2

مکتوب 43 : اس بیان میں کہ تو حید دو قسم کی ہے۔ شہودی اور وجودی اور وہ جو ضروری ہے توحید شہودی ہے


مکتوب (43)

اس بیان میں کہ تو حید دو قسم کی ہے۔ شہودی اور وجودی اور وہ جو ضروری ہے توحید شہودی ہے جس سے فنا متعلق ہے اور توحید شہودی عقل و شروع کے ساتھ مخالفت نہیں رکھتی برخلاف تو حید وجودی کے اور ان مشائخ کے اقوال کی جو تو حید وجودی میں نظر کرنے والے ہیں تو حید شہودی کی طرف تاویل کرنی چاہئے تا کہ مخالفت کی گنجائش نہ رہے اور تو حید شهودی مرتبہ عین الیقین میں سے ہے۔ جو حیرت کا مقام ہے اور جب اس مقام سے گزر کر حق الیقین تک پہنچتے ہیں تو اس قسم کے احوال و اقوال سے کنارہ کرتے ہیں اور اس مضمون کے مناسب سوالوں اور جوابوں اور روشن مثالوں کے بیان میں۔ سرداری کی پناہ والے، شرافت کے مرتبہ والے شیخ فرید کی طرف لکھا ہے۔

سَلَّمَكُمُ الله تَعَالَى وَسُبْحَانَهُ وَعَصَمَكُمُ عَمَّا يَصِحُكُمْ وَصَانَكُمُ عَمَّا شَانَكُمُ اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے اور اس چیز سے بچائے جو آپ کو عیب لگائے اور محفوظ رکھے ۔ آپ کو اس چیز سے جو آپ کو دھبہ لگائے وہ توحید جو اثنائے راہ میں اس بزرگ گروہ کو حاصل ہوتی ہے۔ دو قسم پر ہے تو حید شہودی اور تو حید وجودی۔

تو حید شہودی ایک کو دیکھنا ہے یعنی ایک کے سوا سالک کو کچھ مشہود نہیں ہوتا اور تو حید وجودی ۔ ایک موجود کو جانتا اور اس کے غیر کو نا بود سمجھنا اور غیر کو معلوم جاننے کے باوجود اس ایک کا مضر اور جلود خیال کرنا ہے۔ پس تو حید وجودی علم الیقین کی قسم سے ہے اور تو حید شہودی عین الیقین کی قسم ہے۔ توحید شہودی اس راہ کی ضروریات سے ہے کیونکہ فنا اس توحید کے بغیر ثابت نہیں ہوتی اور مرتبہ مین الیقین اس کے سوا میسر نہیں ہوتا کیونکہ اس میں ایک کو غلبہ کے ساتھ دیکھنا اس کے ماسوا کے نہ دیکھنے کو مستلزم ہے۔ برخلاف تو حید وجودی کے کہ وہ ایسی نہیں ہے یعنی ضروری نہیں ہے کیونکہ علم الیقین بغیر اس معرفت کے حاصل ہے کیونکہ علم الیقین اس کے ماسوا کی نفی کو مستلزم نہیں ہے ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اس ایک کے علم کا غلبہ اس کے ماسوا کے علم کی نفی کو مستلزم ہے۔ مثلاً ایک شخص کو آفتاب کے وجود کا علم حاصل ہو گیا تو اس یقین کا غلبہ اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ ستاروں کو اس وقت نیست و نابود جانے لیکن جب آفتاب کو دیکھے گا اس وقت ستاروں کو دیکھے گا اور آفتاب کے و سوا اس کو کچھ نظر نہ آئے گا اور اس وقت بھی جبکہ ستاروں کو نہیں دیکھتا وہ جانتا ہے کہ ستارے موجود ہیں لیکن چھپے ہوئے ہیں اور سورج کی روشنی میں مغلوب ہیں اور یہ شخص ان لوگوں کے ساتھ جو اس وقت میں ستاروں کے وجود کی نفی کرتے ہیں انکار کے مقام میں ہے اور جانتا ہے کہ یہ معرفت صحیح نہیں ہے۔ پس توحید وجودی کہ جس میں ماسوائے ذات حق کی نفی ہے ۔ عقل و شروع کے ساتھ مخالف ہے۔ برخلاف تو حید شہودی کے کہ ایک کے دیکھنے میں کچھ مخالفت نہیں ہے۔ مثلاً آفتاب کے طلوع ہونے کے وقت ستاروں کی نفی کرنا اور ان کو معدوم سمجھنا خلاف واقع ہے لیکن ستاروں کو اس وقت نہ دیکھنا کچھ مخالف نہیں ہے بلکہ وہ نہ دیکھنا بھی آفتاب کی روشنی کے غلبہ اور دیکھنے والے کی کمزوری کے باعث ہے۔ اگر دیکھنے والے کی آنکھ اسی آفتاب کی روشنی سے روشن ہو جائے اور قوت پیدا کرے تو ستاروں کو آفتاب سے جدا دیکھے گا اور یہ دیکھنا حق الیقین میں ہے۔

پس بعض مشائخ کے اقوال جو بظا ہر شریعت حقہ کے مخالف نظر آتے ہیں اور بعض لوگ ان کو تو حید وجودی پر حمل کرتے ہیں۔

مثلاً منصور حلاج رحمتہ اللہ علیہ کا انا الحق کہنا اور بایزید بسطامی علیہ الرحمہ کا سُبحَانِى مَا أَعْظَمُ شَانِی پکارنا وغیرہ وغیرہ۔

بہتر اور مناسب یہ ہے کہ ان اقوال کو تو حید شہودی پر محمول کیا جائے اور مخالفت کو دور کیا جائے جب ماسوائے حق ان کی نظر سے مخفی ہو گیا تو غلبہ حال کے وقت اس قسم کے الفاظ ان سے سرزد ہوئے اور حق کے سوا اس کے غیر کو ثابت نہ کیا اور انا الحق کے معنی یہ ہیں کہ حق ہے اور میں نہیں ہوں جب وہ اپنے آپ کو نہیں دیکھتا تو اثبات نہیں کرتا ، نہ یہ کہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے اور اس کو حق کہتا ہے کہ یہ خود کفر ہے۔ اس جگہ کوئی یہ نہ کہے کہ اثبات نہ کر نانفی تک پہنچا دیتا ہے اور وہ بعینہ تو حید وجودی ہے کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ اثبات کے نہ کرنے سے نفی لازم نہیں آتی بلکہ اس مقام میں حیرت ہے۔ احکام سب کے سب ساقط ہوئے ہیں اور سبحانی میں بھی حق تعالیٰ کی تنزیہ ہے نہ اس کی اپنی تنزیہ کہ وہ بالکل اپنی نظر سے دور ہو چکا ہوا ہے اور کوئی حکم اس کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا اس قسم کی باتیں مقام عین الیقین میں جو مقام حیرت ہے بعض لوگوں سے ظاہر ہوتی ہیں جب اس مقام سے ترقی کر کے حق الیقین تک پہنچتے ہیں تو اس قسم کی باتوں سے کنارہ کرتے ہیں اور حد اعتدال سے تجاوز نہیں کرتے اس زمانہ میں اس گروہ میں سے بہت لوگ جو اپنے آپ کو صوفیوں کے لباس میں ظاہر کرتے ہیں۔ تو حید وجودی کو شائع کیا ہوا ہے اور اس کے سوا کچھ کمال نہیں جانتے اور علم الیقین ہی کو کمال سمجھ کر عین الیقین سے رکے ہوئے ہیں۔ مشائخ کے اس قسم کے اقوال کی اپنے خیالی معنوں کے مطابق تاویل کرتے ہیں اور انہی خیالی معنوں کو اپنے زمانہ کا مقتدا بنایا ہوا ہے اور اپنے کھوٹے بازار کو ان خیالی باتوں سے رواج دیا ہے اور اگر کوئی یہ کہے کہ متقدمین مشائخ میں سے بعض کی عادتوں میں بھی ایسے الفاظ واقع ہیں جس سے صاف طور پر توحید وجودی ثابت ہوتی ہے تو وہ اس بات پر محمول ہیں کہ ابتدا میں علم الیقین کے مقام میں ان سے اس قسم کے الفاظ سرزد ہوئے ہیں اور آخر کا ر ان کو اس مقام سے گزار کر عین الیقین تک لے گئے ہیں اس بات سے کوئی یہ نہ کہے کہ توحید وجودی والے بھی جیسا کہ ایک جانتے ہیں ایک ہی دیکھتے ہیں پس عین الیقین سے ان کو بھی حصہ حاصل ہے کیونکہ ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ توحید وجودی والوں نے توحید شہودی کی مثالی صورت کو دیکھا ہے نہ یہ کہ توحید شہودی سے متحقق ہوئے ہیں اور تو حید شہودی کو اپنی اس صورت مثالی کے ساتھ در حقیقت کچھ مناسبت نہیں ہے کیونکہ اس توحید کے حل ہونے کے وقت حیرت ہے اور اس مقام میں کسی امر کے ساتھ حکم نہیں ہے اور اس توحید وجودی والا تو حید مشہودی کی مثالی صورت کے مشاہدہ کرنے کے باوجود بھی علم الیقین والوں میں سے ہے کیونکہ ماسوائے اللہ کے وجود کی نفی کرتا ہے اور یہ فی مقولہ علم الیقین کے احکام میں سے ایک حکم ہے اور حیرت اور علم ایک دوسرے کے ساتھ جمع نہیں ہوئے۔

پس ثابت ہوا کہ توحید وجودی والا عین الیقین سے کچھ حصہ نہیں رکھتا۔ ہاں تو حید شہودی والے کو مقام حیرت کے بعد اگر ترقی واقع ہو جائے تو مقام معرفت میں جو حق الیقین ہے لے جاتے ہیں اور اس مقام میں علم و حیرت دونوں جمع ہو جاتے ہیں اور وہ علم جو حیرت کے بغیر اور حیرت سے پہلے ہے وہ علم الیقین ہے۔

یہ جواب اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ مثلاً کسی شخص نے مقام بادشاہت کے ساتھ مناسبت ہونے کی وجہ سے خواب میں اپنے آپ کو بادشاہ دیکھا اور بادشاہت کے لوازم اپنے آپ میں معلوم کئے تو معلوم ہے کہ وہ بادشاہ نہیں ہوا ہے بلکہ بادشاہت کی مثالی صورت کو اپنے آپ میں دیکھا ہے اور حقیقت میں بادشاہت کو اس مثالی صورت کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں ہے ہاں اس شہود سے اگر چہ صورت مثالی میں ہو اتنا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص اس مثالی صورت کی حقیقت کے متحقق ہونے کی استعداد رکھتا ہے۔ اگر ریاضت و مجاہدہ سے اس کی حالت اچھی ہو جائے اور خدائے تعالیٰ کی عنایت اس کے شامل حال ہو جائے تو اس مقام تک پہنچ جاتا ہے لیکن قوت سے فعل تک بہت فرق ہے ۔

بہت لوہے آئینہ بننے کی قابلیت رکھتے ہیں مگر جب تک آئینہ نہ بن جائیں تب تک بادشاہوں کے ہاتھ میں نہیں پہنچتے اور بادشاہوں کا جمال حاصل نہیں کر سکتے ۔ اوہو ۔ میں کہاں جا پڑا ۔ مگر میں کہتا ہوں کہ ان پوشیدہ علوم کے لکھنے کا باعث یہ ہے کہ اکثر اس زمانہ میں بعض لوگوں نے تقلید سے اور بعضوں نے مسجد و علم سے اور بعضوں نے اجمالی طور پر علم اور ذوق کے ملنے سے اور بعضوں نے الحاد اور زندقہ سے اس تو حید وجودی کا دامن ہاتھ میں لیا ہوا ہے اور سب کچھ حق سے جانتے ہیں بلکہ حق ہی جانتے ہیں اور اپنی گردنوں کو شرعی تکلیف کی رسی سے بالکل نکالتے جانتے ہیں اور احکام شرعیہ کے بجالانے میں سُستی کرتے ہیں اور اس معاملہ پر بڑے خوش و خرم ہیں اور اگر امور شریعہ کے بجالانے کا اقرار بھی کریں تو اپنے آپ کو طفیلی جانتے ہیں اور اصلی مقصود شریعت کے سوا کچھ اور خیال کرتے ہیں ۔ حاشا و کلاء ہرگز ہرگز ایسا نہیں ہے ایسے برے اعتقاد سے اللہ کی پناہ طریقت اور شریعت ایک دوسرے کی عین ہیں اور بال بھر ان کے درمیان فرق نہیں ہے ۔ فرق صرف اجمال اور تفصیل اور استدلال اور کشف کا ہے جو کچھ شریعت کے مخالف ہے مردود ہے۔ كُلُّ حَقِيْقَةٍ رَدَّتْهُ الشَّرِيعَةُ فَهُوَا زَنْدِقَةٌ اور جس حقیقت کو شریعت نے رد کر دیا وہ زندقہ ہے۔ شریعت کو اپنی جگہ پر قائم رکھ کر حقیقت کو طلب کرنا بہادروں کا کام ہے ۔ رَزَقْنا الله سُبْحَانَةَ وَاِيَّاً كُمُ الاسْتَقَامَةَ عَلَى مُتَابَعَةِ سَيّدِ الْبَشَرِ عَلَيْهِ وَ عَلَى الِهِ الصَّلَوةُ وَالتَّسْلِيْمَاتُ وَالتَّحِيَّاتُ ظَاهِراً وَ بَاطِناً اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو ظاہر باطن میں حضرت سید البشر ﷺ کی متابعت پر استقامت عطا فرمائے ۔ (آمین )

معرفت کی پناہ والے ہمارے قبلہ گاہ حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ کچھ مدت تو حید وجودی والوں کا مشرب رکھتے تھے اور اپنے رسالوں اور خطوں میں بھی اس کو ظاہر فرماتے تھے لیکن آخر کار حق تعالیٰ نے اپنی کمال عنایت سے اس مقام سے ترقی عطا فرما کر شاہراہ میں ڈالا اور اس معرفت کی تنگی سے خلاصی بخشی ۔

میاں عبد الحق جو حضرت قدس سرہ کے مخلص یاروں میں سے ہیں بیان کرتے ہیں کہ مرض موت سے ایک ہفتہ پہلے حضرت قدس سرہ نے فرمایا کہ مجھے عین الیقین سے معلوم ہو گیا کہ توحید وجودی ایک تنگ کوچہ ہے اور شاہراہ اور ہے اس سے پہلے بھی جانتا تو تھا مگر اب ایک قسم کا یقین حاصل ہوا ہے اور یہ فقیر بھی کچھ مدت حضرت قدس سرہ کی درگاہ میں اسی توحید کا مشرف رکھتا تھا اور اس طریق کی تائید میں مقدمات کشفیہ بہت ظاہر ہوئے تھے لیکن خدائے تعالیٰ کی عنایت نے اس مقام سے گزار کر اس مقام کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے چاہا مشرف فرمایا ہے اس سے زیادہ لکھنا طول کلامی ہے۔

میاں شیخ ذکریا اپنے پرگنہ سے بار بار لکھتے ہیں اور آپ کی خدمت علیہ میں بہت نیازمندی ظاہر کرتے ہیں اور معاملہ کروڑی گری یعنی تحصیلداری سے ڈرتے ہیں اور علوم اسباب میں آپ کی مقدس بارگاہ سے التجا رکھتے ہیں اور بظاہر آپ کی توجہ عالی کے سوا اور کوئی جائے پناہ نہیں رکھتے ۔ آپ کی عنایت کے امیدوار ہیں کہ جس طرح آگے آپ نے ان کی نوازش کی ہے اب بھی دستگیری فرمائیں اور حادثوں کی بھیڑیوں سے محفوظ رکھیں اور کمال ادب کے باعث بذریعہ عرض نہیں کر سکتے ۔ فقیر کی طرف رجوع کر کے اپنا احوال ظاہر کرتے ہیں ۔ امید ہے کہ آپ ان کا سوال قبول کریں گے۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا