مکتوب 304
ان اعمال صالحہ کے بیان میں کہ اکثر آیات قرآنی میں بہشت میں داخل ہوتا ان پر موقوف رکھا ہے اور شکر کے ادا کرنے کے بیان میں اور نماز کے بعض اسرار اور معانی کے بیان میں مولا نا عبد الحین کی طرف صادر فرمایا ہے۔
خدا تجھے سعادت مند کرے حمد و صلوۃ کے بعد واضح ہو کہ مدت سے فقیر کو اس بات کا تر در تھا که ان اعمال صالحہ سے کہ حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے اکثر آیات قرآنی میں ان پر بہشت میں داخل ہو نا موقوف رکھا ہے۔ آیا تمام اعمال صالح مراد ہیں یا بعض اگر تمام اعمال صالح مراد ہیں تو یہ امر بہت مشکل ہے کیونکہ تمام اعمال صالحہ کے بجالانے کی توفیق شاید ہی کسی کو حاصل ہوئی ہو اور اگر بعض مراد ہیں تو مجہول اور نا معلوم ہیں ان کا تعین کسی کو معلوم نہیں ۔ آخر محض اللہ تعالی کے فضل سے دل میں آیا کہ اعمال صالحہ سے مراد شاید اسلام کے پانچ ارکان ہیں جس پر اسلامی کی بنیاد ہے۔ اگر اسلام کے یہ اصول پنجگانہ کامل طور پر ادا ہو جائیں تو امید ہے کہ نجات وفلاح حاصل ہو جائے گی کیونکہ یہ ہی حدداتہ اعمال صالحہ ہیں اور تمام برائیوں اور منکرات سے روکنے والے ہیں ۔ الصلوةُ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرُ ( نماز تمام بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے ) اس مطلب پر شاہد ہے اور جب اسلام کے ان پنجگانہ ارکان کا بجالا نا میسر ہو گیا تو امید ہے کہ شکر بھی ادا ہو گیا اور جب شکر ادا ہو گیا تو گویا عذاب سے نجات مل گئی ۔ مَا يَفعَلُ الله بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنتُمْ (اگر تم اس کا شکر ادا کرو اور ایمان لاؤ تو اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا۔ )
پس ان پنجگانہ ارکان کے بجالانے میں جان سے کوشش کرنی چاہئے ۔ خاص کر نماز کے قائم کرنے میں جو دین کا ستون ہے۔ حتی المقدور اس کے آداب میں سے کسی ادب کے ترک کرنے پر راضی نہیں ہونا چاہئے ۔ اگر نماز کو کامل طور پر ادا کر لیا تو گویا اسلام کا اصل عظیم حاصل ہو گیا اور خلاصی کے واسطے حبل متین یعنی مضبوط ری مل گئی ۔ وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ الْمُوَقِّقُ اللَّه تعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے۔
جاننا چاہئے کہ نماز میں تکبیر اولیٰ سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حق تعالیٰ عابدوں کی عبادت اور نمازیوں کی نماز سے مستغنی اور برتر ہے اور وہ تکبیریں جو ارکان کے بعد میں وہ اس امر کی رموز واشارات ہیں کہ یہ رکن جو ادا ہوا ہے۔ حق تعالی کی پاک بارگاہ کی عبادت کے لائق نہیں کوع کی تسبیح میں چونکہ تکبیر کے معنی محفوظ ہیں اس لئے آخر رکوع میں تکبیر کہنے کا حکم نہ فرمایا برخلاف دونوں سجدوں کے کہ باوجود ان کی تسبیحوں کے اول و آخر تکبیر کہنے کا امر کیا ہے تا کہ کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ بجود میں نہایت فروتنی اور پستی اور نہایت ذلت وانکسار ہے ۔ حق عبادت ادا ہو جاتا ہے اور اسی وہم کے دور کرنے کے لئے سجدہ کی تسبیح میں لفظ اعلیٰ کو اختیار کیا اور تکبیر کا تکرار بھی مسنون ہوا اور چونکہ نماز مومن کی معراج ہے۔ اس لئے آخر نماز میں ان کلمات کے پڑھنے کا حکم فرمایا جن کے ساتھ آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام شب معراج میں مشرف ہوئے تھے ۔ پس نمازی کو چاہئے کو نماز کو اپنا معراج بنائے اور نہایت قرب نماز میں حاصل کرے ہے
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے۔ اَقْرَبُ مَا يَكُونَ الْعَبْدُ مِنَ الرَّبِّ فِى الصَّلوة
سے زیادہ قرب جو بندہ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ حاصل ہوتا ہے، وہ نماز میں ہوتا ہے۔
اور نمازی چونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مناجات کرتا ہے اور نماز کے ادا کرتے وقت حق تعالیٰ کی عظمت و جلال کا مشاہدہ کر کے حق تعالیٰ کا رعب و ہیبت اس پر چھا جاتا ہے اس لئے اس کی تسلی کے واسطے نماز کو دوسلاموں پر ختم کرنے کا امر فرمایا۔
اور یہ جو حدیث نبوی میں ہر فرض کے بعد سو دفعہ تسی اور حمید اور تکبیر تبلیل کا حکم ہے ۔ فقیہ کے علم میں اس کا بھید یہ ہے کہ ادائے نماز میں جو قصور وکوتا ہی واقع ہوئی ہے۔ اس کی تلافی تسبیح د تعمیر کے ساتھ کی جائے اور اپنی عبادت کے نا تمام اور نالائق ہونے کا اقرار کیا جائے اور جب حق تعالیٰ کی توفیق سے عبادت کا ادا کرنا میسر ہو جائے تو اس نعمت کی حمد و شکر بجالانا چاہئے اور حق تعالی کے سوا اور کسی کو عبادت کا مستحق نہ بنانا چاہئے۔ جب نماز اس طرح شرائط و آداب کے ساتھ ادا ہو جائے اور بعدازاں نہ بدل سے ان کلمات طیبہ کے ساتھ تقصیرہ کوتاہی کی تلافی کی جائے اور توفیق عبادت کی نعمت کا شکر ادا کیا جائے اور حق تعالیٰ کے سوا کسی غیر کو سحق عبادت نہ بنایا جائے تو امید ہے کہ وہ نماز حق تعالی کے نزدیک قبول کے لائق ہوگی اور وہ نمازی عذاب سے نجات پا جائے گا۔
اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ الْمُصْلِينَ الْمُفْلِحِيْنَ بِحُرُمَةِ سَيَد الْمُرْسَلِينَ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ وعلى اله الصَّلَوَاتُ والتسلیمات یا اللہ تو ہم کوسید المرسلین پیر کے طفیل خلاصی پانے والے نمازیوں میں سے بنا۔