3

مکتوب 41: حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن اور بزرگ سنت کی تابعداری کی ترغیب میں


مکتوب (41)

حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن اور بزرگ سُنت کی تابعداری کی ترغیب میں اور اس بیان میں کہ طریقت اور حقیقت شریعت کو کامل کرنے والی ہیں اور اس بیان میں کہ علوم شرعیہ اور علوم صوفیہ کے درمیان جو مقام صدیقیت میں ولایت کے مرتبوں میں سے اعلیٰ مرتبہ ہے، فائز ہوتے ہیں ۔ ہرگز مخالفت نہیں ہے اور اس کے مناسب بیان میں شیخ درویش کی طرف لکھا ہے۔

حق تعالیٰ اپنے نبی ﷺ اور اِن مسمی بزرگوار آل صلی اللہ علیہم الصلوۃ والسلام کی طفیل ظاہر و باطن کو حضرت مصطفی صلى الله عليه وسلم کی سُنت کی متابعت سے آراستہ پیراستہ کرے ۔ حضرت محمد رسول اللہ حق تعالیٰ کے محبوب ہیں اور جو چیز کہ خوب اور مرغوب ہے وہ حق تعالیٰ کے مطلوب اور محبوب کے لئے ہے۔ اسی واسطے حق تعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے۔ اِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِیم بیشک تو بڑے خلق پر ہے اور نیز فرماتا ہے۔ اِنَّكَ لِمَنَ الْمُرْسَلِينَ عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ تو مرسلين میں سے ہے اور راہ راست پر ہے اور نیز فرماتا ہے۔ اِنَّ هَذَا صِرَاطِئُ مُسْتَقِيماً فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ بیشک یہ میرا راستہ سیدھا ہے تم اس پر چلو اور راستوں پر نہ چلو ۔

آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ملت کو صراط مستقیم کہا اور اس کے ماسوائے کو ٹیڑھے راستوں میں داخل فرمایا اور ان کی تابعداری سے منع فرمایا اور آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے خدا کا شکر کرتے ہوئے اور خلق کو ہدایت کا نشان بتلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ خَيْرَ الْهَدْيِ هَدَى مُحَمَّدٍ سب ہدایتوں سے بہتر ہدایت محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم کی ہے اور نیز آپ نے فرمایا ہے ۔ ادَّبَنِي رَبِّي فَاحْسَنَ تَادِيْبِى مُجھے میرے رب نے ادب سکھایا اور میری تعلیم اور تادیب اچھی طرح کی اور باطن ظاہر کو پورا کرنے والا ہے اور بال بھر بھی ایک دوسرے کے ساتھ مخالفت نہیں رکھتے ۔ مثلا زبان سے جھوٹ نہ بولنا شریعت ہے اور دل سے جھوٹ کا خطرہ دور کرنا طریقت اور حقیقت ہے۔ یعنی اگر یہ نفی تکلف اور بناوٹ سے ہے تو طریقت ہے اور اگر تکلف کے بغیر حاصل ہے تو حقیقت ہے۔ پس حقیقت میں باطن جس کو طریقت اور حقیقت کہتے ہیں۔ ظاہر کو جو شریعت ہی پورا اور کامل کرنے والا ہے۔

پس اگر طریقت و حقیقت کی راہ پر چلنے والوں میں سے اثنائے راہ میں ایسے امور سرزد ہوں جو بظاہر شریعت کے مخالف ہیں تو وہ سکر وقت اور غلبہ حال پر مبنی ہیں اور اگر مقام سے گزار کر صحو میں لے آئیں تو وہ مخالفت رفع ہو جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے مخالف علوم سب کے سب دور ہو جاتے ہیں ۔


مثلاً صوفیہ سکر کے باعث احاطہ ذاتی کے قائل ہوئے ہیں اور بالذات حق تعالیٰ کو عالم کا محیط جانتے ہیں۔ یہ حکم اہل حق لوگوں کی آراء کے مخالف ہے کیونکہ یہ لوگ احاطہ علمی کے قائل ہیں ۔ حقیقت میں علماء کی رائیں بہت ہی بہتر ہیں اور اگر یہی صوفیہ اس بات کے قائل ہوں کہ حق تعالیٰ کی ذات کسی حکم کے ساتھ محکوم نہیں ہوتی اور کسی علم سے معلوم نہیں ہوتی تو اس میں احاطہ اور سریان کے ساتھ حکم کرنا اس قول کے مخالف ہے اور واقعی حق تعالیٰ کی ذات بیچوں اور بچکون ہے اور کسی حکم کو اس کی طرف راہ نہیں۔ وہاں حیرت و نادانی ہے اور اس مقام میں جہل صرف اور محض سرگردانی ہے۔ اس پاک جناب میں احاطہ و سریان کی کیا مجال ہے ۔ ہاں ایک بات ہے جس کے سبب ان صوفیہ کی طرف سے جو ان احکام کے قائل ہیں عذر خواہی کی جائے اور کہا جائے کہ ذات سے ان کی مراد تعین اول ہے اور چونکہ اس کو متعین پر زائد نہیں جانتے اس لئے اس تعین کو عین ذات کہتے ہیں اور وہ تعین اول جو وحدت تعبیر کیا گیا ہے تمام ممکنات میں جاری وساری ہے تو اس لحاظ سے احاطہ ذاتی کے ساتھ حکم کرنا درست ہے، یہاں ایک اور دقیقہ ہے جس کا جاننا ضروری ہے۔

جاننا چاہئے کہ حق تعالیٰ کی ذات علمائے اہل حق کے نزدیک بیچون اور بیچگون ہے اور اس کے سوا جو کچھ ہے اس پر زائد ہے اور وہ تعین بھی اگر ان کے نزدیک ثابت ہو جائے تو زائد ہوگا اور اس کو حضرت ذات بچون کے دائرے سے باہر جائیں گے۔ پس اس کے احاطہ کو ذاتی نہ کہیں گے۔ پس علماء کی نظر صوفیہ کی نظر سے بلند ہے اور صوفیہ کے نزدیک جو ذات ہے وہ ان علماء کے نزد یک ماسوائے میں داخل ہے اور قرب و معیت ذاتی بھی اسی قیاس پر ہیں اور باطنی معارف و شریعت کے ظاہری علوم کے درمیان پورے اور کامل طور پر موافقت کا ہونا یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے امور میں بھی مخالفت کی مجال نہ رہے۔ مقام صدیقیت میں ہے جو تمام مقام ولایت سے بالاتر مقام ہے اور مقام صدیقیت سے بڑھ کر مقام نبوت ہے جو علوم نبی صلى الله عليه وسلم کو وحی کے ذریعے پہنچے ہیں۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کو الہام کے طور پر منکشف ہوئے ہیں۔ ان دونوں علموں کے درمیان صرف وحی اور الہام کا فرق ہے۔ پھر مخالفت کی کیا مجال ہوگی اور مقام صدیقیت کے سوا اور جس قدر مقام ہیں ان میں ایک قسم کا سر متحقق ہے۔ صحو تام صرف مقام صدیقیت ہی میں ہے۔

دوسرا فرق ان دونوں علموں کے درمیان یہ ہے کہ وحی میں قطع ہے اور الہام میں ظن کیونکہ وحی بذریعہ فرشتہ کے ہے اور فرشتے معصوم ہیں۔ ان میں خطا کا احتمال نہیں اور الہام اگر چہ محل عالی رکھتا ہے جسے قلب کہتے ہیں اور قلب عالم امر سے ہے لیکن قلب کا عقل اور نفس کے ساتھ ایک قسم کا تعلق ثابت ہے اور نفس اگر چہ تزکیہ کے ساتھ مطمئنہ ہو جائے لیکن اپنی صفات سے ہرگز نہیں بدلتا ۔ اسی واسطے اس مقام میں خطا کی مجال ظاہر ہے۔

جاننا چاہئے کہ نفس کے مطمئنہ ہو جانے کے باوجود اس کی صفات کے باقی رکھنے میں بڑے فائدے اور نفعے ہیں۔ اگر نفس بالکل اپنی صفات کے ظہور سے روکا جائے تو ترقی کا راستہ بند ہو جائے اور روح فرشتہ کا حکم پیدا کر لے اور اپنے مقام میں بند رہ جائے کیونکہ ترقی کا حاصل ہونا نفس کی مخالفت کے باعث ہے۔ اگر نفس میں مخالفت نہ رہی تو ترقی کیسی ہوگی ۔


سرور کائنات صلى الله عليه وسلم جب کفار کے جہاد سے واپس آئے تو آپ نے فرمایا رَجَعْنَا مِنَ لْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الأكبر. نفس کے جہاد کو جہاد اکبر فرمایا اور نفس کی مخالفت اس مقام میں عزیمت و اولی کے ترک سے ہے بلکہ ترک عزیمت کے ارادہ کرنے سے ہے کیونکہ اس مقام میں نفس کی مخالفت ترک عزیمت کے تحقق و ثبوت سے ناممکن ہے اور اسی ارادہ سے اس کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس قدر ندامت اور پشیمانی اور التجا اور عاجزی حاصل ہوتی ہے کہ ایک سال کا کام ایک گھڑی میں حاصل ہو جاتا ہے۔


اب ہم اصل بات کی طرف جاتے ہیں یہ بات مقرر اور ثابت ہے کہ جس چیز میں محبوب کے اخلاق اور خصلتیں پائی جاتی ہیں۔ محبوب کے تابع ہونے کی وجہ سے وہ چیز بھی محبوب ہو جاتی ہے۔ یہ اس رمز کا بیان ہے جو اس آیت کریمہ میں ہے۔ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ پس آنحضرت کی تابعداری میں کوشش کرنا مقام محبوبیت تک لے جانے والا ہے۔ پس ہر ایک دانا اور عقلمند پر واجب ہے کہ ظاہر وباطن میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی کمال تابعداری میں کوشش کرے بات بہت لمبی ہوگئی ہے امید ہے کہ معذور فرمائیں گے۔

سخن کا جمال جب جمیل مطلق کی طرف سے ہے تو جس قدر لمبا ہو جائے اچھا معلوم ہوتا ہے ۔ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَاداً لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَداً اگر اللہ کی باتیں لکھنے کے لئے سمندروں کی سیاہی چلائی جائے تو سمندر ختم ہو جائیں مگر اللہ کے کلمات نہ لکھے جائیں۔ اگر چہ اتنے سمندر اور اس کے ساتھ ملائے جائیں۔

اب بات کو کسی اور طرف لے جانا چاہئے ۔ حامل رقعہ ہذا مولا نا محد حافظ صاحبِ علم ہے اور اس کا عیال بہت ہے۔ گزارے کا سبب نہ ہونے کے باعث لشکر کی طرف متوجہ ہوا ہے۔ اگر توجہ فرما کر فتح کے نشان والی اور سرداری اور شرافت کے مرتبہ والی سرکار شیخ جیو سے کچھ وظیفہ یا امداد اس کے واسطے مقرر کرا دیں تو آپ کی کمال بخشش ہوگی زیادہ کیا تکلیف دی جائے۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا