مکتوب 291
تو حید وجودی اور توحید شہودی کے مراتب اور ان کے متعلقہ معارف کے بیان میں مولا نا عبدالحئی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ وَالصَّلوةُ وَالسَّلامُ عَلَى سَيّدِ الْمُرْسَلِينَ وَعَلَى اله وَأَصْحَابه أَجْمَعِينَ
خدا تجھے ہدایت دے، مجھے جانا چاہئے کہ بعض کے لئے تو حید وجودی کا باعث یہ ہوتا ہے کہ وہ توحید کے مراقبوں کی کثرت سے مشق کرتے ہیں اور کلمہ طیبہ لا إِلهَ إِلَّا الله کے معنی کو لا مَوْجُودَ إِلَّا اللہ سمجھتے ہیں۔ اس قسم کی توحید تمحل و تامل تخیل کے بعد سلطان خیال کے غلبہ کے باعث ظاہر ہوتی ہے کیونکہ معنی توحید کے بکثرت مشق سے اس معرفت کا نقش قوت متخیلہ میں بندھ جاتا ہے چونکہ یہ تو حید صاحب تو حید کی اپنی بنائی ہوئی ہوتی ہے اس لئے معلول ہے اور اس تو حید والا ارباب احوال میں سے نہیں ہے کیونکہ ارباب احوال وہ لوگ ہوتے ہیں جوار باب قلوب میں ہیں اور اس تو حید والے کو ابھی مقام قلب کی کچھ خبر نہیں ہے بلکہ صرف علم ہی علم ہے بلکہ علم کے کئی درجے ایک دوسرے کے اوپر ہیں۔ بعض کے لئے تو حید وجودی کا منشاء قلبی انجذاب و محبت ہوتی ہے کہ اول ان از کار ومراقبات میں جو معنی تو حید کے تخیل سے خالی ہوتے ہیں، اشتغال کرتے ہیں اور پھر اپنی کوشش یا صرف سابقہ عنایت سے مقام قلب تک پہنچ جاتے ہیں اور جذب پیدا کرتے ہیں ۔ اس مقام میں اگر ان پر تو حید وجودی کا جمال ظاہر ہو جائے تو اس کا سبب محبوب کی محبت کا غلبہ ہوگا جس نے محبوب کے ماسوا کو ان کی نظر سے مخفی اور پوشیدہ کر دیا ہے اور چونکہ محبوب کے ماسوا کو نہیں دیکھتے اور نہ ہی پاتے ہیں اس لئے محبوب کے سوا کسی کو موجود نہیں جانتے ۔ اس قسم کی تو حید احوال سے ہے
( مکتوب کا یہ صفحہ دستیاب نہیں ہے۔ کتاب ملاحضہ کریں)
اس حقیر نے بھی اس وقت معارف توحیدی میں بہت سے رسالے لکھے ہیں اور چونکہ بعض یاروں نے ان تحریروں کو اس طرح پراگندہ کر دیا تھا کہ ان کا جمع کرنا دشوار تھا اس لئے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ نقص اس وقت لازم آتا ہے جبکہ اس مقام سے اوپر نہ لے جائیں ۔
ارباب توحید میں سے ایک گروہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مشہود میں استبلاک واضمحلال یعنی فنا و استغراق کامل طور پر پیدا کر لیتے ہیں اور ان کا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیشہ اپنے مشہود میں مضمحل و معدوم رہیں اور ان کے وجود کے لوازم سے کوئی اثر ظاہر نہ ہو ۔ یہ لوگ انا کے رجوع کو اپنے او پر کفر جانتے ہیں اور نہایت کار ان کے نزدیک فاو نیستی ہے۔ مشاہدہ کو بھی گرفتاری جانتے ہیں ان میں سے بعض اس طرح فرماتے ہیں کہ اَشتَهى عَدَماً لا اَعُودُ ابدا میں ایسا عدم چاہتا ہوں کہ ہرگز جس کا وجود نہ ہو ۔ یہی لوگ محبت کے مقتول ہیں اور حدیث قدى مَنْ قَتَلْتُهُ فَانا ديتة (جس کو میں قتل کروں میں ہی اس کا خوں بہا ہوں ) انہی کی شان میں ثابت ہے۔ ہمیشہ وجود کے زیر بار رہتے ہیں اور ایک لمحہ آرام نہیں پاتے کیونکہ آرام غفلت میں ہوتا ہے ۔ دوام استغراق کے ہوتے ہوئے غفلت کی گنجائش نہیں ہوتی ۔
شیخ الاسلام ہروی (1) فرماتے ہیں کہ جو شخص مجھ کو ایک ساعت کے لئے حق تعالی سے غافل کر دے۔ امید ہے کہ حق تعالیٰ اس کے گناہوں کو بخش دے گا اور وجود بشریت کے لئے غفلت درکار ہے۔ حق سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے کمال کرم سے ان میں سے ہر ایک کے ظاہر کو ان کی ا استعداد کے موافق ان امور میں جو غفلت کو مستلزم ہیں ، مشغول کیا ہے تا کہ وہ بار وجود ان سے کچھ تخفیف پائے۔ بعض کو سماع ورقص کی الفت دی ہے اور ایک گروہ کو کتابوں کی تصنیف اور علوم و معرفت کی تحریر میں لگا دیا ہے اور کسی گروہ کو بعض امور مباح میں مشغول کر دیا ہے ۔ عبد اللہ اسطوری سگ بانوں کے ہمراہ جنگل میں چلے جایا کرتے تھے۔ کسی شخص نے ایک عزیز سے اس کے وجہ پوچھی تو اس نے فرمایا کہ اس لئے تا کہ نفس بار وجود سے خلاص ہو جائے ۔ بعض کو تو حید وجودی کے علوم اور وحدت میں کثرت کے مشاہدہ سے آرام دیا تا کہ اس بارے ایک ساعت کے لئے آرام پالیں اور وہ تو حید جو مشائخ نقشبندیہ کو بزرگواروں سے ظاہر ہوئی ہے، اسی قسم سے ہے۔ ان بزرگواروں کی نسبت تنزیہ صرف کی طرف لے جاتی ہے اور عالم اور شہود در عالم کے ساتھ کچھ کام نہیں رکھتے اور معارف جوارشاد پنا ہی حقائق و معارف دستگا ہی ناصرالدین خواجہ عبید اللہ قدس سره نے لکھے ہیں۔ توحید کی اخیر قسم سے ہیں۔ ان کی کتاب فقرات جو بعض علوم تو حیدی پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے علوم کا منشاء اور ان معارف کا مقصود عالم کے ساتھ ان کا انس والفت ہے اور ہمارے خواجہ قدس سرہ کے معارف جو بعض رسالوں میں کتاب فقرات کے لکھے گئے ہیں۔ اسی قسم سے ہیں۔ ان علوم تو حیدی کا نشانہ جذبہ ہے نہ غلبہ محبت اور ان کے مشہود کو عالم کے ساتھ کچھ نسبت نہیں ہے۔ ان کو جو کچھ عالم میں دکھاتے ہیں۔ ان کے مشہود حقیقی کا شبہ ومثال ہے۔ مثلاً ایک شخص جمال آفتاب کا گرفتار ہے اور کمال محبت سے اپنے آپ کو اس نے آفتاب میں گم کیا ہے اور اپنا نام ونشان کچھ نہیں چھوڑا ۔ ایسے گم ہوئے کہ اگر چاہیں کہ پھر اپنے ہوش میں لائیں اور ماسوائے آفتاب کے ساتھ اس کی انس و الفت پیدا کریں تو ایک ساعت تک انوار آفتاب کی چمک سے اس کو باہر نکالتے ہیں تا کہ ایک دم کے لئے آرام لے لیں۔ پھر اس آفتاب کو اس عالم کے مظہروں میں دکھاتے ہیں اور اس علاقہ سے اس کا انس والتفات اس عالم کے ساتھ پیدا کرتے ہیں اور کبھی اس کو جتلاتے ہیں کہ عالم عین آفتاب کے سوا کچھ موجود نہیں اور کبھی ذرات عالم کے آئینہ میں آفتاب کا جمال دکھاتے ہیں۔ اس جگہ کوئی یہ سوال نہ کرے کہ جب عالم نفس الامر میں آفتاب کا عین نہیں ہے تو پھر اس کو آفتاب جتلانا خلاف واقع ہے کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ آفتاب و عالم ایک دوسرے کے ساتھ بعض امور میں اشتراک رکھتے ہیں اور بعض امور میں ایک دوسرے سے امتیاز ۔ حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ اپنی کمال قدرت سے وہ امور جو امتیاز کا باعث ہیں۔ بعض حکمتوں اور مصلحتوں کے باعث ان کی نظروں میں پوشیدہ کر دیتا ہے اور صرف اجزائے مشترکہ ان کو مشہود کراتا ہے۔ اس لئے ایک دوسرے کے اتحاد کا حکم کرتے ہیں ۔ پس آفتاب کو بھی اس علاقہ سے عالم پاتے ہیں۔ ایسے ہی حق سبحانہ و تعالیٰ کو عالم کے ساتھ اگر چہ در حقیقت کوئی مناسبت نہیں لیکن مشابہت اسمی اس اتحاد کو صحیح و درست کر دیتی ہے۔ مثلا حق تعالیٰ موجود ہے۔ اگر چہ فی الحقیقت ان دو موجودوں کے درمیان کچھ مناسبت نہیں ایسے حق حق تعالی سمیع و علیم و بصیر وحی و قادر ومرید ہے اور عالم کے بعض افراد بھی ان صفات سے متصف ہیں۔ اگر چہ ایک دوسرے کے صفات ایک دوسرے سے جدا ہیں لیکن چونکہ وجود امکانی کی خصوصیت اور صفات محدثات کے نقصوں کو ان کی نظروں میں پوشیدہ کر دیا ہے۔ اس لئے اگر اتحاد کا حکم کریں تو گنجائش ہے۔
توحید کی یہ اخیر قسم تو حید کی تمام اقسام سے اعلیٰ ہے بلکہ در حقیقت اس معرفت والے لوگ اس وارد کے مغلوب نہیں ہیں بلکہ اس وارد کوان پر کسی مصلحت کے لئے لائے ہیں اور چاہا ہے کہ اس معرفت کے وسیلہ سے ان کو سکر سے محو میں لائیں اور تسلی دیں جیسا کہ بعض کو سماع در قص سے اور بعض کو امور مباحہ کے استعمال سے تسلی دی ہے ۔
جانا چاہئے کہ ان گروہوں میں سے تمام لوگ بعض ایسے امور ہیں جو ان کے مشہود کے مغائر ہیں ۔ اشتعال کرتے ہیں اور تسلی پاتے ہیں۔ برخلاف ان بزرگواروں کے کہ اپنے مشہود کے مغائر کی طرف التفات نہیں کرتے اور نہ ہی اس کے مطیع ہوتے ہیں۔ اسی لئے عالم کو ان کے مشہور کا مین دکھاتے ہیں اور اس کے گرفتار اور مطیع ہو جاتے ہیں۔ پس ناچار عالم کو عین مشہور دکھاتی ہیں یا عالم کے آئینہ میں اس کو جلوہ دیتے ہیں تا کہ کوئی ساعت اس بار سے تخفیف پائیں ۔
توحید کی اس اخیر قسم کا منشاء اس حقیر کو کشف و ذوق کے طریق پر معلوم نہ تھا۔ ان دو پہلی وجہوں ہی کو جانتا تھا البتہ اس قسم کے ساتھ ظن رکھتا تھا۔ اسی واسطے اپنے رسالوں اور مکتوبوں میں انہی دو وجہوں کو بلکہ وجہ دوم کو لکھا ہے اور توحید وجودی کو اسی میں منحصر کیا ہے لیکن جب ارشاد پنا ہی قبلہ گاہی کے رحلت فرما جانے کے بعد مزار شریف کی زیارت کی تقریب سے بلدہ محروسہ دہلی میں جانے کا اتفاق ہوا اور عید کے روز ان کی زیارت شریف کے لئے گیا تو مزار مبارک کی طرف توجہ کرنے کے اثناء میں ان کی روحانیت مقدسہ سے پوری پوری توجہ ظاہر ہوئی اور کمال غریب نوازی سے اپنی نسبت خاصہ کو جو حضرت خواجہ احرار قدس سرہ سے مخصوص تھی ۔ مرحمت فرمایا جب اس نسبت کو اپنے آپ کو معلوم کیا تو ان علوم و معارف کی حقیقت کو بطریق ذوق پالیا اور معلوم ہوا کہ ان میں توحید وجودی کا منشاء انجذاب قلبی اور غلبہ محبت نہیں بلکہ اس معرفت سے مقصود اس غایت کی تحقیق ہے۔ مدت تک اس معنی کے اظہار کو مناسب نہ دیکھا لیکن چونکہ بعض رسائل میں وہی سابقہ وجہیں مذکور ہوئی تھیں جن سے بعض بے سمجھ لوگوں کو وہم ہوا کہ اس بیان سے ان دو (۲) بزرگواروں کی شان میں نقص لازم آتا ہے کہ ارباب توحید کا طریق ہے اور اس وسیلہ سے انہوں نے فتنہ پردازی کی زبان دراز کی حتی کہ یہ و ہم بعض قلیل الا رادت طالبوں میں ان کے احوال کے فتور کا باعث ہوا۔ اس لئے تو حید کی اس قسم کا اظہار کرنا بہتر دیکھا اور اس واقعہ کا ذکر بھی بطریق شہادت تحریر کرنا مناسب جانا ۔
ہمارے خواجہ قدس سرہ کے مخلصوں میں سے ایک درویش نے نقل کیا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ جانتے ہیں کہ ہم ارباب توحید کی کتابوں سے نسبت حاصل کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ ایک ساعت اپنے آپ کو غافل کریں۔ یہ کلام سابقہ کلام کی تائید کرتی ہے۔
