2

مکتوب 293: چند سوالوں کے جواب میں شیخ محمد خیری کی طرف صادر فرمایا ہے


مکتوب 293

چند سوالوں کے جواب میں شیخ محمد خیری کی طرف صادر فرمایا ہے۔سوال اول پوچھا گیا تھا کہ حدیث نبوی صلى الله عليه وسلم میں لِى مَعَ اللهِ وَقت آیا ہے اور حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کہا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے۔سوال دوم پوچھا گیا تھا کہ حضرت شیخ عبد القادر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے۔ قَدَمِي هذِهِ عَلى رَقَبَةٍ كُلّ وَلِي الله ( میرا قدم تمام اولیاء کی گردن پر ہے ) اور ایک اور شیخ نے بھی یہی کہا ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے۔ سوال سوم پوچھا گیا تھا کہ ان اولیاء سے جن کی گردنوں پر قدم رکھا تھا ، مراد اسی وقت کے اولیاء ہیں یا مطلق اور عام طور پر مراد ہیں۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَام عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔ صحیفہ شریفہ جو آپ نے ارسال کیا تھا۔ اس کے آنے سے بڑی خوشی حاصل ہوئی۔ یہ کس قدر اعلیٰ نعمت ہے کہ حق تعالیٰ کے دوست دور افتادوں کو یاد کریں۔

آپ نے لکھا تھا کہ حضرت رسالت پناہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے لِی مَعَ اللهِ وَقت ( میرا الله تعالیٰ کے ساتھ ایک وقت ہے ) اور حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے بھی یہی کہا ہے اور حضرت میراں محی الدین رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ میرا پاؤں تمام اولیاء کی گردن پر ہے اور ایک شیخ نے بھی یہی کہا ہے۔ کبھی کبھی ان دونوں لفظوں پر بڑا غوغا مچ جاتا ہے۔ مہربانی کر کے فرما ئیں کہ ان دونوں کلاموں کے کیا معنی ہیں اور ان دونوں میں کیا فرق ہے۔ غور کے ساتھ سب کو واضح کر کے جو اس غریب کے فہم کے موافق ہو ۔ لکھ کر ارسال فرمائیں۔

میرے مخدوم! اس فقیر نے اپنے رسالہ میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو باوجود استمرار وقت کے ایک خاص اور نا در وقت بھی حاصل تھا اور وہ وقت ادائے نماز کا وقت تھا۔ اَلصَّلوةُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِينَ ( نماز مومنوں کی معراج ہے ) آپ نے سنا ہوگا اور اَرِ حُنِی يَابِلالُ (اے بلال مجھے غم سے آزاد کر ) اس مطلب کے ثبوت کے لئے عادل گواہ ہے اور ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ بھی وراثت اور تبعیت کے طور پر اس دولت سے مشرف ہوئے ہوں گے کیونکہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے کامل حصہ تابعداروں کو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے تمام کمالات سے وراثت کے طور پر کامل حاصل ہوتا ہے۔

اور یہ جو حضرت شیخ عبد القادر رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے ۔ قَدَمِـى هـذه على رقبة كُلّ وَلِيَ اللهِ أَوْ جَمِيعِ أَوْلِيَاء ( میرا قدم تمام اولیاء کی گردن پر ہے۔)


عوارف المعارف والے جو شیخ ابوالحبیب سہروردی رحمتہ اللہ علیہ ( جو حضرت شیخ عبد القادر رحمتہ اللہ علیہ کے محرموں اور مصاحبوں سے ہیں ) کے مرید اور تربیت یافتہ ہیں اس کلمہ کو ان کلمات سے بیان کرتے ہیں جو عجب پر مشتمل ہے جو ابتدائے احوال میں بقیہ سکر کے باعث مشائخ سے سرزد ہوتے ہیں اور نفحات میں شیخ حماد دباس سے جو حضرت شیخ کے مشائخ میں سے ہیں، منقول ہے کہ انہوں نے بطریق فراست فرمایا تھا کہ اس عجمی کا ایک ایسا قدم ہے کہ اس کے وقت میں تمام اولیاء کی گردنوں پر ہوگا اور اس بات کے کہنے پر مامور ہو گا کہ قدَمِي هَذِهِ عَلَى رَقَبَةٍ كُلَّ وَلَى اللَّهِ اور جس وقت یہ بات کہے گا تمام اولیاء اپنی گردنیں جھکا دیں گے۔ بہر صورت شیخ اس کلام میں سچے ہیں ۔ خواہ یہ کلام ان سے بقید سکر کے باعث سرزد ہوا ہو خواہ اس کلام کے اظہار پر مامور ہوئے ہوں کیونکہ ان کا قدم اس وقت کے تمام اولیاء کی گردنوں پر ہوا ہے اور اس وقت کے تمام اولیاء ان کے قدم کے نیچے ہوئے ہیں لیکن جاننا چاہئے کہ یہ حکم اس وقت کے اولیاء کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ اولیائے متقدین اور متاخرین اس حکم سے خارج ہیں جیسا کہ شیخ حماد کے کلام سے مفہوم ہوتا ہے کہ اس کا قدم اس کے وقت میں تمام اولیاء کے گردنوں پر ہوگا۔

اور نیز ایک غوث نے جو بغداد میں ہوا ہے اور حضرت شیخ عبد القادر اور ابن سقا اور عبداللہ رحمتہ اللہ علیہم اجمعین اس کی زیارت کے لئے گئے تھے ۔ بطریق فراست شیخ رحمتہ اللہ علیہ کے حق میں کہا تھا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تو بغداد میں منبر پر چڑھا ہوا ہے اور کہہ رہا ہے۔ قَدَمِي هذه على رَقَبَةٍ كُلّ وَلّى الله اور میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت کے تمام اولیاء نے تیرے اجلال واکرام کے باعث اپنی گردنوں کو پست کیا ہوا ہے۔

اس بزرگ کے کلام سے بھی مفہوم ہوتا ہے کہ یہ حکم اس وقت کے اولیاء کے ساتھ ہی مخصوص تھا۔ اس وقت بھی اگر خدائے تعالیٰ کسی کو چشم بصیرت عطا فرمائے تو دیکھ سکتا ہے۔ جیسا کہ اس غوث نے دیکھا تھا کہ اس وقت کے اولیاء کی گردنیں اس کے قدم کے نیچے ہیں اور یہ حکم اس وقت کے اولیاء کے علاوہ اور وقت کے اولیا ء تک نہیں پہنچا۔ اولیائے متقدمین کے حق میں یہ حکم کیسے جائز ہو سکتا ہے جن میں اصحاب کرام رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں جو یقینا حضرت شیخ علیہ الرحمۃ سے افضل ہیں اور اولیائے متاخرین میں بھی کیسے جائز ہو سکتا ہے جن میں حضرت مہدی رضی اللہ عنہ شامل ہیں جن کے آنے کی نسبت آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے بشارت دی ہے اور امت کو ان کے وجود کی خوشخبری دی ہے اور ان کے حق میں خلیفتہ اللہ فرمایا ہے۔ ایسے ہی حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام جو اولوالعزم نبی ہیں ان کے اصحاب سابقین میں سے ہیں اور اس شریعت کی متابعت کے باعث حضرت خاتم الرسل کے اصحاب سے ملحق ہیں۔ متاخرین کی اس بزرگی کے باعث ممکن ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہو۔ لا يُدْرَى اَوَّلُهُمْ خَيْر أم اخِرُهُمُ ( نہیں معلوم ان کے اول بہتر ہیں یا آخیر کے)


غرض حضرت شیخ عبد القادر قدس سرہ ولایت میں شان عظیم اور درجہ بلند رکھتے ہیں ۔ ولایت خاصہ محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام والتحیہ کو سیر کی راہ سے آخر نقطہ تک پہنچا دیا ہے اور اس دائرہ کے سر حلقہ ہوئے ہیں ۔

اس بیان سے کوئی یہ وہم نہ کرلے کہ جب حضرت شیخ دائرہ ولایت محمدیہ کے سر حلقہ ہیں تو چاہئے کہ سب اولیاء سے افضل ہوں کیونکہ ولایت محمدی تمام انبیاء کی ولایت سے برتر ہے کیونکہ میں کہتا ہوں کہ اس ولایت محمدی کے سر حلقہ ہیں جو راہ سیر سے حاصل ہوئی ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ نہ کہ مطلق اس ولایت کے سر حلقہ ہیں جس سے افضلیت لازم آئے یا دوسرا اس کا جواب یہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ مطلق ولایت محمدیہ کا سر حلقہ ہونا افضلیت کو مستلزم نہیں ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی اور بھی کمالات نبوت محمدیہ میں تبعیت اور وراثت کے طریق پر قدم آگے رکھتا ہو اور ان کمالات کی راہ سے افضلیت اس کے لئے ثابت ہو۔


حضرت شیخ عبد القادر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے اکثر مرید شیخ کے حق میں بہت غلو کرتے ہیں اور محبت کی جانب افراط سے کام لیتے ہین جیسا کہ حضرت امیر کرم اللہ وجہہ کے محب ان کی محبت میں افراط کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے کلام سے مفہوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ شیخ کو تمام اگلے پچھلے اولیاء سے افضل جانتے ہیں اور انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کے سوا معلوم نہیں کہ کسی اور کو حضرت شیخ سے افضل جانتے ہوں ۔ یہ کلام افراط محبت سے ہے۔

اگر کہیں کہ جس قدر خوارق و کرامات شیخ سے ظاہر ہوئے ہیں اور کسی ولی سے ظاہر نہیں ہوئے اس لحاظ سے فضیلت انہی کے لئے ہے تو میں کہتا ہوں کہ خوارق و کرامات کا بکثرت ظاہر ہونا افضیلت پر دلالت نہیں کرتا۔ ممکن ہے کہ کوئی شخص جس سے کوئی بھی خرق عادت ظاہر نہ ہوئی ہو ، اس شخص سے کہ جس سے خوارق و کرامات بکثرت ظاہر ہوئے ہوں ، افضل ہو۔

شیخ الشیوخ نے عوارف میں خوارق و کرامات کے ذکر کے بعد فرمایا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی بخششیں اور مہربانیاں ہیں جو بعض لوگوں کو عطا فرماتا ہے اور ان کے ساتھ ان کی عزت بڑھاتا ہے اور بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو رتبہ اور فضیلت میں ان سے بڑھ کر ہوتے ہیں لیکن ان کرامات میں سے ان کو کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ یہ کرامات یقین کی تقویت کا باعث ہیں اور جس کو صرف یقین عطا کیا گیا ہو۔ اس کو ذکر قلبی اور ذکر ذات کے سوا ان کرامات کی کچھ حاجت نہیں ہے۔ خوارق کے بکثرت ظاہر ہونے کو افضلیت کی دلیل بنانا ایسا ہے جیسا کہ حضرت امیر کرم اللہ وجہہ کے بکثرت فضائل و مناقب کو حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پر ان کو افضل ہونے کی دلیل بنائیں کیونکہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے اس قدر فضائل و مناقب ظہور میں نہیں آئے ہیں جس قدر کہ حضرت کرم اللہ وجہہ سے۔

اے برادر غور سے سن کہ خرق عادات دو قسم پر ہیں۔

نوع اول: وہ علوم و معارف الہی جل شانہ ہیں جو حق تعالیٰ کی ذات و صفات و افعال کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور وہ عقل کے ماسوائے اور متعارف معتاد کے برخلاف ہیں جن کے ساتھ اپنے خاص بندوں کو ممتاز کرتا ہے ۔

نوع دوم: مخلوقات کی صورتوں کا کشف ہونا اور پوشیدہ چیزوں پر اطلاع پانا اور ان کی خبر دینا جو اس عالم کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔

نوع اول اہل حق اور ارباب معرفت کے ساتھ مخصوص ہے اور نوع ثانی محقق اور مبطل یعنی جھوٹے اور سچے میں شامل ہے کیونکہ استدراج والوں کو بھی نوع ثانی حاصل ہے۔

نوع اول حق تعالی کے نزدیک شرافت و اعتبار رکھتی ہے کیونکہ اس کو اپنے دوستوں ہی سے مخصوص کیا ہے اور دشمنوں کو اس میں شریک نہیں کیا اور نوع دوم عام مخلوقات کے نزدیک معتبر ہے اور ان کی نظروں میں بہت معزز محترم ہے۔ یہی باتیں اگر استدراج والوں سے ظاہر ہوں تو عجب نہیں کہ نادانی کے باعث اس کی پرستش کرنے لگ جائیں اور رطب و یابس پر کہ ان کو تکلیف دے اس کے مطیع اور فرمانبردار ہو جا ئیں بلکہ مجوب نوع اول کو خوارق و کرامات سے نہیں جانتے ان کے نزد یک خوارق نوع دوم میں منحصر ہیں اور کرامات ان مجوبوں کے خیال میں مخلوقات کی صورتوں کے کشف اور پوشیدہ چیزوں کی خبر دینے پر مخصوص ہیں۔ یہ لوگ عجب بیوقوف ہیں۔ اتنا نہیں جانتے کہ وہ علم جو حاضر یا غائب مخلوقات کے احوال سے تعلق رکھتا ہے اس میں کون کی شرافت و کرامت حاصل ہے بلکہ یہ علم تو اس بات کے لائق ہے کہ جہالت سے بدل جائے تا کہ مخلوقات اور ان کے احوال بھول جائیں۔ وہ حق تعالیٰ کی معرفت ہی ہے جو شرافت، کرامت اور اعزاز واحترام کے لائق ہے

پری نهفته رو ودیو در کرشمه و ناز
بسوخت عقل زحیرت که این چه بوانجی است

ترجمہ : چھپائے رخ کو پری اور دیو ناز کرے
الٹ معاملہ سن کر بجا نہ ہوش ہے

شیخ السلام ہروی اور امام الانصاری نے سائرین اور سالکین کی منازل اور ان کے بیان میں جو کچھ فرمایا ہے۔ وہ ہمارے مذکورہ بیان کے قریب قریب ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ تجربہ سے مجھے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اہل معرفت کی فراست یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ تمیز کر لیتے ہیں کہ کون سا شخص حق تعالیٰ کی بارگاہ کے لائق ہے اور کون سا نہیں اور اہل استعداد کو پہچان لیتے ہیں جو اللہ تعالی کے ساتھ اشتغال رکھتے ہیں اور حق تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف واصل ہوتے ہیں یہ تو اہل معرفت کی فراست ہے لیکن اہل ریاضت کی فراست بھوک اور خلوت اور تصفیہ باطن سے ہوتی ہے۔ بغیر اس امر کے کہ جناب حق تعالیٰ تک واصل ہوں۔ یہ لوگ مخلوقات کی صورتوں کا کشف کرتے اور پوشیدہ امور کی خبر دیتے ہیں۔ اس لئے کہ حق تعالیٰ کی طرف سے محجوب ہوتے ہیں اور چونکہ اہل معرفت حق تعالیٰ کے ان علوم و معارف میں مشغول رہتے ہیں جو ان پر وارد ہوتے رہتے ہیں اس لئے یہ لوگ جو خبر دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے دیتے ہیں اور چونکہ اہل علم اکثر حق تعالیٰ سے الگ ! اور دنیا میں ہمہ تن مشغول ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کے دل ان لوگوں کی طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں جو مخلوق کی صورتوں کو ظاہر کریں اور مخلوقات کے غائبانہ احوال کی خبریں دیں۔ یہ لوگ ان کو بڑا بزرگ جانتے ہیں اور اعتقاد کرتے ہیں کہ خاص اہل اللہ یہی لوگ ہیں اور اہل حقیقت کے کشف سے اعراض کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دینے کے باعث ان پر تہمتیں لگاتے ہیں اور اس طرح کہتے ہیں کہ اگر یہ لوگ اہل حق اور ولی ہوتے تو ہم کو ہمارے اور مخلوقات کے احوال کی نسبت خبریں بتلاتے اور جب مخلوقات کے احوال کے کشف پر قدرت نہیں رکھتے تو اس سے بڑھ کر اعلیٰ امور کے کشف پر کیسے طاقت رکھتے ہیں اور اس قیاس فاسد سے ان کی تکذیب کرتے ہیں حالانکہ یہ لوگ خود اخبار صحیحہ سے اندھے ہوتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اہل حق کو اللہ تعالیٰ نے خلق کے ملاحظہ سے محفوظ رکھا ہے اور ان کو اپنے لئے خاص کر لیا ہے اور ماسوائے اللہ سے ان کو ہٹا رکھا ہے اور اگر یہ بھی ان لوگوں میں سے ہوتے ہیں جو خلق کے احوال کے درپے ہوتے ہیں تو بارگاہ حق کے لائق نہ ہوتے اور ہم نے اکثر اہل حق کو دیکھا ہے کہ جب وہ کشف صور کی طرف ادنی توجہ کرتے تھے تو اس فراست کے ساتھ جس کو اہل معرفت ثابت کرتے ہیں اور یہ وہ فراست ہے جو حق تعالی اور اس کے قرب سے تعلق رکھتی ہے، جہت معلوم کر لیا کرتے تھے جن کے اور اک پر ان کے غیر طاقت نہ رکھتے تھے لیکن وہ اہل صفا جو اس بحث سے خارج اور خلق کے ساتھ متعلق ہیں۔ وہ حق تعالی اور اس کے قرب کے ساتھ کچھ تعلق نہیں رکھتے اس میں مسلمان اور نصاری اور یہود باقی گروہ میں شامل ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالی کے نزدیک شریف نہیں ہیں۔ یہ اپنے اہل کے ساتھ ہی خصوصیت رکھتے ہیں۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا