مکتوب 306
حقائق آگاه معارف دستگاه مخدوم زاده کلاں خواجہ محمد صادق علیہ الرحمة والغفران اور مخدوم زاده خرد مرحوم و مغفور محمد فرخ و محمد عیسیٰ رحمتہ اللہ علیہم کے بعض مناقب و کمالات کے ذکر میں اور اس مکتوب کے خاتمہ میں ارباب ولایت کی فنا کا بیان ہے اور اس بیان میں کہ قرب نبوت میں یہ فنا کچھ درکار نہیں ہے اور اس کے مناسب بیان میں ،مولا نا محمد صالح کی طرف صادر فرمایا ہے۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامُ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطفی اللہ کی حمد اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔
اخی محمد صالح نے اہل سرہند کے واقعات کو سن لیا ہو گا ۔ میرے فرزند اعظم رضی اللہ عنہ نے
.
بمعہ اپنے دو چھوٹے بھائیوں محمد فرخ ومحمد عیسی اللہ کے آخرت کا سفر اختیار کیا ۔ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
اللہ تعالیٰ کی حمد ہے کہ اس نے اول باقی ماندہ کوصبر کی قوت عطا فرمائی اور پھر مصیبت و بلا کو نازل فرما یا کسی نے کیا اچھا کہا ہے ۔
من از تو روئے نہ پیچم گرم بیازاری
که خوش بود عزیزاں تحمل و خواری
ترجمہ: ستائے لاکھ تو مجھ کو پھروں گا میں نہ کبھی
پیارے یاروں کی سختی بہت ہے لگتی بھلی
میرا فرزند مرحوم حق تعالیٰ کی آیات میں سے ایک آیت اور رب العالمین کی رحمتوں میں سے ایک رحمت تھا۔ چوبیس برس کی عمر میں اس نے وہ کچھ پایا کہ شاید ہی کسی کے نصیب ہو۔ پایہ مولویت اور علوم نقلیہ اور عقلیہ کی تدریس کو حد کمال تک پہنچایا تھا۔ حتی کہ اس کے شاگرد بیضاوی اور شرح مواقف وغیرہ کے پڑھانے میں اعلیٰ ملکہ رکھتے ہیں اور معرفت و عرفان کی حکایات اور شہودو کشوف کے قصے بیان سے باہر ہیں ۔ آپ کو معلوم ہے کہ آٹھ برس کی عمر میں اس قدر مغلوب الحال ہو گیا تھا کہ ہمارے حضرت خواجہ قدس سرہ ان کے حال کی تسکین کیلئے بازاری معام سے جو مشکوک و مشتبہ ہوتا ہے۔ معالجہ کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو محبت مجھے محمد صادق کے ساتھ ہے اور کسی کے ساتھ نہیں اور ایسے ہی جو محبت اس کو ہمارے ساتھ ہے کسی کے ساتھ نہیں۔ اس کلام سے اس کی بزرگی کو معلوم کرنا چاہئے ۔ ولایت موسوی کو نقطہ آخرت تک پہنچایا اور اس ولایت علیہ کے عجائب وغرائب بیان کیا کرتا تھا اور ہمیشہ خاضع اور خاشع اور ملتجی اور متضرع اور متذلل اور منکسر رہتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ ہر ایک ولی نے اللہ تعالیٰ سے ایک نہ ایک چیز طلب کی ہے۔ میں نے التجا اور تضرع طلب کی ہے۔
محمد فرخ کی نسبت کیا لکھا جائے۔ گیارہ سال کی عمر میں طالب علم اور کافیہ خواں ہو گیا تھا اور بڑی سمجھ سے سبق پڑھا کرتا تھا اور ہمیشہ آخرت کے عذاب سے ڈرتا اور کانپتا رہتا تھا اور دعا کرتا تھا کہ بچپن ہی میں دنیائے کمپنی کو چھوڑ جائے تا کہ عذاب آخرت سے خلاصی ہو جائے ۔ مرض موتمہیں جو یار اس کے بیمار پرسی کو آتے تھے ۔ بہت عجائب وغرائب اس سے مشاہدہ کرتے تھے اور محمد عیسی سے آٹھ سال کی عمر میں لوگوں نے اس قدر خوارق و کرامات دیکھے کہ بیان سے باہر ہیں۔ غرض قیمتی موتی تھے جو امانت کے طور پر ہمارے سپرد کئے ہوئے تھے ۔ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ بلا جبر وا کراہ امانت والوں کی امانت ادا کر دی گئی ۔ اَللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجُرُهُمْ وَلَا تَفْتِنَا بَعْدَهُمْ بِحُرُمَةِ سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمُ الصَّلوةَ وَالتَّسْلِيمَاتُ (یا اللہ تو ہم کو ان کے اجر سے محروم نہ کچھو اور ان کے بعد فتنہ میں نہ ڈالیو بحرمتہ سید المرسلین صلى الله عليه وسلم
از هر چه میر دو سخن دوست خوشتر است
ترجمه: تمام باتوں سے بہتر ہیں یار کی باتیں
جاننا چاہئے کہ فتا جو ماسوائے حق کے نسیان سے مراد ہے اس سے مقصود یہ ہے کہ ماسوائے حق کی محبت و گرفتاری دور ہو جائے گی کیونکہ جب اشیاء کی ذاتیں اور صفتیں اور افعال دید و دانش سے زائل ہو جائیں گے۔ ان کی محبت و گرفتاری بھی زائل ہو جائے گی ۔ طریق ولایت میں، ماسوی اللہ کا نسیان ضروری ہے تا کہ ماسوائے حق کی گرفتاری دور ہو جائے لیکن قرب نبوت کے مدارج میں اشیاء کی گرفتاری اور محبت کے دور کرنے کے لئے اشیاء کا نسیان در کار نہیں کیونا۔ قرب نبوت میں اصل کی گرفتاری جو فی حد ذاتہ حسن جمیل ہے۔ اشیاء کی گرفتاری کا جو فی نفسہ فتیح اور غیر مستحسن ہیں۔ نام و نشان نہیں رہنے دیتی ۔ خود اشیا، فراموش ہوں یا نہ ہوں کیونکہ اشیاء کے علم میں اشیاء کی گرفتاری کے باعث جو حق تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف روگردانی کا موجب ہے ذمہ کی وصف حاصل کر لی ہے جب اشیاء کی گرفتاری زائل ہوگئی۔ اشیاء کا علم مذموم نہ ہو گا اور کس طرح مذموم ہو جبکہ اشیاء سب کے سب حق تعالیٰ کی معلوم ہیں اور ان سب کا علم صفات کا مالہ میں سے ہے۔ اگر کہیں کہ جب ماسوی اللہ کا علم زائل نہیں ہوتا تو پھر حق تعالیٰ کا علم اور ماسوائے حق کا علم ایک وقت میں کس طرح جمع ہو سکتے ہیں۔ پس ماسوی اللہ کا نسیان ضروری ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ وہ علم جس کا اشیاء کے ساتھ تعلق ہے۔ علم حصولی کی قسم سے ہے اور وہ علم کہ جس کا تعلق حق تعالیٰ کی بارگاہ کے ساتھ ہے، علم حضوری کے مشابہ ہے۔
پس ہر دو علم ایک وقت میں جمع ہو جائیں گے اور کوئی محذ ور ومحال لازم نہیں آئے گا۔ محال اس وقت لازم آتا ہے جبکہ دونوں علم حصولی ہوں اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ علم حصولی کی قسم سے ہے اور علم حضور کے مشابہ ہے وہ اس واسطے کہا ہے کہ وہاں نہ تو حصول کی حقیقت ہے اور نہ ہی حضور کی گنجائش ہے۔ حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ کا علم جو اشیاء کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ حصولی نہیں ہے کیونکہ حوادث کو حق تعالیٰ کی ذات وصفات میں حلول و حصول نہیں ہے اور اس عارف کا علم اس علم کا ایک پر تو ہے اور اس علم کو بھی کہ جس کا تعلق حضرت حق تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ حضوری نہیں کہہ سکتے کیونکہ حق تعالی مدرکہ سے اس کے اپنے نفس سے بھی زیادہ نزدیک ہے۔ علم حضوری کو اس علم کے ساتھ وہی نسبت ہے جو علم حصولی کو علم حضوری کے ساتھ ہے۔ یہ معرفت عقل و فکر کے طور سے باہر ہے۔ مَنْ لَمْ يَذُق لَمْ يَدْرِ جس نے مزہ ہی نہیں چکھا ، وہ کیا جانے ۔
پس ثابت ہوا کہ اشیاء کا علم حق تعالیٰ کے علم کے منافی نہیں ہے۔ پس اشیاء کا نسیان کچھ ضروری نہیں ۔ برخلاف طریق ولایت کے کہ وہاں اشیاء کی گرفتاری کا زائل ہونا اشیاء کے نسیان کے سوا متصور نہیں کیونکہ ولایت میں ظلال کے ساتھ گرفتاری ہوتی ہے اور طلال کی گرفتاری میں کے۔ اس قدر قوت نہیں کہ اشیاء کے علم کے باوجود اشیاء کی گرفتاری کو زائل کر سکے ۔ پس اول نسیان کا ہونا ضروری ہے تا کہ گرفتاری زائل ہو جائے ۔ یہ وہ معرفت ہے جو اس درویش ہی کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی اور نے اس کی نسبت کوئی کلام نہیں کی ہے۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى هَدْنَا لِهَذَا وَمَا كُنَا لِنَهْتَدِى لَوْ لَا اَنْ هَدْنَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبَّنَا بِالْحَقِّ ( اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم کو اس کی ہدایت دی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے ۔ بیشک ہمارے رب کے رسول حق امر لے کر آئے ہیں )