور بقا باللہ کی حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں
سلوک کی انتہا سیر الی اللہ کی نہایت تک ہے، جس کو فنائے مطلق سے تعبیر کرتے ہیں بعد ازاں پھر مقام جذبہ ہے جس کو فنافی اللہ اور بقا باللہ کی سیر سے تعبیر کرتے ہیں۔ سیر الی اللہ اس اسم تک سیر کرنے سے مراد ہے جس کا مظہر سالک ہے اور سی فی اللہ اس اسم میں سیر ہوتی ہے کیونک۔ ہر ایک اسم بے نہایت اسماء کا جامع ہے جس کا بیان ابھی انشاء اللہ کیا جائے گا اور یہ اسم مراتب عروج میں مین ثابتہ کے فوق میں ہے کیونکہ سالک کا عین ثابتہ اسی اسم کاظل اور اسی کی صورت علمیہ ہے۔ وہ لوگ جو محض فضل ایزدی جل شانہ کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ اسی اسم سے بھی عروج فرماتے ہیں اور جاں تک خدا کا منظور ہو، بے نہایت ترقیاں کرتے ہیں ۔
مِنْ بَعْدِ هَذَا مَا يَدْقُ صِفَاتُهُ
وَكُتُمُهُ أَحْظى لَدَيْهِ وَاجُمل
ترجمه: بعد ازاں وہ چیز ہے جس کا نہیں ملتا پتا
اس کا پوشیدہ ہی رکھنا اور چھپانا ہے بھلا
اگر چہ تمام صاحبان سلوک کے واصل جہت ثانی میں ان کے ساتھ شریک ہیں اورفنافی اللہ اور بقا باللہ کے ساتھ متفق ہیں لیکن وہ مسافت جو صاحبان سلوک ریاضتوں اور مجاہدوں سے قطع کرتے ہیں اور بڑی دراز مدت میں اس کی منتہا تک پہنچتے ہیں۔ اس بزرگ خانوادہ کے بزرگ دار دولت شہود کی لذت اور مقصود کے پالینے کے ذوق سے اس مسافت کو تھوڑی سی مدت میں قطع فرماتے ہیں اور کعبہ مقصود تک پہنچ جاتے ہیں اور وہاں پہنچ کر اس قدر بے نہایت ترقیاں کرتے ہیں کہ ارباب سلوک کے منتہی اس ترقی و قرب سے بے نصیب ہیں کیونکہ سلوک پر جذ بہ کا مقدم ہونا ایک قسم کی محبوبیت کے معنی چاہتا ہے جب تک مراد نہ ہوں، جذب نہیں کرتے اور جب جذب کرتے ہیں تو بہت ہی نزدیک ہو جاتے ہیں اور قرب زیادہ تر حاصل کرتے ہیں اور بن بلائے جانے میں بہت فرق ہے۔ ذلِک فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے، دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔
مثنوی۔
عشق معشوقاں نهان است وستیر
عشق عاشق با دوصد طبل ونفير
لیک عشق عاشقاں تن زه کند
عشق معشوقاں خوش و فر به کند
ترجمه: عشق معشوقاں ہے پردہ میں چھپا
عاشقوں کا عشق دے ڈنکا بجا
عاشقوں کا عشق تن لاغر کرے
عشق معشوقاں بدن خوشتر کرے
اگر کہیں کہ دوسرے سلسلوں کی مراد بھی اس ترقی اور قرب میں شریک ہیں کیونکہ جذ بہ ان کے سلوک پر بھی مقدم ہے۔ پس دوسرے طریقوں پر اس طریق کی زیادتی کیا ہے اور اس کو اقرب طریق کیوں کہا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ دوسرے طریق اس مطلب کے حاصل ہونے کے لئے موضوع نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بعض کو یہ دولت اتفاقیہ حاصل ہوتی ہے اور یہ طریق اس دولت کے حاصل ہونے کے لئے موضوع ہے اور یادداشت جو اس سلسلہ علیہ کے بزرگواروں کی عبارتوں میں واقع ہے۔ جذ بہ وسلوک کی دونوں جہتوں کے متحقق ہونے کے بعد متصور ہوتا ہے اور اس کو نہایت اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ مراتب شہود و آگاہی کا نہایت ہے ورنہ نہایت مطلق وراء الورا ء ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ شہود یا صورت کے آئینہ میں ہے یا معنی میں یا صورت و معنی کے ماوراء ہے۔ اس شہود بے پردہ کو برقی کہتے ہیں یعنی یہ شہود برق کی طرف حاصل ہوتا ہے۔ پھر پردہ میں ہو جاتا ہے۔ یہی شہود اگر فضل ایزدی سے دائی ہو جائے اور پورے طور پر پردوں کی تنگی سے نکل جائے تو اس کی تعبیر یادداشت سے کرتے ہیں جس کو حضور بے غیبت کہتے ہیں کیونکہ جس وقت مشہود پردۂ احدیت میں متحقق ہوا تو جب تک دائی طور پر بے پردگی پیدا نہ کرے۔ اس پر یادداشت کا اطلاق نہیں کیا جاتا۔ یہاں ایک دقیقہ ہے جس کا جاننا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی واصل کو رجوع نہیں ہوتا کیونکہ اس کی آگاہی دائمی ہے لیکن اس نسبت کا سریان اس کے کلیہ میں برق کی طرح ہے۔ برخلاف ان محبوبوں کے جن کا جذ بہ سلوک پر مقدم ہے۔ ان کے حق میں یہ سریان دائمی ہے اور ان کی کلیہ نے ستر کا حکم حاصل کر لیا ہے اور ستر کا کام کرتا ہے جیسا کہ پہلے اس کی طرف اشارہ ہو چکا۔ یعنی ان کے جسم ان کی روحوں کی طرح نرم ہو جاتے نہیں حتی کہ ان کا ظاہر باطن کی طرح اور باطن ظاہر کی طرح ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی آگاہی میں غیبت کی گنجائش نہیں۔ پس یہ نسبت تمام نسبتوں سے بڑھ کر ہے اور ان حضرات کی کتابوں اور رسالوں میں وہ عبارت انہی معنوں میں شائع ہے کیونکہ نسبت آگاہی سے مراد ہے اور مراتب آگاہی کی نہایت یہ ہے کہ بے پردہ میسر ہو اور دائی ہو اور اس طریق کے مشائخ جو اس نسبت کو اپنے ساتھہ نہیں کرتے ا ہیں تو اس اعتبار سے ہے کہ یہ طریق اس دولت کے حاصل ہونے کے لیے موضون نے جہیں کہ : چکا۔ ورنہ دوسرے سلسلوں کے بزرگواروں کو بھی اگر میسر ہو جائے تو جائز ہے بلکہ واقع ہے
اکابر اہل اللہ کے سرکردہ شیخ ابوسعید ابوالخیر قدس سرہ ان بزرگواروں کی نسبت ایک رمز بیان فرماتے ہیں اور اپنے استاد سے اس کی تحقیق کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آیا یہ حدیت دائمی ہوتی ہے۔ استاد جواب میں فرماتے ہیں کہ نہیں ہوتی شیخ پھر اس مسئلہ کا تکرار کرتے ہیں اور وہی جواب پاتے ہیں اور تیسری بار پھر اسی سوال کا تکرار کرتے ہیں اور استاد جواب میں فرماتے ہیں ہاں ہوتی ہے تو شاذ و نادر ہوتی ہے۔ شیخ رقص کرنے لگے اور کہنے لگے کہ یہ بھی ان نادر امور سے ہے۔ اور یہ جو میں نے بیان کہا تھا کہ نہایت مطلق وراء الوراء ہے۔ اس کا بیان یہ ہے کہ اس آگاہی کے ثابت ہونے کے بعد اگر عروج واقع ہو تو حیرت کے بھنور میں جاپڑتے ہیں اور اس آگاہی کو باقی مراتب عروج کی طرح پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ یہی حیرت ہے جس کو حیرت کبری سے موسوم کرتے ہیں جو بزرگواروں کے ساتھ مخصوص ہے جیسا کہ ان لوگوں کی کتابوں میں واقع ہے۔ ایک بزرگ اس مقام میں فرماتے ہیں ۔.
حسن تو مرا کرد چناں زیر وزبر
کز خال و خط و زلف توام نیست خبر
ترجمہ تیرے حسن نے کیا مجھ کو ایسا زیروزبر
کہ تیرے زلف وخط و خال کی رہی نہ خبر
ایک اور بزرگ فرماتے ہیں ۔.
عشق بالائے کفر ودیں دیدم
برتر از شک واز یقین دیدم
کفر و دین ویقین و شک ہر چار
ہمہ با عقل ہم نشیں دیدم
چوں گذشتم زعقل صد عالم
چون بگویم که کفر وہیں دیدم
ہر چہ، مستند سد راہ تو اند
سد اسکندری ہمیں دیدم
ترجمہ: عشق ہے دین وکفر کے اوپر
ہے یقین اور شک سے برتر
كفر وشک ویقین ودیں دیکھا
عقل کا سب کو ہم نشیں دیکھا
جب کہ دنیا کی عقل سے گزرا
تب ہوا مجھ کو کفر ودیں کا پتا
ایک اور بزرگ فرماتے ہیں ۔
لا دھوزاں سراے روز بہی
بازگشتند و جیب وکیسه تهی
ترجمه : لا وھو دولوں درگہ حق سے
جیب و کیسہ کو خالی لے کے پھرے
اس حیرت کے حاصل ہونے کے بعد مقام معرفت ہے۔ دیکھیں کس کو اس دولت سے مشرف کرتے ہیں اور کفر حقیقی کے بعد جو مقام حیرت ہے، ایمان حقیقی سے کس کی نوازش فرماتے محققین کے مطلوبہ کی نہایت اسی ایمان میں ہے اور حضرت صاحب شریعت علیہ الصلوۃ والسلام کی دعوت اور کمال متابعت کا مقام کہ اَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہوں، میں اور میرے تابعدار بصیرت پر ہیں ) میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ اسی مقام میں ہے اور دین و دنیا کے سردار علیہ الصلوۃ والسلام اسی ایمان کو طلب کیا کرتے تھے ۔ اَللَّهُمَّ أَعْطِنِى إِيمَانًا صَادِقاً وَيَقِينًا لَيْسَ بَعْدَهُ كُفْرٌ (یا اللہ تو مجھے وہ ایمان صادق اور یقین عطا کر جس کے بعد کفر نہیں ) اور کفر حقیقی سے جو مقام حیرت ہے، پناہ مانگتے تھے ۔ اَعُوذُبِكَ مِنَ الْفَقْرِ وَالْكُفْرِ ( میں فقر اور کفر سے پناہ مانگتا ہوں ) یہ مراتب حق الیقین کا نہایت ہے اس مقام میں علم و عین ایک دوسرے کا حجاب نہیں ہیں ۔
هَنِيئًا لأرْبَاب النَّعِيمِ نَعِيمُهَا
وَلِلعَاشِقِ الْمِسْكِينِ مَا يَتَجَرَّمُ
ترجمہ: مبارک منعموں کو اپنی نعمت مبارک عاشقوں کو در دو کلفت ۔
اے برادر خدا تجھے ہدایت دے۔ جان لے کہ ان عزیزوں کا جذ بہ دو قسم پر ہے۔
پہلا وہ جذبہ ہے جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے پہنچا ہے اور اسی اعتبار سے ان کا طریقہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی طرف منسوب ہے اور یہ جذبہ ایک خاص قسم توجہ کے ساتھ جو تمام موجودات کی قیوم ہے اور اس میں استہلاک و اضمحلال یعنی فنا و استغراق کے ساتھ حاصل ہوتا ہے۔
دوسری قسم جذبہ کی وہ ہے جس کے ظہور کا مبدء اس طریق میں حضرت خواجہ نقشبند قدس اللہ سرہ ہیں اور یہ جذ بہ معیت ذاتیہ کی راہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جذبہ حضرت خواجہ قدس سرہ سے ان کے پہلے خلیفہ خواجہ علاء الدین قدس سرہ کو پہنچا اور چونکہ یہ اپنے وقت کے قطب ارشاد تھے ۔ اس لئے انہوں نے اپنے اس جذبہ کے حاصل ہونے کے لئے ایک خاص طریقہ وضع کیا۔ وہ طریقہ ان کے خاندان کے خلفاء میں طریقہ علائیہ کے نام سے مشہور ہے اور ان کی عبارت میں اس طرح واقع ہے کہ سب طریقوں سے اقرب طریقہ علیہ علائیہ ہے۔ اس جذبہ کی اصل اگر چہ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ سے ہے لیکن اس کے حاصل ہونے کے لئے طریق کا وضع کرنا خواجہ علاء الدین قدس سرہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ یہ طریقہ بہت کثیر البرکت ہے۔ اس طریق پر تھوڑ اسا چلنا دوسرے طریقوں پر بہت چلنے سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ اب تک خانوادہ علانیہ واحراریہ کے مشائخ کے خانما ، اس دولت عظمیٰ سے بہرہ مند ہیں اور اسی راہ سے طالبوں کی تربیت فرماتے ہیں۔ حضرت خواجہ احرار قدس کو علاء سرہ کو یہ دولت عظمی حضرت مولانا یعقوب چرخی قدس سرہ سے جو حضرت خواجہ علا والدین قدس سرہ کے خلفاء میں سے ہیں ، پہنچی ہے۔
اول قسم کا جذبہ جو حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف منسوب ہے۔ اس کے حاصل ہونے کے لئے جدا طریقہ موضوع ہے اور وہ طریق و قوف عددی ہے اور وہ سلوک بھی جو اس جذبہ کے حاصل ہونے کے بعد تحقق ہوتا ہے۔ دو قسم پر ہے بلکہ اس کی کتنی قسمیں ہیں۔ ایک وہ قسم ہے جس کے طریق سے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ مقصود تک پہنچتے ہیں اور حضرت رسالت خاتمیت ملی صاحبها الصلوة والسلام والتحیہ بھی اسی جذبہ اور اسی طریق سے مطلب تک پہنچے ہیں اور حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کمال اخلاص کے باعث جو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ساتھ رکھتے تھے اور ان میں فانی تھے ۔ باقی تمام اصحاب رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین میں سے اسی خاص طریق کے ساتھ منصوص ہوئے ہیں اور جذ بہ سلوک کی یہی نسبت اسی خصوصیت کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچی ہے اور چونکہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی اولاد کرام سے تھیں اس لئے ان دونوں اعتباروں کے لحاظ سے حضرت امام رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وَلَدَنِی أَبُو بَكْرٍ مَرَّتَيْنِ ( مجھے حضرت ابوبکر اللہ نے دوبار جنا ) اور ہونا۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے بزرگ آباؤ اجداد کی طرف سے جدا نسبت حاصل تھی ۔ اس لئے ان دونوں طریقوں کے جامع ہوئے ہیں اور اس جذبہ کو ان کے سلوک کے ساتھ جمع کیا اور اس سلوک سے مقصود تک پہنچے ۔
ان دونوں سلوک کے درمیان فرق یہ ہے کہ حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلوک سیر آفاقی سے قطع ہوتا ہے اور حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلوک سیر آفاقی سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ ان کے سلوک کی مثال اس طرح ہے کہ جیسے خانہ جذبہ سے نقب کھود کر مطلوب تک پہنچادیں۔
سلوک اول میں معارف کی تحصیل ہے اور سلوک ثانی میں غلبہ محبت ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہر علم کا دروازہ بن گئے اور حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کی خلت یعنی دوستی کی قابلیت حاصل کی۔
آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ لَوْ كُنتُ مُتَخِذَا أَحَداً خَليلا لا تَّخَذْتُ اَبا بَكْرٍ خَلِيلاً ( اگر ہم کوکوئی اپنا خلیل بنانا ہوتا تو حضرت ابو بکر پیٹی کو بناتا ) اور حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے جذبہ ) کہ جس کی بنیاد محبت پر ہے ) جذ بہ اور سلوک آفاقی ( کہ جس کا منشا علوم و معارف ہیں) کے جامع ہونے کے اعتبار سے محبت و معرفت سے بہت سا حصہ حاصل کیا۔
بعد ازاں حضرت امام رضی اللہ عنہ نے اس نسبت مرکبہ کو امانت کے طور پر سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی قدس سرہ کے حوالہ کیا ۔ گویا یہ بار امانت ان کی پشت پر رہا ہے تا کہ بتدریج امانت والوں کو پہنچا ئیں ورنہ ان کی توجہ کا رخ دوسری طرف ہے اور اس امانت کے عمل سے زیادہ کوئی مناسبت اس نسبت کے ساتھ نہیں رکھتے اور اس تکمیل میں بھی کئی حکمتیں ہیں۔ اگر چہ اس نسبت کے اٹھانے والے کم نصیب ہیں لیکن اس نسبت کو ان بزرگواروں کے انوار سے وافر حصہ حاصل ہے۔ مثلا ایک قسم کا سکر جو اس نسبت میں ملا ہوا ہے سلطان العارفین کے انوار کا اثر ہے۔ وہ سکر مبتدیوں کو جس سے غائبہ اور بیہوش کر دیتا ہے۔ بعد ازاں آہستہ آہستہ چھپتا جاتا ہے اور اس نسبت کے غلبہ محو کے باعث مراتب صحو میں مل جل جاتا ہے ۔ گویا ظاہر میں صحو ہے اور باطن میں سکریہ بیت ان کے حال کے مناسب ہے۔
از درون شو آشناؤ از برول بیگانه شو
آنچنیں زیبا روش کم میبو داندرز جہاں
ترجمہ: اندر سے ہو تو آشنا باہر سے ہو بیگا نہ تو
ایسی نرالی طرز کا ملتا نہیں ہے خوب رو .
علی ہذا القیاس ہر بزرگ سے نور حاصل کر کے وہ نسبت اپنے اہل تک پہنچ گئی اور وہ عارف ربانی خواجہ عبد الخالق مجید وانی قدس سرہ ہیں جو حضرات خواجگان قدس سرہم کے سلسلہ کے سر حلقہ ہیں۔ ان کے زمانہ میں یہ نسبت پھر از سر نو تازہ ہو کر ظاہر ہوئی۔ ان کے بعد اس سلسلہ میں سلوک آفاقی کی جہت پھر مخفی ہو گئی اور جذبہ کے حاصل ہونے کے بعد دوسری راہ سے سلوک کیا اور عروج پیدا کیا اور اس زمانہ تک کہ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ عالم ظہور میں آئے ۔ وہ نسبت پھر جذ بہ اور سلوک آفاقی کے ساتھ ظاہر ہوئی اور ان ہر دو جہت کے ساتھ کمال معرفت و محبت کی جامع ہوگئی اور اس جذبہ کی ایک خاص قسم کے علاوہ ایک اور جذبہ بھی جو معیت کی راہ سے پیدا ہوتا ہے ان کو عطا فر مایا جیسا کہ اوپر گزر چکا اور ان کمالات میں سے بہت سا حصہ ان کے قائم مقام حضرت خواجہ علاء الحق والدین قدس سرہ کو حاصل ہوا اور جذبہ اور سلوک آفاقی کی دونوں دولتوں سے مشرف ہوئے اور قطب ارشاد کے مقام تک پہنچ گئے ۔
ایسے ہی حضرت خواجہ محمد پارسا قدس سرہ نے ان کے کمالات سے کامل حصہ حاصل کیا اور حضرت خواجہ قدس سرہ اپنی زندگی کے اخیر ان کے حق میں فرمایا کرتے تھے کہ جس کو مجھے دیکھنے کی خواہش ہو ، وہ محمد کو دیکھ لے۔
اور نیز ان کے حق میں منقول ہے کہ فرمایا کرتے تھے کہ بہاؤالدین کے وجود سے مقصود محمد کا ظہور ہے اور حضرت خواجہ محمد پارسا قدس سرہ کو باوجود ان کمالات کے مولا نا خواجہ محمد عارف ریوگری قدس سرہ کی فردیت کی نسبت بھی حاصل تھی جو خیر زندگی میں ان کو عطا فرمائی تھی اور اسی نسبت کا غلبہ ان کو شیخی اور طلباء کی تکمیل سے مانع ہو اور نہ کمال و تکمیل میں ان کو بڑا اعلیٰ درجہ حاصل تھا۔
حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ ان کے حق میں فرمایا کرتے تھے کہ اگر وہ شیخی کرے تو تمام جوان اس سے منور ہو جائے اور مولا نا عارف قدس سرہ نے اس نسبت فردیت کو اپنے والد بزرگوار مولانا بہاؤ الدین قدس سرہ سے حاصل کیا تھا۔
جاننا چاہئے کہ نسبت فردیت کی توجہ پورے طور پر حق تعالی کی طرف ہوتی ہے اور شیخی اور تکمیل اور دعوت کے ساتھ اس کا کچھ تعلق نہیں ہوتا۔ اگر چہ یہ نسبت قطب ارشاد کی نسبت کے ساتھ جو خلق کی دعوت و تکمیل کا مقام ہے، جمع ہو جائے تو پھر دیکھنا چاہئے کہ اگر فردیت کی نسبت غالب ہے تو ارشاد و تکمیل اس صورت میں زبون ہے ورنہ ان نسبتوں والا حد اعتدال میں ہے۔ اس کا ظاہر سب کا سب خلق کے ساتھ ہے اور اس کا باطن حق تعالیٰ کے ساتھ ۔ دعوت خلق کے مقام میں میں اعلیٰ درجہ انہی دونوں نسبتوں والے کو حاصل ہوتا ہے۔ اگر چہ قطب ارشاد کی نسبت تنہا بھی بعوت میں کافی ہوتی ہے مگر ان بزرگواروں کو اس مقام میں مرتبہ دیگر حاصل ہوتا ہے۔ ان کی نظر دلی امراض کو شفا بخشتی ہے اور ان کی صحبت برے اور نا پسند اخلاق کو دور کرتی ہے۔
سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی قدس سرہ اس دولت اور اس مرتبہ سے مشرف ہوئے تھے ۔ قطبیت کی نسبت ان کو شیخ سری قسطی قدس سرہ سے حاصل ہوئی تھی اور فردیت کی نسبت شیخ محمد قصاب قدس سرہ سے۔
حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کے خلفاء کے بعد اس خاندان بزرگ کے چراغ روشن حضرت خواجہ احرار قدس سرہ تھے جو خواجگان قدس سرہم کے جذبہ کو تمام کر کے سیر آفاقی کی طرف متوجہ ہوئے اور اسم تک سیر کو پہنچا کر بغیر اس بات کے کہ اسم میں آکر اس میں استہلاک اور فنا پیدا کریں۔ پھر خانہ جذبہ میں آگئے اور خاص استبلاک و اضمحلال یعنی استغراق وفنا اسی جہت میں پیدا کی اور بقاء بھی اسی جہت میں حاصل کی۔ غرض اس جہت میں شان عظیم رکھتے تھے اور وہ علوم و معارف جو فنا و بقاء سے حاصل ہوتے ہیں۔ ان کو اسی مقام میں حاصل ہو گئے تھے اگر چہ جہتوں کے متغائر ہونے کے باعث علوم میں تفاوت پیدا ہو گیا۔ ان تفاوتوں میں سے ایک تو حید وجودی کا اثبات اور عدم اثبات ہے اور ایسے ہی ان امور کا ثابت کرتا ہے جو تو حید وجودی کے مناسب ہیں ۔ مثلاً احاطه و سریان اور معیت ذاتیہ اور کثرت میں وحدت کا اس طرح پر مشاہدہ کرنا کہ کثرت بالکل مخفی ہو جائے اور سالک کی زبان پر کلمہ انا ہر گز نہ آنے پائے وغیرہ وغیرہ بر خلاف ان علوم کے جو اس بقاء پر مترتب ہوتے ہیں جو فنائے مطلق کے بعد ہے کیونکہ وہ اس طرح نہیں بلکہ ان کے علوم شریعت حقہ کے علوم کے موافق ہیں اور اس قسم کے حیلے بہانے اور تکلفات اور سوال و جواب کے محتاج نہیں ہیں ۔
غرض وہ بقاء جو جذ بہ کا جذ بہ ہو، سکر سے نہیں نکالتا اور صحو میں لی جہت میں ہے ، خواہ کسی نہیں لاتا ۔ اسی واسطے باوجود بقاء کے انا باقی پر رجوع نہیں کرتا اور اس کی طرف اشارہ نہیں کرتا کیونکہ جذبہ میں غلبہ محبت ہوتا ہے اور غلبہ محبت کو سکر لازم ہے اور سکر کسی طرح اس سے جدا نہیں ہوتا۔ اس لئے اس کے علوم بھی سکر آمیز ہوتے ہیں۔ مثلاً وحدت وجود کا قائل ہونا جوسکر اور غلبہ محبت پر مبنی ہے۔ اس طرح پر کہ محبت کی نظر میں سوائے محبوب کے اور کوئی چیز باقی نہیں رہتی جس لئے وہ ماسوائے محبوب کے سب کی نفی کا حکم دیتا ہے اور اگر صحو میں آتا تو محبوب کا شہود اس کے ماسوائے کے شہود سے مانع نہ ہوتا اور وحدت وجود کا حکم نہ کرتا اور وہ بقا جو فنائے مطلق کے بعد ہے اور سلوک کی نہایت ہے، اس کا منشا اور مبدء صحو و معرفت ہے۔ سکر کو اس مقام میں کچھ دخل نہیں جو کچھ فنا کی حالت میں سالک سے گم ہوا ہوتا ہے۔ سب رجوع کر آتا ہے لیکن اصل کے رنگ میں رنگا ہوتا ہے اور فنا کے بعد بقاء کے یہی معنی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے علوم میں سکر کی مجال نہیں ہوتی۔ ان کے علوم انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کے علوم کے مطابق ہوتے ہیں۔
نیز میں نے ایک عزیز سے سنا ہے کہ حضرت خواجہ عبید اللہ احرار قدس سرہ نے اپنی والدہ کے باپ دادوں یعنی ننھیال کی طرف سے بھی جو بہت ہی عجیب و غریب احوال اور قومی جذبہ رکھتے تھے۔ ایک نسبت حاصل کی تھی اور اثناء عشر یعنی دوازدہ اقطاب کے مقام سے جن کے ساتھ دین کی تائید وابستہ ہے اور محبت میں شان عظیم رکھتے ہیں۔ حضرت خواجہ قدس سرہ کو وافر حصہ حاصل تھا اور اسی سبب سے حضرت خواجہ قدس سرہ شریعت کی تائید اور دین کی مدد کیا کرتے تھے۔ ان کے احوال کی گرامی کا کچھ حال او پر ذکر اس کے بعد ارشاد پنا ہی معارف آگاہی مؤید الدین الرضی شیخنا و مولا نا محمد باقی سلمہ اللہ تعالیٰ کے نور ظہور کی برکت سے ان بزرگواروں کا طریق اعلیٰ بالخصوص ممالک ہندوستان میں جہاں کے رہنے والے ان کمالات سے بے بہرہ تھے، از سرنو زندہ ہوا اور ان عزیزوں کے آداب شائع ہوئے ۔
اس حقیر نے چاہا کہ اس مکتوب میں ان کے بھی تھوڑے سے کمالات درج مکئے جائیں چونا۔ ا اس بارے میں ان کی رضا مندی مفہوم نہ ہوئی۔ اس لئے اس بارے میں جرات نہ کی ۔