فضیلت پنا ہی شیخ عبد الحق نے جو ہمارے خواجہ قدس سرہ کے مخلصوں میں سے ہے۔ نقل کیا کہ حضرت خواجہ قدس سرہ ایام رحلت سے پہلے فرمایا کرتے تھے کہ ہم کو عین الیقین سے معلوم ہوا ہے کہ تو حید ایک تنگ کو چہ ہے ۔ شاہ راہ اور ہے۔
اگر چہ اس سے پہلے بھی ہم جانتے تھے لیکن اس قسم کا یقین اب ظہور میں آیا ہے اس بات
سے بھی مفہوم ہوتا ہے کہ آخر کار میں ان کا مشرب توحید کے ساتھ کچھ مناسبت نہ رکھتا تھا۔ ہاں اگر ابتداء میں اس قسم کی تو حید ظاہر ہوئی ہے تو کچھ ڈر نہیں ۔ بلکہ بہت سے مشائخ کے لئے ابتداء میں اس قسم کی تو حید ظاہر ہوئی ہے لیکن آخر کار اس سے نکل گئے ہیں اور نیز جذ بہ نقشبندیہ کے مقام تک پہنچنے کے بعد حضرت خواجہ نقشبندیہ قدس سرہ اور حضرت خواجہ احرار قدس سرہ کا طریق ایک دوسرے سے جدا ہے۔
بعد ازاں حضرت خواجہ احرار قدس سرہ کی توجہ کا غلبہ اپنی والدہ کے آباؤ اجداد کی باطنی نسبت سے ہے جو پشت به پشت بزرگ ہوتے چلے آئے ہیں اور یہ فناو نیستی جواو پر مذکور ہو چکی ہے۔ انہی بزرگواروں کی نسبت کے لوازم سے ہے۔ اس حقیر نے اس وقت کے لوگوں کی مصلحت کو مد نظر رکھ کر طالبوں کی تربیت کے لیے حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کے طریق کو اختیار کیا ہے اور اس طریق کے علوم و معارف کا ( جو ظاہر شریعت کے علوم سے زیادہ تر مناسبت رکھتے ہیں ) ایسے فاسد زمانہ میں جبکہ ارکان شریعت کے ادا کرنے میں لوگ ست ہو گئے ہیں ) ظاہر کرنا مناسب دیکھ کا افادہ طلبہ کے لئے اسی طریق کو معین کیا ۔ اگر حق سبحانہ و تعالیٰ اس حقیر کے ذریعے طریقہ احرار یہ کو رواج ورونق دینا چاہتا تو جہان کو اس کے انوار سے منور کرتا کیونکہ ان دو بزرگواروں کے انوار کو کمال طور پر عطا فرمایا ہے اور دونوں بزرگواروں کی تکمیل کا طریقہ ظاہر کر دیا ہے ۔ اِنَ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ فضل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ہے، دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے
پادشا ہیست کز عنایت خویش
ہر دو عالم به یک گدا بخشد
ترجمہ: وہ بادشاہ ہے ایسا کہ مہربانی سے
گدا غریب کو دونوں جہاں حوالہ کرے
اگر پادشاه بر در پیرزن
بیاید تو اے خواجہ سبلت مکن
ترجمہ: اگر بڑھیا کے در پر آئے سلطاں
تو اے خواجہ نہ ہو ہر لز پریشاں
ہرگز اس حقیر نے وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِتْ (اپنے رب کی نعمت کا اظہار کر کے ) موافق بعض پوشیدہ اسرار کو ظاہر کر دیا ہے۔ حق سبحانہ و تعالی طالبان حق کو اس سے بہرہ مند کرے۔ اگر چہ جانتا ہے کہ منکروں کو انکار کے سوا اور کچھ فائدہ نہ ہوگا لیکن مقصود طالبوں کا افادہ ہے۔ منکر صحبت سے خارج ہیں اور منظر نظر سے باہر ہیں ۔ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا (اکثر کو گمراہ کرتا ہے اور اکثر کو ہدایت دیتا ہے ) داناؤں پر مخفی نہیں ہے کہ کسی مصلحت کے لئے ایک طریق کے اختیار کرنے سے دوسرے طریق پر اس کی فضیلت لازم نہیں آتی اور نہ ہی دوسرے کا نقص ظاہر ہوتا ہے
دروازه شهر را تواں بست
نتواں وہاں مخالفاں بست
ترجمہ: کر سکیں بند شہر کے در کو
یر زباں منکروں کی بند نہ ہو