2

مکتوب 294: ان معارف کے بیان میں جو واجب الوجود کی صفات ثمانیہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں


مکتوب 294

ان معارف کے بیان میں جو واجب الوجود کی صفات ثمانیہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کے تعینات کے مبادی اور تمام مخلوقات کی مبادی تعینات کی تحقیق میں اور اس بیان میں کہ جزئیات اپنی کھلی کے ساتھ لاحق ہوتے ہیں اور کلی کی جزئیات کا انتقال دوسری کلی میں جائز نہیں اور اس بیان میں کہ انبیاء اور اولیاء کی تجلی شہود میں کیا فرق ہے اور اس بیان میں کہ انبیاء بیسیم الصلوۃ والسلام کے وسیلہ کے باوجود ان کے کامل تابعداروں کو اصل عریانی حاصل ہوتا ہے اور لفظ محمود اضمحلال کی تحقیق میں جو مشائخ رحمتہ اللہ علیہ کی عبارت میں واقع ہیں اور اس کے مناسب بیان میں مخدوم زاده مجد والدین خواجہ محمد معصوم کی طرف صادر فرمایا ہے جو ظاہری علوم اور باطنی معارف و اسرار کے جامع ہیں۔

واجب الوجود کی صفات ثمانیہ حقیقیہ جن میں سے اول صفت الحیاۃ ہے اور اخیر کی صفت محکومین ہے۔ تین قسم ہیں۔

ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق عالم کے ساتھ غالب ہے اور اس کی اضافت و نسبت مخلوق کی طرف زیادہ تر ہے جیسا کہ تکوین یہی باعث ہے کہ اہل سنت و جماعت میں سے ایک جماعت نے اس کے وجود کا انکار کیا اور کہا ہے کہ تکوین صفات اضافیہ میں سے ہے اور حق یہی ہے کہ وہ صفات قیقیہ سے ہے۔ صرف اضافت اس پر غالب ہے اور دوسری قسم وہ ہے جو اضافت انسیت رکھتی ہے مگر پہلی قسم سے کمتر ۔ جیسا کہ علم و قدرت و ارادہ و سمع و بصر اور کلام اور تیسری قسم مینوں قسموں سے اعلیٰ ہے۔ جس کا کسی وجہ سے عالم کے ساتھ تعلق نہیں ہے اور اس میں اضافت و نسبت کی بوتک نہیں جیسا کہ حیواں۔ یہ صفت تمام صفات کی ام اور ان سب کی اصل اور سب سے اسبق ہے۔ اس صفت کے زیادہ قریب صفت العلم سے جو حضرت خاتم الرسل مل سے تعین کا مبدہ ہے اور دوسری صفات اور مخلوقات کے تعینات کے مبادی ہیں اور چونکہ بر صفت تعلقات متعددہ کے اعتبار سے بہت ہی جزئیات رکھتی ہے۔ جیسا کہ تکوین کہ اس سے تعلقات متعددہ کے اعتبار سے تخلیق ( پیدا کرنا) و ترزیق (رزق دنیا ) و احیاء وا ماتت ( زندہ کرنا اور مارنا) جزئیات پیدا ہوئی ہیں۔ اس لئے یہ جزئیات بھی اپنے کلیات کی طرح مخلوقات کے تعینات کی مبادی ہیں اور جس شخص کا مبدء و تعین وہ کل ہے۔ دوسرے تعینات کہ جن کے مبادی اس کمی کے جزئیات ہیں۔ اس شخص کے تابع ہوں ئے اور اس کے قدم کے نیچے زندگی بسر کریں گے۔ اس سبب سے کہتے ہیں کہ فلاں حضرت محمد و کے زیر قدم ہے اور فلاں حضرت عیسی علیہ السلام کے زیر قدم اور فلاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قدم کے نیچے ہے اور جب ان جزئیات کو بطریق سلوک ترقی واقع ہو تو اپنی کمیات سے ملحق ہو جاتی ہیں اور ان کا شہود کلیات کا شہودی ہو جاتا ہے۔ فرق صرف اصالت و جمعیت کا رہ جاتا ہے اور امتیاز صرف توسط اور عدم توسط سے ہو سکتا ہے کیونکہ تابع جو کچھ پاتا ہے اور جو کچھ دیکھتا ہے اصل کے وسیلہ کے بغیر ممکن نہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تابع اپنے قصور سے اصل کو متوسط انہیں جانتا لیکن فی الحقیقت اصل تابع اور اس کے شہود کے درمیان حائل ہوتا ہے۔ نہ ایسا جو شہود کا مانع ہو بلکہ عینک صاف کی طرح مشہود کا باعث ہوتا ہے اور جائز نہیں کہ ایک کلی کی جزئیات ترقی کر کے اور اپنی کلی سے خروج کر کے دوسری کلی کے ماتحت آجائیں اور ان کا مشہور اس دوسری کلی کا شہود ہو۔ مثلاً وہ لوگ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قدم کے نیچے ہیں، انتقال کر کے حضرت عیسی علیہ السلام کے قدم کے نیچے داخل نہیں ہو سکتے ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے زیر قدم آ جائیں بلکہ ہمیشہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے قدم کے نیچے ہیں کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رب رب الارباب ہے اور ان تمام کلیات کا اصل ہے۔ بس ، و جزئیات کے لئے اصل الاصل ہوگا اور یہ ترقی گویا اصل الاصل کی طرف ہو گیا تہ کہ اصل کی طرف جو ان کے اصل کے مبائن اور بر خلاف ہے اس قدر جزئیات اور کلیات کے درمیان رہے گا کہ جزئی کے دو حائل ہیں۔ ایک اس کا اپنا اصل جو اس کی لکھی ہے اور دوسرا حائل اصل الاصل اور اس کی کمی کے لئے جناب اصل الاصل ہے۔ پس یہاں سے معلوم ہوا که حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شہود بے پردہ تعینات ہے اور دوسروں کا شہود پردہ تعینات میں ہے یا پردہ تعین محمدی میں۔ اسی واسطے کہتے ہیں کہ تجلی ذات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاصہ ہے اور دوسروں کی تجلی پر دو صفات میں ہے یا پر وہ رب الارباب میں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رب ہے جو سوائے صفت الحیات کے تمام اسما و صفات سے برتر ہے۔ اگر کہیں کہ اس بیان سے لازم آتا ہے کہ تمام انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کا شہر و مبد وتعین محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پردہ میں ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے اولیا ، جو بالا صالت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیر قدم ہیں۔ ان کا مشہور بھی انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کے شہود کی طرح پردہ رب الارباب میں ہوگا۔ پھر تمام انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اولیائے امت کے درمیان کیا فرق رہا۔ تو میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ انبیائے علیہم الصلوۃ و السلام کے لئے اس شہود کے سوا جو پردہ حقیقت محمدی میں ہے ایک اور شہور بھی ہے کو ان کے مبادی تعینات کی راہ سے پیدا ہوتا ہے اور بالا صالت اپنی مخصوصہ عینکوں کو بصیرت کی آنکھ پر رکھ کر غیب الغیب کا مشاہدہ فرماتے ہیں ۔

