مکتوب 299
مصیبت کی ماتم پری اور قضا کے ساتھ صبر ورضا پر دلالت کرنے اور مرگ طاعون کی فضیلت میں اور اس بیان میں کہ طاعون کی زمین سے بھاگنا گناہ کبیرہ ہے۔ جیسا کہ یوم زحف یعنی کفار کے ساتھ جنگ سے بھاگنا گناہ ہے۔ شیخ فرید را بھولی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
حمد وصلوٰۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد عرض کرتا ہے کہ آپ کا مکتوب شریف پہنچا۔ آپ نے مصیبتوں کا حال لکھا ہوا تھا۔ واضح ہوا ۔ اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ صبر و حمل کرنا چاہئے اور قضا
پر راضی ہونا چاہئے ۔
من از تو روے نہ پیچم گرم بیازاری
که خوش بودز عزیزاں تحمل و خواری
ترجمه: تو خواہ کتنا ستائے پھر ور نہ تجھ سے کبھی
کہ تیری سختی و خواری ہے لگتی مجھ کو بھلی
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ مَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُوا عَنُ کثیر جو مصیبت تم کو پہنچتی ہے۔ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کے باعث پہنچتی ہے اور اللہ تعالیٰ بہت
کچھ معاف کرتا ہے۔
اور فرماتا ہے ۔ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِى النَّاسِ برو بحر میں لوگوں کے اعمال کے باعث فساد مچ گیا۔
اس ملک میں ہمارے اعمال کی شومی سے اول چو ہے ہلاک ہوئے جو ہم سے زیادہ اختلاط رکھتے تھے اور پھر عورتیں جن کے وجود پر نوع انسانی کی نسل و بقا کا مدار ہے، مردوں کی نسبت زیادہ مر گئیں اور جو کوئی اس وباء میں مرنے سے بھاگا اور سلامت رہا۔ اس نے اپنی زندگی پر خاک ڈالی اور جو شخص نہ بھاگا اور مرگیا۔ اس کوموت شہادت کی مبارکبادی اور خوشخبری ہے۔
شیخ الاسلام ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب بدل الــمـاعـون في فضل الطاعون میں تحقیق سے لکھا ہے کہ جو شخص طاعون سے مر جائے ۔ اس سے کوئی سوال نہیں ہوتا کیونکہ وہ ایسا سے جیسے لڑائی میں قتل ہوا اور جو شخص طاعون میں طلب اجر کی نیت سے صبر کرتا ہے اور جانتا ہے کہ مجھے وہی کچھ پہنچے گا جو میرے اللہ تعالیٰ نے لکھا اور مقدر کیا ہے تو وہ شخص اگر طاعون کے سوا کسی اور بیماری سے بھی مر جائے تو اس صورت میں بھی اس کو عذاب نہ ہوگا کیونکہ وہ مرابط یعنی جہاد کے مستعد اور تیار شدہ کی مانند ہے۔
اسی طرح شیخ سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب شرح الصدور في حال الموتی والقبور میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بڑی اعلیٰ حجت ہے اور جو شخص نہ بھاگا اور نہ مراوہ غازیوں اور مجاہدوں اور صابروں اور بلاکشوں میں سے ہے کیونکہ ہر شخص کے لئے اجل مقرر ہے، جو ہرگز آگے پیچھے نہیں ہو سکتی اور اکثر بھاگنے والے جو سلامت رہے ہیں اسی واسطے رہے ہیں کہ ابھی ان کی اجل نہ آئی تھی۔ نہ کہ یہ بھاگ کر مرگ سے بچ گئے اور اکثر صابر لوگ جو ہلاک ہو گئے وہ بھی اپنی اجل ہی سے ہلاک ہوئے ہیں۔ پس نہ ہی بھا گنا بچا سکتا ہے اور نہ ہی ٹھہر نا ہلاک کر دیتا ہے۔ یہ طاعون سے بھاگنا یوم زحف یعنی جنگ کفار کے بھاگنے کی طرح ہے اور گناہ کبیرہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مکر واستدراج ہے کہ بھاگنے والے سلامت رہتے ہیں اور صبر کرنے والے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَيَهْدِى بهِ كثيراً (اکثر کو گمراہ کرتا ہے اور اکثر کو ہدایت دیتا ہے )
آپ کے صبر و حمل اور مسلمانوں کے ساتھ آپ کی امد او اعانت کی نسبت سنا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کام پر جزائے خیر دے۔ بچوں کی تربیت اور ان کی تکلیف برداشت کرنے سے دل تنگ نہ ہوں کیونکہ بہت سے اجر کی امید اسی پر مترتب ہے۔ اس سے زیادہ کیا لکھا جائے۔ والسلام۔