مکتوب 292
مریدوں کے آداب ضروری اور ایک شبہ کے دفع کرنے کے بیان میں شیخ حمید کیطرف صادر فرمایا ہے۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى اَدَّبَنَا بِالْآدَابِ النَّبُويَّةِ وَهَدْنَا بِالأَخْلَاقِ الْمُصْطَفِوِيَّةِ عَلَيْهِ وَعَلَى اله الصَّلَوَاتُ وَالتَّسْلِيْمَاتُ اَنمُهَا وَأَكْمَلُها: الله تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم کو آداب نبوی کے ساتھ مؤدب بنایا اور اخلاق مصطفوی صلى الله عليه وسلم کے ساتھ ہم کو ہدایت دی ۔
جانا چاہئے کہ اس راہ کے سالک دو حال سے خالی نہیں یا مرید ہیں یا مراد ۔ اگر مراد ہیں تو ان کے لئے مبارکباد دی ہے۔ محبت و انجذاب کی راہ سے ان کو کھینچ کھینچ کر لے آئیں گے اور مطلب اعلیٰ تک پہنچادیں گے اور جو ادب ان کے لئے درکار ہوگا بوسیلہ یا بیوسیلہ ان کو سکھا دیں گے اور اگر ان سے کوئی لغزش ہو جائے گی ، تو ان کو جلدی سے اس سے آگاہ کر دیں گے اور ان پر ان کا مواخذہ نہ کریں گے اور اگر پیر ظاہر کی ان کو حاجت ہوگی تو ان کی کوشش کے بغیر اس دولت کی طرف ان کی رہنمائی کریں گے۔ غرض حق تعالیٰ کی عنایت ازلی ان بزرگواروں کے شامل حال ہوتی ہے۔ یہ سبب یا بے سبب ان کام بنا دیتے ہیں ۔ وَاللهُ يَجْتَبِي مَنْ يَشَاءُ (اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ، برگزیدہ کر لیتا ہے ) اور اگر مرید ہیں تو کامل مکمل پیر کے وسیلہ کے بغیر ان کا کام دشوار ہے۔ پیر ایسا ہونا چاہئے جو جذبہ اور سلوک کی دولت سے مشرف ہوا ہو اور فنا و بقاء کی سعادت سے بہرہ ور ہو اور سیر الی اللہ اور سیر فی اللہ اور سیر عن الله باللہ اور سیر فی الاشیاء باللہ کو انجام تک پہنچایا ہو اور اس کا جذبہ اس کے سلوک پر مقدم ہے اور مرادوں کی تربیت سے تربیت یافتہ ہے تو اس کا وجود سرخ گندھک (کیمیا) کی طرح ہے۔ اس کی کلام دوا اور اس کی نظر شفا ہے۔ مردہ دل اس کی توجہ شریف سے زندہ ہوتے ہیں اور مرجھائی ہوئی جانیں اس کے لطیف التفات سے تازہ ہوتی ہیں اور اگر اس قسم کا صاحب دولت نہ ملے تو سالک مجذوب بھی غنیمت ہے۔ وہ بھی ناقصوں کی تربیت کرسکتا ہے اور فنا و بقاء کی دولت تک پہنچا سکتا ہے۔
آسمان نسبت بعرش آمد فرود
ور نہ بس عالی است پیش خاک تود
ترجمہ: عرش سے نیچے ہے گرچہ آسماں
لیک اونچا ہے زمین سے اے جواں
اگر اللہ تعالیٰ کی عنایت سے کسی طالب کو اس قسم کا کامل مکمل پیر مل جائے تو چاہے کہ اس کے وجود شریف کو غنیمت جانے اور اپنے آپ کو ہمہ تن اس کے حوالہ کر دے اور اپنی سعادت اس کی رضامندی میں اور اپنی بدبختی اس کی نارضامندی میں جانے ۔ غرض اپنی خواہش کو اس کی رضا کے تابع بنادے۔
حدیث نبوی صلى الله عليه وسلم میں ہے ۔ لَنْ يُؤْمِنَ اَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبْعًا لِمَا جِئْتُ به تم میں سے کوئی ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کی خواہش اس امر کے تابع نہ ہو جائے جس کو میں لایا ہوں ۔
جاننا چاہئے کہ صحبت کے آداب اور شرائط کو مد نظر رکھنا اس راہ کی ضروریات میں سے ہے تا کہ افادہ اور استفادہ کا راستہ کھل جائے ورنہ صحبت سے کوئی نتیجہ پیدا نہ ہوگا اور مجلس سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ بعض ضروری آداب و شرائط لکھے جاتے ہیں۔ گوش ہوش سے سننے چاہئیں ۔
طالب کو چاہئے کہ اپنے دل کو تمام اطراف سے پھیر کر اپنے پیر کی طرف متوجہ کرے اور پیر کی خدمت میں اس کے اذن کے بغیر نوافل و اذکار میں مشغول نہ ہو اور اس کے حضور میں اس کے سوا کسی اور کی طرف توجہ نہ کرے اور بالکل اس کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھا رہے حتی کہ جب تک وہ امر نہ کرے ذکر میں بھی مشغول نہ ہو اور اس کے حضور میں نماز فرض و سنت کے سوا کچھ ادا نہ کرے
۔ کسی بادشاہ کی نقل کرتے ہیں کہ اس کا وزیر اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اتفاقا ََوزیر کی نظر اس کے اپنے کپڑے پر جا پڑی اور اس کے بند کو اپنے ہاتھ سے درست کرنے لگا۔ اس حال میں جب بادشاہ نے اس کو دیکھا کہ میرے سو اغیر کی طرف متوجہ ہے تو جھڑک کر فرمایا کہ میں یہ برداشت تو نہیں کر سکتا کہ تو میرا وزیر ہو کر میرے حضور میں اپنے کپڑے کے بند کی طرف توجہ کرے تو سوچنا چاہئے کہ جب دنیا کمینی کے وسائل کے لئے چھوٹے چھوٹے آداب ضروری ہیں، تو وصول الی اللہ کے وسائل کے لئے ان آداب کی رعایت نہایت ہی کامل طور پر ضروری ہوگی اور جہاں تک ہو سکے ایسی جگہ بھی کھڑا نہ ہو کہ اس کا سایہ پیر کے کپڑے یا سایہ پر پڑتا ہو اور اس کے مصلے پر پاؤں نہ رکھے اور اس کے وضو کی جگہ میں طہارت نہ کرے اس کے خاص برتنوں کو استعمال نہ کرے اور اس کے حضور میں پانی نہ پیے۔ کھانا نہ کھائے اور کسی سے گفتگو نہ کرے بلکہ کسی اور کی طرف متوجہ نہ ہو اور پیر کی غیبت یعنی عدم موجودگی میں جہاں کہ وہ رہتا ہے۔ اس طرف پاؤں دراز نہ کرے اور تھوک بھی اس طرف نہ پھینکے اور جو کچھ پیر سے صادر ہو ۔ اس کو صواب و بہتر جانے ۔ اگر چہ بظاہر بہتر معلوم نہ ہو کیونکہ جو کچھ وہ کرتا ہے، الہام سے کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اذن سے کام کرتا ہے اس تقدیر پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگرچہ بعض صورتوں میں اس کا الہام میں خطا کا ہونا ممکن ہے لیکن خطائے الہامی خطائے اجتہادی کی طرح ہے اور ملامت و اعتراض اس پر جائز نہیں اور نیز جب اس کو اپنے پیر سے محبت ہے تو جو کچھ محبوب سے صادر ہوتا ہے محبت کی نظروں میں محبوب ہی دکھائی دیتا ہے۔ پھر اعتراض کی کیا مجال ہے اور کھانے پینے پہننے اور طاعت کے چھوٹے بڑے کاموں میں پیر ہی کی اقتداء کرنی چاہئے اور نماز کو بھی اسی طرز پر ادا کرنا چاہئے اور فقہ بھی اسی کے طریق عمل سے سیکھنی چاہئے
آن را که در سراے نگاریست فارغ است
از باغ و بوستان و تماشائے لالہ زار
ترجمہ: وہ شخص جس کے گھر میں گلزار خودرگا ہو
غیروں کے باغ دیکھے حاجت نہیں ہے اس کو
اور اس کے حرکات و سکنات میں کسی قسم کا اعتراض نہ کرے۔ اگرچہ وہ اعتراض رائی کے دانہ جتنا ہو کیونکہ اعتراض سے ماسوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور تمام مخلوقات میں سے بدبخت وہ شخص ہے جو اس بزرگ کا عیب بین ہے اللہ تعالیٰ ہم کو اس بلائے عظیم سے بچائے اور اپنے پیر سے خوارق و کرامات طلب نہ کرے اگر چہ وہ طلب خطرات اور وساوس کے طریق پر ہو ۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ کسی مومن نے پیغمبر سے معجزہ طلب نہیں کیا۔ معجزہ طلب کرنا کافروں اور منکروں کا کام ہے۔
معجزات از بهر قهر دشمن است
بوے جنسیت پے دل بردن است
موجب ایمان نباشد معجزات
بوے جنیت کند جذب صفات
ترجمہ: قہر دشمن کے لئے ہیں معجزے
بوے جنسیت دلوں کو بھینچ لے
موجب ایماں نہیں ہیں معجزے
بوے جنسیت صفت کو کھینچ لے
اگر دل میں کوئی شبہ پیدا ہو، بے توقف عرض کر دے۔ اگر حل نہ ہو۔ اپنی تقصیر سمجھے اور پیر کی طرف کسی قسم کی کوتاہی یا عیب نہ کرے اور جو واقع ظاہر ہو، پیر سے پوشیدہ نہ رکھے اور واقعات تعبیر اس سے دریافت کرے اور جو تعبیر طالب پر ظاہر ہو، وہ بھی عرض کر دے اور صواب و خطا کو اسی سے طلب کرے اور اپنے کشف پر ہرگز بھروسہ نہ کرے کیونکہ اس جہان میں حق باطل کے ساتھ اور خطا صواب کے ساتھ ملا جلا ہے اور بے ضرورت و بے اذن اس سے جدا نہ ہو کیونکہ اس کے غیر کو اس کے اوپر اختیار کرنا ارادت کے برخلاف ہے اور اپنی آواز کو اس کی آواز سے بلند نہ کرے اور بلند آواز سے اس کے ساتھ گفتگو نہ کرے کہ بے ادبی میں داخل ہے اور جو فیض و فتوح اس کو پہنچے، اس کو بھی اپنے پیر کے ذریعے سمجھے اور اگر واقع میں دیکھے کہ فیض اور مشائخ سے پہنچا ہے۔ اس کو بھی اپنے پیر ہی سے جانے اور جان لے کہ جب پیر تمام کمالات و فیوض کا جامع ہے۔ پیر کا خاص فیض پیر کی خاص استعداد کے مناسب اس شیخ کے کمال کے موافق جس سے یہ صورت افاضہ ظاہر ہوتی ہے۔ مرید کو پہنچا ہے اور وہ پیر کے لطائف میں سے ایک لطیفہ ہے جس کے مناسب وہ فیض رکھتا ہے اور اس شیخ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ محبت کے غلبہ کے باعث مرید نے اس کو دوسرا شیخ خیال کیا ہے اور فیض اس سے جانا ہے۔ یہ بڑا بھاری مغالطہ ہے۔ اللہ تعالیٰ لغزش سے نگاہ رکھے اور سید البشر صلى الله عليه وسلم کے طفیل پیر کے اعتقاد اور محبت پر ثابت قدم رکھے ۔ فرض الطريق كُلُّهُ ادَب مثل مشہور ہے۔ کوئی بے ادب خدا تک نہیں پہنچتا اور اگر مرید بعض آداب کے بجالانے میں اپنے آپ کو قصور وار جانے اور اس کو کما حقہ ادا نہ کر سکے اور کوشش کرنے کے بعد بھی اس سے عہدہ بر آنہ ہو سکے ، تو معاف ہے لیکن اس کو اپنے تصور کا اقرار کرنا ضروری ہے اور اگر نعوذ باللہ آداب کی رعایت بھی نہ کرے اور اپنے آپ کو قصور وار بھی نہ جانے تو وہ ان بزرگواروں کی برکات سے محروم رہتا ہے۔
هر که را روئے بہ بیو دند اشت
دیدن روئے نبی سود نداشت
ترجمہ: ہدایت نہ تھی جس کی قسمت میں یارو
لقائے پیمبر تھا بے سود اس کو
ہاں وہ مرید جو پیر کی برکت سے فنا و بقاء کے مرتبہ تک پہنچ جائے اور الہام و فراست کا راستہ اس پر کھل جائے اور پیر اس کو مسلم رکھے اور اس کے کمال کی گواہی دے دے۔ اس مرید کو لائق ہے که بعض الهامی امور میں پیر کے برخلاف اپنے الہام کے موافق عمل کرے۔ اگر چہ اس کا خلاف سیر کے نزدیک ثابت ہو کیونکہ وہ مرید اس وقت تقلید سے نکل چکا ہے۔ اب تقلید اس کے حق میں خطا ہے۔ کیا نہیں جانتے کہ اصحاب کبار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے بعض اموراجتہادیہ را حکام غیر منزلہ میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ساتھ خلاف کیا ہے اور بعض اوقات حق بجانب اصحاب ظاہر ہوا ہے۔ كَمَا لَا يَخْفَى عَلَى أَرْبَابِ الْعِلْم (جیسا کہ صاحبان علم پر پوشیدہ نہیں ہے۔ ) پس معلوم ہوا کہ مرتبہ کمال تک پہنچنے کے بعد مرید کو پیر کے بر خلاف کرنا جائز ہے اور بے ادبی سے دور ہے بلکہ یہی ادب ہے ورنہ پیغمبر صلى الله عليه وسلم کے اصحاب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کمال ادب کے ساتھ مودب ہوئے ہیں اور تقلید کے سوا اور کوئی امر نہیں کیا ہے۔ ابو یوسف علیہ الرحمہ کے لئے مرتبہ اجتہاد تک پہنچنے کے بعد ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی تقلید خطا ہے۔ اس کے لئے بہتری اپنی رائے کی متابعت میں ہے۔ نہ کہ ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی رائے میں ۔ امام یوسف رحمتہ اللہ علیہ کا قول مشہور ہے کہ ناز عُتُ أَبِي حَنِيفَةً فِي مَسُئلة خَلْقٍ نَازَعُتُ الْقُرْآنِ سِتَةَ اشْهُرٍ ( میں نے ابو حنیفہ کے ساتھ قرآن کے مخلوق ہونے کے مسئلہ میں چھ مہینے تک جھگڑا کیا ) تو نے سنا ہوگا کہ ہر صفت بہت سے فکروں کے ملنے سے کامل ہوتی ہے۔ اگر ایک ہی فکر پر رہتی تو کچھ زیادتی حاصل نہ کرتی۔ وہ نحو جو سیبویہ کے زمانہ میں تھی ۔ آج وہ مختلف راویوں اور بہت سی نظروں اور فکروں کے ملنے سے کئی گناہ زیادہ ہو گیا ہے کیونکہ بنیاد اسی نے رکھی ہے ۔ اس لئے فضیلت اس کے لئے ہے کیونکہ فضیلت متقدمین کے لئے ہے۔
حدیث نبوی میں ہے ۔ مَثَلُ أُمَّتِي كَمَثَلِ الْمَطَرِ لا يُدْرَى اَوَّلُهُمْ خَيْرام اخره میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے نہیں معلوم کہ اس کا اول اچھا ہے یا اخیر ۔
تذييل
بعض مریدوں کے شبہ رفع کرنے کے بیان میں
جانا چاہئے کہ بزرگوں نے فرمایا ہے ۔ الشَّيْخُ يُحْيِ وَيُمِيْتُ (شیخ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے ) احیاء و امات مقام شیخی کے لوازم سے ہے۔ اس احیاء واماتت سے مراد روحانی احیاء و اماتت ہے نہ جسمانی اور اس حیات و موت سے مراد فنا و بقاء ہے جو مقام ولایت و کمال تک پہنچاتے ہیں اور شیخ مقتدا اللہ تعالیٰ کے اذن سے ان دو امر کا متکفل ہے۔ پس شیخ کے لئے یہ احیاء واماتت ضروری ہے اور یحیى وَيُمِيتُ كے معنى يُبقى وَيُفْنِی یعنی باقی رکھنا اور فنا کرنا ہیں ۔ جسمانی احیاء وامانت کو مرتبہ شیخی سے کچھ واسطہ نہیں۔ شیخ مقتدا گہر با کا حکم رکھتا ہے اور جس کسی کو اس سے مناسبت ہوتی ہے ۔ خس و خاشاک کی طرح اس کے پیچھے دوڑتا چلا آتا ہے اور اپنا حصہ اس سے لے لیتا ہے۔ خوارق و کرامات مریدوں کے جذب کرنے کے لئے نہیں ہیں۔ مرید روحانی اور باطنی مناسبت سے کھچے چلے آتے ہیں اور جو شخص ان بزرگواروں سے نسبت نہیں رکھتا۔ وہ ان کے کمالات کی دولت سے محروم رہتا ہے۔ اگر چہ ہزار ہا معجزے اور خوارق وکرامات دیکھے۔ ابوجہل و ابولہب کا حال اس بات کا شاہد ہے ۔
اللہ تعالیٰ کفار کے حق میں فرماتا ہے ۔ وَإِن يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَا يَؤْمِنُوا بِهَا حَتَّى اذا جَاؤُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقَولُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْاَوَّلِينَ خواہ یہ لوگ کتنے ہی آیات ومنجزات دیکھیں ان پر ایمان نہیں لائیں گے۔ حتیٰ کہ جب وہ تیرے پاس آتے ہیں تو جھگڑتے ہیں اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔
والسلام۔