جاننا چاہئے کہ ان ہر دو شہود سے یہ مراد نہیں کہ دونوں ایک ہی وقت میں ثابت ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ مراد ہے کہ اگر اصل الاصل تک ترقی پہنچ جائے تو اس کا شہود حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح جونزول کے بعد اس دولت سے مشرف ہوں گے حقیقت محمدی کے پردہ میں ہیں اور یہ ترقی بہت مشکل ہے اور محال کے نزدیک ہے۔ اس ترقی کے لئے خدائے تعالیٰ کا بڑا افضل درکار ہے اور عالم اسباب میں محمدی مشرب پیر کی شفقت ہونی چاہئے اور اگر اپنے اصل سے ترقی نہ کرے اور اپنی حقیقت سے حقیقت الحقائق تک نہ پہنچے اس کا شہود اپنی مخصوصہ حقیقت کے مرتبہ میں ہے۔

جان اور آگاہ ہو کہ جس طرح حقیقت الحقائق سے حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کی طرف رہا ہے جو منازل کثیرہ کے طے کرنے کے بعد وہاں تک وصول میسر ہوتا ہے۔ اس طرح تمام حقائق کلیات سے بھی حضرت ذات تعالی و تقدس کی طرف راہ ہے جس میں بہت سے مرحلے طے کرنے
کے بعد وصول حاصل ہوتا ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ حقیقت الحقائق کی راہ میں وصل عریان ہے اور باقی طریقوں میں اگر چہ وصل ذات میسر ہوتا ہے لیکن اس سیر کے لئے اصول عالیہ کے منتہا میں حقیقت الحقائق جو حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ درمیان میں حائل ہے۔ اگر چہ حصن حصین اور مانع متین نہیں ہوتی لیکن اس قدر حاجزیت اور حاملیت بھی بہت ہے جو تجلی ذات کے اطلاق کی مانع ہوتی ہے ورنہ باقی انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کو بھی بالا صالت حق تعالیٰ کی ذات سے حصہ حاصل ہے اور ان کی امت کے کاموں کو انبیاء ورسل علیہم الصلوۃ والسلام کی متابعت کے باعث حصہ حاصل ہوتا ہے۔

سوال : جب صفت الحیات صفت العلم سے برتر ہے تو حقیقت الحقائق کی راہ میں بھی صفت الحیات کا تعین حائل ہو گا پھر وصل عریانی کس طرح ہوگا اور اس کو تجلی ذات کیوں کہتے ہیں؟

جواب: وہ تین لاتعین کی مانند ہے اور حکومتلاشی ہو جاتا ہے اور حضرت ذات تعالی کے مرتبہ میں کچھ اعتبار نہیں رہتا۔ اگر چہ دوسری صفات کیلئے بھی مرتبہ ذات میں کچھ اعتبار نہیں لیکن مرتبہ ذات میں وہ اس طرح نہیں پہنچتیں کہ متلاشی ہو جائیں۔ برخلاف صفت الحیات کے کہ وہاں پہنچ کر متلاشی ہو جاتا ہے۔ اس واسطے حقیقت محمدی کا تعین اور دوسرے خلائق دائمی ہیں اور مراتب میں سے کسی مرتبہ میں ان کا زائل ہونا محال ہے ہاں کسی شے تک پہنچنا اور اس شے میں مکمل ہونا امر ا دیگر ہے اور بعض مشائخ رحمتہ اللہ علیہ کی عبارت میں جو لفظ محو و اضمحلال واقع ہوتا ہے۔ اس سے مرادمحو و اضمحلال نظری ہے نہ محو ذاتی یعنی سالک کا تعین اس کی نظر سے مرتفع ہو جاتا ہے۔ نہ کہ نفس الامر میں محو ہو جاتا ہے کہ یہ الحاد زندقہ ہے اس راستہ کے بعض ناقص ان الفاظ موہمہ سے اضمحلال مینی جان کر زندقہ تک پہنچ گئے ہیں اور عاقبت کے ثواب و عذاب سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے خیال کیا ہے کہ جس طرح وحدت سے کثرت میں آئے ہیں اسی طرح دوسری مرتبہ کثرت سے وحدت میں جائیں گے اور یہ کثرت اس وحدت میں مضمحل ہو جائے گی ۔ اور ان زندیقوں میں سے بعض نے اس محو ہونے کو قیامت کبری خیال کیا ہے اور حشر و نشر و حساب وصراط و میزان سے انکار کیا ہے۔ ضَلُّوا فَأَضَلُّوا كَثِيرًا من الناس ( یہ لوگ خود بھی گمراہ ہوئے اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا )

ان لوگوں میں سے میں نے ایک شخص کو دیکھا ہے کہ اپنے مطلب میں مولا نا عبدالرحمن
جامی قدس سرہ کے اس شعر کو بطور شہادت پیش کرتا تھا۔


جامی معاد ومبدء ما وحدت است و بس
ما درمیان کثرت موهوم والسلام


ترجمہ: معاد و مبدء ہمارا جا میا وحدت برائے نام ہیں ہم درمیان کثرت


نہیں جانتا کہ مولانا کی مراد اس بیت سے وحدت کی طرف عود در جوع کرنا نظر و شہود کے اعتبار سے ہے کیونکہ ایک ذات کے سوا کچھ ان کا مشہور نہیں رہتا اور تمام کثرتیں ان کی نظر سے پوشیدہ ہو جاتی ہیں۔ رجوع مینی اور وجودی مراد نہیں ہے۔

یہ لوگ شاید اندھے ہیں کہ دیکھتے نہیں کہ کسی کامل سے عجز و نقص و احتیاج زائل نہیں ہوتی پھر وحدت کی طرف رجوع وجودی کے کیا معنی ہیں اور اگر وحدت کی طرف رجوع کرنا موت کے بعد خیال کیا ہے تو کافر زندیق ہیں کہ عذاب آخرت سے انکار کرتے ہیں اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو باطل سمجھتے ہیں۔

سوال : تو نے اپنے رسالوں میں لکھا ہے کہ فنائے انٹی ولایت محمدی صلى الله عليه وسلم کے ساتھ مخصوص ہے ا اس کے کیا معنی ہیں؟

جواب: گزشتہ تحقیق سے معلوم ہو چکا ہے کہ اصل عریان ولایت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے اور دوسروں کے لئے حجاب اگر چہ مرتفع ہو جاتے ہیں لیکن پیرابن شعر کی مانند حیلولہ سے جو حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط کی راہ سے حاصل ہوتا ہے چارہ نہیں ہوتا جیسا کہ گزر چکا۔ پس انھی سے جو مراتب انسانی کی نہایت ہے اس حیلولہ کے اندازو کے موافق بلندی میں بقیہ رہ جاتا ہے پس اس بقیہ کے لحاظ سے فنائے مطلق کا اطلاق جائز نہیں ہوتا۔ اس بقیہ کے بقا کو مد ی صلى الله عليه وسلم کے سوا اور کوئی نہیں معلوم کر سکتا۔ ہزاروں محمدی مشرب میں سے اگر کسی کو اس قسم کی تیز نظر حاصل ہو جائے تو پھر غنیمت ہے۔ مشائخ طبقات میں سے اکثر نے روح وسر تک ہی گفتگو کی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جس نے خفی کا سر بیان کیا ہو تو پھر انھی کی نسبت کس طرح بیان کر سکے اور جس شخص نے دریائے اٹھی میں غوطہ لگایا ہو اور اس کے ذرات میں سے ہر ذرہ تک پہنچا ہواور اس پر اطلاع پائی ہو ۔ وہ کبریت احمر ہے۔ ذلكَ فضُلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللهُ
ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا دیتا ہے۔

سوال: تو اس امر کا معتقد ہے کہ جو کمالات نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس کے کامل تابعداروں کو تبعیت کے طور پر ان کمالات سے حصہ حاصل ہوتا ہے۔ پس لازم آتا ہے کہ ان کو واصل عریانی سے بھی حاصل ہوگا ۔ حالانکہ وہی حائل درمیان ہے؟

جواب : وصل عریانی میں نبی کا حیلولہ ضرور نہیں رکھتا کیونکہ وہ وصل تبعیت کے طور پر ہے نہ اصالت کے طور پر پس حیلولہ تبعیت کا موکد ہوگا نہ کہ اس کے منافی کیونکہ تبعیت کے معنی متوسط کا حاصل ہونا ہے نہ کہ متوسط کا رفع ہونا کہ وہ مقام اصالت کے مناسب ہے۔ پس حیلولہ بھی ہوگا اور وصل عریانی بھی تبعیت کے طور پر میسر ہوگا ۔ فافہم ۔

سوال : کیا سبب ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے کامل تابعداروں کے حق میں وصل عریانی اور تجلی ذاتی کا اطلاق کرتے ہیں اور دوسرے انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کے حق میں یہ اطلاق تجویز نہیں کرتے حالانکہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا حیلولہ دونوں کے حق میں حاصل ہے؟

جواب : کامل تابعداروں کے حق میں اس اطلاق کا تجویز کرنا تبعیت کے اعتبار سے ہے کہ نبی کا توسط اس اطلاق کے منافی نہیں ہے جیسا کہ گزر چکا اور دوسرے انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کے حق میں اگر یہ اطلاق تجویز کیا جائے تو اصالت کے اعتبار سے ہوگا کیونکہ یہ بزرگوار اصالت کے طور پر منازل کو قطع کر کے ذات حق تعالیٰ تک پہنچتے ہیں اور کچھ شک نہیں کہ اصالت کی صورت میں متوسط کا حاصل ہونا اس اطلاق کے منافی ہوگا۔ پس فرق واضح ہو گیا۔


جاننا چاہئے کہ گزشتہ انبیائے علہیم الصلوۃ والسلام اور اس امت کے کامل تابعداروں کے درمیان و تبعیت کا فرق انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کی افضلیت کا موجب ہے کیونکہ اصل مقصودی ہے اور تابع طفیلی ۔ اگر تا بعداروں پر وصل عریانی اور تجلی ذات کا اطلاق صحیح ہے اور متبوعوں میں یہ اطلاق جائز نہیں۔ لیکن طفیلی کی کیا طاقت ہے اور کس طرح له مقصودی کے ساتھ برابری کر ۔ برابری کر سکے جبکہ اصل میں وہ دولت اتم و اکمل طور پر ہے اور تابع میں اسم و رسم کے طور پر لیکن اس قدر مناسبت نسبت کو درست کرتی ہے اور تابع کو متبوع کی طرح بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے اپنی امت کے علماء کو بنی اسرائیل کی مانند فرمایا ہے۔ اس بیان سے واضح ہوا کہ اس امت کے اولیاء کو تجلی ذات کا حاصل ہونا۔ ان انبیاء پر جن کو تجلی ذات حاصل نہیں ، فضیلت کا باعث نہیں ہے۔ اس بات کو غور سے سوچنا چاہئے کیونکہ یہ مقام لغزش ہے اور انصاف کرنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے طفیل اپنے علوم کے ساتھ اس ضعیف بندے کو ممتاز فرمایا ہے۔


سوال: یہ امر ثابت و مقرر ہے کہ پیدائش سے مقصود حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوۃ والسلام : ہیں ۔ دوسرے نفس وجود اور حصول کمالات میں ان کے طفیلی ہیں اور انہی کی تبعیت سے بلند درجوں تک پہنچتے ہیں۔ اسی واسطے قیامت کے دن حضرت آدم علیہ السلام وغیرہ سب آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور تو نے اوپر کہا ہے کہ تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو وصول کی دولت بطریق اصالت حاصل ہے نہ بطریق تبعیت ۔ اس کی کیا وجہ ہے اور جیسا کہ حضرت محمد رسول اللہ کے لئے اپنی حقیقت کی جہت سے حضرت ذات تعالیٰ کی طرف راستے ہیں اور اس وصول میں تبعیت نہیں ۔ برخلاف امتوں کے کہ انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کی تبعیت سے ان کے حقائق کی راہ سے اپنی اپنی استعداد کے مناسب مطلب تک پہنچ جاتے ہیں اور اصالت ان کے حق میں مفقود ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ دوسروں کا وصل اگر چه اصالت کے طور پر ہو وصل عریانی نہیں ہے کیونکہ خاتم الرسل علیہ الصلوۃ والسلام کی حقیقت مطلوب کا پیر بن شعر ہوئی ہے۔ پس اول جو فیض کہ آتا ہے اس حقیقت کے ساتھ اتصال پاتا ہے۔ بعد ازاں اس کے وسیلہ سے دوسروں کو پہنچتا ہے اور د تبعیت کے معنی بھی توسط کا حاصل ہونا ہے۔ پس وہ اصالت اس تبعیت کے مخالف نہیں اور اچھی طرح معلوم کرنا چاہئے کہ وہ تبعیت جو امتوں کے حق میں کہی گئی ہے وہ اس تبعیت کے ماسوا ہے جو اصالت کے منافی ہے جیسا کہ کئی بار ذکر ہو چکا ہے۔ پس دونوں کے درمیان فرق ظاہر ہو گیا۔

سوال : اگر کہیں کہ کاموں کو مراتب عروج میں مرتبہ صفت الحیات سے بھی حصہ حاصل ہوتا ہے یا نہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ حاصل ہوتا ہے اور اگر کہیں کہ او پر مذکور ہو چکا ہے کہ اس صفت کے نہایت کو حضرت ذات تعالیٰ میں اضمحلال و تلاش ہے اور محمد تلاش سے کاملوں کا کیا نصیب ہوگا حالانکہ تو نے بیان کیا ہے کہ تعینات حقائق کے لئے اضمحلال معینی نہیں ہے اور اگر ہے تو نظری ہے کیونکہ۔اضمحلال عینی الحاد و زندقہ تک پہنچا دیتا ہے؟

جواب : اضمحلال عینی کی کیا ضرورت ہے۔ اضمحلال نظری کافی ہے اگر چہ اس اضمحلال میں بہت سے مراتب متفاوت ہیں۔ فَافُهُمْ. وَاللهُ سُبْحَانَهُ أَعْلَمُ بحقيقة الحال بس سمجھ لے اور بِحَقِيقَةِ )حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔)


وَالسَّلاَمُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالْتَزَمَ مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفَى عَلَيْهِ وَ عَلى اله الصَّلوتُ وَالسَّلاَمُ اَتَمُهَا وَأَكْمَلُهَا

سلام ہو اس شخص پر جو ہدایت کی راہ پر چلا اور حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم کی متابعت کو لازم پکڑا۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا