0

مکتوب 43: اس عبارت کے معنی میں جو بعض صوفیہ نے کہا ہے


مکتوب 43

اس عبارت کے معنی میں جو بعض صوفیہ نے کہا ہے کہ اس بارگاہ میں یافت کا صرف ذوق ہی ہے نہ کہ یافت اور اندراج النہایت فی البدایت کی تحقیق میں جو اس طریقہ علیا کا خاصہ ہے اور دوسرے طریقوں پر اس طریقہ کی افضلیت کے بیان میں مولانا محمد افضل کی طرف صادر فرمایا ہے۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَام عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ ( اللہ تعالی کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔ )

اس طریقہ علیہ کے مشائخ کی عبارات میں آیا ہے کہ اس بارگاہ جل شانہ میں یافت کا ذوق ہے نہ یافت ۔ یہ بات اندراج النہایت فی البدایت کے مناسب ہے جو ان بزرگواروں کے جذبہ خاص کا مقام ہے۔ اس مقام میں یافت کی حقیقت نہیں کیونکہ وہ انتہاء کے ساتھ مخصوص ہے لیکن چونکہ نہایت کی چاشنی بدایت میں درج کی ہوئی ہے اس لیے یافت کا ذوق اس مقام میں بھی میسر ہے اور جب معاملہ جذبہ سے آگے بڑھ جائے اور ابتداء سے تو سط تک پہنچ جائے ۔ یافت کا ذوق بھی یافت کی طرح معدوم ہو جاتا ہے۔ نہ یافت رہتی ہے نہ یافت کا ذوق اور جب کام نہایت تک پہنچ جاتا ہے یافت میسر ہو جاتی ہے اور یافت کا ذوق مفقود ہو جاتا ہے اور جب یافت کا ذوق منتہی میں مفقود ہے تو لذت وحلاوت بھی اس کے حق میں کمتر ہوگی ۔ منتہی ذوق ، حالات کو پہلے قدم میں ہی چھوڑ جاتا ہے اور آخر میں بے لذتی اور بے مرگی کے گوشہ میں گمنام پڑا رہتا ہے۔ کان رسول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمُ مُتَوَاصِلَ الْحَزَانِ دَائِمَ الْفِكْرِ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ہمیشہ غمناک اور متفکر رہا کرتے تھے۔


سوال : جب منتہی کو مطلوب کی یافت میسر ہو گئی تو پھر یافت کا ذوق کیوں مفقود ہوگا اور جب مبتدی یافت سے بے نصیب ہے تو یافت کا ذوق کہاں سے پائے گا؟

جواب: یافت کی دولت منتہی کے باطن کا حصہ ہے جو اپنے ظاہری تعلق کے منقطع ہونے کے بعد اس دولت سے مشرف ہوا ہے۔ جب اس کے باطن کو اس کے ظاہر کے ساتھ تعلق نہیں رہا۔ اس لیے باطنی نسبت اس کے ظاہر میں اثر نہیں کرتی اور باطنی یافت سے ظاہر ذوق ولذت نہیں لے سکتا۔ پس منتہی کے باطن کو مطلوب کی یافت حاصل ہوتی ہے اور اس کے ظاہر کو اس یافت کا ذوق نہیں ہوتا ۔ باقی رہا باطن کا ذوق جس کا حصہ یافت ہے جب باطن نے بیوٹی کا حصہ پالیا ہے اس کا وہ ذوق بھی عالم پیچونی سے ہوگا اور ظاہر کے ادراک میں جو سراسر چون ہے نہ آئے گا بلکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ظاہر باطن سے ذوق کی نفی کر دیتا ہے۔ باطن کو بھی اپنی طرح بے حلاوت جانتا ہے کیونکہ چون کا ذوق اور ہے اور بید چون کا ذوق اور جب منتہی کا ظاہر اس کے ذوق کی خبر نہیں رکھتا تو پھر عوام ظاہر مین منتہی کے باطن کی کیا خبر پائیں گے اور سوائے انکار کے ان کے حصہ میں کیا آئے گا۔ وہ ذوق جو ان کے فہم میں آتا ہے، ظاہر کا ذوق ہے جو عالم چون ہے ہے۔


یہی وجہ ہے کہ تماع اور رقص اور نعرہ اور اضطراب وغیرہ جو ظاہری احوال واذواق ہیں ان کے نزدیک بڑے نایاب اور عظیم القدر ہیں بلکہ اکثر اوقات از واق و مواجید کو انہی امور میں منحصر جانتے ہیں اور ولایت کے کمالات انہبی امور کو سمجھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کو سیدھے راستہ کی ہدایت دے۔ ظاہری احوال باطنی احوال کے ساتھ وہی نسبت رکھتے ہیں جو چون کو بچون کے ساتھ ہے۔ پس ثابت ہوا کہ منتہی کا باطن یافت بھی رکھتا ہے اور یافت کا ذوق بھی لیکن چونکہ وہ ذوق عالم بے چونی سے حصہ رکھتا ہے، اس لیے ظاہر کے ادراک میں نہیں آسکتا بلکہ ظاہر اس ذوق کی نفی کا حکم کرتا ہے۔ اگر چہ ظاہر باطن کی یافت پر اطلاع رکھتا ہے لیکن اس یافت کے ذوق کو نہیں پا سکتا۔ پس کہہ سکتے
ہیں کہ منتہی کو ظاہر میں ذوق میسر ہے لیکن یافت کا ذوق مفقود ہے۔
اور اس طریقہ عالیہ کے مبتدی رشید میں جو باوجود یافت کے مفقود ہونے کے یافت کا ذوق ثابت کرتے ہیں، وہ اس سبب سے ہے کہ یہ بزرگوار ابتداء میں انتہاء کی چاشنی درج کر دیتے ہیں اور انعکاس کے طور پر نہایت کا پر تو مبتدی رشید کے باطن میں ڈالتے ہیں۔ چونکہ مبتدی کا ظاہر اس کے باطن سے ملا ہوا ہوتا ہے اور ان کے ظاہر و باطن میں قومی تعلق ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے نہایت کا وہ پر تو اور ولایت کی وہ چاشنی مبتدی کے باطن سے اس کے ظاہر میں بھی آجاتی ہے اور اس کا ظاہر باطن کے رنگ میں رنگا جاتا ہے اور یافت کا ذوق بے اختیار اس کے ظاہر میں پیدا ہو جاتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ مبتدی میں یافت کی حقیقت مفقود ہے اور یافت کا ذوق حاصل ہے۔

اس بیان سے طریقہ علیہ نقشبندیہ کی بلندی اور ان کی نسبت علیا کی رفعت معلوم ہوتی ہے اور مریدوں اور طالبوں کے حق میں ان بزرگواروں کا کمال اہتمام اور حسن تربیت مفہوم ہوتا ہے۔ پہلے ہی قدم میں جو کچھ خود رکھتے ہیں مرید رشید اور طالب صادق کے حوصلہ کے موافق عطا فرماتے ہیں اور جبی تعلق اور ارتباط کے باعث توجہ اور انعکاس سے اس کی تربیت کرتے ہیں۔ دوسرے سلسلوں کے بعض مشائخ ان بزرگواروں کی کلام اندراج النہایت فی البدایت میں شبہ کرتے ہیں اور اس کلام کی حقیقت میں متردد ہیں۔ وہ پسند نہیں کرتے کہ اس طریق کا مبتدی
دوسرے طریقوں کے منتہی کے برابر ہو۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ انہوں نے اس طریق کے مبتدی کا دوسرے طریقوں کے منتہی کے ساتھ برابر ہونا کہاں سے سمجھ لیا ہے۔ ان بزرگواروں سے اندراج نہایت در بدایت سے زیادہ کچھ سرزد نہیں ہوا اور یہ عبارت مساوات پر دلالت نہیں کرتی ۔ اس عبارت سے ان کا مقصود یہ ہے کہ اس طریق میں شیخ منتہی اپنی توجہ اور تصرف سے اپنی نہایت کی دولت کی چاشنی انعکاس کے طور پر مبتدی رشید کو عطا فرماتا ہے اور ہدایت میں اپنی نہایت کا نمک ملا دیتا ہے۔ اس میں کون سی مساوات ہے اور کون سا اس میں شبہ ہے اور اس کی حقیقت میں کیا تر دو ہے۔ یہ اندراج بڑی دولت ہے

۔ اس طریق کا مبتدی اگر چہ منتہی کا حکم نہیں رکھتا لیکن نہایت کی دوات سے بے نصیب نہیں رہتا۔ بالفرض اگر اس مبتدی کو طریق وصول کو قطع کرنے اور اس کے منازل کو طے کرنے کی فرصت نہ بھی دیں تو پھر نہایت کی دولت سے بے نصیب نہ رہے گا اور وہ ذرہ نمک اس کے کلیت کو ملیح ونمکین بنادے گا۔ برخلاف دوسرے طریقوں کے مبتدیوں کے جو نہایت سے بہت دور ہیں اور منزلوں کا قطع کرنا اور مسافتوں کا طے کرنا ان کے حق میں مشکل کا سامنا ہے۔ اگر ان کو اس قطع کی فرصت نہ ملی اور مسافت کو طے کرنے کا موقع نہ ملا تو پھر ان کی حالت نہایت ہی قابل افسوس ہے۔ جب اس طریق کے مبتدی اور دوسرے طریقوں کے مبتدیوں کے درمیان فرق واضح ہو چکا اور اس مبتدی کی زیادتی دوسرے مبتدی پر ثابت ہو چکی تو پھر جاننا چاہئے کہ اس طریق کے منتہی اور دوسرے طریقوں کے منتہیوں کے درمیان اس قدر فرق ہے اور اس منتہی کی زیادتی دوسرے طریقوں کے منتبوں پر اسی قدر ثابت ہے بلکہ اس طریقہ ملیا کی نہایت دوسرے مشائخ کے تمام طریقوں کی نہایات سے دراء الوراء ہے۔ خواہ میری اس بات کا یقین کریں یا نہ کریں ۔ ہاں اگر انصف کی نظر سے دیکھیں تو شاید اعتبار کر لیں ۔ وہ نہایت جس کی ہدایت میں نہایت ملی ہوئی ہو دوسروں کی نہایوں سے ممتاز ہوگی بلکہ ان نہایتوں کی نہایت ہوگی۔

سالی که نکو است از بهارش پیداست
ترجمہ
: سال اچھا بہار اچھی


دوسروں سلسلوں کے بعض متعصب لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ ہماری نہایت وصول حق تعالی ہے اور اس کو تم اپنی بدایت کہتے ہو۔ پس حق کے آگے کہاں جاؤ گے اور حق کے آگے تمہاری نہایت
کیا ہوگی۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم حق سے حق کی طرف جاتے ہیں اور ظلیت کی آمیزش سے نکل کر اصل الاصل کی طرف دوڑتے ہیں اور تجلیات سے منہ پھیر کر متجلی کو ڈھونڈتے ہیں اور ظہورات کو دائیں چھوڑ کر ظاہر کو باطنوں میں طلب کرتے ہیں اور چونکہ ابطنیت میں مراتب مختلف ہیں، اس لیے ایک ابطنیت سے دوسری ابطنیت میں جاتے ہیں اور دوسری سے تیسری میں قدم رکھتے ہیں ۔ الا ماشاء اللہ تعالٰی ۔


حق تعالیٰ اگر چہ بسیط حقیقی ہے لیکن واسع بھی ہے ۔ نہ یہ وسعت جس کا طول وعرض ہوتا ہے که یه امکان وحدوث کے نشانات و علامات میں سے ہے بلکہ حق تعالیٰ کی وسعت بھی اس کی ذات کی طرح پیچون و بے چگون ہے اور وہ سیر بھی جو اس وسعت میں واقع ہوتا ہے۔ بچوں و بچگون ہے ور سیر کرنے والا بھی باوجود چندی اور چوٹی کے بیچونی اور بے چگونی کی قوت سے ان بیچونی منزلوں کو قطع کرتا ہے اور چون سے پیچون کی طرف جاتا ہے۔ بیچارے بے سروسامان اس معاملہ کی حقیقت کو کیا پائیں اور عالم چون کے رفتار بیچوں کی خبر کیا جانیں۔ اپنی نارسائی کو اعتراض سمجھتے ہیں ور اپنی نادانی پر فخر کرتے ہیں ۔

بیروے چند ز خود بے خبر
عیب پسند ند برغم هنر


ترجمہ وہ بے وقوف جن کو نہیں اپنی بھی خبر
پسند عیب کو کرتے ہیں برخلاف ہنر


اس قدر نہیں جانتے کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی نہایت بلکہ حضرت خاتم الرسل علیہ وعلیہم صلوۃ والتسلیمات کی نہایت بھی حق ہے اور ان کی نہایت انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی نہایت کے ساتھ متحد نہیں بلکہ آپس میں ایک کو دوسرے کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں۔
پس ہو سکتا ہے کہ بعض کو وہ نہایت میسر ہو جو ان کی نہایت سے برتر ہو اور انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کی نہایت سے نیچے اس بیان سے ثابت ہوا کہ سب کی نہایت حق تعالیٰ ہے اور صوفیاء کے گروہوں کے درمیان ان کے مرتبوں کے اختلاف کے بموجب تفاوت ثابت ہے یا ہم یہ کہتے ہیں کہ سب اپنی اپنی نہایت کو وصول بحق جانتے ہیں لیکن اکثر ایسے ہیں جو حق تعالیٰ کے ظلال اور ظہورات کو حق تعالی جانتے ہیں۔ حالانکہ ظاہل اور ظہورات کے مرتبوں میں بہت فرق ہے۔ پس تمام ارباب نہایت کی نہایت نفس الامر میں وصول بحق نہ ہوئی بلکہ ہر ایک کی نہایت اس کے اپنے خیال میں حق سبحانہ ہے۔ پس اگر ایک گروہ کی ابتدا حق تعالیٰ کے ظلال و ظہورات ہوں جو حقانیت کے خیال سے دوسرے گروہ کی نہایت ہے اور اس پہلے گروہ کی نہایت وہ وصول حق ہو جو ظلال و ظہورات سے ماوراء ہے تو پھر یہ بات کیوں بعید معلوم ہوتی ہے اور اس میں کون سا انکار اور شبہ کا
مقام ہے۔ بیت

قاصرے گر کند ایں طائفه راطعن و قصور
حاشاء الله که بر آرم بر زبان این گله را


ہمہ شیران جهان بسته این سلسلہ اند
رو به از حیله جهان بگسلد این سلسله را

ترجمہ گر کوئی قاصر لگائے طعن ان کے حال پر
تو بہ تو بہ گر زبان پر لاؤں میں اس کا گلہ


شیر ہیں جکڑے ہوئے اس سلسلہ میں سب کے سب
لومڑی حیلہ سے توڑے کس طرح یہ سلسلہ

رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ يا رب ہمارے گناہوں اور ہمارے کاموں میں زیادتی کو معاف کر اور ہمارے قدموں کو ثابت رکھ اور کافروں پر ہمیں مدد دے۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا