مکتوب 300
پوشیدہ اسرار اور غریبہ معارف کو رمز واشارہ کی زبان کے ساتھ بیان کرنے اور مقام قاب قوسین وادنی کی نسبت اشارہ کرنے کے بیان میں جامع علوم عقلی و نقلی مخدوم زاده مجد الدین محمد معصوم سلمہ اللہ تعالیٰ کی طرف صادر فرمایا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامُ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کے برگزیدہ
بندوں پر سلام ہو۔
جب انسان کامل مراتب اسماء وصفات کی تفصیلی سیر کو طے کر کے جامعیت نامہ پیدا کر لیتا ہے اور اسماء وصفات الہی کے کمالات کا آئینہ بن جاتا ہے اور اس کا عدم ذاتی جو ان کمالات کا آئینہ ہے۔ پورے طور پر پوشیدہ ہو جاتا ہے اور ان کمالات کے سوا اس میں اور کوئی چیز ظاہر نہیں ہوتی تو اس وقت فنائے تام کے حاصل ہونے کے بعد جو اس کے عدم کے نفی ہونے پر وابستہ تھی ۔ ایک خاص بقاء کے ساتھ جو ان کے کمالات پر منحصر ہے، مشرف ہوتا ہے اور ولایت کا اسم اس پر صادق آتا ہے۔اس کے بعد اگر حق تعالیٰ کی عنایت از لی شامل حال ہو جائے تو ہوسکتا ہے کہ پھر یہ کمالات جن کے ساتھ عارف نے بقا حاصل کی تھی۔ حضرت ذات کے آئینہ میں منعکس ہو جا ئیں اور وہاں ظہور پیدا کریں۔اس وقت قاب قوسین کا سر ظہور میں آتا ہے۔
جانا چاہئے کہ اس مقام میں آئینہ میں کسی شے کے شہور سے مراد یہ ہے کہ اس شے کو اس آئینہ کے ساتھ نسبت مجہولہ حاصل ہو جائے۔ نہ یہ کہ وہاں آئینے کی حقیقت ہے اور وہ شے اس میں حاصل ہے ۔ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الأعلى (مثال اعلیٰ اللہ ہی کے لئے ہے ) اور جب وہ کمالات جن کے ساتھ عارف نے بقا حاصل کی تھی ۔ حقیقت واصالت کے طور پر آنجناب پاک کے آئینہ میں منعکس ہو جاتے ہیں اور وہاں ظہور پیدا کرتے ہیں اور وہاں اس کو نسبت مجہول الکیفیت حاصل ہو جاتی ہے تو اس وقت انا جو عارف کے ساتھ تعلق رکھتا تھا وہاں اطلاق پاتا ہے اور اپنے آپ کو وہ کمالات ظاہرہ دیکھتا ہے۔ مقام قاب قوسین میں انا کی نہایت عروج یہی تک ہے۔
اے فرزند ! سن لے کہ صورت کا آئینہ جس میں حسن و جمال منعکس ہوتا ہے۔ اگر بالفرض وہ آئینہ علم کی صورت پیدا کرلے تو بالضرور اس سن و جمال کے ظہور سے متلذ ذ ہوگا اور حظ وافر حاصل کرلے گا اور حقیقت کے آئینہ میں اگر چہ لذت وامہ جو صفات امکان سے ہے۔ مفقود ہے لیکن وہ امر جو اس مرتبہ علیہ کے لائق ہے اور نقص وحدوث کے نشان سے پاک ہے، کائن و ثابت ہے۔
فریاد حافظ له نهه آخر بہرزه نیست
ہم قصہ عجیب وحدیث غریب ہست
ترجمہ: نہیں بے فائدہ حافظ کی فریاد
عجب ہے ماجرا اس کا سراسر
یہ کمالات ظاہرہ جنہوں نے اس مرتبہ میں نسبت مجہول الکیفیت حاصل کی ہے۔ ان کی نسبت بعینہ ایسی ہے جیسے انسان کے عالم خلق کو عالم امر کے ساتھ نسبت ہے۔ اس مقام میں مَنْ عَرَف نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ (جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا ) کا سر حاصل ہوتا ہے اور جب ان کمالات ظاہرہ نے جو حضرت ذات تعالیٰ کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ حضرت اجمال کے ساتھ مجہول الکیفیت نسبت پیدا کر کے اور بلا کیف اتصال حاصل کر کے حضرت اجمال کی آئینہ داری کی تو حضرت اجمال میں مجرد اعتبار اور محض تو ہم سے تفصیل بھی پیدا ہوگئی جو عارف کے آنسا کے عروج کا باعث ہوئی ۔ یہ کمال مقام او ادنی پر وابستہ ہے ھے
قلم اینجا رسید وسر بشکست
ترجمہ: قلم جب اس جگہ پہنچا قلم سر ہو گیا اس کا
یہ ہے نہایت النہایت اور نایت الغایت کا بیان جس کا سمجھنا خواص کے ادراک سے کوسوں دور ہے ۔ پھر عوام کا کیا ذکر ۔ بلکہ اخص خواص سے بھی بہت کم لوگ اس دولت اور معرفت سے سرفراز ہوئے ہیں
اگر پادشاه بردر پیرزان
بیاید تو اے خواجہ بلت مکن
ترجمہ: اگر بڑھیا کے در پے آئے سلطاں
تو اے خواجہ نہ ہو ہرگز پریشاں
یه نهایت ظہورات و تجلیات کے اعتبار سے نہیں ہے کیونکہ اس کے بعد کسی قسم کی تجلی اور ظہور متصور نہیں
ومِنْ بَعْدِ هَذَا مَا يدق صفاتُهُ
وما كلمة احظى لديه و اجمل
ترجمہ: بعد ازاں وہ چیز ہے جس کا نہیں لگتا پتا
جس کا مخفی اور دور پر دو ہی رہنا ہے بھلا
والسلام على من اتبع الهدى والعزم مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفى عليه و على اله وعلى جميع الأنبياء والمرسلين وعلى كُلِّ مَللكة الْمُقَرَّبَينِ الصَّلوات وَالتَّسْلِيمَاتُ وَالتَّحِيَّاتُ والبركات اتمها وأَكْمَلُهَا وَاوْلَهَا وَاعْلَهَا وَادْومُها وَابْقَاهَا وَاعْمها وأشملها سلام ہو اس شخص پر جو ہدایت کی راہ پر چلا اور حضرت مصطفی ﷺ متابعت کو لازم پکڑا۔