2

مکتوب 295: نظر بر قدم و هوش در دم و سفر در وطن وخلوت در انجمن کے بیان میں


مکتوب 295

نظر بر قدم و هوش در دم و سفر در وطن وخلوت در انجمن کے بیان میں جو طریقہ علیہ نقشبند یہ قدس اللہ تعالیٰ اسرار مشائخہا میں اصول مقررہ ہیں۔ حاجی یوسف کشمیری کی طرف صادر فرمایا ہے۔

جاننا چاہئے کہ طریقہ علیہ نقشبندیہ کے اصول مقررہ میں سے ایک نظر بر قدم ہے نظر بر قدم سے مراد یہ نہیں کہ نظر قدم سے تجاوز نہ کرے اور قدم سے زیادہ بلندی کی خواہش نہ کرے کیونکہ یہ بات خلاف واقع ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ نظر ہمیشہ قدم سے بلندی کی طرف چڑھے اور قدم کو اپنا ردیف بنائے کیونکہ بلندی کے زینوں پر پہلے نظر چڑھتی ہے۔ اس کے بعد قدم صعود کرتا ہے اور جب قدم مرتبہ نظر میں پہنچتا ہے نظر اس سے اوپر کے زینہ پر آ جاتی ہے اور قدم بھی اس کی تبعیت میں اس زینہ پر چڑھ آتا ہے۔ بعد ازاں نظر پھر اس مقام سے ترقی کرتی ہے۔ علی ہذالقیاس اور اگر مراد یہ ہے کہ نظر اس مقام تک ترقی کرے جہاں قدم کی گنجائش نہ ہو ۔ یہ بات بھی غیر واقع ہے
کیونکہ قدم کے تمام ہونے کے بعد اگر نظر تنہا نہ ہو تو بہت سے مراتب فوت ہو جاتے ہیں ۔

اس کا بیان یہ ہے کہ قدم کی نہایت سالک کی استعداد کے مراتب کی نہایت تک ہے بلکہ اس نبی کی استعداد کی نہایت تک ہے جس کے قدم پر وہ سالک ہے لیکن قدم اول بالا صالت ہے اور دوسر اقدم اس نبی کی تبعیت سے اور اس استعداد کے مراتب سے اوپر اس کا قدم نہیں لیکن نظر ہے اور یہ نظر جب تیزی حاصل کرلے تو اس کا منتہا اس نبی کی نظر کے مراتب کی نہایت ہے جس کے قدم پر وہ سالک ہے کیونکہ نبی کے کامل تابعداروں کو اس کے تمام کمالات سے حصہ حاصل ہوتا ہے لیکن مراتب استعداد کی نہایت تک جو سالک کی اصالت اور تبعیت سے ہے۔ قدم ونظر موافقت رکھتے ہیں ۔ بعد ازاں قدم کوتا ہی کرتا ہے اور نظر تنہا صعود کرتی ہے اور اس نبی کے مراتب نظر کی نہایت تک ترقیاں کرتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ انبیائے علیہم الصلوۃ والسلام کی نظر بھی ان کے قدم پر صعود کرتی ہے اور ان بزرگواروں کے کامل تا بعد اروں کو بھی ان کی نظر کے مقام سے حصہ حاصل ہے جیسا کہ ان کے قدم کے مقام سے نصیب حاصل ہے اور حضرت خاتم الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام کے قدم کے اوپر مقام رویت ہے جس کا وعدہ دوسروں کو آخرت پر دیا گیا ہے جو کچھ دوسروں کے لئے ادھار ہے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے لئے نقد ہے اور آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے کامل تا بعداروں کو اس مقام سے بھی حصہ حاصل ہے اگر چہ روایت نہیں ہے۔


فریاد حافظ ایں ہمہ آخر بہر زه نیست
ہم قصہ غریب وحدیث عجیب ہست


ترجمہ: نہیں بے فائدہ حافظ کی فریاد
بہت عمدہ ہے اس کا ماجر اسب


اب ہم اصلی بات کو بیان کرتے اور کہتے ہیں کہ اگر نظر بر قدم سے مراد یہ ہو کہ قدم نظر سے تخلف نہ کرے۔ اس طرح پر کہ کسی وقت مقام نظر تک نہ پہنچے تو نیک ہے کیونکہ یہ معنی ترقی کے مافع ہیں ۔ ایسے ہی اگر نظر و قدم سے مراد ظاہری نظر و قدم لئے جائیں تو بھی گنجائش ہے کیونکہ راستہ میں چلنے کے وقت نظر پراگندہ ہو جاتی ہے اور ہر طرح کے محسوسات کی طرف لگ جاتی ہے۔ اگر نظر کو قدم پر لگایا جائے تو جمعیت کے اقرب ہے اور یہ مراد دوسرے کلمہ کے معنی کے مناسب ہے جو اس کا قرین ہے اور وہ کلمہ ہوش در دم ہے۔ غرض اول اس تفرقہ کے دفع کرنے لئے ہے جو آفاق سے پیدا ہوتا ہے اور کلمہ دوسرا انفس کے تفرقہ کو دفع کرتا ہے اور کلمہ تیسر ا جو ان دو کلموں کے قرین ہے سفر در وطن ہے اور وہ انفس میں سیر کرنے سے مراد ہے جو اندراج النہایت فی البدایت کے حاصل ہونے کا باعث ہے جو اس طریقہ علیہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اگر چہ سیر انفسی تمام طریقوں میں ہے لیکن سیر آفاقی کے وصول کے بعد ہے اور اس طریق میں اسی سیر سے شروع کرتے ہیں اور سیر آفاقی اس سیہ کے ضمن میں مندرج ہے۔ اگر اس اعتبار سے بھی کہہ دیں کہ اس طریقہ علیہ میں نہایت بدایت میں مندرج ہے تو ہو سکتا ہے اور چوتھا کلمہ جو ان تینوں کلموں کے ساتھ ہے۔ خلوت در انجمن ہے جب سفر در وطن میسر ہو جائے تو انجمن میں بھی خلوت خانہ وطن میں سفر کرتا ہے اور آفاق کا تفرقہ انفس کے حجرہ میں راہ نہیں پاتا۔ یہ بھی اس صورت میں ہے کہ حجرہ کے دروازوں اور روزنوں کو بند کر لیں ۔ پس چاہیئے کہ انجمن میں متکلم و مخاطب کا تفرقہ نہ ہو اور کسی کی طرف توجہ نہ ہو ۔ یہ سب تکلفات اور حیلے بہانے ابتداء اور وسط ہی میں ہیں اور انتہا میں ان میں سے کچھ بھی در کار نہیں ۔ عین تفرقہ میں جمعیت کے ساتھ اور نفس غفلت میں حاضر رہتے ہیں ۔ اس بیان سے کوئی یہ گمان نہ کرے کہ جمعیت میں تفرقہ و عدم تفرقہ منتہی کے حق میں مطلق طور پر مساوی ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ تفرقہ اور عدم تفرقہ اس کی باطن کی جمعیت میں برابر ہیں ۔ اس کے باوجود اگر ظاہر کو باطن کے ساتھ جمع کرلے اور تفرقہ کو ظاہر سے بھی دفع کر دے تو بہت ہی بہتر اور مناسب ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو فرماتا ہے۔ وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وتبتل اليه تبتيلا اپنے رب کا نام یاد کر اور سب سے تو ڑ کر اس کے ساتھ جوڑ ۔


جاننا چاہئے کہ بعض اوقات ظاہری تفرقہ سے چارہ نہیں ہوتا تا کہ خلق کے حقوق ادا ہوں ۔ پس تفرقہ ظاہر بھی بعض اوقات اچھا ہوتا ہے لیکن تفرقہ باطن کسی وقت بھی اچھا نہیں کیونکہ وو خاص حق تعالیٰ کے لئے ہے۔ پس عبادت کے تین حصے حق تعالی کے لئے مسلم ہوں گے۔ باطن سب کا سب اور ظاہر کا نصف حصہ اور ظاہر کا دوسرا حصہ خلق کے حقوق ادا کرنے کے لئے رہا۔ چونکہ اس حقوق کے ادا کرنے میں بھی حق تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری ہے اس لئے ظاہر کا دوسرا نصف بھی حق تعالیٰ کی طرف راجع ہے۔ الَیهِ يُرجعُ الامْرُكُلُّهُ فَاعْبُدُهُ تمام امور اسی کی طرف
رجوع کرتے ہیں۔ پس اس کی عبادت کر ۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا